کیا صرف مدرسوں کے بچے ہی ہمارے ہیں؟

کیا صرف مدرسوں کے بچے ہی ہمارے ہیں؟

مفتی محمد اجوداللہ پھولپوری 

نائب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائمیر اعظم گڈھ

اس سے پہلے کہ میں اپنے مافی الضمیر کو انگلیوں کے سہارے اسکرین کی زینت بناؤ ایک چیز واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس تحریر سے میرا ارادہ کسی پر تنقید یا کسی کی تنقیص کرنا نہیں بلکہ ان افعال کی تشخیص اور ان اعمال کی ترغیب پر ابھارنا ہے جو فی زماننا انتہائی ناگزیر ہیں

ابھی حالیہ وقت میں جمعیت علماء ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب دامت برکاتہم کی طرف سے مدرسوں کے طلباء کو مین اسٹریم سے جوڑنے اور دنیاوی تعلیمات و اسناد کے حصول کیلئے انتہائی اہم قدم اٹھایا گیا ہے جو یقینا قابل تعریف اور لائق تقلید عمل ہے طالبان علوم نبویہ کو اس معاملہ میں ابھی تک دقتوں کا سامنا رہا ہے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود قانونی اور کاغذی اعتبار سے ان کاشمار غیر تعلیم یافتگان میں ہوتا رہا ہے 

اور یہ بات غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی طرف سے بھی بار بار اٹھائی جاتی رہی ہے جس پر توجہ دیتے ہوئے مولانا موصوف نے اس میدان میں آگے بڑھنے کی ٹھانی اللہ تعالی اس مشن کو کامیابیوں سے ہمکنار فرمائے اور طالبان علوم نبویہ کو اس موقعہ سے فائدہ اٹھانے والا بنائے....آمین

جو قدم اٹھایا گیا وہ یقینا لائق تعریف ہے لیکن ایک سوال جو بار بار ذہن میں آتا رہا وہ یہ کہ مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد پانچ پرسنٹ کے آس پاس ہوگی وہیں اسکولوں اور کالجوں میں قوم کے پنچانوے فیصد بچے اپنا مستقبل سنوارنے میں محنت کش ہیں جن کے اوپر ان کا نصاب اس طور مسلط کیا گیا ہے کہ دینی معلومات سے دور دور تک سامنا نہیں ہوپاتا نتیجتا اکثر طلباء ایسے پائے جاتے ہیں جو دینی فرائض و واجبات اور ضروری دعاء وسنن سے ناواقف ہیں جب کہ دین سے بقدر ضرورت حصہ پانا دنیاوی تعلیم سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری ہے اگر واقعی بحیثیت مسلمان سوچا جائے تو افسوس ہوتا ہے اسلئے کہ دنیا اور دنیاوی علوم کے فوائد عارضی ہیں اس دنیا میں سہولت و آسانی کیلئے سیکھا جانے والا علم اپنے اندر ایک قلیل فائدہ رکھتا ہے اگر بالفرض ہم دنیاوی علوم سے ناواقفیت کی بنیاد پر خسارہ اٹھاتے ہیں تو وہ چند روزہ ہے پر نعوذباللہ اگر ہم دنیاوی علوم سے واقفیت کی دوڑ میں اپنے دین کی اساسی و بنیادی باتوں کے جاننے اور اس پر عمل پیرا ہونے سے محروم ہوگئے تو اسکا نقصان بڑا ہی طویل ہے اللہ تعالی ہم سب پر اپنا رحم فرمائے

لکھنے کا مقصد یہ ہیکہ بحیثیت قومی خیر خواہ ہم سب کی ذمہ داری ہیکہ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے قوم کے نونہالوں کیلئے بھی دینی اصول وضوابط سیکھنے کیلئے ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کرایا جائے تاکہ وہ اپنے دین کو سیکھیں اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں موجودہ زمانہ میں جہاں یہ ضروری ہیکہ مدارس کے طلباء کو انگریزی و ہندی سے واقف کرایا جائے وہیں یہ بھی ضروری ہیکہ اسکولوں کے طلباء کیلئے امور شریعت کے حصول کو آسان بنایا جائے اور انہیں اردو و عربی سے واقف کرایا جائے تاکہ وہ کتابوں کے سہارے شریعت کو سمجھیں اور دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی فکر کو بھی اپنے اوپر مسلط کریں اگر مدرسہ کے طلباء ہمارے ہیں تو اسکولوں اور کالجوں کے بچے بھی ہمارے اپنے ہیں مدرسوں کے طلباء دنیاوی تعلیم نہ سیکھ سکے تو شاید اتنا نقصان نا ہو جتنا اسکولوں کے بچے دین سے دور رہ کر اٹھائینگے اس لئے ضروری ہے کہ اسکولی بچوں کیلئے دینی پلیٹ فارم فراہم کرنے کی فکر کی جائے اسکے لئے علماء کرام اور دانشوران کے ساتھ ساتھ صاحبان مال و ثروت کو بھی سر جوڑ کر لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا....اللہ تعالی ہم سب کو دین و دنیا کی ترقیات عطاء فرمائے دونوں کا خیر نصیب فرمائے اور دونوں کے شر سے اپنی امان نصیب فرمائے....آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے