جورب راضی تو سب راضی


جو رب راضی تو سب راضی


20/01/2021

✍ 

مفتی محمد اجوداللہ پھولپوری 

نائب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائمیر اعظم گڈھ

یہ اسلام کی ہمہ گیری و ہمہ جہتی اور بندہ پروری و بندہ نوازی ہے کہ آسمانی ہدایات اور خدائی فرمان شعبہائے انسانی کے تمام حصص پہ سایہ فگن ہیں، خداءوحدہ‘ لاشریک لہ‘ نے انسانوں کو کسی بھی شعبہ میں اپنے منشور سے محروم نہیں رکھا۔


اسلام خدا کی طرف سے بندوں کے حق میں کامل و اکمل و جامع ترین پیامِ رحمت ہے،انسان کی ذہنی و عقلی ، اخلاقی و معاشرتی ، جسمانی و روحانی ، سیاسی و سماجی ،انفرادی و اجتماعی تمام ضرورتوں کا کفیل اور ہرشعبۂ حیات میں ترقیوں کا زعیم ہے۔


یہ الگ بات کہ انسان آج اسلامی ہدایات کو معلوم کرنے اور شرعی احکامات پہ عمل کرنے کے جذبہ سے محروم ہوتا جارہا ہے، ورنہ تو شریعت مطہرہ جہاں ایک طرف شاہوں کے لیے احکام بیان کرتی ہے وہیں دوسری طرف رعایا کے لیے بھی ہدایات جاری کرتی ہے، اگر مردوں کی رہنمائی میں پیش پیش ہے تو عورتوں کے لیے بھی فرامین کا ذخیرہ رکھتی ہے، آزاد انسانوں کو پابند کرنے کا نسخہ ہے تو غلاموں کے لیے بھی راحت رسانی کا پیکج ہے بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے جہاں روڈ میپ ہے تووہیں بچوں کے اخلاق و عادات کی درستگی کا مفصل فرمان بھی؛ آج سے چودہ سوسال پہلے ہی اسلام کے کامل و اکمل ہونے کو رب نے آشکارا فرمادیا تھا۔


 الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ(سورة المائدة)


ترجمہ ” آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ہے اور تم پر اپنے احسان کو مکمل کردیاہے اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا ہے“۔


آپ غور کریںگے تو واضح ہوگا کہ شعبہائے انسانی کے ہر ہر شعبہ میں اسلام کی سلامتی والے اعمال موجود ہیں، لیکن افسوس ہم اس کا خیال نا کرتے ہوئے اپنے علاقائی خانگی اور خاندانی رسموں رواجوں کے خریدار بن کر رسوائی و رو سیاہی اور ناکامی و مایوسی کے شکار ہورہے ہیں، یقینا یہ ہماری بہت بڑی محرومی ہے کہ صاف ستھری آسمانی تعلیمات کو نظر انداز کرکے آ غشتہ وپراگندہ تعلیمات کے شیدائی بن کر پریشان و مصیبت زدہ ہیں۔


کہا جاتا ہے کہ اسلام گود سے لے کر گور تک انسانوں کی رہبری و رہنمائی کرتا ہے، قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ ہمارا دین دار طبقہ بھی اب اسلامی معاشرت و معاملات اور سیاست میں اسلامی رہنمائی کی ضرورت محسوس نہیں کرتا بلکہ اگر یوں کہوں کہ بیزار ہوتا جارہا ہے تو غلط نہ ہوگا، ان تمام میدانوں میں خصوصاً میدانِ سیاست میں تو وہ فساق و فجار پہ تکیہ کیے بیٹھا ہے۔ 


حالاںکہ سیاست ایک ایسا میدان امتحان ہے جہاں تدین و تقوی کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے بقول والد گرامی حضرت محسن الامت نوراللہ مرقدہ ”کس قدر مضحکہ خیز اور ہنسی انگیز ہے یہ بات کہ اپنے علاقہ اور شہر کے سب سے بدکردار و بد اطوار کو اپنا سیاسی نمائندہ منتخب کرتے ہیں اور امید لگاتے ہیں کہ وہ امانت داری سے کام کرے گا اور لوگوں کے کام آئے گا ان کے حقوق کی پاسداری کرے گا“۔


یوں تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی ہی انسانیت کے لیے آبِ حیات ہے، لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں آپ کی زندگی کے ابتدائی احوال ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بہترین مرجع ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی زندگی میں سب سے پہلا جو کام کیا موجودہ حالات شدت سے اس کے متقاضی ہیں، یعنی بہترین افراد کی کھیپ تیار کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا میں سب سے پہلا کام یہی کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے براہِ راست انسانوں پے محنت کی، جس کے نتیجہ میں کم و بیش تین لاکھ صحابہ ¿ کرام کی ایسی جماعت تیار ہوئی جس میں ہر ایک فرد اپنی مثال آپ تھا، ہر صحابی نبی کے قول ”کُلُّھُم  عَدُول“ کا مصداق تھا۔


مکہ کی پوری زندگی رجال سازی میں گزاردی، تب کہیں جا کر مدنی زندگی کا انقلابی دور شروع ہوا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم افراد سازی نا کرتے تو ہر محاذ پر جنگ نہیں جیت سکتے تھے، ہر صحابی جہدِ مسلسل صبر و پیمان کا خوگر بلکہ باطل کے لیے پہاڑ کی چٹان تھا، کیاہی اطمینان و اعتماد ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے عطاءہوا تھا، جس کی تمثیل پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے۔ 


آج کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ امت مسلمہ اپنا اعتماد کھو چکی ہے کسی کو کسی سے اطمینان نہیں ہر کوئی اپنی اصلاح سے غافل دوسروں کی صلاح و فلاح بلکہ یوں کہ لیں کہ تذلیل و تحقیر میں پریشان ہے، زبانی جمع خرچیوں کا جو عالم ہے، وہ صرف اور صرف خندہ آور ہے، بقول حضرت مجذوب علیہ الرحمہ 


کامیابی تو کام سے ہوگی


نہ کہ حسنِ کلام سے ہوگی


ذکر کے التزام سے ہوگی


فکر کے اہتمام سے ہوگی


آج ضرورت ہے انفرادی طور پہ کام کرنے کی، لوگوں کو دین سے جوڑنے اور اس پر عمل آوری پر ابھارنے کی، آپ امت مسلمہ کو شریعت کے پیمانہ پر ناپیںگے تو حیرت کریںگے کہ آج ہمارا اکثر طبقہ کلمہ کی روح چھوڑئے، کلمہ کے الفاظ سے بھی نامانوس ہے، اسے نہ تو اپنی تاریخ کا علم ہے اور نہ ہی اپنی اہمیت کا اندازہ؛ آج امت مسلمہ کعبہ و کلیسا کی کشمکش میں مشرق و مغرب کے درمیان معلق ہوکے رہ گئی ہے، اس کے فکر وعمل میں معرکۂ ایمان و مادیت برپا ہے، مشرقی تہذیب میں اسے انسانیت کی معراج نظر آتی ہے، آج کا نوجوان سود وزیاں سے پرے مغربی تہذیب کا دلدادہ ہوتا جارہا ہے، تقویٰ و پرہیزگاری کو وہ سوہان روح اور فرسودہ گمان کرتا ہے، اس کے قلب و جگر میں یہ بات نہ جانے کہاں سے پیوست ہوگئی ہے کہ دین پر عمل آوری اسے غاروں کی دنیا کا باشی بنادے گی، رزق اس پر تنگ کردیا جائے گا، اس پے یہ خوف نہ معلوم کیوں قبضہ جما چکا ہے کہ تقویٰ و پرہیزگاری اس کے لیے اذیت ناک عمل ہوگا، جب کہ قرآن میں ربّ ذوالجلال کا صاف اعلان ہے:

”وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مَخۡرَجًا وَّيَرۡزُقۡهُ مِنۡ حَيۡثُ لَا يَحۡتَسِبُ‌ ؕ وَمَنۡ يَّتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسۡبُهٗ“‘(سورہ طلاق)


اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تقویٰ اختیار کرتا ہے)اللہ تعالیٰ اس کے لیے (مضرتوں سے ) نجات کی شکل نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا اور جو شخص اللہ پہ توکل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی (اصلاح مہمات ) کے لیے کافی ہے۔


اللہ تعالیٰ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنے متقی بندوں سے وعدہ فرماتا ہے:


”وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مِنۡ اَمۡرِهٖ یُسْرًا“(سورہ طلاق)


ترجمہ: اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا(تقویٰ اختیار کرے گا ) اللہ تعالیٰ اس کے ہر کام میں آسانی کردے گا۔


تقویٰ کہتے کس کو ہیں ؟ تقویٰ کہتے ہیں پرہیز گاری کو، تقویٰ کہتے ہیں دل کی اس کیفیت کو جس کے حاصل ہوجانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگے اور نیک کاموں کی تڑپ بڑھ جائے تقویٰ بزرگانِ دین کا اوّلین وصف ہے، ان کی صحبت تقویٰ و پرہیز گاری کے لیے بہت ہی معاون و مددگار ہے، متقیوں کو اللہ تعالیٰ اپنا محبوب اور دوست کہتے ہیں” فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُتَّقِینَ“(آل عمران)


بلا شبہ اللہ تعالیٰ متقیوں کو محبوب (دوست) رکھتے ہیں۔


آج کے اس پرفتن دور میں جب کہ امت کو سبب کے درجہ میں بظاہر کوئی ایسا راستہ نظر نہیں آتا جس کو اختیار کرکے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے اللہ کی دوستی کی جانب بلایا جائے تاکہ اس کے رنج وغم کا مداوا ہوسکے، ان کے ٹوٹتے دلوں کو حوصلہ مل سکے، خوف سے آزادی حاصل ہوسکے اور ان سب کے لیے سب سے بہترین چیز تقویٰ ہے۔ 


قرآن کا فرمان ہے:”اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ“(سورہ یونس)


ترجمہ:یاد رکھو! اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ (ناک واقعہ پڑنے والا) ہے اور نہ وہ (کسی مطلوب کے فوت ہونے پر) مغموم ہوتے ہیں ٭ وہ اللہ کے دوست ہیں۔


یعنی اللہ تعالیٰ ان کو خوفناک اور غم ناک حوادث سے بچاتے ہیں، یہاں خوف سے خوفِ حق اور غم سے غمِ آخرت مراد نہیں، بلکہ دنیوی خوف وغم کی نفی مراد ہے۔ 


دوسری جگہ اللہ ربّ العزت فرماتے ہیں:

”الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَكَانُوۡا يَتَّقُوۡنَؕ لَهُمُ الۡبُشۡرٰى فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَفِى الۡاٰخِرَةِ‌ؕ لَا  تَبۡدِيۡلَ لِـكَلِمٰتِ اللّٰهِ‌ؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُؕ


ترجمہ:جو لوگ ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیا ان کے لیے خوش خبری ہے دنیا کی زندگانی میں اور آخرت میں، بدلتی نہیں اللہ کی باتیں، یہی ہے بڑی کامیابی۔


ہم نے دنیا کی نظروں میں خود کو بہتر بنانے اور دنیا کے حصول کے لیے کیا کچھ نہیں کیا، دین سے دوری اختیار کی مادیت کے پرستار بنے، آزادانہ روش کے راہی بنے، دشمنوں کی چال ڈھال کو اپنایا، پھر بھی ہم پستیوں کے شکار ہوتے گئے، ہماری نہ تو سماجی حیثیت رہی اور نا ہی سیاسی، مصلحت کی تہہ بہ تہہ چادروں کو ڈھوتے ڈھوتے ہم کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے، دشمنوں سے دوستیاں کیں، شاید ہمارا بھلا ہوجائے، پر افسوس! سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہ ہوا، ابھی بھی ہمارے پاس ایک راستہ ہے، جس پے چلنا کامیابی کی ضمانت ہے؛ ابھی بھی ایک ذات ہے، جس کی دوستی ہماری بہار رفتہ اور عزت مرحومہ کو واپس لا سکتی ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے، میں پوری گارنٹی سے کہتا ہوں اس کی دوستی ہمارے لیے سراسر نفع کا سودا ہے اگر اس نے ہمیں اپنا دوست بنالیا تو بڑے سے بڑا دشمن بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اگر وہ ہمیں تکلیف بھی دینا چاہے گا تو ہماری طرف ہاتھ بڑھانے سے پہلے اسے اللہ سے جنگ کرنی پڑے گی۔ 


بخاری شریف میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے روایت ہے:” انَّ اللَّہَ قَالَ: مَن عَادَی لِی وَلِیًّا فَقَد آذَنتُہُ بِالحَربِ“(اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس شخص نے میرے کسی ولی (دوست) سے دشمنی کی، میرا اس کے ساتھ اعلان جنگ ہے)۔


ہے دنیا کی کوئی طاقت جو رب سے جنگ کرسکے؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلاشبہ ہم کمزور ہیں پر ہمارا رب نہیں وہ تو لفظ ”کن“ کا مالک ہے، ایک لفظ کے ذریعہ دنیا کو وجود بخشنے والا ہے، ایک ہی لفظ دنیا و مافیہا کے اتھل پتھل کے لیے کافی ہے۔


یہی نہیں اسی روایت کے اگلے حصہ میں رب کے فرمان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا: ”فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ“پس جب میں اسے محبوب (دوست ) بنا لیتا ہوں تو پھر (اس کے نتیجے میں) مَیں اس کا کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے”وَبَصَرَہ اَلَّذِ ¸ یُبصِرُ بِہ“ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے”وَیَدَہ‘ الَّتِی یَبطِشُ بِہَا“ اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے”وَرِجلَہُ الَّتِی یَمشِ بِہَا“اور اس کا پیر بن جاتا ہوں ،جس سے وہ چلتا ہے؛ اب آپ ہی اندازہ لگائیں جس مال پے احکم الحاکمین اپنی مہر لگادے، اسے کون قبول کرنے سے انکار کرسکتا ہے؟ دنیاوی حکمراں اگر کسی جانور پے بھی اپنے نام کا لیبل لگادیں، تو کسی کی مجال نہیں اس کو تکلیف پہنچاسکے، پھر وہ تو سارے جہان کارب ہے، جب وہ کسی کان کو اپنا کان کہہ دے تو کس کی دکان اس کے سامنے کھلی رہ سکتی ہے؟ جب وہ کسی آنکھ کو اپنی آنکھ کہہ دے تو کون سی آنکھ ہے جو اسے آنکھ دکھا سکے؟ کسی ہاتھ کو جب وہ اپنا ہاتھ کہہ دے تو وہ کون سا ہاتھ ہے جو اس ہاتھ کو ہاتھ لگا سکے؟ اور جب وہ کسی پیر کو اپنا پیر کہہ دے تو پھر کون سا ایسا پیر ہے جو اسے لَنگی (ٹانگ میں ٹانگ اڑانا ) مارسکے؟


ظاہر سی بات ہے کسی میں اتنی جرأت نہ ہوگی جو رب سے جنگ کے چیلنج کو قبول کرنے کی ہمت رکھے، بس! ہم ہی ہیں جو اپنے رب کی دوستی سے بھاگ رہے ہیں اور ذلت وخواری ہمارا مقدر بنتی جارہی ہے، اگر خوف وذلت کے اس حصار کو توڑنا ہے تو تقویٰ کو اپنی زندگی میں شامل کرکے رب کی دوستی کو حاصل کرنا ہوگا اور عوام الناس کو بھی اسی راستے کا راہی بنانا ہوگا، رب کو اپنا بنالیں سب آپ کا ہوجائے گا، جو رب راضی تو سب راضی....!


جو تو میرا تو سب میرا فلک میرا زمیں میری 


اگر اک تو نہیں میرا تو کوئی شئی نہیں میری

ajwadullahph@gmail.com

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے