کسان آندولن کو بدنام کرنے کی سازش تو نہیں ؟


کسان آندولن کو بدنام کرنے کی سازش تو نہیں ؟


از:  محمد عظیم فیض آبادی 

دارالعلوم النصرہ دیوبند

 9358163428

62 دنوں سے کسان گالیاں کھاتا رہا زہر کھا کرجانیں گنواتا اور خودکشی کرتا رہا ، آنسو گیس اور سخت سردیوں میں پانی کی بوچھاریں جھیلتارہا تو کسی بھی نیشنل چینل کی غیرت نہیں جاگی  ،سب کی زبان پر تالے لگے رہے اور سبھی تماشا دیکھتے رہے نہ اپنی ذمہ داری کا احساس رہا نہ ہی جمہوریت اور کسانوں کے حقوق کا کسی کو  خیال آیا اور آج جب کسانوں نے اپنے اوپر پڑنے والی لاٹھیوں کی مخالف کی اور بعض جگہ کسانون نے اپنے بچاؤ میں اپنے جھنڈوں میں لگے ڈنڈوں کا استعمال کیا تو دلال میڈیا کے سارے سنپولئےبلبلاکر باہر آگئے اب ان کی سوئی ہوئی آتما بیدار ہوگئی اب انھیں جمہوریت کی فکر اور ترنگے کی بے حرمتی نظر آنے لگی اورکسانوں کو دہشت گرد اور خالصتانی بتا کر دوماہ سے بھی زیادہ دنوں سے پرآمن احتجاج کو بدنام کرنے کا بیڑا اٹھالیا اور جب لا قلعہ گروہی رکھا گیا تب اسی دوگلی میڈنا کو نہ لال قلعہ کی بےحرمتی کا خیال آیا اور نہ ہی اس کی عظمت وقار کی حفاطت کی کوئی آواز اٹھائی 

 اس میں کوئی شک نہیں کہ 26 جنوری کو دہلی اور لال قلعہ میں جو کچھ ہوا وہ انتہائی افسوس ناک ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم وہ کم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ لال قلعہ کی فصیل پر جھنڈالہرانے والا دیپک سدھو کون ہے ...؟ وہ کسانوں کی کسی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے/یا کسی سیاسی پارٹی کا کار کن ہے ...؟ پھر کسانوں کو ٹرکٹر پریڈ کے لئے جو روٹ دہلی پولولس نے دیا تھا کیا لال قلعہ اس میں شامل تھا اگر نہیں تھا تو لال قلعہ پر پہنچنے والے وہ کون لوگ تھے اوروہاں کیسے پہنچے... ، ان لوگوں کو لال قلعہ پر کون لایا پھر پولس نے انھیں لال قلعہ پر آنے سے کیوں نہیں روکا...؟ جب تک غیر جانب دارانہ جانچ کے ذریعہ  ان سوالات کے جوابات تلاش نہیں کئے جاتے اور اصل مجرموں کو اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا تب تک  نہ اس حادثے کی تصویر صاف نہیں ہوسکتی اور نہ اس طرح کے حادثات سے بچا جا سکتا ہے اور اس  کے لئےکسانوں کو مجرم ٹھہرانہ کسی بھی طرح انصاف نہیں ہو سکتا

 اگر کوئی CAA  NRC کو لے کر شاہین باغ میں ہونے والے احتجاج پر گولیا چلانے والوں اور ریوالور لے کر حملے کا منصوبہ بنانے والوں کی سازش اور پلانگ پر ایک نظر ڈالےاور JNU میں لاٹھی ڈنڈوں کے ساتھ منہ پر کپڑا لپیٹے گھومنے والی ٹولیوں کا ییک بار جائزہ لے تو کسانوں کی تحریک کو بدنام کرنے ، کسانوں کےاتحاد کو پارہ پارہ کرنے اور لا قلعہ پر یونے والے حادثات کی سازش کا پتہ لگانا آسان ہو جائے گا کیوں کی ان سب میں ایک ہی طاقت اور ایک ہی سوچ کے لوگوں کی پشت پناہی حاصل تھی 

کسان تحریک بھی پرامن طریقے سے چل رہی تھی اور کسان اپنی مانگ تینوں کالے قانون کی واپسی اور MSP پر قانون بنانے کی بات کرتے رہے اور سرکار گھوماپھرا کر تاریخ پر تاریخ دیتی رہی لیکن کسانوں کو منانے میں پوری طرح ناکام رہی کیوں کہ اس قانون کو کسی بھی درجے میں تسلیم کر لینے کا صاف  مطلب کسانوں کے وجود کا خاتمہ ہے اور کسان اس بات کو بڑی اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اس لئے اب کسی بھی حال میں سرکار کے چھانسے میں آنے والے نہیں پھر سپریم کورٹ اور کمیٹی کی تشکیل کاجو کھیل کھیلا گیا وہ بھی سب کے سامنے ہے

 اس لئے  بی جے پی پوری طرح کسانوں کے سامنے بے بس ہوتی نظر آنے لگی لال قلعہ کا افسوس ناک واقعہ بھی اسی تناطر میں دیکھا جائے تو تصویر بالکل صاف ہے کہ یہ کھیل بہت پلانگ کے ساتھ کھیلا گیا ہے اور کل 28/1/2021  بروز جمعرات کو غازی پوری باڈر پر پانی بجلی بند کرکے بی جے پی کے ایم ایل اے اور ان کے ساتھ آنے والے لوگوں کے ذریعہ جو کچھ ہوا جس کی وجہ سے کسان لیڈر راکیش ٹکیٹ دکھی ہو کر رونے لگے اس کو کیا نام دیا جاسکتا ہے .....؟ یہ بتانے کی ضروت نہیں پھر آج بتاریخ 29/1/2021  بروز جمعہ سنگھوباڈر پر جو کچھ ہوا وہ سوشل میڈیا کے ذریعہ شاید آپ حضرات تک پہنچ چکا ہو کہ پولس کی موجودگی میں بوانہ نریلا گاؤں کی ایک بھیڑ کسانوں پر پتھراؤ کر رہی ہے بالکل اسی طرح جیسے شاہین باغ میں اور جامعہ میں پولیس کی موجودگی میں ایک شخص طمنچہ لے کر نشانہ لگاتا رہا 

 اور پولس تماشہ بینوں کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑی رہی اسی طرح JNU میں باہر پولس کا پہرا ہے لیکن اندر لاٹھی ڈنڈا لے کر دنگائیوں کی ٹولی گھوم رہی ہے 

اب اگر کسانوں کوئی جوابی کاروائی کرے یا اپنا دفاع کرے تو جمہوریت کو تار تار کرنے والی دلال میڈیا کسانوں کو دہشت گرد اور پنجابیوں کو خالصتانی کہنے کے لئے اپنا بھنوپو لئے کھڑی ہے لیکن پتھر برسانے والے سنگھیوں کودہشت گرد کہنے یا پولس کو اپنا فرض نبھانے کا درس نہیں دے سکتی نہ ہی سرکار کو آئینہ دکھا کے ہمت جٹا سکتی ہے 

  اس لئے لگتا ہے کہ کسانوں کے پرامن آندولن کو ختم کرنے کی سازش رچی گئی اور گنڈوں کو لگا کر پتھراؤ اور فساد کرایاگیا تاکہ پولس  وفوج لگا کر طاقت کے ذریعہ اس مضبوط آندولن کو ختم کیا جا سکے

 یادرہےکہ یہ قانون صرف کسانوں کے لئے نقصاندہ نہیں بلکہ ملک کے ہر باشندے کے لئے بحران پیدا کرنے والاہے اور ملک نہیں بلکہ وہ ممالک بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے جو ہندوستان سے درآمد برآمد کرتے ہیں 

 آج راکیش ٹکیٹ اکلیلے رویا ہے خدا نہ کرے اگر بل پاس ہوگیا تو کتنوں کو رونا پڑے گا اور پھر کوئی پرسانِ حال نہ ہوگا   


  یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر آج کسان تحریک ناکام ہوئی اور اسے طاقت کے بل بوتے پر کچل دیا گیا تو آئندہ اس تاناشاہ سرکار کے خلاف نہ کوئی آواز اٹھانے کی ہمت کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی عوامی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے اس لئے کسانوں کا ساتھ دینا ضروری بھی ہے اور عوامی تحریکات کو قوت دینا بھی تمام شہری کا حق ہے نفرت کے سوداگروں کے ذریعہ 

کھڑی کی گئی نفرت کی دیوار کوڈھانے کا موقع بھی ہے 

قانونی اعتبار سے بھی احتجاج ایک جمہوری حق ہے اور جمہوریت کی یہی سب سے بڑی خوبصورتی ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے