نئی دہلی، 4فروری (پریس ریلیز) پاکستان کے مشہور و معروف محقق ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری کے سانحہئ وفات کو جہان علم و فن کا نا قابل تلافی خسارہ قرار دیتے ہوئے آل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدر اور مشہور عالم دین مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی نے تنظیم کی طرف سے جاری تعزیتی خبرنامہ میں کہا کہ گرچہ مرحوم ایک عرصے تک درس و تدریس کے پیشے سے بھی وابستہ رہے، مگر ان کی پہچان ایک محقق کے طور پر قائم تھی، وہ عصر حاضر کے نامور محقق ومصنف تھے، جنھوں نے حفظ قرآن کے ساتھ قدیم طرز کے مدارس و مکاتب میں تعلیم حاصل کی تھی، مگر انھوں نے جب میدان عمل میں قدم رکھا تو ایسے وقیع علمی اور تحقیقی کارنامے انجام دیے کہ عصری درس گاہوں کے پروردہ و پرداختہ تجدد پسند اور روشن خیال افراد بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔ انھوں نے ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ سو سے بھی زائد تحقیقی کتابیں مدون و مرتب کیں، علمی مقالات اور تحقیقی تحریرات کی شکل میں انھوں نے جو نایاب تحفہ علمی دنیا کو دیا ہے، وہ ایک ایسا لافانی کارنامہ ہے جو تشنگان علم و ادب کے لیے اہم مرجع و ماخذ ثابت ہوگااور ان کتابوں کی طرف مراجعت کیے بغیر بر صغیر کی دینی علمی اور سیاسی تاریخ و تحریک پر کوئی بھی تحریر نامکمل رہے گی۔ انھوں نے ادیب و صحافی مولانا ابو الکلام آزاد اورخصوصا جمعےۃ علماء ہند سے وابستہ اکابر علما:شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ دہلوی،سحبان الہندمولانا احمد سعید دہلوی، اور مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی زندگی اور ان کی فکر و فلسفہ اور نظریہئ سیاست پرسینکڑوں لائبریریوں اور ہزاروں اوراق کھنگالنے کے بعد جو ضخیم تحقیقی کتابیں لکھی ہیں، وہ ایک ایسا قاموسی علمی کارنامہ ہے جو ایک تحقیقی ٹیم کی مجموعی کوششوں پر بھاری ہے۔ابو الکلامیات کے باب میں ان کی تحریرو تحقیق کو استناد کا درجہ حاصل تھا اورتقسیم ہند کے بعد جب بھی مولانا آزاد کی زندگی اور ان کے فکر و فلسفہ پر کوئی اعتراض وارد ہوتا تھا، مرحوم اس کے خلاف کمربستہ ہوجاتے تھے اور اس کا دنداں شکن اور مدلل قلمی جواب دیتے تھے۔ انھوں نے تن تنہا ایسے شاہ کار تالیفی نقوش مرتب کیے ہیں جس کے لیے موجودہ وقت میں اسکالرس اور قلم کاروں کی ٹیم تشکیل دینی پڑتی ہے اور اس پر بڑا صرفہ آتا ہے۔
مولانا قاسمی نے مرحوم کے ساتھ اپنے روابط و مراسم کی یاد تازہ کرتے ہوئے کہا کہ جہاں وہ ایک وسیع المطالعہ، بصیرت مند،کتابوں کے رسیا اور کثیر التصانیف اسکالر تھے، وہیں وہ ایک خورد نواز اور علم پرور شخص بھی تھے، کتاب و قلم سے ان کا رشتہ بہت گہرا تھا، ہر وقت علم و فن اور قلم و کتاب اور بر صغیر کی علمی، دینی، سیاسی اور دعوتی تحریک کے مثبت تذکروں سے ان کی زبان تر رہا کرتی تھی، میں کئی بار ان سے ملا، ہر بار انھیں چاق و چوبند اور بیدار مغز پایا، جب بھی کچھ لکھنے کی فرمائش کی تو ازراہ شفقت فوری طور پر میری درخواست کی تکمیل کی، مولانا مدنی پر تنظیم کے ترجمان’فکر انقلاب‘ کے خصوصی شمارہ کے لیے طویل تحقیقی مقالہ اپنی خوش خط تحریر میں لکھ کر عنایت کیا، ہمیشہ تنظیم کے تصنیفی کاموں کی ستائش کی اور تصنیفی منصوبوں کی تکمیل میں اپنا تعاون پیش کیا۔ مولانا نے مرحوم کے اہل خانہ اور پسماندگان کے ساتھ تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر کی تاریخ میں مولانا مرحوم کی تحقیق کو اعتبار کا درجہ حاصل ہے، اس لیے ہند و بیرون ہند کے ساتھ ان تمام افراد پر مرحوم کے لیے ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کے ساتھ ان کے وقیع کارناموں کو مشتہر کرنے اور ان کی حیات و خدمات کو منظر عام پر لانے کی اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جن کا کسی نہ کسی طور پر اس خطے سے تعلق رہا ہے۔ بارگاہ خداوندی میں یہ دعا ہے کہ وہ مرحوم کو اعلی علیین میں جگہ عطا کرے، ان کے اہل خانہ اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفریق دے، اور علمی و تحقیقی دنیاکو ان کا نعم البدل عطا کرے۔
0 تبصرے