عصر حاضر میں سیرت طیبہ کی معنویت

عصر حاضر میں سیرت طیبہ کی معنویت



 عبید اللہ شمیم قاسمی 

محبوب رب العالمین سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ایک ایسا سدا بہار موضوع ہے جس پر لوگ چودہ سو سال سے خامہ فرسائی کررہے ہیں لیکن ہر آنے والے دن کے ساتھ اس کی شادابی اور تروتازگی میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ 

قرآن کریم کے تعلق سے صاحب قرآن نے وضاحت کی تھی’’ لا تنقضي عجائبه ‘‘  اس کے عجائبات ختم نہ ہوں گے۔ ہر زمانہ میں لوگ اس کے بحر ذخار سے علم کے نئے نئے موتی نکالیں گے۔ جس پروردگار نے قرآن کو ایسی تابانی اور تروتازگی عطا فرمائی اسی رب ذوالجلال نے صاحب قرآن کی سیرت کو اور ان کی حیات مبارکہ کو ایسی متنوع اور ہمہ جہت بنا دیا کہ رہتی دنیا تک اہل علم اور ارباب عقل ودانش اس پر خامہ فرسائی کرتے کرتے تھک جائیں گے لیکن ’’ سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے ‘‘ کے مصداق بالآخر یہ اعتراف عجز پر خود کو مجبور پائیں گے۔ کوئی مصنف یا قلمکار جب سیرت کے موضوع پر کچھ لکھنے کے لئے قلم اٹھاتا ہے تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قلم میں اچانک جان پیدا ہوگئی، الفاظ وتعبیرات اس کے نوکِ قلم پر اس طرح صف بستہ تیار رہتے ہیں جیسے وہ بزبان حال صاحب قلم سے اپنے انتخاب کی گزارش کررہے ہوں ، اور سیرت پر لکھنے والا یہ قلم کار بقول ایک ادیب کے لفظوں کی ایسی آرائش اور جملوں کی ایسی زیبائش کرتا ہے کہ صفحہ کتاب جنت نگاہ اور نغمہ حرف فردوس گوش بن جائے اور الفاظ پھول بن جائیں اور جملے پھولوں کا دیدہ زیب ہار بن جائیں ‘‘۔

عربی زبان کے بعد سیرتِ رسول ﷺ پر اگر کسی زبان میں سب سے زیادہ لکھا گیا ہے تو وہ اردو زبان ہے، بر صغیر ہند وپاک میں اردو سیرت نگاروں نے سیرت کے ہر گوشے پر خامہ فرسائی کی ہے اور کوثر وتسنیم سے دھلی زبان استعمال کی ہے۔ اسلوب نگارش انتہائی شستہ، انداز بیان نہایت موثر اور ہر بات عقیدت ومحبت میں ڈوب کر لکھی گئی ہے۔

 انسانیت آج بھی اسی در کی محتاج ہے 

ذرا آج سے چودہ سو سال قبل کے انسانی معاشرہ پر نظر دوڑائیے! آپ دیکھیں گے کہ اس وقت انسانی بدبختی اپنی انتہاو کو پہنچ چکی تھی، ساری انسانیت نہ صرف مسائل میں گھری ہوئی تھی بلکہ اپنی خود کشی کا سامان فراہم کرچکی تھی، قرآن مجید نے ’’ وکنتم علی شفا حفرۃ من النار ‘‘(آل عمران:۱۰۳) کی مختصر مگر جامع تعبیر کے ذریعہ اس دور کا نقشہ کھینچا ہے، دورِ جاہلیت میں وہ کون سا مسئلہ تھا جوانسانیت کے لئے ناسور نہ بنا تھا، انسانی زندگی کا وہ کون سا پہلو تھا جس سے انسانیت رسوا نہ ہوئی ہو، ایسے تاریک اور انسانیت سوزماحول میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور ۲۳/سال کے مختصر عرصہ میں آپؐ نے وہ عظیم انقلاب پرپا کیا کہ تاریخ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، حیات انسانی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کے لئے محمد عربی ﷺ کی پاکیزہ سیرت نمونہ نہ ہو۔

آج انسانیت ایک بار پھر دورِ جاہلیت کی طرف لوٹ رہی ہے،جسے جاہلیت جدیدہ کہا جاسکتا ہے، اب جاہلی اطوار نیالبادہ اوڑھ کر سامنے آرہے ہیں ، دورِ جاہلیت کا وہ کونسا بگاڑ ہے جس کی ترقی یافتہ شکل موجودہ معاشرہ میں نہ پائی جاتی ہو، آج پھر انسانیت مسائل کے دلدل میں پھنس چکی ہے، دنیا ہر قسم کے نظاموں کو آزما چکی ہے، سارے نظامہائے حیات انسانی مسائل کے حل میں ناکام ہوچکے ہیں اب انسانیت کے لئے ایک ہی نسخہ کارگر ثابت ہوسکتا ہے، اور وہ نسخہ سیرتِ رسول ﷺ ہے، آپ ﷺ کی سیرت سے عملی استفادہ ہمیں مسائل کے دلدل سے نجات دلا سکتا ہے، آپ ﷺ کی سیرت میں قیامت تک آنے والی انسانیت کے دکھ درد کا علاج پنہاں ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی سیرت کے ایک ایک پہلو کو محفوظ رکھنے کا اہتمام فرمایا ہے، حضرات صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ﷺ کے اقوال وافعال، عادت واطوار اور آپ ﷺ سے متعلق تمام تفصیلات کو جس اہتمام کے ساتھ نقل فرمایا ہے، تاریخ انسانی میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔

 امام ترمذیؒ کی’’ شمائل نبویؐ ‘‘ پر نظر ڈالئے، علامہ ابن قیمؒ کی شہرۂ آفاق کتاب ’’زاد المعاد‘‘ پڑھئے، اسی طرح سیرت کی دوسری کتابیں دیکھئے، آپ کو حیرت ہوگی کہ ذاتِ رسول ﷺ سے متعلق باریک سی باریک تفصیلات تک کا احاطہ کیا گیا ہے، پچھلے پیغمبروں کی شریعت مخصوص علاقہ اور مخصوص مدت کے لئے ہوا کرتی تھی، اس لیے شریعت کی حفاظت کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا گیا، لیکن آپؐ کی نبوت چونکہ زمان ومکان کے حدود سے بالاتر قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف آپؐ کی سیرت کے ایک ایک پہلو کو محفوظ کرنے کا اہتمام کیا تو دوسری طرف اس میں انتہاء درجہ کی جامعیت رکھی، اس میں جلال بھی ہے اور جمال بھی، اس میں شانِ توکل کا عروج بھی ہے اور احوال وظروف کا صحیح ادراک بھی، سپاہیانہ جفاکشی اور قائدانہ احتشام بھی ہے اور راہبانہ زہد وسادگی بھی، اس میں خلوت کا سوز وگداز بھی ہے اور جلوت کے روح پرور نظارے بھی، اپنوں کے ایثار وقربانی کے لازوال نقوش بھی ہیں اور دشمنوں کی عداوت کی تیز وتند آندھیاں بھی، عشق ومحبت کے والہانہ نمونے بھی ہیں اور دشمنوں کی جانب سے بغض ونفاق کی دہکتی آگ بھی، مشکلات ومصائب کے طوفان بھی ہیں اور فتوحات کی شاد کامیاں بھی، غرض یہ کہ پوری سیرت حرکتِ مسلسل، سراپا انقلاب، عمل پیہم، عزم جواں اور جوشِ رواں کی جیتی جاگتی تصویر اور حسین مرقع ہے، بقول ایک سیرت نگار کے:’’آپ ﷺ کی سیرت ایک فرد کی سیرت نہیں بلکہ ایک تاریخی طاقت کی داستاں ہے، وہ زندگی کے کٹے ہوئے ایک درویش کی سرگزشت نہیں بلکہ ایک ایسی ہستی کی آپ بیتی ہے جو ایک اجتماعی تحریک کی روح رواں تھی، وہ محض ایک انسان کی سیرت نہیں بلکہ ایک انسان ساز کی روئیداد ہے، وہ عالمِ انسانیت کے معمار کی سیرت ہے، آپؐ کی سیرت غارِ حرا سے غارِ ثور تک، حرم کعبہ سے طائف کے بازاروں تک، امہات المؤمنین کے حجروں سے میدانِ جنگ تک، چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے‘‘۔

 اس جامعیت کے ساتھ سیرت کی دوسری حیرت انگیز خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر شعبہ میں کامل ومکمل ہے،سیرت رسول اللہﷺ کے جس شعبہ کو دیکھئے، ایسا لگتا ہے کہ آپؐ اسی کے لئے مبعوث کئے گئے تھے،دعا ومناجات کے باب کا مطالعہ کیجئے تو ایسا لگے گا کہ شاید حضور ﷺ کی زندگی کا سب سے اہم اور بنیادی شعبہ یہی ہے، غزوات وسرایا کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ آپ ﷺ کا اصل کمال اسی کے اندر ہے، جوہر شناسی اور مردم گری کی صفت دیکھیں تو احساس ہوگا کہ شاید آپ کا سب سے بڑا امتیاز یہی ہے، گھریلو زندگی کا مطالعہ کیجئے تو ایسا نظر آئے گا کہ سب سے زیادہ عملیت، بے ساختگی اور لطف ومحبت کے نمونے اسی جگہ ملتے ہیں، صحابہ سے تعلقات کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ آپ ﷺ کی محبوبیت کا راز اسی میں پوشیدہ ہے، الغرض آپ ﷺ کی زندگی کا ہر شعبہ انتہائی کمال کو پہنچا ہوا نظر آتا ہے۔

٢١/ اکتوبر ٢٠٢٠ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے