حسن اخلاق كى اہمیت

حسن اخلاق كى اہمیت


 عبید اللہ شمیم قاسم

حسن اخلاق اسلامی تعلیمات کا خلاصہ، حاصل اور لب لباب ہے۔ یہ کمال ایمانی کا لازمی نتیجہ اور ثمرہ ہے۔ اگر ایمان و اخلاص کے ساتھ اعلی اخلاق کسی کو نصیب ہو جائے تو اس کے ذریعہ وہ آسانی سے خالق کی خوشنودی اور مخلوق میں ہردلعزیزی بلکہ دونوں جہاں کی دائمی کامیابی حاصل کرسکتا ہے ۔


اسلام میں اخلاقیات کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ایمان و عقائد کی درستی کے بعد نیک اعمال و افعال کرتے ہوئے جب تک ایک مسلمان حُسنِ اخلاق جیسی صفت سے متصف نہ ہوجائے اس کی زندگی دوسروں کے لیے نمونۂ عمل نہیں بن سکتی۔ جب کہ ہر مسلمان دین کا داعی ہے۔ اس لحاظ سے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اخلاقِ حسنہ سے آراستہ و پیراستہ کرے۔ ابتدائے اسلام میں جہاں مجاہدینِ اسلام کی کوششوں سے اسلام کی ترویج و اشاعت ہوئی وہیں زمانۂ خیرالقرون کے نیک سیرت داعیانِ اسلام کے اخلاقِ حسنہ سے بھی اسلام خوب خوب پھیلا ۔

اسلام میں عقائد و عبادات کے بعد اگلا درجہ اخلاقیات کا ہے، اخلاق، جس کے معنی عادت اور خصلت کے ہیں، انسانوں کے باہمی تعلقات میں خوش نیتی اور اچھائی برتنے اور اس سلسلہ میں ایک دوسرے پر عاید ہونے والے فرائض کو خوش اسلوبی سے ادا کرنے کا نام اخلاق ہے۔ اخلاق کا اطلاق انسان کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی خوبیوں پر ہوتا ہے، اسلام نے اخلاق کا ایک مکمل نظام پیش کیا۔


 اسلام کے نظام اخلاق کی خوبیوں کے لئے بس یہی شہادت کافی ہے کہ وہ عرب جو اخلاق کے پست ترین نقطہ پر تھے، اسلام کے نظام اخلاق نے انہیں اس اوج کمال پر پہنچایا، جس کی بلندی تک کوئی سِتارہ آج تک نہ پہنچ سکا۔ عفو ودرگزر، حلم و بردباری، جود وسخا، صبر وتحمل، رحمت و شفقت، محبت و مودت، عدل و انصاف، نرم خوئی و خوش چینی اور عفت و پاکدامنی اسلام کے اخلاق حسنہ کی وہ تابناک کڑیاں ہیں، جن سے یہ پورا نظام جگمگا رہا ہے، حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے ہجرت حبشہ کے وقت نجاشی کے دربار میں جو ولولہ انگیز تقریر کی تھی، اسلام کے نظام اخلاق کی اس میں بہترین تصویر کشی کی گئی ہے، آپ نے بادشاہ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا:

’’ أیها الملک! ہم جاہل تھے، بتوں کی عبادت کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، بے حیائیوں کے مرتکب تھے، قرابتوں کو قطع کرتے تھے، پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے، قوی ضعیف کو کھا جاتا تھا، ہم جاہلیت کی اسی وحشت کا شکار تھے، کہ اللہ نے ہم ہی میں پیغمبر مبعوث فرمایا، ایسا پیغمبر کہ جس کا حسب اور جس کا نسب، جس کا صدق اورجس کی دیانت، جس کی امانت اور جس کی عفت ،سب سے ہم خوب واقف ہیں،اس نے ہمیں توحید ربانی کی دعوت دی ،بے جان پتھروں اور بتوں کی پرستش کو یکلخت چھوڑ دینے کی ہدایت کی ،بات کی سچائی اور امانت کی ادائیگی، اپنوں کے ساتھ صلہ رحمی، اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک، حرام کاموں سے رکنے اور فساد و خونریزی سے بچنے کا حکم دیا، بے حیائی سے ہمیں روکا، ناحق بات کرنے کی ممانعت کی، یتیم کا مال کھانے سے منع کیا، پاک دامن پر تہمت سے بچنے کی تاکید کی، اور ہمیں حکم دیا، کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، صرف اسی کی عبادت کریں اور نماز پڑھیں، زکوۃ دیں اور روزہ رکھیں۔‘‘ (سیرۃ ابن ہشام ج1 ص 336)۔

آپ ﷺ کو اللہ کریم جل جلالہ نے اخلاقِ حسنہ کا پیکرِ حسین بنایا اورآپ کی ذات کو جمیل اور اخلاق کو عظیم قرار دیا ۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: "وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ" ’’اور تو پيدا ہوا ہے بڑے خلق پر‘‘ (سورۃ القلم آیت:٤، ترجمہ شيخ الهند)

قرآن جس نيكى، جس خوبى اور بھلائى كى طرف دعوت ديتا هے وه آپ ميں فطرة ًموجود  اور جس بدى سے روكتا هے آپ طبعا اس سے نفور وبيزار هيں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاقی پہلو سے اپنی بعثت کی تکمیلی حیثیت کا اعلان فرمایا، ارشاد ہے: "إنما بعثت لأتمم مکارم الأخلاق" (رواه البخاري في الأدب المفرد: 273)’’میں اخلاق حسنہ کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں ‘‘۔

مسند احمد كى روايت ميں صالح الأخلاق كا لفظ آيا ہے: عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ صَالِحَ الْأَخْلَاقِ" (أحمد، رقم ٨٩٥٢).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ میں اچھے اخلاق کو اُن کے اتمام تک پہنچانے کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں ۔‘‘

ایمان سے بڑھ کر اسلام میں اور کیا چیز ہوسکتی ہے، تاہم اخلاق کے بغیر اس کی تکمیل ممکن نہیں، فرمایا گیا:  

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا» سنن أبي داود (4682)’’مؤمنين میں کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں ‘‘۔


آج اگر هم اپنے ارد گرد اور معاشرے پر نظر ڈاليں تو يہ  صفت ہمارے اندر سے مفقود ہو رہى ہے اور حسن اخلاق كى جگہ بد خلقى نے معاشرے ميں جنم  لے ليا هے، اس ليے جس طرح ہم عبادت كے ليے كوشاں رهتے ہيں اسى طرح اچھے اخلاق اور ايک دوسرے كے ساتھ حسن خلق، نرمى اور اچھے برتاؤ كرنا بھى چاہيے تاكہ ہمارى زندگى تمام شعبوں ميں حسن  خلق كا ايسا نمونہ ہو جس سے دوسرے بھى متاثر ہوں اور اس صفت كے ساتھ خود كو متصف كرنے كى كوشش كريں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے