آزادئ ہند اور مسلمان



قوموں کی زندگی میں بعض واقعات اور حادثے ایسے ہوتے ہیں جو قومی زندگی کی پیشانی پر عظمت و جرأت کی علامت یا سیاہ داغ بن کر ہمیشہ باقی اور یادگار رہ جاتےہیں۔

26 جنوری ہندوستانی کلینڈر کی ایک ایسی تاریخ ہے،جس کے پیچھے انگریزی حکومت و اقتدار کے خلاف اجتماعی کوشش اور معرکہ تیغ و تفنگ کی روداد رقم ہے،جو کہ بر صغیر ہند کی تاریخ کے ایسے ہی چند ممتاز ترین اور ناقابل فراموش واقعات میں سے ہے، جو ہندوستانی قوم کی جرات و سطوت اور صلابت و استقامت کا نشان بن کر ان کی زندگی کی علامت اور ہمیشہ کے لیے یادگار رہیں گے۔

اس خونچکاں داستان کی ابتدا تب ہوئی، جب 1601ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کا رخ کیا، اور تجارت کی آڑ میں اپنی فوجی طاقت مضبوط کرنے لگے، جس کا پہلا افسوسناک سانحہ 1757ء میں پلاسی کے میدان میں رونما ہوا، جب بنگال کے نواب سراج الدولہ کی فوجیں اپنوں کی درپردہ سازش کا شکار ہو کر انگریزوں کی منظم فوج کے مقابلے شکست سے دو چار ہو گئیں۔

پھر اگلے صرف پچاس سالوں کے اندر مکمل ہندوستان انگریزوں کے زیر نگیں آ گیا۔

اس کے بعد ہندوستان کی تاریخ کا وہ سنہرا باب شروع ہوتا ہے، جس میں اسلام کے جذبۂ حریت کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ 

اسلام کی محکم تعلیمات نے حیات انسانی میں جو نمایاں تبدیلیاں کی ہیں، ان میں ایک حریت کا احیاء اور غلامی کا خاتمہ بھی ہے۔

اس تعلق سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول مشہور ہے: "متی استعبدتهم وقد ولدتهم أمهاتهم أحراراً"

(تم نے ان کو کب سے غلام بنا لیا، جب ان کو ان کی ماؤں نے آزاد پیدا کیا)

یہی وجہ ہے کہ جب انگریزی سامراج نے ہندوستان پر قبضہ کر کے یہاں کے باشندوں کو غلام بنانے کی کوشش کی، تو سب سے پہلے مسلمان، بالخصوص علماء نے ان کے خلاف آواز اٹھائی، حضرت شاہ عبد العزیز کے فتوے سے لے کر تحریک ریشمی رومال اور تحریک ترک موالات تک اسی جذبۂ حریت کی روح کار فرما تھی۔

اور اس کے نتیجے میں تاریخ عزیمت و حریت کے اوراق میں اس سنہری داستان کا وجود ہوا، جس کا آغاز اگرچہ افسوس ناک اور خون آلود ہے، لیکن اس کا انجام آزادی و انقلاب کا عنوان اور زندہ قوموں کا امتیازی نشان بن کر ظاہر ہوا۔

26 جنوری اسی آزادی و حریت کی تکمیل کا دن ہے، جب آزادی کے حصول اور غاصبوں کو ملک بدر کرنے کے بعد ہم وطنوں اور مسلمانوں کی مشترکہ کوششوں نے آزاد ملک کا ایک نیا اور آزاد آئین تیار کیا، اور اس ملک میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

لیکن آج آزادی کے پچھتر سال بعد ملک کے حالات اس رخ پر آ گئے ہیں، کہ از سرِ نو ایک نئی تحریکِ آزادی اور جہدِ حریت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، 1947ء سے قبل اس ملک پر انگریزی سامراج کا قبضہ تھا، اور آج یہاں زعفرانی سامراج خود کو ملک کا مالک سمجھتا اور کہتا ہے، چند دہائیاں قبل اس ملک میں انگریزوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو زندانی اور مجرم قرار دیا جاتا تھا، آج موجودہ ہندو توادی حکومت کے خلاف ایک حرف آپ کو پسِ زندان پہنچانے کے لیے کافی ہے۔

اس صورت میں ملک کا مسلم شہری تردد کا شکار ہے کہ خود کو آزاد تصور کر کے 26 جنوری اور آزادی کی خوشی مناۓ، یا موجودہ حالات کی نا اور ظالمانہ کارستانیوں کو یاد کر کے نام نہاد آزادی کا رونا روۓ۔ 

ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی

دن آ جاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی


مفتی محمد سلیم قاسمی، صدر جمعیۃ علماء گروگرام، ہریانہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے