ایک مومن کامل کی رحلت



ایک مومن کامل کی رحلت

 وفات حضرت مولانا نذیر احمد نعمانی مئوی ؒ 

(1358ھ/1442ھ-1939ء/2021ء)

  عبید اللہ شمیم قاسمی 

گذشتہ 12/ فروری 2021ء بروز جمعہ کو اچانک یہ اطلاع ملی کہ مئو ناتھ بھنجن کی مشہور علمی شخصیت حضرت مولانا نذیر احمد نعمانی صاحب رحمہ اللہ کا سانحہ وفات پیش آگیا ہے اس خبرنے دل کو مغموم اور قلب کو غمگین کردیا،خبر کو سن کر یقین نہیں ہورہا تھا مگر پھر یقین کرنا پڑا اوردیر تک انا للہ کا ورد کرتا رہا۔

یہ دنیا چند روزہ ہے، اس کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے،باقی رہنے والی ذات صرف اللہ رب العزت کی ہے، ارشاد باری تعالی ہے﴿کل من علیها فانٍ، ویبقی وجهُ ربک ذو الجلال والإکرام) [الرحمن: 27، 28] انسان جو اشرف المخلوقات ہے وہ بھی اس دنیا میں اپنی حیات مستعار کے چند روز گذار کر رب کریم کی بارگاہ میں واپس چلا جاتا ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: ﴿کل نفس ذائقة الموت ثم إلینا ترجعون﴾ (العنکبوت: 57)۔لیکن پھر بھی انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسی شخصیت جس کے فیض سے لوگ مستفیض ہورہے ہوں اس کی زندگی اور طویل ہو۔ مگر جب موت کا وقت آجاتا ہے تو اس میں کسی طرح کا تقدم وتاخر نہیں ہوسکتا، ارشاد باری تعالی ہے:  ﴿إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ﴾ [يونس: 49]

اور موت زندوں اور مردوں کے درمیان ایسی دیوار کھڑی کردیتی ہے، جس سے ان کے مابین زندگی میں موجود سارے روابط ٹوٹ جاتے ہیں، موت وحیات کا یہ فلسفہ اسی لیے ہے تاکہ نیکو کاروں کو ان کا اجر دیا جائے،اور نیک وبد میں فرق کیا جائے، ارشاد باری تعالی ہے: (الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم أیکم أحسن عملا) (الملک: ۲)۔

اس لیے اس دنیامیں جن شخصیتوں سے کسی بھی نوعیت کا رابطہ ہوتا ہے، یا ان کی بہت زیادہ خدمات ہوتی ہیں، ان کے یہاں سے رخصت ہو کر دار آخرت کی طرف روانہ ہونے پر غم کا ہونا ایک فطری امر ہے، جس کا اظہار آنسوؤں اور جانے والے کے اوصاف وکمالات کی یادوں سے ہوتا ہے،لیکن بعض حادثات ایسے ہوتے ہیں کہ وقتی طور پر اس کا بہت اثر ہوتا ہے اور بہت دیر تک اثر باقی رہتا ہے۔

مشہور عرب شاعر عبدۃ بن الطبیب نے قیس بن عاصم التمیمی کی وفات پر یہ شعرکہا تھا:

وما کان قیس هُلکُه هُلک واحد ولکنه بنیان قوم تهدّما

آپ کی وفات کا اثر پورے ملک اور خاص طور پر مؤ ضلع کے علمی اور روحانی اور مدارس کے حلقوں میں اتنی شدت سے محسوس کیا گیا کہ یہ شعر آپ کی وفات پر صادق آتا ہے، جو اردو شاعر نے کہا ہے   ؎

بچھڑا وہ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرماتے ہوئے سنا:  «إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا» (صحیح البخاری، باب کیف یقبض العلم، حدیث نمبر:100) اللہ تعالی علم کو واپس نہیں لے گا کہ لوگوں کے ہاتھ سے قبض کرے بلکہ علماء کو وفات دے کر علم کو واپس لے گا، اس حدیث کا ظہور آج کل کثرت وشدت سے ہورہا ہے، اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی، ادھر چند ماہ میں علمائے حق جس تیزی سے اٹھتے جارہے ہیں اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر چل چلاؤ کایہ سلسلہ اسی طرح اگر جاری رہا تو علمی مجلسیں سونی ہوجائیں گی۔

ذیل میں حضرت مولانا نذیر احمد نعمانی صاحب نور اللہ مرقدہ کی شخصیت کے چند نمایاں نقوش پر روشنی ڈالنے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔

حضرت مولانا نذیر احمد کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے مردم خیز علاقہ مؤ ناتھ بھنجن میں 17/شوال المکرم 1358ھ مطابق 19/ نومبر 1939ء کو ایک علمی گھرانے میں ہوئی۔اُس وقت مئو اعظم گڑھ کا ایک مشہور صنعتی قصبہ تھا جو 1988ء میں ضلع بن گیا۔

آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے: مولانا نذیر احمد بن مولانا حکیم محمد فاروقؒ بن حاجی عصمت اللہ سیٹھؒ بن حاجی عبد الغفورؒ بن منور ؒبن بابوؒ بن دین محمدؒ ساکن پہاڑ پور ضلع مئو ناتھ بھنجن۔ 

آپ کے والد صاحب مولانا حکیم محمد فاروق صاحب(متوفی 1983ء) ایک طبیب حاذق کے ساتھ ایک بہت ہی متدین شخصیت تھی جن کا اہل اللہ سے خصوصی ربط تھا، وقت کے تمام اکابر کے یہاں آپ کی آمد ورفت رہتی تھی، مشرقی یوپی کے مشہور بزرگ اور حضرت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ کے خلیفہ مصلح الامت حصرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب فتح پوری ثم الہ آبادی کی بارگاہ میں کثرت سے آمد ورفت رہا کرتی تھی، حضرت شاہ صاحب نے آپ کو اجازت سے نوازا تھا، آپ حضرت شاہ صاحب کے مجاز صحبت تھے۔

اسی زمانے سے تمام اکابر علماء کی آمد آپ کے در دولت پر رہا کرتی تھی جس کا سلسلہ آج تک قائم ہے، اللہ تعالی اس سلسلہ کو ہمیشہ قائم ودائم رکھے۔

 پرورش اور ابتدائی تعلیم: 

مولانا کی پرورش اور نشو ونما جس دینی ماحوال میں ہوئی تھی اس کا اثر آپ کی پوری زندگی میں نمایاں رہا، یہی وجہ تھی کہ کم عمری ہی سے دینی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، سب سے پہلے محلہ کادی پورہ مؤ کی بڑی مسجد میں حافظ شیر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ابتدائی اردو اور عربی پڑھی، اس کے بعد دارالعلوم مؤ کے پرائمری درجات میں داخل ہوئے، جہاں پرائمری درجات سے منشی تک اور درجات عالیہ میں عربی دوم تک تعلیم حاصل کی۔

دارالعلوم مئو میں جن اکابر اساتذہ کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ تہ کیا وہ سب اپنے وقت کامل ولی اللہ تھے، جن میں حضرت مولانا قاری ریاست علی صاحب بحری آبادی (1313ھ/1895ء-1392ھ/1972ء)جو بڑے قاری صاحب کے نام سے مشہور تھے، جو عاشق رسول، لاجواب واعظ اور بے مثال مدرس تھے، اور دارالعلوم مؤ میں درجات تجوید وقرأت کے ساتھ شیخ الحدیث اور صدر مدرس کے منصب پر فائز تھے، ان سے آپ نے ہدایۃ النحو پڑھی۔

نیز صاحب کشف بزرگ حضرت مولانا محمد امین صاحب ادروی (1314ھ/1896ء-1393ھ/1973ء) سے منطق کی مشہور کتاب شرح تہذیب پڑھنے کی سعادت پائی۔

اسی طرح حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب اعظمی (1328ھ-1420ھ/ 1910ء-2000ء) جنہوں نے دارالعلوم مئو میں پچیس سال تک تدریسی خدمات انجام دیں اور بعد میں دارالعلوم دیوبند میں صدر مفتی کے عہدے پر فائز ہوئے اور تقریبا پینتیس سال تک دارالعلوم دیوبند میں فقہ وفتاوی کی خدمت انجام دی، ان سے آپ نے نور الایضاح پڑھی۔مذکورہ تینوں اساتذہ دیار مشرق کے مشہور بزرگ مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب فتح پوری ثم الہ آبادی کے دست گرفتہ اور خلیفہ ومجاز تھے۔ ان اساتذہ کرام کی صحبت کا اثر تھا کہ دوران طالب علمی فتح پور تال نرجا کبھی کبھی آپ بھی حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں اپنے اساتذہ کر ہمراہ حاضری دیا کرتے تھے۔ اسی طرح آپ کے اساتذہ میں مولانا حکیم انوار احمدکوپاگنجی بھی تھے جن سے آپ نے دروس الادب پڑھی تھی۔شیخ الاسلام حضرت مدنی کے شاگرد اور خلیفہ حضرت مولانا مشتاق احمد صاحب سے علم الصیغہ اور متن شرح تہذیب پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

اس کے بعد اعلی تعلیم کے حصول کے لیے آپ نے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا جہاں 1954ء کے اواخر میں شرح جامی کے سال میں داخل ہوئے،اس وقت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ باحیات تھے اور صدر المدرسین اور شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز تھے۔

آپ کو تقریباسات سال تک دارالعلوم دیوبند میں استفادہ کا موقع ملا، 1961ء میں دورۂ حدیث شریف سے آپ کی فراغت ہوئی، آپ نے بخاری شریف حضرت مولانا سید فخر الدین صاحب مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ(1307ھ-1392ھ/1889ء-1972ء) سے پڑھی، ان کے علاوہ جن اساتذۂ کرام سے فیض یاب ہوئے ان کے اسماء درج ذیل ہیں:

حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاویؒ(1304ھ-1387ھ/ 1887ء-1967ء)سے مسلم شریف اور ترمذی شریف، حضرت مولانا فخر الحسن صاحب(1323ھ-1400ھ/ 1905ء-1980ء) سے ابوداود شریف اور بیضاوی شریف، حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب (1337ھ-1431ھ/ 1919ء-2010ء)سے نسائی، ابن ماجہ، مشکاۃ شریف، حسامی، سراجی، اور مقامات حریری، حضرت مولانا ظہور احمد صاحب(1318ھ-1383ھ/ 1900ء-1963ء) سے موطأ امام مالک اور موطأ امام محمد،حضرت مولانا معراج الحق صاحب (1328ھ-1412ھ/1910ء-1991ء)سے مختصر المعانی، دیوان متنبی، دیوان حماسہ اور سبعہ معلقہ، حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب کشمیری (1347ھ-1429ھ/1929ء-2008ء)سے سلم العلوم اور شرح جامی، حضرت مولانا ہارون صاحب سے کنز الدقائق اور قطبی، حضرت مولانا سید حسن صاحب (1334ھ-1381ھ/1916ء-1961ء)سے ترجمہ کلام پاک، حضرت مولانا نعیم احمد صاحب دیوبندی (1337ھ-1428ھ/1919ء-2007ء)سے جلالین شریف، حضرت مولانا اخترحسین صاحب(1316ھ-1397ھ/1898ء-1977ء)سے ہدایہ اولین اور حضرت مولانا فیض علی شاہ صاحب سے شرح عقائد نسفی پڑھی۔

فراغت کے بعد مزید ایک سال قیام رہا جس میں مختلف فنون کی کتابیں پڑھیں۔

حضرت مولانا بشیر احمد صاحب بلند شہری (متوفی 1386ھ/1966ء)سے ہدایہ اخیرین، شیخ عبد الوہاب مصری سے سیرت کی کتابیں اور مولانا عزیز احمد صاحب قاسمی سے انگریزی کی کتابیں پڑھیں۔ 

آپ نے دارالعوم مئو میں تدریس کے زمانے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہائی اسکول کا امتحان بھی دیا۔

 تدریسی خدمات: 

 فراغت کے فورا بعد دارالعلوم مئو کے ارباب حل وعقد کی نگاہ انتخاب آپ پر پڑی اور آپ نے دارالعلوم مئو سے تدریسی خدمات کا آغاز فرمایا جو کم وبیش ستائیس سال تک جاری رہا، جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ ابتدائی چند سال (1961ء سے 1968ء) تک باقاعدہ تدریس کا فریضہ انجام دیا، اس دوران مختلف کتابوں کا درس دیا، جن میں نحو میر، شرح ماۃ عامل، علم الصیغہ، ہدایۃ النحو، دروس الادب، اصول الشاشی، نور الایضاح، نور الانوار، شرح وقایہ، قطبی، سلم العلوم وغیرہ کتابی زیر درس رہیں۔

1968ء کے بعد تجارتی مشغولیت کی بنا پر تدریسی سلسلہ منقطع ہوگیا مگر اس زمانے میں بھی تقریبا بیس سال تک نور الایضاح اور شرح وقایہ کا درس دیتے رہے اور یہ خدمت لوجہ اللہ انجام دی، یہی وجہ رہی کہ آپ کا شرح وقایہ کا درس بہت مشہور تھا۔ 1964ء سے آخر حیات تک آپ دارالعلوم مئو کی تعلیمی کمیٹی کے رکن بھی رہے۔

 ملی خدمات: 

آپ نے اپنی پوری زندگی قوم وملت کے لیے وقف کردی تھی، جمعیت علماء ہند کے پلیٹ فارم سے آپ نے ہمیشہ قوم وملت کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں،آپ جمعیۃ علماء مئو کے سرپرست تھے، اس کے علاوہ آپ نے سماجی خدمات کے لیے اہل مئو کی ١٩٩٠ء میں مجلس تعمیر وملت کے نام ایک تنظیم بنائی تھی جس کا مقصد قوم کے غریب ونادار افراد کی خدمت اور ان کی تعلیمی، تعمیری اور دیگر ضروریات کی تکمیل تھی، اس تنظیم میں ہر مکتبۂ فکر کے لوگ موجود رہے اور آپ کو اس کا صدر بنایا گیا، اس تنظیم نے بہت قلیل مدت میں بہت نمایاں خدمات انجام دیں۔ اس تنظیم کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کا کام بھی انجام پاتا رہا، حکام وقت بھی اس تنظیم کے کام سے بہت خوش تھے اور ان کا تعاون بھی اس میں شامل رہا۔

 چند نمایاں خصوصیات: 

آپ ایک کامل مومن تھے، مومنین کی صفات قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں جو بیان کی گئی ہیں وہ تمام آپ کے اندر موجود تھیں، ارشاد باری تعالی ہے ﴿لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴾ [البقرة: 177] نیکی کچھ یہی نہیں کہ منھ کرو اپنا مشرق کی طرف یا مغرب کی، لیکن  بڑی نیکی تو یہ ہے کہ جو کوئی ایمان لائے اللہ پر اور قیامت کے دن پراور فرشتوں پر اور سب کتابوں پر اور پیغمبروں پر، اور دے مال اس کی محبت پر رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میں اور قائم رکھے نماز اور دیا کرے زکوۃ، اور پورا کرنے والے اپنے اقرار کو جب عہد کریں اورصبر کرنے والے سختی میں اور تکلیف میں اور لڑائی کے وقت، یہی لوگ ہیں سچے اور یہی ہیں پرہیز گار۔(ترجمہ شیخ الہند)

امام بخاری نے اس آیت کریمہ کو کتاب الإیمان میں باب أمور الإیمان کا ترجمہ قائم کرکے پیش کیا ہے، اس کے بعد یہ حدیث ذکر کی ہے: عن أبي هریرة رضي الله عنه عن النبي ﷺ  قال: "الإیمان بضع وستون شعبة، والحیاء شعبة من الإیمان" (حدیث نمبر:۹)یعنی ایمان کے ساٹھ سے کچھ زائد شعبے ہیں اور حیا ایمان کا شعبہ ہے۔

یعنی ایمان کے تمام شعبوں میں آپ نے خدمات انجام دیں، غریب، مسکین اور بے قصور گرفتار افراد کی داد رسی اور خیر کے تمام امور میں آپ سبقت کرنے والے تھے۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے نیک لوگوں کے اوصاف کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ویطعمون الطعام علی حبّه مسکیناً ویتیماً وأسیراً، إنما نطعمکم لوجه الله لا نرید منکم جزاءً ولا شکوراً﴾ اور کھلاتے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو، ہم جو کھلاتے ہیں خالص اللہ کی خوشی چاہنے کو نہ ہم تم سے چاہیں گیبدلا اور نہ چاہیں گے شکر گزاری، (ترجمہ شیخ الہند)

اس آیت کی تفسیر کرتے علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ تحریر فرماتے ہیں: یعنی اللہ کی محبت کے جوش میں اپنا کھانا باوجود خواہش اور احتیاج کے نہایت شوق اور خلوص سے مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھلا دیتے ہیں۔

حضرت مولانا بھی بہت سے غریب نادار اور محتاج لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے اور ان کی تمام ضروریات کی کفالت فرماتے تھے۔

 علماء سے محبت اور مہمان نوازی: 

آپ کو تمام اکابر سے محبت تھی، اسی وجہ سے جب کسی بھی عالم کا مؤ یا اس کے اطراف میں سفر ہوتا تو ضرور خدمت میں حاضر ہوتے اور ملاقات کرتے، اسی طرح اگر کسی عالم کا مؤ کا سفر ہوتا تو اس کو اپنے یہاں مہمان بناتے اور اس کی ہر طرح تکریم فرماتے۔اس طرح ایک مومن کی جوعلامت حدیث شریف میں بیان کی گئی ہے اس پر آپ عمل پیرا ہوتے: ”من کان یؤمن بالله والیوم الآخر فلیکرم ضیفه“ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے (صحیح بخاری: 6018،وصحیح مسلم: 47)۔

حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند (جو راقم السطور کے خسر تھے) سے بہت زیادہ محبت عقیدت اور لگاؤ تھا، ان سے آپ کا تعلق اس زمانے سے شروع ہوا جب حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمی دارالعلوم مؤ میں استاذ تھے، مئو کے زمانے سے جو تعلق قائم ہوا تھا وہ آپ کی اخیر زندگی تک قائم رہا، حضرت شیخ مئو میں فیملی کے ساتھ رہتے تھے اور اور حضرت مولانا مرحوم سے گھریلو تعلقات تھے، اہلیہ اور بچوں کا آپ کے یہاں آنا جانا بالکل اہل خانہ کی طرح تھا، جب حضرت شیخ ارباب دارالعلوم دیوبند کی طلب پر دیوبند چلے گئے تو دارالعلوم مئو کی انتظامیہ نے اس تعلق کی وجہ سے آپ کو مولانا سلطان الحق صاحب ناظم اور دوسرے افراد کو دیوبند بھیجا تاکہ شیخ کو دوبارہ مئو لایا جاسکے، مگر حضرت شیخ نے دارالعلوم دیوبند کی ضرورت کو ترجیح دی اور وہیں قیام رہا، مگر اس کے بعد جب بھی حضرت شیخ کا مئو کا سفر ہوتا یا اطراف میں تشریف لاتے تو مولانا مرحوم کے یہاں ضرور تشریف لاتے اور قیام فرماتے، اخیر میں جب حضرت مولانا کو مختلف بیماریوں نے آگھیرا اور بصارت بھی کمزور ہوگئی تو یہ ذمہ داری آپ کے لائق فرزند مولانا انظر کمال صاحب قاسمی انجام دینے لگے۔

اسی طرح دارالعلوم دیوبند کے دیگر اساتذہ کا اگر مئو کا سفر ہوتا تووہ آپ ہی کے مہمان ہوتے اور اس سلسلے میں آپ نے اپنے جانشین مولانا انظر کمال صاحب کو زندگی ہی میں وصیت کررکھی تھی کہ دارالعلوم دیوبند کی نسبت سے اگر کوئی ادنی خادم بھی آجائے تو دل وجان سے اس کی خدمت کرنا۔

ہم نے بارہا دیکھا کہ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند وصدر جمعیۃ علماء ہند(جو کہ آپ کے رفیق درس تھے) کا جب بھی اعظم گڑھ، مئو یا اطراف میں کہیں کا سفر ہوتا تو آپ ملاقات کے لیے ضرور تشریف لاتے، اپنے یہاں بھی آنے کی دعوت دیتے، اور بہت سی ایسی باتیں جو حضرت مولانا سے کسی کی کہنے کی ہمت نہیں ہوتی آپ بے تکلف وہ بات کہہ دیتے، ایک مرتبہ کوپاگنج میں جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام ایک جلسہ تھا، حضرت مولانا تشریف لائے تھے اور جلسے میں تقریر فرمائی اور تقریر ختم کے قریب تھی تو آپ نے کہا تھوڑا سا مدرسہ تعلیمی بورڈ کے سلسلے میں بھی کچھ کہہ دیں تو حضرت مولانا نے اس موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی، اس وقت مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی اور مدرسہ تعلیمی بورڈ کو قائم کرنے پر حکومت زور دے رہی تھی۔

 دیگر خصوصیات: 

اللہ تعالی نے حضرت مولانا کو بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا،آپ علم وفضل، زہد وتقوی، اخلاص وللہیت، تواضع وانکساری کے مجسم نمونہ تھے، اللہ تعالی نے آپ کو ایک ایسا دل دیا تھا جوانسانیت کے لیے دھڑکتا تھا، اور انسایت کی خدمت اپنا شیوہ بنا رکھا تھا، اگر کوئی اجتماعی آفات آجاتی تو ایسے وقت میں آپ تڑپ اٹھتے اور اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ہمہ وقت خدمت کے لیے تیار ہوجاتے اور جب تک مصیبت زدہ لوگوں کی دادرسی نہ کرلیتے آپ کو چین نہیں آتا تھا۔

اللہ تعالی نے آپ کو خوشحال گھرانے میں پیدا فرمایا تھا، اور تدریس کی ابتدائی مدت کے بعد آپ نے خود کو تجارت کے لیے فارغ کرلیا تھا، اس وجہ سے آپ نے اس مالداری کو اپنے دین کا ذریعہ بنایا۔

کسی کے پاس عمدہ لباس کا ہونا، مکان کا ہونااور مال کا ہونا یہ مذموم نہیں ہے، امام اعظم ابو حنیفہؒ اور امام محمد ؒ بڑے تاجر تھے؛لیکن کسی کی مجال نہیں جو ان حضرات کو دنیا دار کہہ سکے، اور یہ اس لیے کہ دنیا داری اس کا نام ہے کہ مال اور اس کی محبت دل کے اندر پیوست ہو، باقی اگر کسی کے اندر مال کی محبت نہ ہو تو اس کو دنیا داری نہیں کہیں گے، شیخ سعدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں   ؎

چوں ہر ساعت ازتو بجائے رود دل بہ تنہائی اندر صفائی نہ بینی

یعنی جب ہر گھڑی ایک جانب تمہارا دل جاتا رہے گا تو تم خلوت اور تنہائی میں بھی اپنے دل میں صفائی نہ دیکھ سکو گے۔

گرت مال وجاہ است وزرع وتجارت چو دل باخدایست خلوت نشینی

یعنی ہاں اگر تمہارے پاس مال وجاہ ہے اور زراعت اور تجارت بھی ہے تو اگر تمہارا قلب اس سے فارغ ہے اور خدا تعالی کی جانب راغب ہے تو تم اس حالت میں بھی خلوت نشین ہی ہو۔

چنانچہ بزرگان دین کا یہی حال ہوتا ہے کہ اگر ان کے پاس مال ہوتا ہے تو دل میں اس کی محبت نہیں ہوتی۔

مسند الفردوس میں امام دیلمی نے ایک لمبی روایت نقل کی ہے،جسے صاحب کنز العمال نے نقل کیا ہے، جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے: ”اللهم أعني علی دیني بالدنیا وعلی آخرتي بالتقوی“ (کنز العمال 2/695)یعنی اے اللہ! میرے دین میں مال کے ذریعہ اور میری آخرت میں تقوی کے ذریعہ میری مدد فرمائیے۔

 لذت بیدارئ شب: 

استاذ محترم حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب دامت برکاتہم العالیہ اپنی کتاب ’’پس مرگِ زندہ‘‘ میں حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ کے تذکرہ میں تحریر فرماتے ہیں:

’’کوئی عالم، مصنف، اہل قلم، داعی، فقیہ، محدث، قائد دینی، مصلح اجتماعی؛ بل کہ ادیب، شاعر اور فن کار خواہ کتنا ہی قد نکال لے، وہ محض علم واطلاع کے بل بوتے پر اور صرف ذہانت وذکاوت، عقل وعبقریت، دور نگاہی وروشن خیالی کے سہارے، اپنے کام میں برکت کا نور، مقبولیت کی سحر کاری، قدر افزائی وپسندیدگی کی جاذبیت پیدا نہیں کرسکتا؛ اگر اس کے کام کا خمیر خونِ جگر، نورِ تقوی، تب وتابِ اخلاص، بے تابیئ عشق رسول، سرشاریئ محبت الہی، لذت سحر خیزی، ذوق عبادت اور شوق ریاضت سے نہ اٹھا ہو۔ یہی وہ چیز ہے جو کسی عمل کو صاحب عمل  کے لیے اور خلق خدا کے لیے، ذریعہ فائدہ رسانی اور باعث حیاتِ جاودانی بنادیتی ہے‘‘۔(پس مرگ زندہ صفحہ ۵۵۴)

آپ کا دن جہاں تجارت کی مشغولیت کے ساتھ مخصوص اوقات میں درس میں صرف ہوتا وہیں آپ کی راتیں عبادت اور’’آہ سحر گاہی‘‘ سے معمور تھیں، بندگی کا وہ درجہ آپ کو بھی نصیب تھا جہاں بیدارئ شب کی لذت اور آہ سحرگاہی کے سامنے دنیا کی تمام لذتیں انسان کو ہیچ محسوس ہوتی ہیں،جس کی تعبیر علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کی ہے ؎

واقف ہو اگر لذت بیدار ئ شب سے

اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار

اور ؎

عطار ہو رومی ہورازی ہو غزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی

 قرآن کریم میں عبادت گزار بندوں کا تذکرہ اللہ رب العزت نے یوں فرمایا ہے:﴿تتجافی جنوبهم عن المضاجع یدعون ربهم خوفاً وطمعاً﴾(سورۃ السجدۃ: 16)،ان کے پہلو راتوں کو خواب گاہوں سے دور رہتے ہیں، اور وہ پروردگار کو امید وخوف کے ساتھ پکارتے ہیں۔ اسی طرح متقیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ایک جگہ ارشاد فرمایا: ﴿کانوا قلیلاً من اللیل ما یهجعون، وبالأسحار هم یستغفرون﴾ (سورة  الذاریات: 17، 18)یہ لوگ راتوں میں بہت کم سوتے ہیں اور صبح کے وقت یہ لوگ استغفار کرتے ہیں۔ آپ بھی اذان فجر سے پہلے اٹھتے اور تہجد اور اپنے معمولات سے فارغ ہوجاتے۔حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند نے آپ کو اجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا تھا۔

 نظام الاوقات کی پابندی: 

وقت انسان کی بہترین پونجی اور گرانمایہ سرمایہ ہے، آپ کی پوری زندگی نظام الاوقات کی پابند تھی، تاریخ میں جتنی علمی شخصیات گزری ہیں، جنہوں نے عظیم تصنیفی کارنامے انجام دیئے ہیں،ان کی پابندئ نظام الاوقات ضرب المثل ہے اور یہی ان کے کارناموں کا بنیادی راز بھی ہے۔آپ بھی نظام الاوقات کے پابند تھے اور اس پر سختی سے عمل پیرا تھے۔

مولانا محمد حسین آزاد اپنی مشہور کتاب ’’نیرنگ خیال ‘‘میں وقت کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:

’’وقت ایک پیرہن کہن سال کی تصویر ہے، اس کے بازوؤں میں پریوں کی طرح پر پرواز لگے ہیں کہ گویا ہوا میں اڑتا چلا جاتا ہے، ایک ہاتھ میں شیشہ ساعت ہے کہ جس سے اہل عالم کو اپنے گزرنے کا انداز دکھاتا جاتا ہے اور ایک میں درانتی ہے کہ لوگوں کی کشت امید یا رشتہ عمر کو کاٹا جاتا ہے یا ظالم خونریز ہے کہ جودانا ہیں اسے پکڑ کر قابو میں کرلیتے ہیں، لیکن اوروں کی چوٹیاں پیچھے ہوتی ہیں اس کی چوٹی آگے رکھی ہے، اس میں نکتہ یہ ہے کہ جو وقت گزر گیا وہ قابو میں نہیں آسکتا، ہاں جو پیش بین ہو وہ پہلے ہی سے روک لے‘‘۔(نیرنگ خیال صفحہ:۱۱)۔

 اخلاق وعادات: 

آپ بہت ہی بلند اخلاق کے حامل تھے،آپ کے مزاج میں نرمی اور حد درجہ سادگی تھی، حدیث شریف میں اللہ کے رسول ﷺ کے اخلاق کے سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: کان خُلقہ القرآن، اسی طرح آپ کی زندگی بھی سنت نبوی کا نمونہ تھی۔

اخلاق وعادات وکردار اور عبادات زندگی کے ہر گوشے میں آپ سنت پر عمل کرتے، آپ اللہ رب العزت کے مقرب بندوں میں تھے، روایت میں آتا ہے، حدیث قدسی ہے:  " وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ"، الحدیث، بندہ برابر نوافل کے ذریعہ میرا کا قرب حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ میرا محبوب ہوجاتا ہے، اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں۔(صحیح البخاری: 6502)۔

بخاری شریف کی روایت ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ العَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحْبِبْهُ، فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبُّوهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ القَبُولُ فِي الأَرْضِ"(صحیح البخاری، حدیث نمبر: 3209) جب اللہ رب العزت کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت حضرت جبریل علیہ السلام آسمان میں ندا لگاتے ہیں: اللہ تعالی فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر اس کے لیے زمین پر قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ مؤ شہر میں جہاں مختلف مکاتب فکر کے لوگ رہتے ہیں آپ کو ان تمام میں محبوبیت تھی اور آپ کی شخصیت سب کے نزدیک مسلم تھی۔

 وفات حسرت آیات: 

حضرت مولانا کو بڑھتی عمر کے ساتھ مختلف بیماریوں نے گھیر لیا تھا، اکثر بیمار رہا کرتے تھے، بینائی کمزور تھی، آخر میں بالکل زائل ہوگئی تھی، سال گذشتہ جب زیادہ بیمار ہوئے تو ممبئی علاج کے لیے تشریف لے گئے اور علاج کے بعد کچھ افاقہ ہوا تو وطن واپسی کا ارادہ کیا، مگر اسی دوران پورے ملک میں موجودہ کورونا وائرس کی وجہ سے سخت لاک ڈاون لگا تھا، جس کی وجہ سے آمد ورفت بالکل بند تھی، کسی طرح ان کو ایمبولینس کے ذریعہ مئو لایا گیا، کبھی کبھی افاقہ ہوتا، کبھی طبیعت زیادہ خراب ہوجاتی، اسی دوران اکتوبر 2020ء میں جب میرا ہندوستان کا سفر ہوا تھا تو مولانا کی عیادت کے لیے مئو کا سفر کیا تھا، اُس روز طبیعت ٹھیک تھی، اور طبیعت میں بشاشت تھی، ملاقات ہوئی اور بہت دیر تک حضرت مدنی قدس سرہ اور دوسرے بزرگوں کے واقعات سناتے رہے، اور پھریہاں ابو ظبی آنے کے بعد ایک دو مرتبہ فون سے بات ہوئی اور خیریت معلوم ہوتی رہی اور پھر اچانک 29/جمادی الاخری 1442ھ مطابق 12/فروری 2021ء بروز جمعہ غروب آفتاب کے وقت علم وعمل کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا، اور آنا فانا ملک کے پورے گوشے حتی کہ بیرون ملک آپ کی وفات کی خبر عام ہوگئی، دوسرے روز ظہر کے بعد پہاڑپور عید گاہ کے میدان میں ایک بہت بڑے مجمع کی موجودگی میں آپ کے فرزند اور جانشین مولانا انظر کمال قاسمی صاحب کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور اس امانت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سپرد خاک کردیا گیا، رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ

آپ کے پسماندگان میں پانچ لڑکے اور چار لڑکیاں ہیں، سب سے بڑے مولانا مولانا انظر کمال صاحب قاسمی جو دارالعلوم دیوبند کے فاضل جید الاستعداد عالم دین ہیں، مدرسہ مرقاۃ العلوم میں حدیث شریف کے استاذ ہیں، ابو المآثرحضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب محدث اعظمی رحمہ اللہ کی حیات میں ان کی خدمت میں پانچ سال رہ کر ان کے علمی کاموں میں تعاون کرتے رہے، اور حضرت سے بخاری شریف بھی پڑھی۔

(۲)اشرف کمال (۳)حاجی احمد کمال (۴)راشد کمال (۵) خالد کمال

حدیث شریف میں آتا ہے: "إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ " (صحیح مسلم: 1631)جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے مگر تین اعمال کا ثواب اس کو پہنچتا رہتا ہے، ان میں ایک صدقہ جاریہ ہے، دوسر ایسا علم جس سے نفع اٹھایا جائے اور تیسر ے صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرے، اللہ تعالی نے حضرت مولانا مرحوم کو ان تینوں وصف سے نوازا تھا، بہت سے صدقات جاریہ ہیں جن کا ثواب آپ کو پہنچتا رہے، اسی طرح شاگردوں کی ایک بڑی تعداد ہیں جو دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم مئو اور ملک کے دیگر مدارس میں خدمات انجام دے رہے ہیں، ان تمام کا ثواب آپ کو قیامت تک پہنچتا رہے گا، نیز آپ کی اولاد بھی آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ رب العزت آپ کی خدمات کو قبول فرمائے، اور آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، اور آپ کے پسماندگان اور متوسلین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے