اسلام کا اقتصادی نظام اور غیر اسلامی نظریات



اسلام کا اقتصادی نظام اور غیر اسلامی نظریات

 ابوعاصم الاعظمی

 "پیش لفظ" : مال و دولت جمع کرنے کی اندھی کوشش اور خواہش نے آج دنیا میں تباہی اور فساد مچا رکھا ہے، در اصل بات یہ ہے، کہ اگر دولت کی مہار مذہب کے ہاتھ میں نہ ہو، تو پھر ایسی دولت عیاشی اور فحاشی کا ایک خطرناک سیلاب بن جاتی ہے، جس میں اخلاق، شرافت اور تہذیب سب کچھ بہہ جاتا ہے،  اسلام دولت کی محبت کے بجائے انسانوں سے محبت کا درس دیتا ہے، اسلام دولت کے چند ہاتھوں میں جمع ہونے کے خلاف ہے، اس کی بنیادی تعلیم یہی ہے کہ دولت جمع نہ کی جائے، بلکہ مستحقین میں تقسیم کی جاتی رہے، اسی تقسیم کا نتیجہ تھا،کہ "حضرت فاروق اعظم" (رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں کچھ علاقے کے لوگ اتنے آسودہ حال ہوگئے تھے، کہ ان میں کا کوئی بھی صدقات کا مستحق نہیں بچا تھا، آج بھی اگر دینی تعلیم کے مطابق دولت کو جمع نہ ہونے دیا جائے، بلکہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیارے ارشاد :"توخذ من أغنيائهم وترد على فقراءهم" کے مطابق مستحقین میں بانٹنے کا انتظام ہوجائے، تو یقینی طور پر تمام معاشی ناانصافیاں ختم ہوجائیں گی، آج اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا، کہ مغربی طاقتوں کے سیاسی غلبے کی تاریخ سے اسلامی معاشرے میں جہاں سیاسی شعبہ میں تبدیلیاں آئیں، وہیں مسلمانوں کا تمدن واخلاق اور خصوصاً معاش کا شعبہ بہت ہی زیادہ متاثر ہوا ہے، دشمنانِ اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں تشکیک کے جراثیم داخل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، چنانچہ آج کل اقتصادیات کے ضمن میں "سرمایہ داری" اور "اشتراکیت" کے حاملین نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے، وہ اللہ کی اس مخلوق کو یہ باور کرانے کی فکر میں ہیں، کہ اقتصادی ناہمواریاں صرف ہمارے نظاموں سے ہی ختم ہوسکتی ہیں، لیکن یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، کہ اسلام میں زندگی کا ایک مکمل نظام موجود ہے، جب کہ سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام افراط وتفریط کے راستے ہیں، زیرِ نظر مضمون میں اسلامی اقتصادی نظام اور غیر اسلامی نظریات کو بڑے ہی مختصر انداز سے بیان کیا جائے گا۔ "اللهم لاسهل إلا ماجعلته سهلا"

 دنیائے رنگ وبو کے نظامہائے معیشت پر ایک اجمالی نظر

دنیا میں اس وقت جو مختلف معاشی نظام رائج ہیں، ان میں دو نظام سب سے زیادہ نمایاں ہیں، ایک "سرمایہ دارانہ نظام" (Capitalism) جس کو عربی میں "الرأسمالية" کہتے ہیں، اور دوسرا" اشتراکی نظام "(Socialism جس کو عربی میں "الإشتراكية" کہا جاتا ہے، اس کی انتہائی صورت "اشتمالیت" (Communism) ہے،جسے عربی میں "الشیوعیة" کہا جاتا ہے، دنیا میں جو کچھ کاروبار یا معاملات ہورہے ہیں، وہ انھیں دو نظاموں کے ماتحت ہورہے ہیں، سوویت یونین کے زوال کے بعد اگر چہ" سوشلزم" ایک سیاسی طاقت کی حیثیت سے تو ختم ہوچکا تھا، اور اس کے ساتھ ہی اس کے نظریے کی طاقت بھی کمزور پڑگئ تھی، لیکن معاشی نظریہ کے اعتبار سے وہ دنیا کے معاشی نظریات میں اب بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے، (کتاب: اسلام اور جدید معیشت وتجارت،مؤلف: مفتی تقی عثمانی صاحب، ص:(١٩)

سرمایہ دارانہ نظام ایک تعارف

وسائل معاش اور ضروریات کی تحصیل انسان کے سادہ دور میں نہایت ہی آسان اور سہل تھی، درختوں کے پھل اور شکار بری وبحری کے گوشت اور سادہ اور معمولی خیموں، جھونپڑوں، کچے مکانات اور لکڑی، چمڑے، ٹھیکرے کے مختلف ظروف اور برتنوں پر انسانی زندگی کا مدار تھا، جو نہایت آسان اور سہل الحصول تھے، جس کے لیے نہ وسیع سرمایہ کی ضرورت تھی، اور نہ ہی اس کے لیے حبِ مال اور حرصِ شدید کی تشنگی بجھانے کے لیے دوسرے ملک پر قبضہ کرنے کی ضرورت تھی، تاآنکہ استحصال اور استعمار کی نوبت آتی، لیکن اس سادہ طرزِ حیات کے بعد تمدن وجود میں آیا، اور اس نے بڑھتے بڑھتے دورِ حاضر میں ارتقائی شکل اختیار کی، جس کی وجہ سے معاشی ضروریات کا خرچہ سادہ دورِ حیات کے سو افراد کی ضروریات کے خرچ کے برابر ہونے لگا، اس کا یہ اثر ہواکہ متمدن زندگی کا ہر فرد بیش از بیش سرمایہ فراہم کرنے کے لیے جدوجہد کرنے لگا، جس سے سادہ زندگی عیاشانہ زندگی میں اور کفایت شعاری اور قناعت، اسراف اور حرص میں تبدیل ہوئی، جو آگے چل کر سرمایہ دارانہ نظام حیات کے لیے سنگ بنیاد بنا، عیاشانہ زندگی نے مختلف دوائر میں اپنا عمل ظاہر کیا، جو درج ذیل ہیں :👇

(١)  "ماکولات" : خوراک کے سلسلے میں تعیش نے ظہور کیا، اور مختلف الأقسام کھانے وجود میں آئے، اور ان کے لیے مختلف ظروف اور برتن ایجاد ہوئے، اور میز پر ان کو ترتیب کے ساتھ رکھنے کے لئے بڑی تنخواہوں کے ماہر فن ملازم رکھنے پڑے ۔(کتاب :"سرمایہ دارانہ و اشتراکی نظام کا اسلامی معاشی نظام سے موازنہ "، از افادات:شیخ الاسلام علامہ شمس الحق افغانی، ص:١٨،١٧)

 (٢) "مشروبات" : تعیش نے پینے کے دائرے میں بھی توسیع کی، اور شراب کے علاوہ سینکڑوں قسم کی بوتلیں استعمال ہونے لگیں، (حوالہ سابقہ)

 (٣)" ملبوسات وغیرہ ": مردانہ اور زنانہ ملبوسات میں تمدن حاضر کی برکت سے وہ اضافہ ہوا، کہ انسان اور کتوں کے علاوہ بے جان دیواروں کی آرائش کو بھی بیش قیمت کپڑوں سے سجایا گیا اور اس کو تمدن کا لازمی جز سمجھا گیا، (حوالہ سابقہ، ص:١٩)

 (٤) "مسکن اور غیر فطری ذرائع معاش": سرمایہ داروں نے تسکینِ خواہشات کے لیے وہ عمارتیں بنائیں اور اس پر وہ گراں بہا رقومات صرف کی گئیں، کہ جو انسانی آبادی کے بڑے حصہ کی ضروریاتِ حیات کے لیے کافی ہوسکتی تھیں، اس کے علاوہ سرمایہ دار افراد نے اپنی تسکینِ شہوت کے لیے زنا کی دلالی اور رقص وسرور کے وہ پیشے ایجاد کیے، جس نے صنفِ نازک کے ایک بڑے طبقے کو معاشرے کے ضروری کاموں سے کاٹ کر ان غیر فطری اور مخرب اخلاق پیشوں میں لگادیا؛ بلکہ سرمایہ داروں کی مزید تسکین کے لیے افسانہ نویسی، مسخرہ گوئی اور سنیماؤں کی فحش تصاویر کی دنیا بھی وجود میں آئی، یہاں تک کہ مسلمان بھی اس کی نقالی کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے، (حوالہ سابقہ، ص:١٩)

(٥) "قمار بازی اور سگریٹ نوشی" : سرمایہ دار تمدّن کی تسکینِ شہوت جب امور بالا سے پوری نہ ہوئی، تو تمدنِ حاضر نے قمار بازی کی مختلف شکلوں کو جزء زندگی بنادیا، چنانچہ سرکاری رپورٹ کے مطابق یورپی دنیا صرف قانونی "جوا بازی" پر ہر سال تیس (٣٠)ارب ڈالر خرچ کرتی ہے، جو ایک کھرب روپئے سے زیادہ ہے اور جس سے پوری دنیا کی آبادی کئی سالوں تک پل سکتی ہے، (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :ہستان:٢٠/دسمبر،سنہ ١٩٥٨ عیسوی) یہی نہیں بلکہ تمدنِ حاضر کی برکت سے امریکہ میں سالانہ چار (٤)کھرب،تیئیس (٢٣)ارب سگریٹ خرچ ہوتے ہیں، اسی طرح دیگر ممالک میں (تفصیل ملاحظہ ہو :ہستان:(١٠) فروری سنہ ١٩٥٥ عیسوی) جس کی قیمت کم از کم پچاس (٥٠)ارب، باون (٥٢)کروڑ، پچاس (٥٠)لاکھ روپئے ہے، لیکن افسوس کہ یہ رقم سگریٹ کی شکل میں آگ میں پھونکی جاتی ہے، پھر بھی وہ عقلمند کہلاتے ہیں، ابھی اگر ایک آدمی صرف پانچ روپئے کا نوٹ آگ میں جلادے، تو بالاتفاق وہ دیوانہ کہا جائے گا، (حوالہ سابقہ، ص:٢٠)

 (٦)"ملک گیری اور استعمار" : سرمایہ دار نظام کے مذکورہ شیطانی اخراجات کے لیے چونکہ ملکی آمدنی کافی نہیں ہوتی، اس لیے یہ نظام استعمار کو جنم دیتا ہے، تاکہ دیگر ممالک کی پیداوار پر قبضہ کرکے ان اخراجات کو پورا کیا جاسکے، اس کے علاوہ ان کے اپنے ملک میں اپنی مصنوعات کی مانگ محدود ہوتی ہے، اسی لیے یہ لوگ اپنی مصنوعات کو فروخت کرنے کے لیے دیگر ممالک میں منڈیاں لگاتے ہیں، تاکہ اس نفع سے اپنی عیاشانہ ضرورت پوری کر سکیں، (حوالہ سابقہ)

(٧)"آلات حرب کی تیاری میں صرفِ دولت" : نظام سرمایہ داری کے تحت ہر مملکت اپنی قوت میں اضافہ کرتی ہے، تاکہ دوسرے ممالک ان کے استعماری مقاصد میں خلل انداز نہ ہوں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے، کہ ملک کی دولت کا اکثر حصہ گولہ بارود کی شکل میں آگ میں پھونک دیا جاتا ہے اور اقوام عالم کی معاشی حالت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے، اگر یہی مال جنگ برائے اقامتِ اعتدال خرچ کریں، تب تو کوئی اعتراض ہی نہیں، لیکن ان کا خرچ تو برائے ظلم ہوتا ہے، جو انسانی جرم کے سوا کچھ بھی نہیں، (حوالہ سابقہ)

(٨)"سرمایہ دارانہ جذبہ اور سود" : سرمایہ دارانہ نظام کے تحت آج کل سودی کاروبار کی جو وسعت نظر آرہی ہے، اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں مل سکتی، اس نظام نے سودی کاروبار کو جزء زندگی بناکر رکھ دیا ہے، یہاں تک کہ سرمایہ دار ملکوں میں کسی محتاج ترین فرد کو پانچ روپئے بھی بلا سود بطور قرض نہیں مل سکتے، (حوالہ سابقہ، ص:٢٣)

سرمایہ دارانہ نظام پر مختصر تبصرہ

سرمایہ دارانہ نظام کی دینی تباہی

دین کی روح یہ ہے کہ دل میں اللہ کی محبت راسخ ہو، اور قلب پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ کی طرف جھکے، اس جھکاؤ کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ دل میں اللہ کی عظمت اور مخلوقِ خدا کی شفقت کا رنگ چڑھتا ہے، اس سے اللہ اور انسانی حقوق کے تحفظ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، لیکن سرمایہ داروں کی محبت کا رخ مال اور دولت بڑھانے کی طرف پلٹ جاتا ہے اور ان کی پوری زندگی سرمایہ میں اضافہ کرنے کے لیے وقف ہوجاتی ہے، وہ اس چکر میں سب کچھ کرڈالتے ہیں جس سے ان کے سرمایہ میں اضافہ ہو، (حوالہ سابقہ، ص:٢٣)

اخلاقی تباہیاں اس نظام سے اخلاق فاضلہ مثلاً :ایثار، رحمت وشفقت، ہمدردی اور شجاعت کا خاتمہ ہوجاتا ہے، اور اخلاقِ رزیلہ کا استحکام پیدا ہوتا ہے، ظاہر سی بات ہے کہ ایسا شخص جب اپنے محتاج بھائی کو بلا سود ایک کوڑی نہیں دے سکتا، تو اس میں ایثار کہاں سے آئے گا، اسی طرح جب اس کو سرمایہ دارانہ نظام نے سود کا خوگر بنادیا، تو اس سے شفقت ورحمت کی کہاں سے امید کی جا سکتی ہے، رہی بات ہمدردی وشجاعت کی، تو یہ بھی بالکل واضح ہے کہ جس سرمایہ دار کی روزی اور نفع اندوزی دوسروں کی مصیبت وغربت پر مبنی ہے، اس سے ہمدردی کا جذبہ محال کے سوا کچھ بھی نہیں، اور شجاعت تو نام ہی ہے، کہ ایک آدمی انسانیت کے بلند مقاصد کے لیے جان تک کی بازی لگادے، لیکن جب ایک سرمایہ دار آدمی ایک محتاج کی حاجت روائی کے لیے پانچ روپیہ بلا سود نہیں دے سکتا، تو وہ جان کی قربانی کیا خاک دے گا،  (حوالہ سابقہ، ص:٢٥۔٢٨)

-اقتصادی تباہیاں - کسی قوم کی اقتصادی حالت اس وقت بہتر ہوسکتی ہے، کہ قوم کے تمام افراد کو ضروریات زندگی میسر ہوں، کوئی فرد ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ ہو، لیکن اگر ایک قوم کے چند افراد کے پاس دولت اور ضروریاتِ حیات کے انبار ہوں اور اکثریت ضروریات سے بھی محروم ہو، تو یہ قومی حیثیت سے اقتصادی انحطاط ہے، سرمایہ دارانہ نظام کا یہی خاصہ ہے، کہ وہ دولت کو چند افراد یا خاندان میں محدود رکھتا ہے، جس کو وہ افراط کے ساتھ شیطانی اور مسرفانہ اخراجات میں صرف کردینے کے باوجود ختم نہیں کرسکتے، اور قوم کی باقی اکثریت مفلوک الحال ہوتی ہے، آج کل دنیا کے اکثر علاقوں پر بالذات یا بالواسطہ سرمایہ دار ملکوں کا اثر ہے، اس لیے پوری دنیا کی اکثریت فاقہ میں مبتلا ہے، (حوالہ سابقہ، ص:٢٩،٢٨)

سیاسی تباہیاں

 مستحکم حکومت کے لیے یہ ضروری ہے، کہ عوام مطمئن ہوں اور ان میں باہمی چپقلش اور طبقاتی خصومت اور منازعت نہ ہو، لیکن سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے، کہ اس میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہونے لگتا ہے، جس سے طبقاتی جنگ پیدا ہوتی ہے، اور جب عوام یہ محسوس کرنے لگتے ہیں، کہ اس جنگ اور خستہ حالی کا اصلی سبب حکومت ہے، لہذا عوام اور حکومت میں کش مکش شروع ہوجاتی ہے اور "تنگ آمد بجنگ آمد" کے اصول کے تحت عوام اور حکومت کے تصادم کا ایک طویل سلسلہ قائم ہوجاتا ہے، (حوالہ سابقہ، ص:٣٢،٣١)

سوشلزم (اشتراکیت) اور کمیونزم ایک معاینہ

ان کے وجود کا پس منظر

یہ بات پہلے آچکی ہے،کہ"کمیونزم" (Communism) کوئی الگ معاشی نظام نہیں ہے؛ بلکہ یہ در حقیقت سوشلزم و اشتراکیت کی انتہائی صورت ہے، جس کے لیے الگ سے عنوان قائم کرنے کی ضرورت نہیں، مناسب ہے کہ اشتراکیت ہی کے ضمن میں کمیونزم کو بھی سمجھ لیا جائے، واضح ہو کہ! "اشتراکیت" و"کمیونزم" در حقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے رد عمل کے طور پر وجود میں آئی، سرمایہ دارانہ نظام کا پورا زور چونکہ اس بات پر تھا، کہ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لیے ہر شخص آزاد ہے، اور معیشت کا ہر مسئلہ بنیادی طور پر صرف رسد وطلب کی بنیاد پر طے ہوتا ہے، اس لیے اس فلسفے میں فلاح عامہ اور غریبوں کی بہبود وغیرہ کا کوئی واضح اہتمام نہیں تھا، اور زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں کمزور افراد کے پسنے کے واقعات بکثرت پیش آئے، اس لیے اشتراکیت ان خرابیوں کا سدِّ باب کا دعویٰ کرکے میدان میں آئی، اشتراکیت نے کہا :کہ سرمایہ دارانہ نظام میں معیشت کے تمام بنیادی مسائل کو رسد وطلب کی اندھی بہری طاقتوں کے حوالے کردیا گیا، جو خالصۃً ذاتی منافع کے محرک کے طور پر کام کرتی ہے اور ان کو فلاح عامہ کے مسائل کا ادراک نہیں ہوتا، خاص طور پر یہ طبقہ آمدنی کی تقسیم میں یہ قوتیں غیر منصفانہ نتائج پیدا کرتی ہیں، غرضیکہ اشتراکیت نے سرمایہ دارانہ نظام کے ہر ہر دعوے کو بڑی ہی طاقت وقوت سے غیر منصفانہ اور ظالمانہ قرار دیا ۔ (کتاب :اسلام اور جدید معیشت وتجارت،مفتی تقی صاحب، ص:٢٨)

فلسفہ اشتراکیت 

جب اشتراکیت نے سرمایہ داروں کے ہر ہر دعوے کو کھوکھلا ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، تو سوال ہوا، کہ آخر تب معاشی مسائل کو حل کرنے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے؟ اس کے جواب میں اشتراکیت نے یہ فلسفہ پیش کیا، کہ بنیادی خرابی یہاں سے پیدا ہوئی، کہ وسائل پیداوار یعنی زمینوں اور کارخانوں کو لوگوں کی انفرادی ملکیت قرار دے دیا گیا، ہونا یہ چاہیے تھا کہ تمام وسائل پیداوار افراد کی شخصی ملکیت میں ہونے کے بجائے ریاست کی اجتماعی ملکیت میں ہوں، اور جب سارے وسائل ریاست کی ملکیت میں ہوں گے، تو حکومت کو یہ پتہ ہوگا،کہ اس کے پاس کل وسائل کتنے ہیں؟ اور معاشرے کی ضروریات کیا کیا ہیں؟ اس بنیاد پر حکومت ایک منصوبہ بندی کرے گی، جس میں یہ طے کیا جائے گا، کہ معاشرے کی کن کن ضرورتوں کو مقدم کیا جائے؟ کون سی چیز کس مقدار میں پیدا کی جائے؟ اور مختلف وسائل کو کس ترتیب کے ساتھ کن کن کاموں میں لگایا جائے؟ گویا ترجیحات کا تعین وسائل کی تخصیصات اور ترقی کے سارے کام حکومت کی منصوبہ بندی کے تحت انجام پائیں، الغرض دیکھا جائے تو اشتراکیت نے سارے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک ہی حل تجویز کیا یعنی منصوبہ بندی، اسی لیے اشتراکی معیشت کو "منصوبہ بند معیشت" ( Economy planned) کہا جاتا ہے، جس کا عربی ترجمہ "إقتصاد موجهة" يا "إقتصاد مخطط" سے کیا گیا ہے، (حوالہ سابقہ، ص:٣٠،٢٩)

اشتراکیت کے بنیادی اصول 

 اشتراکیت کے مذکورہ بالا فلسفے کے نتیجے میں اشتراکی معیشت میں مندرجہ ذیل اصول کار فرما تھے،

 (١)" اجتماعی ملکیت" اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ وسائل پیداوار یعنی زمینیں اور کارخانے وغیرہ کسی شخص کی ذاتی ملکیت نہیں ہوں گے؛ بلکہ وہ قومی ملکیت میں ہوں گے اور حکومت کے زیر اہتمام چلائے جائیں گے،

 (٢)"منصوبہ بندی" اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام بنیادی معاشی فیصلے حکومت منصوبہ بندی کے تحت انجام دے گی،

 (٣)"اجتماعی مفاد" یعنی اشتراکیت کا دعویٰ ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں ساری معاشی سرگرمیاں افراد کے ذاتی مفاد کے تابع ہوتی ہیں؛ لیکن اشتراکی نظام میں منصوبہ بندی کے تحت اجتماعی مفاد کو بنیادی طور پر مد نظر رکھا جاتا ہے،

 (٤)"آمدنی کی منصفانہ تقسیم" اس کا مطلب یہ ہے کہ پیداوار سے جو کچھ آمدنی حاصل ہو، وہ افراد کے درمیان منصفانہ طور پر تقسیم ہو اور غریب وامیر کے مابین زیادہ فاصلہ نہ ہو، (حوالہ سابقہ، ص:٣١،٣٠)

اشتراکی نظام پر تبصرہ

اشتراکیت کی اتنی بات تو واقعی درست تھی، کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ذاتی منافع کے محرک کو اتنی کھلی چھوٹ دے دی گئی، کہ اس کے نتیجے میں فلاحِ عامہ کا تصور یا تو بالکل باقی ہی نہیں رہا، یا بہت پیچھے چلا گیا؛ لیکن اس کا حل جو اشتراکیت نے تجویز کیا، وہ بذات خود بہت انتہا پسندانہ تھا ، سرمایہ دارانہ نظام نے فرد کو اتنا آزاد اور بے لگام چھوڑ دیا، کہ وہ اپنے منافع کی خاطر جو چاہے کرتا پھرے، اس کے مقابلے میں اشتراکیت نے فرد کو اتنا گھونٹ دیا، کہ اس کی فطری آزادی بھی سلب ہوکر رہ گئی اور اس کے نتیجے میں بے شمار تباہیاں وجود میں آئیں، مختصر ملاحظہ ہو!

 معاشی تباہی 

اس تحریک کا مقصد انسانوں کو سرمایہ داروں کے ظلم سے نجات دلانا تھا، اس لیے "کمیونسٹ" حکومت نے ذرائع معاش پر قبضہ کیا، گویا کہ در حقیقت انھوں نے سرمایہ داروں کو مٹاکر معاش کو ایک سرمایہ دار کے ہاتھ میں دے دیا، یعنی متعدد سرمایہ داروں کو ایک سرمایہ دار میں تبدیل کردیا، جو "کمیونسٹ" حکومت ہے، (کتاب :سرمایہ دارانہ نظام و اشتراکی نظام کا اسلامی معاشی نظام سے موازنہ، از افادات :شیخ الاسلام علامہ شمس الحق افغانی صاحب، ص:٤٨)

 معاشی ترقی میں رکاوٹ

 یہ تحریک فطرۃً معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، در اصل معاشی ترقی کا مدار شخصی منفعت کا جذبہ ہے، معاشی ترقی جوشِ عمل ومحنت سے پیدا ہوتی ہے، جس کے لیے انسانی فطرت میں محرک اس کی شخصی ملکیت وشخصی منافع اور فوائد میں اضافہ ہے؛ لیکن ظاہر سی بات ہے اگر دولت پر حکومت یا اسٹیٹ کا قبضہ ہو تو تعمیلِ حکم میں آدمی محنت تو کرے گا؛ لیکن یقین مانیے! یہ محنت اس رضاکارانہ محنت سے بہر حال کم ہوگی، جو جذبہ اضافہ ملکیت کے تحت ہو، (حوالہ سابقہ، ص:٤٩)

 سیاسی آزادیوں کا خاتمہ اشتراکیت کا منصوبہ بند نظام ایک انتہائی طاقتور بلکہ جابر حکومت کے بغیر نہ قائم ہوسکتا ہے اور نہ چل سکتا ہے، کیوں کہ افراد کو ہمہ گیر ریاست کی منصوبہ بندی کے ماتحت بنانے کے لیے ریاستی جبر لازم ہے، کہ ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کے بجائے ریاستی منصوبہ بندی کے تحت کام کرنا پڑے، اس لیے یہ منصوبہ بندی ایک زبردست قوتِ قاہرہ کے بغیر کام نہیں کرسکتی، چنانچہ اشتراکی نظام میں سیاسی آزادیوں کا خاتمہ لازمی ہے اور اس طرح فرد کی آزادی بہر طور کچل جاتی ہے، (کتاب :اسلام اور جدید معیشت وتجارت ،مفتی تقی صاحب، ص:٣٣)

 منصوبہ بندی ایک خطرناک عمل

منصوبہ بندی کا کام ظاہر ہے کہ اشتراکی نظام میں حکومت انجام دیتی ہے اور حکومت فرشتوں کے کسی گروہ کا نام نہیں، جس سے کوئی غلطی یا بددیانتی سرزد نہ ہو، حکومت کرنے والے بھی گوشت پوست کے انسان ہی ہوتے ہیں، وہ اپنی خواہشات اور ذاتی مفادات سے بھی مغلوب ہوسکتے ہیں، مزید یہ کہ اگر سرمایہ دارانہ نظام میں ایک چھوٹا سرمایہ دار محدود وسائلِ پیداوار پر ملکیت حاصل کرکے چند افراد کو ظلم کا نشانہ بنا سکتا ہے، تو اشتراکی نظام میں چند برسرِ اقتدار افراد پورے ملک کے وسائل پر قابض ہوکر اس سے کہیں زیادہ ظلم کیوں نہیں کرسکتے، حوالہ سابقہ، ص:٣٤)

 "نوٹ": واضح رہے کہ یہ تمام خرابیاں محض نظریاتی نوعیت کی خامہ فرسائیاں نہیں ہیں؛ بلکہ اشتراکیت کی پہلی تجربہ گاہ "روس" میں چوہتر سال کے تجربے نے یہ تمام خرابیاں پوری طرح ثابت کردی ہیں ۔

 اسلامی اعتدالی نظام

 "اعتدالیت" : اسلام چونکہ دینِ فطرت ہے، اس لیے اسلام نے اپنے معاشی نظام میں بھی فطرتِ انسانیہ کا لحاظ رکھا اور تمام فطری امور کو اپنی حالت پر رہنے دیا؛ البتہ جہاں کہیں ان میں زیغ اور بے اعتدالی واقع ہوئی اس کا ازالہ کرکے اس کو اعتدال پر لایا گیا، اسلام کے معاشی نظریہ کے خلاف اکتنازیت و اشتراکیت کے معاشی نظریات میں چونکہ بے اعتدالیت اور فطرتِ انسانی کے حدود سے انحراف موجود تھا، کیوں کہ دونوں نظریات جذباتی تھے اور جذباتی نظریات کے لیے فطرت کی حدود شکنی لازمی ہے، اس لیے اسلام نے اپنا معاشی نظام ایسا معتدل اور موافقِ فطرت رکھا، کہ اس میں انسان کے تمام طبقات کا معاشی تحفظ اور حقوق کی رعایت بھی موجود رہی، اور سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کی تمام خامیاں بھی اس میں دور کی گئیں،

اسلام نے اپنے معاشی نظام میں ان تمام دروازوں کو بند کردیا، جن سے عوام کی معاشی حالت متاثر ہوتی ہے اور جن سے سرمایہ دار طبقہ غریب کا خون چوستا ہے اور ان تمام امور کی بھی مخالفت کی گئی، جن سے انسانی حریت اور شرافت اور خود مختارانہ جوشِ عمل پر برا اثر پڑتا ہے، مال کے سکون کو حرکت میں تبدیل کیا اور غرباء میں امراء کے خلاف حسِّ عدوانی کو تیز کرنے کے بجائے حسّ ِ ایمانی اور اخلاقی کے ذریعے دونوں میں محبت کا ربط قائم کرکے فقراء کے حقوق کو محفوظ کیا، (کتاب :سرمایہ دارانہ و اشتراکی نظام کا اسلامی معاشی نظام سے موازنہ، از افادات :شیخ الاسلام افغانی صاحب، ص:٩١،٩٠)

سرمایہ داری بے اعتدالی کی تردید

امراء پر اسلام نے حسبِ ذیل پابندیاں عائد کیں، تاکہ اعتدال پیدا ہوکر غریب طبقے کے حقوق محفوظ ہوجائیں، 👇👇👇

 "پہلی پابندی" : امیر طبقہ حدودِ فطرت وشریعت سے تجاوز کرکے سود کے ذریعے مال میں اضافہ نہ کرے؛ بلکہ اس کے بر خلاف غریب طبقہ کی قرضِ حسنہ کے طور پر امداد کرے، (حوالہ سابقہ، ص:٩٢)

"چنانچہ ارشادِ باری ہے" (١): "أحل الله البيع وحرم الربا" (القرآن، سوره:بقره، پارہ:٣،آيت:٢٧٥)

 ترجمہ: اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دے دیا،

 (٢) "يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وذروا ما بقى من الربا إن كنتم مؤمنين"  (سوره:بقره،پارہ:٣، آيت:٢٧٨)

 ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تمہیں اللہ کے فرمان پر یقین ہے،

 (٣) "يا أيها الذين آمنوا لا تاكلوا الربا أضعافا مضاعفة" (آل عمران، پارہ:٤،آیت:١٣٠)

 ترجمہ: اے ایمان والو! تم سود دو گنا سہ گنا کرکے مت کھاؤ،

 "نوٹ" : ان تینوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے سرمایہ داری کے بنیادی نقص کو دور کیااور سود کی تمام قسموں کو حرام کیا، خواہ أضعافا مضاعفۃ ہو یا کم، البتہ عرب میں ڈبل سود کا بھی رواج زیادہ تھا، اس لیے اس کو خصوصی طور پر حرام کیا، یہی نہیں بلکہ سود خوار کو ایسی شدید دھمکی دی، کہ قرآن میں ایسی دھمکی کسی کو نہیں دی گئی، چنانچہ ارشاد ہے:

"فإن لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله ورسوله" ( بقرہ، پارہ:٣،آیت:٢٧٩)  یعنی اگر تم سود سے باز نہیں آؤگے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ،

 "دوسری پابندی" : رشوت ظلم اور دیگر ناجائز ذرائع سے مال نہ کمائے، (حوالہ سابقہ، افغانی صاحب)

"چنانچہ ارشاد باری ہے"(١):" يا أيها الذين آمنوا لا تاكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم" (پارہ:٤،سورہ:نساء، آیت:٢٩)

 ترجمہ : اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، سوا اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو،

(٢)" ولا تاكلوا أموالكم بينكم بالباطل  وتدلوا بها إلى الحكام لتاكلوا فريقا من أموال الناس بالإثم" (پارہ:٢،سورہ:بقرہ،آیت:١٨٨)

 ترجمہ: تم ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ اور ان کو حاکموں تک نہ پہنچاؤ کہ تم لوگوں کے مال کا کوئی حصہ ظلم کرکے کھاجاؤ،

 "نوٹ" : ان ہدایات نے معاشی لوٹ گھسوٹ کو ختم کیا اور انسانی محبت مال کو اپنے دائرے میں رکھا،

 " تیسری پابندی" : سرمایہ دار طبقہ وسائلِ رزق پر مثلاً :تجارت، صنعت، کارخانہ سازی، زمینداری، ٹھیکہ داری اور ملازمت پر صرفِ دولت کے اثر سے اپنا قبضہ جماکر غیر سرمایہ دار طبقے کو محروم نہ کرے، تاکہ ان وسائل سے غیر سرمایہ دار بھی مستفید ہوسکیں، (حوالہ سابقہ، افغانی صاحب، ص:٩٣)

 "چنانچہ ارشادِ ربانی ہے" : "ولقد مکنکم فی الارض وجعلنا لکم فیها معایش"(پارہ:٨،سورہ:اعراف،آیت:١٠) (یعنی زمین کے تمام ذرائع معاش سے استفادہ کرنا تمام انسانوں کا مشترکہ حق ہے)

 نوٹ: قرآن کریم نے یہ ارشاد فرماکر ایک طبقہ کے تمام انسانی ذرائع معاش پر قبضہ کرنے کو پوری طرح رد کردیا،

 " چوتھی پابندی ": امراء کے اموال میں فقراء طبقے کے جو حقوق ہیں، اسلام نے قانونِ زکوٰۃ و عشر و خراج و دیگر صدقات کے ذریعے امراء کو فقراء کی حاجت روائی کے لیے جواب دہ قرار دیا، تاکہ ہر سال امراء کے مال میں سے مناسب حصہ فقراء کو منتقل ہوکر فطری تفاوت اپنی حد میں رہ کر بڑھنے نہ پائے، (حوالہ سابقہ، افغانی صاحب)

"چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے" : "وفی أموالهم حق معلوم، للسائل والمحروم" (سورہ:معارج، پارہ:٢٩،آیت:٢٥،٢٤)

(یعنی قابلِ تعریف ہیں وہ لوگ جو زکوٰۃ اور قانونی واجبات کے علاوہ اپنے اموال میں سے سائل اور بے مال کو مالی امداد دینا اپنے اوپر واجب سمجھتے ہیں)

 (٢) "وانفقوا مما رزقنٰكم من قبل أن يأتي أحدكم الموت "(سوره:منافقون، پارہ:٢٨،آیت:١٠) یعنی ہم نے تمہیں جو رزق عطا کیا ہے، اسے اس سے پہلے کہ تمہیں موت آجائے، اللہ کی راہ میں خرچ کرلو،

 نوٹ: الحاصل قرآن کریم نے امراء کے فقراء پر خرچ کرنے کی فضیلت اور نہ کرنے کی وعید کا بے شمار مقام پر تذکرہ کیا ہے؛ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تو نہ خرچ کرنے والے کو دردناک عذاب کی بشارت دینے کا حکم دیا گیا ہے،

 اشتراکی بے اعتدالی کی تردید

کمیونسٹ معاشی نظام میں غیر فطری مصنوعی مالی مساوات ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں غیر فطری تفاوت ہے، اسلام نے اعتدال قائم کیا اور دونوں کی تردید کی، مصنوعی مساوات کی تردید کی، کہ وہ خلافِ فطرت ہے، جب قدرت نے انسان میں دولت کی تخلیقی قوت میں فرق رکھا ہے، اس لیے سب انسانوں کی فکری اور دماغی قابلیت برابر نہیں اور نہ عملی قوت یکساں ہے، تو انہیں دونوں قوتوں کی وجہ سے انسانی طبقات میں مالی تفاوت کا رونما ہونا لازم ہے، چنانچہ اسلام نے اس تفاوت کو برقرار رکھ کر امراء اور غرباء دونوں طبقے کے وجود کو تسلیم کیا اور امراء پر ایسی پابندیاں عائد کی، کہ غریب طبقے کے حقوق بھی محفوظ رہیں، (حوالہ سابقہ، افغانی صاحب، ص:٩١)

 "چنانچہ ارشاد باری ہے" (١) : "نحن قسمنا بينهم معيشتهم في الحيٰوة الدنيا ورفعنا بعضهم فوق بعض درجاتٍ ليتخذ بعضهم بعضا سخريا" (پارہ:٢٥،سورہ:زخرف،آیت:٣٢)

یعنی ہم نے فطرۃ اکتسابِ معیشت کی قوتیں انسانوں میں تقسیم کی ہیں، اور ان میں اونچ نیچ رکھا ہے، تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں،

 (٢)" لکی لا يكون دولة بين الاغنياء منكم" (پارہ:٢٨،سورہ:حشر،آیت:٧) یعنی تقسیم سب میں اس لیے ضروری ہے، کہ مال صرف اغنیاء کے طبقے میں گردش نہ کرنے پائے،

 نوٹ: مذکورہ آیات سے قرآن کریم نے شخصی ملکیت کو برقرار رکھ کر اضافہ ملکیت کی تحریک کی وجہ سے اس نے مالکان کے تعطل کو دور کرکے ان میں جوش عمل پیدا کیا، اور ان کو حیوانیت سے نکال کر شرفِ انسانیت پر پہنچایا، کہ وہ نظام اشتراکی کی طرح حکومت کے لیے مشین بن کر کام نہ کریں؛ بلکہ ایک مالک بااختیار کی طرح سعی وعمل میں مصروف رہیں، (حوالہ سابقہ، افغانی صاحب، ص:١٠٣)

 اسلام کا ہمہ جہتی معاشی حل، ایک خلاصہ

 انفرادیت: اسلام چونکہ دینِ الہی ہے، جس کو تمام انسانی پہلؤوں پر نظر ہے، اس لیے اس نے انسانی انفرادیت کو بھی قائم کیا اور جائز طریقوں سے رزق کمانے اور شخصی ملکیت کو برقرار رکھنے کی پوری آزادی دی، کوئی طاقت اس کی اس فطری آزادی کو سلب کرنے کی مجاز نہیں، (حوالہ سابقہ، افغانی صاحب، ص:١١٨،١١٧) چنانچہ قرآن مجید میں صاف اعلان ہے: "وأن ليس للإنسان إلا ما سعى وأن سعيه سوف يرى" یعنی انسان اپنی کوشش اور جدوجہد سے آزاد استفادہ کرنے کا مالک ہے اور جو کچھ وہ اپنی سعی سے کمائے گا وہ اس کو دیکھ پائے گا،

 "حدیث میں ہے" : "طلب الحلال فریضة بعد الفريضة" (ابن حبان، ج:٢،ص:٩٨) یعنی دینی فرائض کے بعد رزقِ حلال کمانا بھی انسان پر فرض ہے،

 نوٹ: ان ہدایات میں معاشی ضروریات کے لیے سعی وعمل کی دعوت ہے، اور عمل کا بڑا محرک فطرۃً شخصی ملکیت کا تصور اور اختصاص وانفرادیت کا جذبہ ہے، اس فطری امر کو بھی اسلام نے برقرار رکھا؛ بلکہ ان ہدایات کے ذریعے اس کو عمل پر ابھارا،

 اجتماعیت: لیکن انفرادیت کا تقاضا پورا کرنے کے بعد اسلام نے انسان کے اجتماعی معاملات کے متعلق بھی ہدایات جاری کیں اور اجتماعی دائرے کے فرائض سے بھی اسے آگاہ کیا، اسلام نے انسان کو یہ تصور دیا، کہ پوری انسانیت ایک برادری ہے، ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہے، چنانچہ قرآن میں ہے :"يا أيها الناس إنا خلقنكم من ذكر وأنثى وجعلنكم شعوبا وقبائل لتعارفوا" (پارہ:٢٦،سورہ:حجرات) اے انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ہی ماں باپ سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور ذاتیں بنائیں؛ تاکہ ایک دوسرے کا حق پہچانو،

 نوٹ: اب جو قومیں خواہ روس ہو یا امریکہ، وحدتِ بشریٰ کے اس فطری اجتماعی مسئلہ کو نظر انداز کرے، تو اس قوم کی ساری کوشش اس حیثیت سے ہوگی، کہ روسی امریکی قوم سربلند ہو، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ باقی اقوام کو مغلوب اور مفلس وقلاش بناکر صرف ایک قوم کا پیٹ بھرنا اس کے پیش نظر ہے، اور اس کی وجہ سے عام معاشی عالمی حالت بد سے بدتر ہوجائے گی، چنانچہ آج کل مشاہدہ ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق نصف انسانی آبادی روٹی سے محروم ہے، (حوالہ سابقہ، افغانی صاحب، ص:١٢٠)

 "حرفِ آخر" : مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے، کہ اسلام نے سرمایہ داری کی ناجائز آمدنی اور اشتراکیت کے ظلم وجور کو پوری طرح کچل کر ایک ایسا معتدلانہ اور منصفانہ نظامِ حیات مقرر کیا، جس کی نظیر رہتی دنیا تک پیش نہیں کی جاسکتی، یہی وجہ ہے کہ جس نے اسلامی نظام کو اپنایا، وہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہی چلا گیا اور جس نے اس کے علاوہ کوئی دوسری راہ تلاش کی، تو ابدی تنزلی اس کا مقدر بن گئی۔اللہ ہم سب کو اپنے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے. آمین ثم آمین.

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے