قسط ٣
عبید اللہ شمیم قاسمی
ایک جگہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: (ویلٌ لکلِّ هُمزة لمزةٍ) ہلاکت ہے ایسے آدمی کے لیے جو لوگوں میں طعن کی باتیں کرتا ہے اور لوگوں کے کام یا افعال میں نقص نکالتا ہے.
امام مجاهد اس كى تفسير كرتے ہوئے فرماتے ہیں: {وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ} [الهمزة: 1] قَالَ: " الْهُمَزَةُ: الطَّعَّانُ فِي النَّاسِ، وَاللُّمَزَةُ: الَّذِي يَأْكُلُ لُحُومَ النَّاسِ"۔
ھمزة: لوگوں میں طعن کی باتیں کرنا اور لمزة: جو لوگوں کا گوشت کھاتا ہو، یعنی غیبت کرتا ہو۔
ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ (10) هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ﴾ [القلم: 10، 11]اوران آیات مبارکہ میں اللہ تعالی نے فرمایاکہ ہر قسمیں کھانے والے ذلیل شخص کی اطاعت نہ کریں جو لوگوں کی چغل خوری کرتا ہے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جس طرح زبان سے غیبت کرنا، جھوٹ بولنا جائز نہیں، اسی طرح قلم سے بھی جائز نہیں، جس طرح زبان قلب کا ترجمان ہے، اسی طرح قلم بھی ہے۔
غیبت کی پانچ قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔
نمبر۱۔ بدن میں غیبت
نمبر۲۔حسب ونسب میں غیبت
نمبر۳۔اخلاق وکردار میں غیبت
نمبر٤۔دنیاوی معاملات میں غیبت کرنا
نمبر۵۔ دین کے ساتھ تعلق رکھنے والے امور میں غیبت کرنا۔
اب ذرا غورکریں کہ آخر وہ کیا اسباب ہیں جس کی بنا پر ایک دوسرے کی ہم غیبت کرنے لگتے ہیں، تو اس کے منجملہ اسباب میں سے سات اسباب کا علماء ذکر کرتے ہیں۔
نمبر۱۔غصے کو ٹھنڈا کرنا، نمبر۲۔دوستوں کی مجالس۔
نمبر۳۔دوسروں کی تنقیص اور اپنی مدح وتعریف کرنا۔
نمبر٤۔حسد، نمبر۵۔استہزاء اور مذاق۔
نمبر٦۔ رحم دلی کا اظہار، کبھی کبھی یہ بھی غیبت کا سبب بن جاتا ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں مسکین شخص کے معاملے نے مجھے غمگین کردیا ہے، وہ فجر کی نماز بھی نہیں پڑھتا اور ڈاڑھی منڈاتا ہے، وغیرہ
اور نمبر۷۔ البغض للہ میں تکلف کرنا۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ سوء مزاج کی وجہ سے بھی عام طور پر لوگ غیبت میں مبتلا ہوتے ہیں، بعض لوگ تو محض نا عاقبت اندیشی کی بنا پریہ کام کرتے ہیں، ان کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ دنیا وآخرت میں اس کے کیا نقصانات ہیں۔
غیبت سے کس طرح بچا جائے:
یہ جان لینا چاہیے کہ غیبت کرنے سے قیامت کے دن آپ کی نیکیاں اس شخص کی طرف منتقل ہوجائیں گی جس کی آپ نے غیبت کی ہے حتی کہ آپ افلاس کے درجہ تک پہنچ جائیں گے۔ جب کہ اس دن تو ہر شخص ایک ایک نیکی کے لیے ترس رہا ہوگا۔اسی کو حدیث شریف میں مفلس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مسلم شریف کی روایت ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟» قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ، فَقَالَ: «إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ، وَصِيَامٍ، وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا، فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ» صحيح مسلم، باب تحريم الظلم (٢٥٨١).
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون شخص ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہ مال ہو۔ تو آپ ہے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز روزہ اور زکوۃ کے ساتھ آئے گا، اور اس کے ساتھ ساتھ کسی کو برا بھلا کہا ہوگا، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا ناحق خون بہایا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے صاحب حق لے لیگا، تو اگر اس کی نیکیاں صاحبِ حقوق کی ادائیگی سے پہلے ختم ہوجائیں گی تو ان لوگوں کے گناہوں کو اس پر ڈال دیا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
غیبت نیکیوں کو کھاجاتی ہے، اس لیے اس بات کا بھی استحضار ہونا چاہیے، امام ابو داود نے روایت بیان کی ہے: عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِهِ، وَلَمْ يَدْخُلِ الْإِيمَانُ قَلْبَهُ، لَا تَغْتَابُوا الْمُسْلِمِينَ، وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ، فَإِنَّهُ مَنِ اتَّبَعَ عَوْرَاتِهِمْ يَتَّبِعُ اللَّهُ عَوْرَتَهُ، وَمَنْ يَتَّبِعِ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ فِي بَيْتِهِ» حضرت ابو برزۃ الاسلمی رضی اللہ عنہ راوی ہیں فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دن خطبہ ارشاد فرمایا: اے وہ لوگو! جو اپنی زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوا: مسلمانوں کی غیبت نہ کرو، اور نہ ان کی عیب جوئی کرو، اس لیے کہ جس نے اپنے بھائی کے عیب تلاش کئے تو اللہ تعالی اس کے عیب تلاش کرے گا، اور اللہ تعالی جس کے عیب تلاش کرتا ہے اسے اس کے گھر کے اندر ہی رسوا کردیتا ہے۔ (ابوداود: باب في الغیبۃ، ٤٨٨٠)۔
لوگوں کی عیب جوئی کے بجائے اللہ تعالی کا ذکر کرنا چاہیے۔اللہ تعالی کا ذکر ایمان کو قوی اور مضبوط کرتا ہے۔
اسی طرح اس گناہ سے بچنے کا سب سے آسان طریقہ خاموشی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "من صمت نجا" جس شخص نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پائی۔
حدیث شریف میں آتا ہے: "من اغتیب عنده أخوه المسلم وهو یقدر علی نصره فنصره، نصره الله فی الدنیا والآخرة" جب کسی کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت کی جائے اور وہ اس کی مدد کرنے پر قادر ہو اور اس کی مدد کردے تو اللہ تعالی دنیا اورآخرت میں اس کی مدد فرمائیں گے۔
جب نفس کسی مسلمان کے عیوب پر اکسائے تو سب سے پہلے اپنے نفس میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ کیا یہ عیب ہمارے اندر تو نہیں ہے۔ اپنے نفس کو غیبت پر اُکسانے والے اسباب سے پاک صاف کریں، مثلا کینہ، حسد، مدح پسندی اور ریاکاری کی محبت اور اس طرح کے دل کے دوسرے امراض وغیرہ۔
غيبت اور چغلى كى مذمت كے سلسلے ميں امام ابو بكر عبد الله بن محمد (جو ابن ابى الدنيا كے نام سے معروف ہيں) نے ذم الغيبة والنميمة كے نام سے ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے، جس ميں احاديث اور آثار كو جمع فرمايا ہے۔ اس کا مطالعہ بھی مفید ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اس عظیم گناہ سے بچنے کی توفیق دے، اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق بخشے، اور ایک دوسرے کے ساتھ اخوت و محبت، ہمدردی اور بھائی چارگی کے ساتھ مل جل کر رہنے کی توفیق دے۔
0 تبصرے