آپ ﷺ کی رحمة للعالمينی

 


آپ ﷺ کی رحمة للعالمينی


 عبید اللہ شمیم قاسمی 

ربیع الاول وہ مقدس مہینہ ہے جب رسول اکرم ﷺ اس کائنات میں تشریف لائے۔ کائنات کے اس سب سے بڑے معجزے اور دنیا کے اس سب سے بڑے انسان کی آمد کی خوشی کو کسی شاعر، ادیب، سخنور، مقرر اور دانشور کی زبان اور قلم الفاظ میں سمیٹ نہیں سکتے۔ ہاں، صرف یہ ممکن ہے کہ قدرت نے ہمیں جتنی توفیق بخشی ہے اسے بروئے عمل لا کر ثنائے مصطفی اور ذکرِ محمد ﷺ سے اپنی خالی جھولی کو نیکیوں اور برکات سے بھرتے جائیں۔ رسولِ پاک ﷺ کے ذکر کیلئے جس پاکیزہ دل، آبِ زر میں دُھلے ہوئے جذبات اور خونِ دل سے کشید کی ہوئی تحریر کی ضرورت ہے وہ ہر ایک کے نصیب میں کہاں۔ حضرت محمد ﷺ وہ حبیبِ خدا ہیں جن کا ذکر اللہ نے اپنی آخری کتاب میں خود اتنا بلند فرمایا دیا کہ کوئی انسان اپنے پروازِ تخیّل سے اُس بلندی تک رسائی حاصل کر ہی نہیں سکتا۔

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: {ورفعنا لك ذكرك} اے محمد! ہم نے آپ کے آوازہ کو بلند کردیا۔

 بندہ اپنے رب، مخلوق اپنے خالق کا مدحِ رسول میں مقابلہ کر ہی نہیں سکتا، تاہم حضور نبی کریم پر درود بھیجنا ایک ایسا مبارک عمل ہے جس میں اللہ اور اسکے فرشتوں کے ساتھ انسان بھی شریک ہونے کی سعادت حاصل کر سکتا ہے۔ شاعر نعت کی صورت میں اپنا نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں، شاعر اسلام اور صحابی رسول حضرت حسان بن ثابتؓ کے وہ نعتیہ اشعار ناقابل فراموش ہیں جو درج ذیل ہیں:

وَأَحسَنُ مِنكَ لَم تَرَ قَطُّ عَيني 

 وَأَجمَلُ مِنكَ لَم تَلِدِ النِساءُ 

 خُلِقتَ مُبَرَّءً مِن كُلِّ عَيبٍ 

 كَأَنَّكَ قَد خُلِقتَ كَما تَشاءُ 

”میری ان آنکھوں نے تجھ سا حسین و جمیل نہیں دیکھا اور تجھ سے زیادہ اکمل کسی ماں نے نہیں جنا۔ 

آپ ہر عیب اور نقص سے پاک پیدا فرمائے گئے۔ گویا خالق نے آپ کو آپ کی مرضی کے مطابق بنایا“۔

حضور نبی پاک کی زندگی کے 53 سال مکہ اور 10 سال مدینہ میں گزرے اور آپ ہاشم و عبدالمطلب کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اس نسبتِ مقامی اور نسلی مناسبت کو علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنے ایک شعر میں کتنی خوبصورتی سے جمع کر دیا ہے:

 آدم کے لیے فخر یہ عالی نسبی ہے 

 مکی، مدنی، ہاشمی و مطلبی ہے 

حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں کیلئے رحمتِ کُل بنا کر بھیجا گیا، اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اعلان فرمایا: { وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين } [الانبيا: ١٠٧].

 میدانِ اُحد میں آپ پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی مگر آپ کی زبان پر یہ دعا تھی ”اے اللہ میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ میرے منصب کو نہیں جانتے۔“ 

 رب اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون 

آپ ﷺ اپنی ذات کے اعتبار سے مجسم رحمت تھے۔ خالص انفرادی اور ذاتی معاملات میں بھی آپ ﷺ کی یہ خصوصیات نمایاں رہیں۔ مثلاً انسانیت سے ہمدردی اور دکھی اور مظلوم لوگوں کا خیال۔ یہ کیفیت آپ کے دل پر اس طرح راسخ تھی کہ آپ ﷺ کسی لمحے بھی اس سے غافل نہ رہے۔ اعلانِ نبوت سے پہلے کی زندگی میں آپ ﷺ کا محبوب مشغلہ ہی انسانیت کی ہمدردی، خصوصاً مظلوم اور دکھی انسانوں کی ہمدردی تھی۔

آپ ﷺ کی طبیعت کی رحیمی نے حرب الفجار سے خصوصی اثر لیا۔ اور اس سے مظلومیت کی حمایت کا احساس اور زیادہ مستحکم ہوا اور مکہ کی وہ انجمن جس کا مقصد مظلوموں کی حمایت تھا، آپ ﷺ کی کوششوں سے اور زیادہ مضبوط ہو گئی ۔ قدرت نے آپ ﷺ کی ذات میں رحمت کی یہ خصوصیت راسخ کی تھی اور یہی "ملکہ راسخہ" آگے چل کر نبوت اور فرائضِ نبوت کی انجام دہی میں ممد ثابت ہوا۔ قرآنِ پاک نے اسے یوں بیان کیا:

﴿فَبِما رَ‌حمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُم ۖ وَلَو كُنتَ فَظًّا غَليظَ القَلبِ لَانفَضّوا مِن حَولِكَ...١٥٩﴾... [سورة آل عمران: ١٥٩].

''واللہ کی رحمت سے تو ان کے لئے نرم ہے اور اگر تو سخت کلام، سخت دل ہوتا تو یہ تیرے ارد گرد سے بکھر جاتے۔''

خالقِ کائنات نے حضور ﷺ کو اس لقب سے نوازا۔ رحمت کی بنیادی خصوصیات کو آپ ﷺ کے دل میں قائم کیا۔ اور اس کے بعد تربیت، ہدایت اور آگاہی سے اسے مستحکم کیا۔ کئی مقامات میں جہاں نبی ﷺ کو فرمایا گیا کہ آپ ﷺ رحمت کا یہ طریق کار اختیار کریں۔ مصائب و آلام میں صبر کریں۔ مشکلات کا بدلہ استقامت سے کریں۔ اور ایذاء رسانی کے مقابلے میں عفو و درگز سے کام لیں۔ ایک مقام پر طریقِ تبلیغ سمجھاتے ہوئے فرمایا: 

﴿ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَ‌بِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ ۖ وَجـٰدِلهُم بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ...﴾... [سورة النحل: ١٢٥].

''اپنے رب كے راستے كی طرف حكمت اور اچھے وعظ سے بلا اور ان كے ساتھ اس طريق پر بحث كر جو نہايت عمده ہو''۔

دوسری جگہ رحیمانہ طرزِ عمل یوں سکھایا گیا:

﴿ادفَع بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ فَإِذَا الَّذى بَينَكَ وَبَينَهُ عَد‌ٰوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِىٌّ حَميمٌ ﴿٣٤﴾... [سورة فصلت: ٣٤].

''(بدی کو) بہت اچھے طریق سے دور کر، پھر تو دیکھے گا کہ وہ شخص کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی ہے، گویا وہ دل سوز دوست ہے''۔

اس ودیعت اور تربیت کا اثر آنجناب ﷺ کی ذات گرامی پر کامل طور پر ظاہر تھا۔ 

طائف کے تبلیغی سفر میں جو سلوک آپ ﷺ کے ساتھ ہوا ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور اس کے جواب میں رحمۃٌ للّعالمینی کا ظہور ہے۔ پتھر کھاکر اور گالیاں سن کر فرمایا:

« اللھم اھد قومي فإنھم لا یعلمون » اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے بلاشبہ وہ نہیں جانتے۔

 شاد عارفی نے آپ کی اسی شانِ رحمة للعالمینی کو اپنے ایک شعر میں اس طرح پیش کیا ہے :

 اللہ سے اسلام کے دشمن کے لیے بھی 

 رحمت کے طلبگار ہیں اے صل علیٰ آپ 

یہ کہنا دراصل اس خصوصیت کا اثر ہے، جسے رحمت کہتے ہیں۔ 

رحمت کی یہ خصوصیت آپ ﷺ کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ مکّی زندگی میں غلاموں کی آزادی میں آپ کی کوشش اور مدنی زندگی میں رئیس المنافقین کے جنازے میں چلے جانا اور اسے اپنا کر تہ پہنا دینا ، مدینہ کے یہودیوں اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ آپ کا حسنِ سلوک نیز فتح مکہ کے موقع پر سنگ دل قریشیوں کو ﴿لا تَثر‌يبَ عَلَيكُمُ اليَومَ﴾ [آج تم پر کوئی الزام نہیں]  کا مژدہ سنایا صفتِ رحمت ہی کا عمل اظہار ہے۔ آپ کی ذات رحمت ہے، آپ کا انفرادی طرزِ عمل رحمت ہے بلکہ آپ ﷺ مجسمّ رحمت ہیں۔

"رحمت لّلعالمینی" کا ظہور جس طرح آپ ﷺ کی ذاتی زندگی میں ہوتا ہے اسی طرح پیغام اور تحریک میں بھی ہوتا ہے۔ جو اسلام کے نام سے شروع کی گئی۔ گویا یہ تحریک اور پیغام ایک رحمت ہے جو اس کائنات میں آنجناب ﷺ کی وساطت سے متعارف ہوا۔ حضور ﷺ یوں تو جملہ مخلوقِ خدا کے لئے رحمت ہیں لیکن بالخصوص آپ ﷺ انسانوں کے لئے رحمت ہیں؛ کیونکہ یہ اشرف المخلوقات ہیں۔

 آپ ﷺ کی ذات کی طرح آپ ﷺ کا پیغام انسانوں کے لئے خصوصی رحمت ہے۔ کیونکہ پیغامِ ربانی سے مسلسل انحراف اور خود ساختہ خداؤں کی بندگی نے عقل و فکر اور آزادی و آدمیت کی صحیح روح کو ختم کر دیا تھا۔ کہیں کہیں روشنی کی کرن دکھائی دیتی تھی لیکن وہ بھی اتنی مدھم کہ اس سے رہنمائی کا کام نہیں لیا جا سکتا تھا۔ مذہبی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے ہر طرف ظلم و جور کا بازار گرم تھا۔

 آنحضرت ﷺ نے اپنے رحیمانہ طرزِ عمل سے ایک عظیم انقلاب بپا کیا اور انسان کو اس کے حقیقی مقام سے روشناس کرایا۔ صفت رحمت کی رحمۃٌ للّعالمینی کا ظہور پوری انسانی زندگی کو محیط کرتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے