تشکیل جدید، فکر اسلامی کی یا مسلم دینیاتی فکر کی؟

تشکیل جدید، فکر اسلامی کی یا مسلم دینیاتی فکر کی؟
 

 عبد الحمید نعمانی 

عالم اور دنیا تغیر پذیر ہے ،نئے حالات میں وقت کے درپیش نئے مسائل کا حل کیسے ہوگا؟۔صریح الفاظ میں ظاہر ہے کہ کسی مسئلے کے، پیدا ہونے سے پہلے اس کا حل نہیں مل سکتا ہے، حل کی شکل یاتو کلیات و متون کی روشنی میں مجتھد کا انفرادی اجتہاد ہے یا اہل علم کا اجتماعی اجتہاد ہے یااہل علم و دانش کی طرف سے قدیم مسائل کی جدید تعبیر و تشریح ہے ، مسلم دینیاتی فکر کی تاریخ میں ہمیں دونوں قسم کے نمونے ملتے ہیں یہ کوئی ایسی نئی روایت نہیں ہے کہ اس سے گھبرانے اور لعنت و تنقید بے جا کی ضرورت ہو، سماج کے فرد /حلقہ کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ پیدا شدہ شبہات و سوالات کا ازالہ و جواب دہی کرتے ہوئے مسائل کا نسبتاً بہتر حل پیش کرے ، تاکہ خلق خدا اپنے فکرو عمل کے صراط مستقیم پر چل کر مطلوبہ کا میابی حاصل کر سکے ، اس تناظر میں اسلامی فکر اور مسلم دینیاتی روایت کی تاریخ اور اصول و کلیات ، بہت با ثروت و معقول و منضبط رہے ہیں ، کتاب و سنت ، اجماع امت اور قیاس مجتھد ین کے متعلق روشن نقوش و راہ پر مبنی قابل قدر عملی و فکری ذخیرہ ملت اسلامیہ کے پا س ہے ، دین و عقل ،جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ اور مقاصد شرعیہ کے اصول کے لیے جدو جہد اور تعبیر نو وقت کے تقاضوں کی تکمیل کے زمرے میں آتی ہے ، مجتھدین و مجد دین کے طبقات کا تسلسل تکمیل و تجدید دین ،فکر اسلامی اور مسلم دینیاتی روایت و تاریخ کا حصہ اور خیر امت ، ملت اسلامیہ کی خصوصیات میں سے ہے ، چاہے انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی جہت سے ، اس سلسلے میں ایک تعداد غیر ضروری تحفظات و تشویشات میں مبتلا رہی ہے ، تبدیل دین اور تجدید دین ،عمل تجد د اور کار تجدید میں بہت بنیادی واضح فرق ہے ، ایک مبغوض و منفی عمل ہے ،تو دوسرا مطلوب و مثبت عمل ہے ۔ غیر ذمے دار و نااہل افراد تبدیل و تجدد کا منفی مبغوض عمل فکر اسلامی کی تشکیل نو کے نام پر انجام دیتے ہیں ، جب کہ ذمے دار اہل افراد ، وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تکمیل تجدید دین کا فریضہ انجام دیتے ہیں ، یہ فکر و نظریہ کے تحفظ کے ساتھ کار تجدید بھی ہے ۔ اس سے احیائے دین کے ساتھ ، تکمیل دین اور ا س سے اطمینان بخش وابستگی کا تسلسل بھی باقی رہنے کا سامان بہم پہنچتارہتا ہے ، اس سے وابستگی رکھنے والوں کے اعتماد کو مجروح کر کے کسی بھی فکر کی تشکیل نو کا کوئی معنی و مطلب نہیں ہے ۔ دین کی حفاظت ، اجتہاد وکار تجدید میں ہے، دونوں میں تناﺅ کی حالت پیدا کرنا اور تبائن و تصادم سمجھنا ، بے دانشی و بے حسی کی علامت ہے ۔ جو زمان و مکان کے تقاضوں اور انسانی سماج کی ضرورتوں سے بے حس و بے خبر ہو،وہ کار تجدید و اجتہاد انجام نہیں دے سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں اصول و قواعد فقہ میں تفصیلی مباحث ہیں ، خلوص و اہلیت کے ساتھ اجتہاد اتنا بڑا عمل ہے کہ صواب وخطا، دونوں صورت میں اجر ملتا ہے ۔ جب کہ کار تجدید ، کسی چیز پر پڑے حجابات کو اٹھا دینے اور اسے اپنی اصل حالت پر لوٹانے سے عبارت ہے ۔ ایک کا رخ اور نظر مستقبل اور حال پر ہوتی ہے، دوسرے کا رخ ، ماضی کی بہتر اصل حالت اور عہد خیر کی طرف ہوتا ہے ،کار تجدید سے مٹے آثارکا اظہار اور غربت واجنیت کا خاتمہ ہوتا ہے ۔ جب کہ اجتہاد ، مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے حال میں در پیش مسائل و مشکلات کو حل اور دور کر نے کا عمل ہے ۔ یہ دونوں شرعاً و ضرورتاً محبوب و مطلوب عمل ہے ۔ اسے رسول پاک ﷺ کے اس رہ نما فرمان سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ‘‘خدائے قدیر ہر صدی کے آخر میں اس امت کے لیے ایک ایسے شخص کو مبعوث کرتا ہے جو امت کے لیے دین کی تجدید کرتا ہے ۔(ان اللہ یبعث لھذہ الامتہ علی راس کل مائتہ سنتہ من یجدد لھا دینھا(ابو داﺅد کتاب الملاحم )اس تعلق سے اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو الہیات اسلامیہ اور دین میں تصادم و تضاد کی نسبت و تعلق نہیں ہے بلکہ یکسانیت و موافقت کی نسبت و تعلق ہے لیکن اس کی تشکیل جدید کے مفہوم و عمل کی تعین و تفصیل میں کئی طرح کے اختلافات اور غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں ،جن کے سبب کار اجتہاد متعین سمت میں اتحاد و یکسوئی کے ساتھ جاری نہیں رہ سکا اور اس کی راہ میں کئی طرح کی رکاوٹیں بھی کھڑی ہوتی رہی ہیں ، یورپ و مغرب کے صنعتی و سیاسی اور اقتصادی و تہذیبی انقلابات اور وہاں مذہب کی پسپائی اور بھارت میں تحریک خلافت و ہجرت سے برآمد نتائج و اثرات نے کئی طرح کے سوالات و مسائل پیدا کیے اس کے پس منظر میں کئی طرح کی موافقت ومزاحمت کی شکل میں مختلف سطحوں پر کاوشیں و کوششیں بھی سامنے آئیں،23سے 30ءکے عرصے میں ڈاکٹر اقبال کی طرف سے دیے اور لکھے خطبات ،الہیات اسلامیہ کی تشکیل جدیدThe Reconstruction of religious thought in Islam  بھی مذکورہ کوششوں و کاوشوں کا حصہ ہیں ، 

اگر تشکیل جدید ،(Reconstruction)کو اجتہاد و تجدید کے معنی میں لیا جائے تو کوئی زیادہ تشویش اوردقت کی بات نہیں ہے لیکن اگر تجدد و تبدیلی کے معنی میں لیا جائے جیسا کہ تجدد پسندوں نے لے کر اپنی تحریک چلائی تو معنی و مقصدپوری طرح بدل جاتا ہے ۔ تجدد کے تناظر میں دین یا اسلام کے غائب ہوجانے کے بعد نئے اسلام کے آجانے یا عمارت اسلام کے انہدام کے بعد اس کی ازسر نو تعمیر کی بات اہل دین و دانش کے لیے ایک وحشت انگیز معنی ہے اس کے پیش نظر وہ دین کی اصلاح کے متعلق ان کے لیے سوچنا بھی بے فائدہ عمل ہے ، جب کہ مسلم سماج میں رائج کچھ افکار دین کی اصلاح کے پس منظر میں ، حالات و زمانے کی ضروریات اور تقاضوں کی تکمیل و حل مسائل کے لیے عمل اجتہاد و تجدید بالکل ایک ضروری عمل ہے ۔ جدید عصری و دینی و مذہبی علوم و فنون کے حاملین میں مطلوبہ رابطہ نہ ہونے کے سبب بہتر افہام و تفہیم کی راہ ہموار نہیں ہوسکی اور کئی طرح کی غلط فہمیاں ایک دوسرے کے حلقے میں در آئیں ، مولانا سید سلیمان ندوی ، مولانا مودودی، مولانا علی میاں ندوی ، مریم جمیلہ جیسے بہت سے حضرات کو اقبال کے اشعار و کلام میں توبڑی رہ نمائی و روشنی نظر آتی ہے ، لیکن خطبات ،الہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید میں کئی طرح کے انحرافات و خطرات نظر آتے ہیں ، مولانا سید سلیمان ندوی ؒ کو الہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید کی اصطلاع پر بھی اعتراض ہے،( رسالہ’ سہ ماہی اجتہاد‘ ،بابت جون 2007 صفحہ54)‘‘مولانا علی میاں ندوی ؒ نے بھی نقوش اقبال میں اقبال کے خطبات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ، مولانا مودودی اور مریم جمیلہ نے خطبات میں پیش کر دہ افکار و نظریات کو تضادات و فرو گزارشتوں میں شمار کیا ہے، مولانا مودودی نے اپنی کتاب تجدید و احیائے دین میں کار تجدید کی نوعیت پر جس طور سے بحث کی ہے وہ اقبال سے بہت حد تک مختلف و مخالف ہے ،

مریم جمیلہ نے (اسلام ، ایک نظریہ ، ایک تحریک صفحہ 214 تا 217) اقبال کے اس تبصرے اور رائے کو ایک بڑی غلطی قرار دیا ہے کہ انسانی فکر اور تجربے کی دنیا میں بے بایاں ترقی ہوئی ہے ، لہذا اگر ایشیا اور افریقہ کے مسلمانوں کی نئی پودکا مطالبہ ہے کہ ہم اپنے دین کی تعلیمات کا رخ پھر سے متعین کریں تو یہ کو ئی عجیب بات نہیں ،( خطبات اقبال ، الہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید صفحہ207) اس صورت حال نے مسائل کی تعبیر نو اور الہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید کی کوششوں کو مشکوک و معطل بنا کر رکھ دیا ہے لیکن اقبال کے یہاں بھی در پیش مسائل و سوالات کے حل و جواب کی راہ موجود ہے ، جب وہ کہتے ہیں کہ مجھے اجتہاد کے دروازے کو اب مزید مدت تک بند رکھنے کا کوئی حقیقی سبب نظر نہیں آتا ہے ،قرآن کریم کی یہ تعلیم کہ زندگی ایک مسلسل تخلیقی عمل ہے بجائے خود اس امر کی مقتضی ہے کہ مسلمانوں کی ہر نسل اپنے اسلاف کی رہ نمائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مسائل آپ حل کرے، (خطبات اقبال صفحہ260) اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ فکری اسلامی کی تشکیل جدید نہ سہی، بہت سے رائج مسلم دینیاتی افکار کی تشکیل جدید، یقینا قابل توجہ معاملہ ہے ۔ حضرت مولانا عبدالحمید نعمانی صاحب کی وال سے۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے