سیرتِ رسولﷺ کی جامعیت


 عبید اللہ شمیم قاسمی 

اردو کے معروف سیرت نگاروں نے خصوصیت کے ساتھ سیرتِ رسولﷺ کے جس امتیازی پہلو کو خوب اجاگر کیا ہے وہ اس کی جامعیت ہے۔ جس طرح آخری نبی کو عطا کیا گیا دین کامل ومکمل اور تمام انسانی شعبوں کو محیط ہے، اور قرآن مجید ساری آسمانی کتابوں میں جامع کتاب ہے اور شریعت اسلامی جامع ومکمل ہے، اسی طرح خالق کائنات نے ختم نبوت کا فیصلہ فرمایا تو اخیر میں آنے والے انسانی طبقات کے لئے اسوہ بنایا گیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے انتہائی جامع بنایا۔ حیاتِ انسانی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کے لئے سیرت رسولﷺ میں نمونہ نہ ملتا ہو۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: 《لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة》تمہارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔

اردو زبان کے سیرت نگاروں نے حیاتِ طیبہ پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے سیرت کی جامعیت کو انتہائی خوبصورت پیرایہ میں واضح کیا ہے۔ 

پھر سیرت نگاروں میں بھی سیرت نبوی ﷺ کی اس اہم خصوصیت کو اجاگر کرنے میں معروف سیرت نگار علامہ سید سلیمان ندویؒ کو امتیازی مقام حاصل تھا۔’’خصائص وامتیازات سیرت‘‘ پر اردو کیا کسی بھی زبان میں ’’خطبات مدراس‘‘ جیسی عظیم الشان کتاب منصہ شہود پر نہیں آسکی۔ ویسے اس کتاب میں سیرتِ رسول اللہ ﷺ کی جامعیت پر ایک مستقل ومبسوط خطبہ ہے۔  یہاں صرف چند اقتباسات پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ سید صاحب لکھتے ہیں :’’کسی سیرت کے عملی نمونہ بننے کے لئے تیسری ضروری شرط جامعیت ہے۔ جامعیت سے مقصود یہ ہے کہ مختلف طبقاتِ انسانی کو اپنی ہدایت اور روشنی کے لئے جن نمونوں کی ضرورت ہوتی ہے یا ہر فرد انسان کو اپنے مختلف تعلقات وروابط اور فرائض وواجبات ادا کرنے کے لئے جن مثالوں اور نمونوں کی حاجت ہوتی ہے وہ سب اس آئیڈیل زندگی کے آئینہ میں موجود ہوں۔ اس نقطہ نگاہ سے بھی دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ سوائے خاتم الانبیاء علیہ السلام کے کوئی دوسری شخصیت اس معیار پر پوری نہیں اترتی‘‘۔

آگے سیرت کی جامعیت پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :’’ایسی زندگی جو ہر طائفہ انسانی اور ہر حالت انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو وہ صرف محمد رسواللهﷺ کی سیرت ہوسکتی ہے۔ اگر دولت مند ہو تو مکہ کے تاجر اور بحرین کے خزینہ دار کی تقلید کرو، اگر غریب ہو تو شعبِ ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو، اگر بادشاہ ہو تو سلطانِ عرب کا حال پڑھو، اگر رعایا ہو تو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھو ، اگر فاتح ہو تو بدر وحنین کے سپہ سالار پر ایک نظر دوڑاؤ، اگر تم نے شکست کھائی ہے تو معرکۂ احد سے عبرت حاصل کرو، اگر تم استاذ اور معلم ہو تو صفہ کے درسگاہ کے معلم قدس کو دیکھو، اگر شاگرد ہو تو روح الامین کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جماؤ، اگر واعظ اور ناصح ہو تو مسجد مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو، اگر تنہائی اور بے کسی کے عالم میں حق کی منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہو تو مکہ کے بے یار ومددگار نبی کا اسوۂ حسنہ تمہارے سامنے ہے ، اگر تم حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمنوں کو زیر اور مخالفوں کو کمزور بنا چکے ہو تو فاتح مکہ کا نظارہ کرو،اگر اپنے کاروبار اور دنیاوی جد وجہد کا نظم ونسق درست کرنا چاہتے ہو توبنی نضیر ،خیبر اور فدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم ونسق کو دیکھو، اگر یتیم ہو توعبد اللہ اور آمنہ کے جگر گوشہ کو نہ بھولو، اگر بچہ ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے بچے کو دیکھو،اگر تم جوان ہو تو مکہ کے ایک چرواہے کی سیرت پڑھو، اگر سفری کاروبار میں ہو تو بصریٰ کے کاروان سالار کی مثالیں ڈھونڈو، اگر عدالت کے قاضی اور پنچایتوں کے ثالث ہو تو کعبہ میں نورِ آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھو جو حجر اسود کو کعبہ کے ایک گوشہ میں کھڑا کر رکھا ہے، اور مدینہ کی کچی مسجد کے صحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو جس کی نظر میں شاہ وگدا اور امیر وغریب سب برابر تھے، اگر تم بیویوں کے شوہر ہو توخدیجہ وعائشہ رضی اللہ عنہما کے مقدس شوہر کی حیات پاک کا مطالعہ کرو، اگر اولاد والے ہو تو فاطمہ کے باپ اور حسنؓ وحسینؓ کے نانا کا حال پوچھو، غرض تم جو کوئی بھی ہو اور کسی حال میں بھی ہو تمہاری زندگی کے لئے نمونہ اور تمہاری سیرت کی درستی واصلاح کے لئے سامان تمہارے ظلمت خانہ کے لئے ہدایت کا چراغ اور رہنمائی کا نور اللہ کے اس آخری عالمی انقلابی آفاقی اور دائمی پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمہ گیر سیرت اور جامعیت کبریٰ کے خزانہ میں ہر وقت اور ہمہ دم مل سکتا ہے، جو کائنات کی شب دیجور میں ہدایت کا روشن چراغ بن کر آیا‘‘۔ (خطبات مدراس: ص 36)

رسول اللہ ﷺ کی ہمہ گیر اور جامع شخصیت کو سمجھنے کے لیے ذرا یہ اقتباس بھی ملاحظہ فرمائیں:

’’وہ جو کہ بادشاہ ایسا کہ ایک پورا ملک اس کی مٹھی میں اور بے بس ایسا کہ خود اپنے کو بھی اپنے قبضہ میں نہ جانتاہو، دولت مند ایسا کہ اونٹوں پر لدے خزانے کے خزانے اس کے دارالحکومت میں آرہے ہوں اور محتاج ایسا کہ مہینوں اس کے گھر میں چولہا تک نہ جلتا ہو، سپہ سالار ایسا کہ مٹھی بھر نہتے آدمیوں کو لے کر ہزاروں غرق آہن فوجوں سے کامیاب لڑائی ہو اور صلح پسند ایسا کہ ہزاروں پر جوش جانثاروں کی ہمرکابی کے باوجود صلح کے کاغذ پر بے چوں وچرا دستخط کردیتا ہو، باتعلق ایسا کہ عرب کے ذرے ذرے اور پوری امت کے ایک ایک فرد کی اس کو فکر ہو، اور بے تعلق ایسا کہ اپنے خدا کے سوا کسی کی اس کو یاد نہ آتی ہو اور عین اس وقت جب کہ اس پر ایک تیغ زن سپاہی کا دھوکہ ہوتا ہو تو وہ ایک شب زندہ دار زاہد کی صورت میں جلوہ نما ہوتا ہے۔ عین اس وقت جب اس پر کشور کشاں فاتح کا شبہ ہوتا ہو وہ پیغمبرانہ معصومیت کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتا ہے، عین اس وقت جب ہم اس کو شاہ عرب کہہ کر پکارنا چاہتے ہیں ،وہ کھجور کی چھال کا تکیہ لگائے کھردری چٹائی پر بیٹھا درویش نظر آتا ہے۔ عین اس وقت جب عرب کے اطراف سے آآکر اس کی مسجد میں مال واسباب کا انبار لگا ہوتا ہے اس کے گھر میں فاقہ کی تیاریاں ہوتی ہیں۔ اس اقتباس میں رسول اللہ ﷺ کی شخصیت میں پائے جانے والے متضاد پہلوئوں کی بڑے خوبصورت انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔

٢٠/اکتوبر ٢٠٢٠ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے