نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت دنیا کے حالات

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت دنیا کے حالات

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت دنیا کے حالات


 عبید اللہ شمیم قاسمی 

جس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی، اس وقت جاہلانہ رسومات، خود ساختہ مذہبی وسماجی بندشیں اور تہذیبی واخلاقی تنزلی اپنے عروج پر تھی، ہر طرف فتنہ وفساد کا بازار گرم تھا، دنیا شرک و کفر کی تاریکیوں میں بھٹک رہی تھی، آبادی کے تناسب سے خدا وجود میں آرہے تھے، ہر قبیلہ اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے خدا پر ناز کیا کرتا تھا، عوام اس قدر فکری اور اخلاقی تخریب کاری کا شکار تھے کہ ہر اس چیز کی پرستش کرتے تھے جس میں اپنے سے زیادہ طاقت محسوس کرتے تھے۔

بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل دنیا میں تصوراتِ تہذیب اور آدابِ معاشرت مکمل طور پر مسخ ہو چکے تھے۔ ہر طرف ظلم و ستم، جبر و تشدد اور وحشت و بربریت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ کفر و الحاد اور ظلم و جہالت کی تاریکی نے عالم انسانیت کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ عرب کی حالت دنیا کے دوسرے خطوں سے زیادہ دگرگوں تھی۔ جاہلیت اور نفس پرستی کی وجہ سے ان کی اخلاقی حالت نہایت ناگفتہ بہ تھی۔ شراب نوشی، عورتوں کا عریاں رقص، لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینا، لاتعداد بیویاں رکھنا اور والد کے مرنے کے بعد دیگر چیزوں کی طرح اپنی ماؤں کو بھی آپس میں بانٹ لینا اور بیویاں بنا کر رکھنا یا فروخت کر دینا عام تھا۔ 

بعض قبیلوں کا پیشہ ہی چوری، لوٹ مار اور قتل و غارت گری تھا۔ جو عورت بیوہ ہو جاتی اسے ایک سال کی عدت گزارنا پڑتی اور اسے نہایت منحوس سمجھا جاتا ایک سال تک اسے غسل اور منہ ہاتھ دھونے کے لئے پانی تک نہ دیا جاتا اور نہ پہننے کے لئے لباس ہی فراہم کیا جاتا۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:" کانت امرأة إذا توفی زوجها دخلت حفشا ولبست شر ثيابها ولم تمس الطيب حتی تمر بها سنة "

1. بخاری، الصحيح، کتاب الطلاق، باب تحد المتوفی عنها زوجها، 5: 2042، رقم: 5024

2. مسلم، الصحيح، کتاب الطلاق، باب وجوب الإحداد، 2: 1124، رقم: 1489

بے حیائی اس حد تک عام ہو چکی تھی کہ حج کے موقع پر ہزاروں لوگ جمع ہوتے، لیکن قریش کے سوا سب مرد اور عورتیں برہنہ حالت میں طواف کرتے۔ ان کا یہ تصور تھا کہ جن کپڑوں میں ہم نے گناہ کیا ہے، ان میں طواف کیسے کریں۔

حشرات الارض یعنی چھپکلی، بچھو، چوہے اور سانپ تک کھا جاتے، یتیموں کامال کھانا اور غریبوں کو ستانا عام تھا۔ معاشی زندگی میں سود کا نظام رائج تھا۔ عورتوں اور بچوں تک کو گروی رکھ دیا جاتا۔ لوگ بچیوں کو زندہ درگور کر دیتے۔

دفن البنت وهی حي

لوگ بچیوں کو زندہ درگور کر دیتے

ان تمام نقائص و عیوب کے باوجود اہل عرب میں کچھ ایسی خصوصیات بھی تھیں جو آج کے مہذب اور ترقی یافتہ دور میں بھی ہمیں نظر نہیں آتیں مثلا ایفائے عہد حجاز کا عرب نہ کسی کا محکوم تھا اور نہ ہوس ملک گیری رکھتا تھا۔ شروع سے لے کے اس وقت تک کسی غیر نے ان پر حکومت نہیں کی تھی۔ اہل عرب کی مہمان نوازی اپنے اور بیگانوں سب کے لئے عام تھی۔ لیکن ان سب خوبیوں کو ان کی بدکرداری، ظلم وعیاشی نے اپنے ناپاک دامن میں چھپا رکھا تھا کیونکہ بے شمار برائیوں میں چند خوبیاں دب کر رہ جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ ان کے نزدیک اچھائی اور برائی میں کوئی فرق نہیں تھا۔ وہ ہر کام عادتاً کرتے تھے۔ یہی کیفیت ان کی مذہبی دنیا میں بھی تھی۔ مذہبی ذوق کی تسکین کے لئے انہوں نے بت تراش رکھے تھے مگر پرستش کے باوجود وہ اپنے معبودوں کے تابع نہیں تھے۔

جو من میں آتا کر ڈالتے تھے۔ نسلی تفاخر اپنی آخری حدوں کو چھو رہا تھا وہ ہر غیر عرب کو عجم (گونگا) کہا کرتے تھے۔ 

الغرض اس وقت پورا عرب ظلم و جہالت اور اندھیر نگری کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ جس وقت اسلام دنیا میں آیا، مشرق و مغرب دونوں جہانوں پر جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ ظہور اسلام سے بہت پہلے ان اقوام کی علمی و ثقافتی سرگرمیاں ختم ہو چکی تھیں اور وہ جمود و اضمحلال کی زندگی بسر کر رہی تھیں۔

 عالمی منظر نامہ 

انسانیت، آمریت اور شہنشاہیت کے ظلم کا شکار تھی۔ شرفِ انسانی کی ہر قدر پامال ہو چکی تھی۔ جزیرہ نمائے عرب ہی نہیں پوری دنیا ظلم و جبر کا منظر پیش کر رہی تھی۔ انسانی حقوق کا ہر تصورحکمرانوں کی انا کی گرد میں گم ہو چکا تھا۔ قبل اَز بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روم اور ایران اپنے وقت کی عالمی طاقت (super powers) کی حیثیت رکھتے تھے۔ اپنے وقت کی یہ سپر پاورز تہذیبِ نسلِ انسانی کے ارتقاء کی بجائے چھوٹے اور کمزور ممالک پر غلامی کی سیاہ رات مسلط کر کے ایک غیر فطری احساسِ برتری کے لا علاج مرض میں مبتلا تھیں۔ طبقاتی کشمکش تمام تر قباحتوں کے ساتھ ابن آدم کا مقدر بنی ہوئی تھی۔ سماجی برائیوں کا چنگل ذہنِ انسانی تک محیط ہو چکا تھا۔

تاریخ کا سفر جاری رہا اور سیاسی، سماجی، روحانی اور اقتصادی زنجیروں کی گرفت سے بچنے کی ہر سعی ناکام ہونے لگی۔ ایرانیوں اور رومیوں کے حکمران طبقے پرُآسائش زندگی گزار رہے تھے۔ حکمرانوں کے گرد خوشامدیوں کا ٹولہ جمع ہو چکا تھا۔ علاوہ ازیں اہلِ ہنر بھی ان حکمرانوں کی دہلیز پر کھنچے چلے آ رہے تھے۔ یہ اہلِ کمال بھی اپنا کمال ان حکمرانوں کی پر آسائش زندگیوں کو مزید پر آسائش بنانے کے لئے استعمال کرتے۔ شاہی خزانے سے انعام پاتے اور حکمران عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اپنے عشرت کدے سجاتے، عوام کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوتا۔ حکمران اور محکوم طبقوں کے درمیان نفرت کی ایک وسیع خلیج حائل تھی، ظلم کا بازار گرم تھا اور سلطانی جمہور کے کہیں بھی آثار نظر نہ آتے تھے۔

غرض یہ کہ ہر طرف کفر و شرک کی آندھیاں چل رہی تھیں۔ کہیں ستاروں کی پوجا ہورہی تھی تو کہیں آتش پرستی سے قلوب و اذہان بھسم کیے جارہے تھے۔

گویا انسانیت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی کہ اللہ کی رحمت کو جوش آیا اور مکہ مکرمہ کی اسی سرزمین سے کہ جہاں اللہ کا گھر اس کے خلیلؑ نے تعمیر کیا تھا اور دعا کی تھی: 

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

   [البقرة: 129]. 

اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیج جو ان کے سامنے تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے۔ بے شک تو غلبے والا اور حکمت والا ہے۔ 

اور اسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بشارت دی:وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ

 [الصف: 6] 

اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اے میری قوم بنی اسرائیل میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی بھی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی خوش خبری سنانے والا ہوں‘ جن کا نام احمد ہے‘ پر جب وہ ان کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔

دیگر انبیاء کرامؑ نے بھی بشارتیں دی تھیں کہ ایک رسول رحمتؐ آنے والے ہیں تو وہ ابر رحمت قریش کے سردار عبدالمطلب کے گھر عبداللہ کی بیوہ آمنہ کے بطن سے ہویدا ہوا اور اس کی (نبی مکرم ﷺ) پیدائش پر رب کائنات نے یہ معجزہ دکھایا کہ نور کی تجلیات و عرفان سے شام کے محلات روشن ہوگئے، بیت اللہ میں رکھے گئے بت سرنگوں ہوگئے، آتش کدہ ایران جو صدیوں سے روشن چلا آ رہا تھا بجھ گیا اور پوری کائنات ارضی کو یہ پیغام ربانی دیا گیا کہ اب وہ ہستیؐ کائنات میں تشریف لاچکی جو ہر قسم کی شرک و ضلالت کو اپنے پائے استحقار تلے روندنے والی ہے۔

عبدالمطلب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ اپنے حسین و جمیل پوتے کو گود میں لیے بیت اللہ میں آئے اور ولادت کا اعلان عام کیا۔ لوگوں نے جب پوچھا کہ بچے کا نام کیا رکھا ہے تو عبدالمطلب نے برجستہ کہا محمدؐ۔ سب لوگ حیران ہوگئے کہ یہ نام عرب میں مانوس نہیں تھا۔ عبدالمطلب نے کہا کہ اس نام کے معنی بہت زیادہ تعریف کیے گئے ہیں۔ یہ نام اللہ ہی نے رکھوایا کہ تاقیامت جب تک اللہ کا نام بلند ہو گا۔ اس کے محبوبؐ کا نام بھی بلند ہوتا رہے گا۔

ایسے حالات میں اللہ رب العزت نے انسانیت پر احسان فرمایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انسانوں کے لیے رحمت عالم بناکر مبعوث فرمایا، جس کا اعلان حق سبحانہ تقدس نے ان الفاظ میں فرمایا: وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين [الأنبياء: ].

 ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے