رسول اکرم ﷺ بہ حیثیت معلّم انسانیت

رسول اکرم ﷺ بہ حیثیت معلّم انسانیت

 عبید اللہ شمیم قاسمی

حضرت ابراہیم علیہ السلام جس وقت خانہ کعبہ کی تعمیر کررہے تھے اس وقت ان کی زبان پر دعا کے جو الفاظ جاری تھے، اللہ رب العزت نے اس کا تذکرہ سورة البقرة میں ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے، {رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} [البقرة: ١٢٩]. “اے رب ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک ایسا رسول بھیجئیے جو انھیں تیری آیات سنائے ،ان کو کتاب اور حکمت کی  تعلیم  دے۔ اور ساتھ ساتھ ان کے نفس کو پاکیزہ بنائے۔ بیشک آپ غالب اور حکمت والے ہیں۔

دعائے خلیل قبول ہوئی اور اس کا ظہور ایسے وقت ہوا جب کہ پورے عالم میں تاریکی چھائی ہوئی تھی، اور ظلم و جور کا دور دورہ تھا، اور انسانیت کسی رہبر کی تلاش میں بھٹک رہی تھی، اللہ کے نبی ﷺ اس دنیا میں اس وقت آئے جب جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ہر سو چھائے ہوئے تھے، رسول عربی ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے اور علم، معرفت، اللہ کے ساتھ تعلق کا ایک دیپ جلایا جس نے اس تیرہ فضا کو نور ہی نور سے بھر دیا اور اب قیامت تک کے لئے جب بھی انسانیت کا قافلہ تاریکی وظلمت میں دھنس جائے، تو اسے نکالنے کے لئے اسی چراغ سے روشنی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ایسے نازک وقت میں اللہ رب العزت نے سسکتی ہوئی انسانیت پر احسان عظیم فرمایا، جس کا تذکرہ خود باری تعالی نے ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے، {لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ} [آل عمران: ١٦٤]. تحقیق کی اللہ رب العزت نے مومنین پر احسان فرمایا کہ انہیں میں سے ایسا رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے، اور ان کو پاکیزہ بناتا ہے، اور انہی کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، جب کہ وہ (ان رسول کے بھیجنے سے) پہلے کھلی گمراہی میں تھے}۔

ایک دوسرے موقع پر بھی اس کا تذکرہ فرمایا، سورة الجمعة میں ارشاد خداوندی ہے:

{هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ} [سورة الجمعة، ۲]

ترجمہ: وہی (یعنی اللہ تعالی) تو ہے جس نے امی لوگوں میں ان ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا، جو انہیں اس (اللہ) کی آیتیں پڑھ کر سنائے، انہیں (کفر، شرک اور گناہوں سے) پاکیزہ بنائے، اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے، جب کہ وہ (ان رسول کے بھیجنے سے) پہلے کھلی گمراہی میں تھے}۔

ان آیتوں میں نبی اکرم ﷺ کی ایک رسول کی حیثیت سے ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں جو چار ہیں: قرآن کی تلاوت کرنا، تزکیہ واصلاح کرنا، کتاب کی تعلیم دینا اور حکمت کی تعلیم دینا۔ ان چاروں کاموں پر غور کیا جائے تو یہ " تعلیم وتربیت " ہی کے گرد گھومتے ہیں، ان سے باہر نہیں۔ اس آیت سے یہ بات کھل کر واضح ہوتی ہے کہ کار نبوت دراصل کار " تعلیم وتربیت " ہے جس میں بگڑی ہوئی قوموں اور بھٹکے ہوئے لوگوں میں حکمت وبصیرت کے ذریعے حق کی تلاش کا شوق پیدا کرکے ، انہیں حق کی راہ دکھلا کے اس پر چلنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس لئے نبی ہی کی ذات اقدس "معلم" کا واحد نمونہ بننے کی حقدار ہے جس پر دنیا کے تمام معلمین ومعلمات کو پرکھا جا سکتا ہے۔

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں ارشاد فرمایا: " إن الله لم يبعثني معنتا ولامتعنتا، ولكن بعثني معلما ميسرا " (صحيح مسلم، کتاب الطلاق)۔

 اللہ تعالی نے میری بعثت اس لئے نہیں کی کہ میں (لوگوں کو) مشکل میں مبتلا کروں یا یہ چاہوں کہ دوسرے مشکل میں مبتلا ہوں، بلکہ اللہ نے مجھے (دوسرے کے لئے) آسانیاں پیدا کرنے والا معلم بنا کر بھیجا ہے"

اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے اس واقعہ میں اپنی "بعثت" کا مقصد ہی "معلمی" بتایا اور ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ معلم کی کیا خوبی ہوتی ہے۔

پہلے شاگردوں میں حصولِ علم کا شوق اور جستجو پیدا کرنا، پھر علم منتقل کرنا، آپؐ کا تدریسی طریقہ تھا۔ کئی مواقع پر صحابہ کرامؓ کو مخاطب کرکے پہلے ان میں حصولِ علم کا اشتیاق پیدا کرتے، پھر انتقالِ علم فرماتے۔ مثلاً کیا میں تمہیں خبر نہ دوں؟، کیا میں تمہیں ایسی چیز کی رہنمائی نہ کردوں؟، کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ اور ایسے کئی الفاظ جو انسان کو چوکنّا کردینے کو کافی ہوتے ہیں۔

مؤثر ابلاغ کی مہارت آپ ﷺ میں بدرجہ کمال موجود تھی۔ آپ ﷺ کی گفتگو  اول سے آخر تک نہایت صاف ہوتی، کلام جامع فرماتے تھے جس کے الفاظ  مختصر مگر پر اثر ہوتے تھے۔ حضرت ام معبد کی روایت ہے کے آپ ﷺ شیریں کلام اور واضح بیان تھے۔ نہ کم گو تھے اور نہ زیادہ گو تھے، آپ ﷺ کی گفتگو ایسی تھی کہ جیسے موتی کے دانے پرو دیے گئے ہوں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق آپ ﷺ کے کلمات میں فصاحت وبلاغت جھلکتی تھی۔ آپ ﷺ تبلیغ کی حکمت سے مالامال تھے۔ اگر کوئی آپ ﷺ کے الفاظ شمار کرنا  چاہتا تو  کر سکتا۔ آپ ﷺ کی گفتگو  عام  لوگوں کی طرح  جلدی جلدی نہیں  ہوتی بلکہ صاف صاف ہر مضمون دوسرے مضمون سے ممتاز ہوتا تھا۔ پاس بیٹھنے والے اچھی طرح سے ذہن نشین کر لیتے۔ 

حضرت انس فرماتے ہیں کے آپ ﷺ بعض مرتبہ کلام کو حسب ضرورت  تین تین بار دہراتے  تاکہ مخاطبین آپ ﷺ کے الفاظ کو اچھی طرح سمجھ لیں ۔ جس بات کا تفصیل سے ذکر کرنا  تہذیب سے گرا ہوا ہوتا  تو اس کو حضور اکرم ﷺ  کنایہ میں بیان کرتے ۔ بات کرتے وقت آپ ﷺ مسکراتے اور نہایت خندہ پیشانی سے گفتگو  فرماتے۔آپ ﷺ کا فرمان تھا:

 يسّروا ولا تعسّروا 

” آسانیاں بہم پہنچاؤ مشکلات  میں  نہ ڈالو“.

نبی کریم ﷺ موقع کی مناسبت اور طلبا کی کیفیت دیکھ کر تعلیم دیتے، مثلاً ایک ہی سوال ’’اسلام میں سب سے افضل عمل کون سا ہے؟‘‘ مختلف صحابہ کرامؓ نے مختلف اوقات میں پوچھا تو ہر ایک کو اس کے ذاتی معاملات اور موقع کی مناسبت دیکھ کر مختلف جواب دیا۔ اپنے طلبہ کے ساتھ نرمی و شفقت کا معاملہ کرنا اور بے جا مار پیٹ اور زدوکوب سے گریز کرنا بھی تعلیمِ رسول ﷺ کا خاصہ تھا۔ 

اس معلم اعظم کا اندازِ بیان نہ صرف شگفتہ، شائستہ بلکہ پُراثر تھا، جو بات اہم ہوتی اسے تین بار دہراتے اور صحابہ اس تین مرتبہ دہرانے سے اُس بات کی اہمیت کا انداہ لگا لیتے۔ ٹھہر ٹھہر کر اس طرح بات بیان کرتے کہ بیشک سامنے والا آپؐ کی گفتگو کو آسانی سے لکھتا جائے.

 محسن انسانیت حضور اکرم ﷺ پوری انسانیت کیلئے ایک عظیم اور مثالی معلم بن کر تشریف لائے، حضور اکرم ﷺ ایک ایسے معلم ہیں جن کی تعلیم و تربیت نے صرف 23 برس کی مختصر مدت میں نہ صرف جزیرہ عرب کی کایا پلٹ دی بلکہ پوری دنیا کیلئے رشد و ہدایت کی وہ ابدی شمعیں بھی روشن کر دیں جو رہتی دنیا تک انسانیت کو عدل و انصاف امن و سکون، عافیت و اطمینان کی راہیں دکھاتی رہیں گی۔

 حضور اکرم ﷺ نے اہل عرب میں جب تعلیم و تربیت کا آغاز فرمایا تو وہ قوم کمزور اور ناتواں تھی، ان پڑھ اور جاہل تھی، زندگی گزارنے کے سلیقے تہذیب و تمدن سے ناآشنا تھی، قتل و غارت کی خوگر، ظلم و تشدد کی آخری حدوں کو چھورہی تھی، حضور نبی اکرم ﷺ نے تشریف لا کر اس قوم کی کایا پلٹ دی، ان کے دل و دماغ میں انقلاب پیدا کر دیا، ان کے اخلاق کی قدریں بدل گئیں، معلم اعظم حضور اکرم ﷺ کا کمال ہے کہ انہوں نے اس جاہل قوم کی اتنی بڑی تعداد کو زیور تعلیم سے مزین فرما دیا، وہ لوگ آنے والوں کیلئے علم کی روشن ضیاء ثابت ہوئے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے