قلم كی طاقت و اہميت

قلم كی طاقت و اہميت

قلم كی طاقت و اہميت 


 عبید اللہ شمیم قاسمی 

 کانپتے ہیں اس کی ہیبت سے سلاطین زمن 
 دبدبہ فرماں رواؤں پر بٹھاتا ہے قلم 

 صفحۂ کاغذ پر جب موتی لٹاتا ہے قلم 
 ندرت افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم 
           (شورش کاشمیری)

 قلم علم ودانش اور تہذیب انسانی کے ارتقاء کا ذریعہ ہے۔ جنگلوں اور غاروں میں بسنے والا انسان قلم ہی کی بدولت وحشیانہ زندگی کے خول سے نکل کر مہذب دور میں داخل ہوا۔

 اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی پہلی وحی کے اندر قلم کا ذکر فرما کر اس کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ ﴿اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ﴾ [العلق: 3، 4]’’جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا‘‘ صرف یہی نہیں بلکہ قرآن كريم كي ايک سورة ہی كا نام القلم ہے، اوراس كی ابتدائی آیت میں خداوند کریم نے قلم کی اہمیت کو یوں اجاگر کیا۔ {ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ} [القلم: 1]قسم ہے قلم کی اور جو کچھ لکھتے ہیں۔

 قرآن کریم جب نازل ہوا تو اس کو قلم کے ذریعے لکھ کر ہی محفوظ کیا گیا۔ قلم ہی کا کمال تھا کہ چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود قرآن مجید آج بھی اسی حالت میں موجود ہے جس حالت میں یہ نازل ہوا تھا۔

 حضور نبی کریم ﷺ نے اشاعت اسلام کے سلسلہ میں بڑے بڑے بادشاہوں کو قلم کے استعمال سے ہی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ 

 قلم كی پیدائش ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اس وقت ہوئی جب کہ ابھی میرے رب نے کائنات کی کسی شئے کو وجود نہیں بخشا تھا۔ وجود و ظہور میں سب سے پہلے قلم ہی ہے، پھر  حکم ربی ہوا کہ ’’لکھ‘‘ تو قلم نے منشائے الہی کے مطابق ہر وہ چیز لکھ دی جو ازل سے ابد تک ہونے والی ہے،  قَالَ عبادة بن الصامت رضي الله عنه سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ القَلَمَ، فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ، فَجَرَى بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الأَبَدِ " (سنن الترمذی: 3319). 
  ابوداود شريف كی روايت ميں يہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہيں:  قَالَ عبادة بن الصامت  رضی اللہ عنہ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ، فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ قَالَ: رَبِّ وَمَاذَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبْ مَقَادِيرَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ " سنن أبي داود، باب في القدر (4700). حضرت عباده بن صامت رضی اللہ عنہ كہتے ہيں: ميں نے رسول الله ﷺ كو فرماتے ہوئے سنا كہ سب سے  الله رب العزت نے قلم كو وجود بخشا، تو اس سے کہا: لكھ؟ تو قلم نے كہا: كيا لكھوں؟ فرمان ہوا: قيامت قائم ہونے تك ہر چيز كی تقدير كو لكھ۔

 تاریخ شاہد ہے کہ قلم نے ہی قلم کار پیدا کیے جو قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، قلم کار ہی کی بدولت تاریخ زندہ ہے۔ معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اٹھا ہوا قلم قوموں کی تقدیر بدلنے میں اهم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایک قلم کار اگر قلم کا صحیح استعمال کرے تو وہ معاشرے کو صحیح خطوط پر استوار کرنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے، معاشرے کی تربیت کر سکتا ہے۔ قلم خواب غفلت میں سوئی ہوئی قوموں کو جھنجھوڑنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا جیسے برصغیر پاک وہند میں بهت سے شعراء ومصنفين  نے قلم کی طاقت سے اپنی شاہکار تخلیقات سے مسلمانوں کے اندر آزادی کی روح پھونکی۔ قلم کی طاقت سے اصلاح معاشرہ کا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے۔ قلم کی حرمت اور تقدس کا حق صرف اسی صورت میں ادا کیا جا سکتا ہے جب سچائی اور حقائق کو ذمہ داری کے ساتھ بیان کیا جائے۔

تاہم قلم کا اگر منفی استعمال کیا جائے تو بھی اس میں طاقت ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ قلم کی نوک تلوار سے بھی زیادہ تیز ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قلم نے بھی کئی شکلیں تبدیل کیں۔ اور بہت سی قدیم روایات دور جدید کی نذر ہوکر رہ گئی ہیں لیکن قلم کا استعمال آج بھی رائج ہے۔

 الغرض قلم کا استعمال ازل سے ہے اور تاقیامت رہے گا اور قلم اسی طرح قلم کار پیدا کرتی رہے گی۔

 قلم كا کام لکھنا ہے آواز کی صورت گری کرنا ہے، فکر و خیال کی مجسمہ سازی ہے الفاظ کو لباس کا جامہ پہنانا ہے ۔ اس كا وجود بے جان ہے وه سماعت و بصارت سے خالی ہے۔ نطق و بیان ہی اس كی تحریر ہے۔ وه ذاتی فکر و خیال اور ارادہ سے عاری و خالی ہے۔ قلم خود نہیں چلتا، بلكہ حرکت دینے والا اسے اپنے ارادہ کے مطابق حرکت دیتا ہے ۔ نیک لوگ اسے بھلے اور اچھے کام کیلئے اور بُرے لوگ اپنی برائی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ کبھی قلم سے ایمان کی باتیں لکھی جاتی ہيں تو کبھی کفر کی باتیں۔ اس سے کوئی محبت و مودت کی تحریریں لکھتا ہے تو کوئی نفرت و عداوت کی لکیریں کھینچتا ہے ۔ کوئی نوک قلم سے دو جدا دلوں کو محبت کے ٹانکوں سے جوڑتا ہے تو کوئی نوک قلم سے زہریلے سانپ کی طرح ڈس کر دو دلوں کو مسموم کرتا ہے۔ کبھی يهي قلم كسي متقی و خدا ترس کے ہاتھ میں ہوتا ہےتو کبھی فاسق و فاجر کے ہاتھ میں، متقی و خدا ترس لکھنے سے قبل سوچتا ہے۔ لکھتے ہوئے خدائی استحضار رکھتا ہے لکھ کر لکھی ہوئی عبارت کا بے لاگ جائزہ اور محاسبہ کرتا ہے۔

 قلم بھی زبان کی مانند ہے، فرق یہ ہے کہ زبان کے الفاظ سنے جاتے ہیں جب کہ قلم كے الفاظ دیکھے بھی جاتے ہیں، زبان سے نکلے الفاظ فضاؤں میں تحلیل ہوجاتے ہیں جب کہ لكھے هوئے الفاظ منقش پتھر کی طرح محفوظ ہوجاتے ہیں۔ بولی کا زمانہ مختصر اور قلم كا زمانہ تا دیر  هوتا هے، بولی کو وہ مقام حاصل نہیں جو لکھائی کو حاصل ہے۔

 جو اصول و آداب زبان کی بولی کے ہیں وہی احکام قلم کی لکھائی کے ہیں جس طرح زبان سے بولنا اور پڑھنا رب کے نام سے ہو ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ} [العلق: 1]،  اسي طرح قلم سے لکھنا بھی رب کے نام سے ہو زبان کے بول میں خیر ضروری ہے ورنہ خاموشی بہتر، جيسا كه امام بخاری نے "باب حفظ اللسان" ميں يہ حديث ذكر كی ہے:  "وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ" (بخاری 6476) ۔

 یہی اصول حرکت قلم کے وقت ہے جس طرح زبان سے کہی بات کی تحقیق ضروری ہے، اسی طرح تحریر قلم کی تحقیق ضروری ہے ۔ جس طرح زبان کا ایک بول رضائے خداوندی کا سبب ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح قلم کا ایک جملہ بھی یہی شان رکھتا ہے جس طرح زبان کا ہر بول کاتبان اعمال فرشتوں کی گرفت میں ہے ﴿مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ﴾ [ق: 18]، یہی نگرانی کا نظم ، تحریر کلام پر بھی قائم ہے۔

 زبان کی نرمی ، کلام میں خوبصورتی اور اس کی سختی بدصورتی کو جنم دیتی ہے،  عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: «إِنَّ الرِّفْقَ لَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ» (صحيح مسلم (2594) یہی کیفیت بیان تحریر کی ہے زبان کیلئے یاد الہی کا حکم ہے۔

 شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے "قيمة الزمن عند العلماء" اور نامور قلم كار ومصنف مولانا ابن الحسن عباسی مدظلہ نے اپنی كتاب " متاع وقت اور كاروان علم "ميں بہت سے ائمہ اور علمائے كرام كی داستانيں تحرير فرمائی ہيں، ابن عقیلؒ  نے مختلف علوم و فنون میں تقریباً بیس کتابیں لکھیں جن میں دنیا کی سب سے بڑی تصنیف ’’الفنون‘‘ لکھی، امام ذهبی فرماتے ہیں: " لم يصنف في الدنيا أكبر من هذا الكتاب"،
  ابن رجبؒ کا بیان ہے کہ یہ کتاب آٹھ سو جلدوں میں تھی۔ امام جریر طبری اپنے وقت کے امام اور زبردست مجتہد ہیں جن کی کثرت تالیف اور حسن تصنیف نے انھیں اسلامی تاریخ کا سب سے عظیم محقق بنادیا، انہوں نے اپنی تصانیف کی شکل میں تین لاکھ پچاس ہزار سے زائد اوراق بطور یادگار چھوڑے ہیں۔

 آج کتنے بڑے بڑے اور قسم قسم کے فتنے ابھر رہے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کو جلا کر خاکستر کردینا چاہتے ہیں۔ اسلامی تاریخ کو مسخ کرکے اس کو فرسودہ و بوسیدہ کردینے پر تلے ہیں جو اسلام سوز ، دین سوز ، ایمان سوز ، اخلاق سوز بلکہ انسانیت سوز فتنے ابھر رہے ہیں۔ آج کاذبین نئے نئے روپ میں آرہے ہیں اور نبوت محمدیؐ کو چیلنج کررہے ہیں۔ آج سرکٹانے اور کاٹنے کی ضرورت نہیں، آج باطل سے آنکھیں ملانے کی ضرورت ہے۔
 آج نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر تلواروں کا حملہ نہیں دلیلوں کا حملہ ہے، مادیت کا حملہ ہے قوم پرستی کا حملہ ہے۔

 قلم اور تلوار ان دونوں کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ تلوار کی ضرورت وقتی عارضی اور قلم کی ضرورت دائمی ہے اور یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ قلم کی طاقت تلوار سے زیادہ ہے بقول شاعر:
 تاریخ کے اوراق الٹ کر ذرا دیکھو 
 ہر دور میں تلوار ہی ہاری ہے قلم سے 

تلوار کا خیر و شر وقتی اور قلم کا تادیر ہے۔ تلوار کا زخم خود بخود مٹ جاتا ہے قلم کا زخم مٹائے نہیں مٹتا ہے ۔

   آج اسلام پر اٹھنے والے باطل اشکالات اور قانون الہی پر لگائے گئے ظالمانہ اعتراضات کا مثبت، مدلل، ٹھوس اور حکیمانہ جواب کی ضرورت ہے۔ ہر دور اور زمانہ کیلئے تعلیمات اسلامی کا قابل عمل ہونا اور ساری مخلوق کیلئے اس کا باعث راحت و خیر ہونے کی مدبرانہ و فقیہانہ استدلال و تشریح کی ضرورت ہے۔

 آج باطل کی تحریف کردہ اسلامی حقائق کو صداقت و عدالت کے معیاری ترازو سے تول کر حقیقت کو واشگاف اور واضح کرنے کا وقت ہے۔ جس کیلئے شستہ و شگفتہ قلم، دلکش پیرایہ اور بہتر اسلوب کی ضرورت ہے جس آواز کو نہ صرف زمانہ سنے بلکہ قبول کرے اور اس صدا کو لبیک کہہ کر سینہ سے لگائے ۔ دور حاضر عدالت و صداقت ، حیا و پاکدامنی اور خیر خواہی و درد انسانیت میں مثالی انقلاب کا منتظر ہے۔ اور یہ انقلاب قلم سے لایا جاسکتا ہے فرق صرف استعمال کا ہے۔

 قطع کرنی پڑتی ہے فکر ونظر کی وادیاں 
 تب کہیں شورش مرے قابو میں آتا ہے قلم

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے