عالمِ یگانہ حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری:کچھ تأثرات،کچھ حالات

عالمِ یگانہ حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری:کچھ تأثرات،کچھ حالات

مولانا نور عالم خلیل امینی

چیف ایڈیٹر ‘‘الداعی’’ عربی و استاذ ادبِ عربی 

دارالعلوم دیوبند

پہلی قسط

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں ’’کم یاب‘‘ ہیں ہم

جو یاد نہ آئے بھول کے پھر، اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم

(علی محمد شاد عظیم آبادی: ۱۸۴۶— ۱۹۲۷ء)

چہار شنبہ وپنج شنبہ (بدھ – جمعرات): ۲۲-۲۳؍ رجب ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۸-۱۹؍ مارچ ۲۰۲۰ء کی شب میں عشا کی نماز کے بعد مفتی صاحب نے بخاری شریف کا آخری درس دیا۔ جب درس گاہ یعنی دارالحدیث: دار العلوم کے کتب خانے کی نئی عمارت کے زیریں ہال میں حاضری ہوئی، تو حسبِ معمول اُنھوں نے حمد وصلاۃ کے بعد، سبق کا خلاصہ ذکر کیا، اس کے بعد متعینہ طالب علم نے بخاری شریف کی متعلقہ حدیثیں پڑھیں۔ آپ نے حدیثوں کے مطلوب ومفہوم پر حسبِ توفیق گفتگو کی۔ پھر طالب علم نے آگے کی عبارت پڑھی اور آپ نے حسبِ منشا گفتگو کی۔ اُس کے بعد پھر طالب علم نے آگے کی حدیثوں کی خواندگی کی؛ لیکن اس کے بعد آپ نے جو کچھ کہنا چاہا، اُس پر قادر نہ ہوسکے، زبان ودماغ نے ساتھ نہیں دیا۔

خاصی دیر تک یہ ہوا کہ بخاری شریف کے صفحات آپ کے سامنے کھلے رہے؛ لیکن اُن کے اپنے اِرادے اور کوشش کے باوجود اُن کی زبان بندی ختم نہ ہوسکی، دیر تک خاموش نشستگی کی حالت میں جب اُن کا دل بہت متاَثر اور پرغم ہوگیا، تو یہ کیفیت چشمِ تر سے چہرے پر ٹپکتے ہوئے آنسوؤں سے عیاں ہونے پر ۱۵ سو طلبۂ دورۂ حدیث کی جماعت، جو شریکِ درس تھی، پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

دارالعلوم دیوبند کے اُستاذ مولانا ڈاکٹر اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی نے (جو مفتی صاحب کے محبوب اور ہمہ وقت حاضر باش، دکھ درد میں شریک رہنے والے شاگردِ رشید ہیں) جو مفتی صاحب کی زندگی کے اس آخری درس میں موجود تھے؛ مفتی صاحب سے گزارش کی کہ آپ دعا کے لیے ہاتھ اُٹھالیں؛ تاکہ طلبہ خاموش طور پر آپ کے ساتھ دعا کرلیں؛ لیکن مفتی صاحب نے دھیمی آواز میں یہ آخری جملہ اِرشاد فرمایا ’’اب جو اللہ چاہے گا وہی ہوگا‘‘۔

گویا درس گاہ میں اُن کے آخری درس کا یہ آخری جملہ تھا، جو اَب طلبہ کی زبان پر عرصۂ دراز تک جاری رہے گا اور وہ بہ طور ہدیۂ ثمینہ ایک دوسرے کو پیش کرتے اور غم کُشی کا ذریعہ سمجھتے رہیں گے۔ پھر انتہائی شکستہ دلی کی حالت میں کتاب بند کرکے، فورًا کھڑے ہوگئے اور مسندِ درس سے اترکر، ہال کے باہر کھڑی کار میں بیٹھ اپنے گھر آگئے۔ مولانا اشتیاق نے کار میں بیٹھتے ہی اُن سے عرض کیا کہ حضرت! ابھی دارالعلوم میں تعلیمی سال کے ختم پر ہونے والی سالانہ تعطیلِ کلاں نہیں ہوئی ہے، آپ کل ممبئی تشریف لے جارہے ہیں، اِن شاء اللہ چند ہی روز میں شفایاب ہوکر جب تشریف لے آئیں گے، تو اِس آخری درس کا باقی ماندہ مکمل فرمادیں گے اور طلبہ کو جو آخری نصیحت کرنی ہوگی وہ بھی ان شاء اللہ کردیں گے۔ یہ سن کر اُن کے چہرے پر اطمینان وانبساط کی لکیریں ابھر آئیں۔

گھر (جو اندرون کوٹلہ میں واقع ہے) پہنچ کر اپنے دیوان خانے میں کرسی پر بیٹھتے ہی غم زدہ واُداس لہجے میں فرمایا کہ لگتا ہے کہ میں آیندہ سال بخاری شریف کا درس نہیں دے سکوں گا۔ مولانا اشتیاق نے اُنھیں تسلی دی اور عرض کیا کہ حضرت! آپ خاطر جمع رکھیں، آپ اِن شاء اللہ آیندہ سال بھی اپنی تعلیمی وعلمی ذمّے داریوں سے عہدہ برآ ہوتے رہیں، گزشتہ سال بھی آپ کو زبان بندی کا عارضہ لاحق ہوا تھا؛ لیکن دوا وعلاج سے آپ بحمداللہ بہ عجلت صحت یاب ہوکر اپنے تدریسی وتحریری مشاغل اور دیگر واجباتِ زندگی میں سرگرم عمل ہوگئے تھے، تا آںکہ دوبارہ یہ صورتِ حال پیش آئی ہے، اِن شاء اللہ آپ اِس مرتبہ بھی جلد ہی شفایاب ہوں گے۔ مفتی صاحبؒ ہمت وحوصلے کے آدمی تھے، تسلّی دہندہ کی ان باتوں کو سن کر، بڑی حد تک مطمئن ہوگئے۔

آیندہ کل، یعنی جمعرات: ۲۳؍ رجب ۱۴۴۱ھ = ۱۹؍ مارچ ۲۰۲۰ء کو علاج کے لیے ممبئی تشریف لے گئے، جہاں اُن کی صاحب زادی، داماد، اُن کے اہل خانہ اور دیگر اعزا واقربا کی بود وباش ہے۔ دوسرے روز، یعنی جمعہ: ۲۴؍ رجب = ۲۰؍مارچ کو اُن لوگوں کے مشورے سے، ممبئی کے ’’مومن‘‘ برادری کے ہسپتال ’’ملت‘‘ میں علاج کے لیے داخل ہوے۔ وہاں تشخیص ہوئی کہ کولسٹرول بہت بڑھا ہوا ہے اور موجودہ ساری پریشانیاں اسی کی وجہ سے ہیں۔ وہاں بھرپور توجّہ کے ساتھ علاج ہوا اور ۴ روز بعد ہی، یعنی دوشنبہ: ۲۷؍ رجب = ۲۳؍ مارچ کو شفایاب ہوکر ممبئی کی قیام گاہ واپس آگئے۔

۲۸؍ رجب = ۲۴؍ مارچ کو ہندوستان کے وزیر اعظم نے ’’کورونا وائرس‘‘ کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے پہلے قدم کے طور پر ’’جنتا لاک ڈاؤن‘‘ کا اِعلان کیا، چناںچہ اُس دن باشندگانِ ملک نے اس فرمان کی مکمل تعمیل کی۔ اُسی روز، یعنی ۲۸-۲۹؍ رجب =۲۴-۲۵؍ مارچ کی رات میں وزیر اعظم نے ملک گیر مکمل لاک ڈاؤن کا اِعلان کردیا اور ۱۲ بجے رات سے اُس کا نفاذ عمل میں آگیا؛ لہٰذا پورے ملک میں جو جہاں تھا وہیں پھنس گیا؛ کیوںکہ آمد ورفت کے سارے ذرائع بالکلیہ موقوف کردیے گئے۔

مفتی صاحبؒ کو مجبوراً ممبئی ہی میں مقیم رہنا پڑا۔ اُنھوں نے وہاں کے قیام کو طبی ہدایات کے تحت آرام اور محض وقت گزاری کی نذر نہیں ہونے دیا؛ بل کہ پردیس میں مُیَسَّر وسائل سے کام لے کر علمی مشاغل کو بھی حتی الامکان جاری رکھا؛ کیوں کہ یہ اُن کی روح کی غذا اور بیماریوں کی دوا تھے۔ نیز رمضان مبارک کے آغاز سے ہی، اُنھوں نے نمازِ تراویح کے بعد،آن لائن مواعظ کا سلسلہ بھی شروع کیا، جس سے خلقِ خدا کو بہت فائدہ ہوا۔

دوشنبہ: ۱۷؍ رمضان = ۱۱؍ مئی کو اُنھیں بخار محسوس ہوا، جس سے خاصی کم زوری پیدا ہوگئی۔ جمعرات: ۱۸؍رمضان = ۱۲؍ مئی کو اُنھیں ممبئی کے ’’ملاڈ‘‘ کے ’’نیوسنجیونی‘‘ ہسپتال میں داخل کردیا گیا، وہاں تشخیص ہوئی کہ پھیپھڑے میں پانی بھرگیا ہے، جس کی وجہ سے سانس لینے میں پریشانی ہورہی ہے، چناںچہ سخت نگرانی کے یونٹ ’’آئی سی او‘‘ میں اُنھیں منتقل کردیا گیا۔ دو تین روز بعد اِفاقے کی کیفیت محسوس ہوئی؛ لیکن پھر بیہوشی کا عالم طاری ہوگیا اور بالآخر سہ شنبہ: ۲۵؍ رمضان = ۱۹؍ مئی کی صبح کو تقریباً 6:30 ساڑھے چھ بجے اُنھوں نے آخری سانس لی اور ربّ کریم کے جوار رحمت میں پہنچ گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن

۲۵؍ رمضان ہی کو اُن کی پہلی نماز جنازہ مذکور الصدر ہسپتال کے قریب ایک مسجد کے باہر ادا کی گئی جس کی امامت اُن کے صاحب زادے مولانا وحید احمد نے کی۔ دوسری نماز، جو تدفین سے قبل قبرستان میں ادا کی گئی، کی امامت اُن کے ایک دوسرے صاحب زادے حافظ قاری عبد اللہ نے کی۔ شام کے سوا چھ بجے اس گنجینۂ علم وفضل کو ممبئی کے ’’جوگیشوری‘‘ کے ’’اوشیورہ‘‘ قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ لاک ڈاؤن کے باوجود معتد بہ تعداد نے نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کی۔ اللہ اُن کی قبر کو نور سے بھردے اور شہدا وصالحین وصدیقین کے ساتھ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے اور تمام پس ماندگان ومحبین وتلامذہ ومتعارفین کو صبرِ جمیل واجرِ جزیل سے بہرہ یاب کرے۔

ذرائعِ اِبلاغ کی برق رفتاری کی وجہ سے مفتی صاحب کی وفات کی خبر نہ صرف ہندوستان وبرّصغیر میں؛ بل کہ پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ دارالعلوم اور قاسمی برادری کے حلقے کو خصوصاً اور دینی وعلمی حلقے کو عموماً اِس حادثۂ جاںگسل سے جو حزن وملال ہوا، اُس کو کسی لفظی تعبیر کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ دارالعلوم کو اُن کی وفات سے جو خسارہ لاحق ہوا ہے، اُس کی تلافی کی بہ ظاہر کوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آتی، البتہ خداے قادر وہّاب کی رحمت سے ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ دارالعلوم میں شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد فخرالدین احمد نور اللہ مرقدہ (۱۳۰۷ھ/ ۱۸۸۹ء — ۱۳۹۲ھ/ ۱۹۷۲ء) کے بعد سے ہی شیخ الحدیث کا منصب اُن جیسے عالی مقام محدث کے لیے ترستا رہا ہے، یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ مفتی سعید احمد پالن پوری نے اپنے کئی پیش رووں کے بعد اپنے عہد میں اس خلا کو پُرکردیا تھا؛ لیکن یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اُن کی وجہ سے اُن کے فیض یافتگان کو خاصی علمی وفکری تسلّی محسوس ہوتی تھی، جس کی بنا پر اُن کے ذہنوں میں حضرت مولانا سید فخرالدین احمد قدس سرّہ العزیز جیسے عظیم الشان مشایخِ حدیث کی دھندلی سی تصویر گردش کرنے لگتی تھی۔

مفتی صاحب کی علمی شخصیت تعمیرِ ذات وصفات میں جہدِ مسلسل کے طفیل خاصی بھاری بھرکم اور باوقار وبااعتبار بن گئی تھی۔ وہ دارالعلوم کے موجودہ ماحول میں علم وفضل کی ترازو کا بہترین پاسنگ تھے، جس کی غیرمعمولی اہمیّت ہوا کرتی ہے؛ کیوں کہ وہ ترازو کے توازن کا ضامن ہوتا ہے۔

محنت، قدردانیِ اوقات، انہماکِ عمل، ذہانت وقوتِ حافظہ، سرعتِ فہم، کمال کی استنتاجی صلاحیت، مسائل کی تہوں تک زودرسی اور تقریر وتحریر میں ترتیب وانضباط اور تفصیل وتسہیل کا اہتمام جیسی صفات، اُن کو بہت سے معاصر علماء ومدرسین سے ممتاز کرتی تھیں۔ تاثیری انفرادیت، زبردست ترسیلی قوت اور تفہیمی لیاقت اُن کی شناخت تھی۔ وسعتِ مطالعہ (جس کو پیہم وناآشناے تکان تدریسی وتحریری سرگرمیوں نے پختگی واستحضاری اور مزید وسعت پذیری عطا کی تھی) کی وجہ سے وہ علمی مسائل کے حوالے سے تازہ دم وتازہ کار رہتے تھے۔

خود اعتمادی وخدا اعتمادی، جرأت وبے باکی، صبر واستقامت، بیدار مغزی اور ہمت وحوصلے کی فراوانی؛ معرکۂ حیات میں اُن کی شمشیریں تھیں۔ کتاب وسنت کے گہرے مطالعے سے کشیدہ، اپنی علمی ودینی واعتقادی آرا پر ثبات واِصرار اور دلائل وبراہین کی روشنی میں اہلِ علم سے اختلاف کا اِظہار اور بہ وقتِ ضرورت اُن کے علمی استنتاجات کی تردید وتصحیح میں وہ کبھی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے۔ دینی واعتقادی مسائل میں شخصی روایات کی تقلید پر، کتاب وسنت کی اصلی تصریحات اور واضح ہدایات کی علمی ترجیح وتایید اور عملی توثیق میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔

اپنی علمی بلند قامتی کی وجہ سے نہ صرف دارالعلوم کے ماحول میں؛ بل کہ سارے دیوبندی حلقے اور عام علمی ودینی برادری میں، علمی وعملی رویّوں کے حوالے سے، بعض دفعہ رونما ہونے والی ناہم واریوں اور عدمِ توازن کی کیفیتوں کے بالمقابل؛ وہ توازن کا واضح استعارہ تھے۔

اُن کی قدآور علمی شخصیّت کے طفیل، دارالعلوم میں جو علمی ہل چل تھی، تحقیق وجستجو کے باب میں خوب سے خوب تر حد تک پہنچنے کی جو تگ وتاز رہا کرتی تھی، اُن کی علمی تحقیق کی چٹان سے بعض دفعہ نتائج مطالعہ وفکری اکتسابات کی موجیں جس طرح ٹکراکر پاش پاش ہوتی رہتی تھیں؛ اب اِس منظر کو دیکھنے کے لیے آنکھیں نہ جانے کب تک ترستی رہیں گی۔

درس گاہوں میں دیے گئے اُن کے تدریسی وعلمی محاضرات، فِرَقِ باطلہ کی تردید میں کی گئی اُن کی علمی وتحقیقی تقریریں اور عام مجلسوں میں اُن کے واعظانہ ارشادات بھی علمی نکتہ آفرینیوں، عالمانہ ژرف نگاہیوں اور متکلمانہ دراز نفسیوں کا نمونہ ہوتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی عوامی تقریریں بھی خواص ہی کے لیے زیادہ مفید ہوتی تھیں۔ سنجیدگی وبالیدگی اور دانش ورانہ طرز ادا اُن کی ساری لسانی تخلیقات وبخشایشوں کی شناخت ہوتی تھی۔ اِس کے باوجود اُن کے عوامی خطابات سے عوام کو بہت فائدہ ہوا؛ کیوں کہ اُنھوں نے اُن میں سادہ وعام فہم الفاظ و تعبیرات سے کام لینے کی کوشش کی۔

علمی مسائل کو حل کرنے، یا سائل کو اُن کا جواب دینے میں، کبھی عجلت پسندی، تاویلِ ناروا اور کھینچ تان سے کام نہ لیتے۔ اگر کوئی بات واضح طور پر معلوم نہ ہوتی، یا اگر اُس کا کوئی گوشہ اُن کے ذہن میں واضح نہ ہوتا، تو وہ توقّف کرتے اور سائل سے فرماتے کہ مجھے اِس سلسلے میں تامّل ہے، یا میں اس سے ناواقف ہوں۔ پھر علمی مراجعے کے بعد ہی وہ تسلّی بخش جواب دیتے؛ اِسی لیے راقم کو اُن کے مطالعاتی اور علمی رویّے پر بڑا اعتماد تھا اور اُس کو اُن کے اِس طرزِ عمل سے بے حد خوشی ہوتی تھی۔

’’اہل علم‘‘ کی شناخت یا شہرت کے حامل افراد بالعموم علمی مسائل کا عاجلانہ جواب دینے اور مسائل کے گوشوں کے مُبْہَم یا نامعلوم ہونے کی صورت میں بھی سائل کو تاویلاتِ بے جا کے ذریعے مطمئن کرنے کی کوشش کے ذریعے اپنی شخصیت کے حوالے سے بھی غیرمطمئن بنادیتے ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے (جو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے): ’’إنَّ من العِلْمِ إِذا سُئِلَ الرَّجُلُ عَمَّا لا یَعْلَمُ أَن یَقُوْلَ: اللہُ أَعْلَمُ‘‘ (طبقات الحنابلۃ، ج۱، ص۱۰)۔ یعنی یہ بھی علم ہے کہ کسی آدمی سے ایسی بات معلوم کی جائے جس سے وہ لاعلم ہے، تو یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا زیادہ علم ہے۔

مفتی صاحبؒ سے راقم نے بارہا بہت سی حدیثوں کے متن یا شرح یا کسی خاص لفظ کا مدلول جاننا چاہا، تو مُتَعَدِّد مرتبہ اُنھوں نے فوراً جواب دینے سے گریز کرتے ہوے فرمایا: مولانا! میں آپ کو اِس سلسلے میں کل بتاسکوں گا؛ چناںچہ دوسرے دن یا اُس کے بعد وہ بہ ذریعہ فون راقم کو اس سلسلے میں اطمینان بخش جواب دیتے۔

خود راقم کا بھی اُن کے ساتھ یہی رویّہ رہا کہ اگر وہ کسی صرفی یا نحوی یا لغوی اِشکال کے متعلق تدقیق چاہتے، تو معلوم ہونے کی صورت میں، راقم اُنھیں اُسی وقت راہِ صواب بتادیتا؛ ورنہ مطالعے کے بعد، وہ اس حوالے سے گرہ کشائی کی توفیق پاتا، سچ یہ ہے کہ ہم دونوں اِس مشترکہ طرزِ عمل سے ایک دوسرے سے بے انتہا مطمئن تھے۔

دارالعلوم میں الحمد للہ، ذی علم وباکمال و اَصحابِ قال وحال اساتذہ کی کمی نہیں؛ لیکن مفتی صاحب کی ممتاز علمی شخصیت سے طلبہ کو اُن کے طویل تدریسی دورانیے میں جو علمی وفکری فائدہ ہوا، وہ مقدار ومعیار کے اعتبار سے مثالی رہا۔ دارالعلوم کا دارالحدیث، اُس کی درس گاہیں؛ بل کہ اُس کے دروبام اور وہاں وقتاً فوقتاً سجنے والے بڑے بڑے اجتماعات کے اسٹیج، اُنھیں عرصے تک ڈھونڈتے رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی ایسی علمی عظمت کا خمیر، بڑی مشکل سے، لیل ونہار کی دراز نفس گردشوں، غیر معمولی پاکیزہ پس منظروں اور والدین سمیت لاتعداد صلحا واتقیا کی دعاؤں اور نگاہ ہاے مومنانہ کے ساحرانہ فیضان اور سب سے بڑھ کر خداے کریم کی توفیقِ خاص سے اٹھتا ہے۔

اِس لیے اُن کی رحلت سے جو خلا دارالعلوم میں پیدا ہوا ہے، وہ غیرمعمولی ہے اور آسانی سے پُر ہونے والا نہیں ہے؛ لیکن چوںکہ یہ درس گاہِ علم ودین خداے عظیم کے خصوصی فضل وکرم کا ثمرہ ہے، جو شب زندہ دار علماے ربّانیین کی آہِ سحرگاہی اور عرصۂ دراز تک اُن کی گریہ وزاری کی وجہ سے اِس خطۂ زمین کی طرف متوجّہ ہوکر ’’مدرسہ اسلامی عربی، دیوبند‘‘ کی شکل میں مُجَسَّم ہوا؛ اس لیے اللہ تعالیٰ کی رحمتِ واسعہ سے امید ہے کہ اِن شاء اللہ، اِس خسارے کی تلافی وہ غیب سے ضرور کرے گا۔ وَمَا ذَلِکَ علَی اللّٰہِ بِعَزِیز۔

مفتی صاحبؒ میں ایک بہت اچھی بات یہ تھی کہ علمی وقار واعتبار کے باوجود، اُن میں اِحساسِ برتری کی بُرائی نہ تھی، جو اہلِ علم میں عموماً پیدا ہوجاتی ہے، وہ تکلّفانہ رعب داب سے بھی کام نہ لیتے تھے؛ اِسی لیے طلبہ اُن سے خاصے مانوس رہتے تھے اور درس گاہوں کے علاوہ بھی، اُن کے لیے اُن سے استفادہ وفیض یابی آسان ہوا کرتی تھی۔ ہمہ وقتی مشغولیت کے باوجود عصر کے بعد اور دوسرے اوقات میں بھی ملنے جلنے کے لیے آنے والوں کے لیے وقت نکال لیا کرتے تھے، جو اُن کی وسعتِ ظرفی وتحمل مزاجی کی بات تھی۔

وہ عام زندگی میں بھی سادہ، بے تکلف اور حلیم الطبع تھے۔ سختی، کرختگی، ترش روئی، سخت گیری اور تلخ گوئی سے ہمیشہ بچتے تھے۔ بعض اہل علم بہ ظاہر خوش مزاج وخوش طبع وبذلہ سنج ہوتے ہیں؛ لیکن وہ نکتہ سنجیوں کے رویّے کی تہ دار یوں میں مخاطب کو بعض دفعہ اپنی ناوک افگینیوں سے بُری طرح گھائل کرجاتے ہیں۔ مفتی صاحبؒ کا اندازِ کلام اور زندگی کا عام طریقۂ کار ایسا رہا کہ کسی کو کبھی بھی اُن سے دلی تکلیف نہیں پہنچی۔

اسی کے ساتھ وہ زود رس، زود حِس، زود نویس اور زود فکر تھے۔ تردّد، اضطراب اور شش وپنج سے اُن کی بیاضِ حیات بالکل خالی تھی، پیش آمدہ کسی بھی مسئلے میں بروقت اور صائب فیصلہ لیتے اور اُس کو بروقت برپا کرنے کی کوشش کرتے۔ زود نویسی کا یہ عالم رہا کہ ہمہ گیر مشغولیتوں کے باوجود، انتہائی کارآمد وفیض بخش تصنیفات کا ڈھیر لگاگئے۔ راقم بھی چوںکہ قرطاس وقلم کی راہ کا ہی ناتواں مسافر رہا ہے؛ اِس لیے وہ بہ خوبی جانتا ہے کہ کام کی چند سطریں بھی تحریر کرنی کتنی مشکل ہوتی ہیں؛ بل کہ بعض دفعہ ایک صفحہ لکھنے کے لیے سیکڑوں صفحات کا مطالعہ بھی ناکافی ہوتا ہے۔ مفتی صاحبؒ پر یہ راقم اِس حوالے سے بہ طورِ خاص رشک کرتا تھا، وہ اُن سے ہمیشہ کہتا تھا کہ آپ ’’رجل مُوَفَّق‘‘ یعنی باتوفیق آدمی ہیں، آپ کے وقت اور قلم دونوں میں بے پناہ برکت ہے۔ یہ راقم تمام تر عزلت نشینی؛ بل کہ مردم بے زاری کی حد تک علائق سے بالکلیہ پرہیز کے باوجود، اِس سلسلے میں اُن کی گردِ راہ کو بھی نہ پاسکا؛ کیوں کہ وہ سست نگار اور مطالعہ ونتائجِ مطالعہ سے فائدہ اُٹھانے میں سست قدم واقع ہوا ہے۔

اپنے مشہور تدریسی کارناموں کے ساتھ، اُنھوں نے مفید تر تصنیفات وتحقیقات کا اپنے پیچھے ایک بھراپُرا اسلامی کتب خانہ چھوڑا ہے، جو اُنھیں حیاتِ دوام دینے کے لیے کافی ہے، اُس کے ذریعے اُن کی یادوں کے چراغ دل ودماغ میں روشن رہیں گے اور استفادہ کرنے والوں کی زبانوں پر اُن کا تذکرۂ جمیل نغمۂ جاوید کی طرح مچلتا رہے گا اور وہ صدقۂ جاریہ بن کر اُن کی میزانِ حسنات کو باوزن بناتا رہے گا۔

اپنے سارے علمی وتعلیمی مشاغل کے باوجود، بال بچوں کے حقوق کی ادایگی، اُن کی تعلیمی وتربیتی ذمے داریوں کی کما حقہ انجام دہی میں چست رہنا اور خانگی امور سے ماہرانہ طور پر نمٹنا، اُن کا وجہِ امتیاز تھا۔ دسیوں سال پہلے کی بات ہے یہ راقم اُن کی طرف سے طے کردہ وقت کے مطابق، اُن کے گھر پہنچا، تو ڈھیر سارے بچے اُن کے سامنے اُن کی بیٹھک میں اپنے اسباق بلند آواز سے یاد کررہے تھے، ایسا لگتا تھا کہ بڑا مکتب یا چھوٹا موٹا مدرسہ اُن کی نگرانی میں اُن کے گھر میں چل رہا ہے۔ راقم کے ساتھ جو صاحب تھے وہ اُن کے یہاں اکثر آیا جایا کرتے تھے، اُنھوں نے راقم کو بتایا کہ یہ سب مفتی صاحب ہی کے بچے ہیں، مغرب تا عشا مفتی صاحب خود ہی سب بچوں کو پڑھاتے ہیں، چوں کہ کثیر الاولاد ہیں؛ اِس لیے آپ کو محسوس ہوا کہ اُن کے یہاں کوئی باقاعدہ مکتب چلتا ہے، جس میں اُن کے اور محلے کے بچے بھی پڑھتے ہیں۔

یہ راقم، مشاغلِ خیر سے اُن کی بھری پُری زندگی پر، اُن کے حینِ حیات بھی رشک کرتا تھا کہ توفیقِ اِلٰہی کے بغیر، اُن کی ایسی اِتنی پُر زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ اہل علم کے ساتھ اکثر یہ ہوتا ہے کہ وہ علمی سرگرمیوں کا حق تو بہ قدرِ توفیق ادا کرلیتے ہیں؛ لیکن امورِ زندگانی میں پھوہڑ ہوتے ہیں؛ بل کہ جو جتنا بڑا ذی علم ہوتا ہے، وہ زندگی کے معاملات میں اتنا ہی بدسلیقہ و بے ہنر ہوتا ہے۔

مفتی صاحبؒ کی ایک انفرادیت، جو اُنھیں دیگر معاصر علما سے ممتاز کرتی ہے، یہ بھی ہے کہ اُنھوں نے اپنی اولاد کو اپنے بعد، لوگوں کا دستِ نگر نہیں چھوڑا؛ بل کہ اُنھیں ’’اغنیا‘‘ چھوڑا ہے۔ اِس طرح اُنھوں نے ارشاد نبوی پر عمل کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ تم اپنی اولاد کو اغنیا (مال دار و بے نیاز) چھوڑکر جاؤ، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم اُنھیں محتاج چھوڑکر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے پھریں۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۵۶۶۸)۔

مفتی صاحبؒ کی یہ خصوصیت اِس لیے قابلِ ذکر ہے کہ اُنھوں نے بہت سے معاصر ’’علماے دین‘‘ کی طرح اپنے کو سیم وزر کا غلام نہیں بنایا اور زرکشی کے لیے وہ ہتھ کنڈے نہیں اپنائے جو عام طور پر غلامانِ مال وزر اپنایا کرتے ہیں۔ اُن کے کسی طرزِ عمل سے کسی کو کبھی یہ محسوس نہیں ہوا ہوگا کہ وہ مال ومنال اندوزی کے لیے اسباب سازی کی تگ ودو میں لگے رہے ہوں اور زندگی کے گراں مایہ لمحات کا کوئی حصہ اس کوشش میں پامال کیا ہو۔ اُن کی شناخت ہمیشہ ایک خوگرِ علم عالمِ صالح، مطالعہ وتحقیق کے رسیا، قرطاس وقلم کے ساتھی، وسیع النظر محدث، دقیق النظر فقیہ ومفتی اور فنِّ تدریس کے ماہر مستری کی ہی رہی؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل وکرم سے، اُن کے لیے کشادگیِ رزق کے دروازے وا کردیے، اُن کی تصنیفات بھی بہت مقبول ومتداول اور کثرت سے فروخت ہوتی رہیں، جو اُن کی آمدنی کا مستقل ذریعہ رہیں اور اُن کی وفات کے بعد، اُن کے بچوں اور پس ماندگان کے لیے بھی؛ اِن شاء اللہ خود کفالتی کا یقینی وسیلہ رہیں گی۔

اُنھوں نے کئی سال پہلے اپنے سارے بچوں کے لیے دیوبند ہی میں الگ الگ مکانات بنوادیے جن سے ایک محلّہ سا آباد ہوگیا ہے۔ یہی نہیں؛ بل کہ اُنھوں نے دارالعلوم اشرفیہ عربیہ راندیر (گجرات) جہاں اُنھوں نے ۱۳۸۴ھ سے ۱۳۹۳ھ تک تدریسی خدمت انجام دی اور دارالعلوم دیوبند جہاں شوال ۱۳۹۳ھ سے تاحیات ۱۴۴۱ھ تک سرگرم تدریس وفیض رسانی رہے، دونوں اِداروں سے جو تنخواہیں لی تھیں، وہ سب وَاپس کردیں۔ دارالعلوم دیوبند سے اُنھوں نے ۱۴۲۳ھ میں حج بیت اللہ سے واپسی کے بعد، ۳۰ سال تین ماہ تک جو کچھ لیا تھا وہ ساری رقم لوٹادی، اس کے بعد سے تاحیات دارالعلوم کے لیے اُن کی ساری خدمات بلامعاوضہ رہیں۔ دارالعلوم اشرفیہ راندیر سے انھوں نے نوسالہ مدتِ تدریس میں تیئس ہزار دو سو پچاس روپے (۲۳۲۵۰) تنخواہ لی تھی، جو اس کے خزانے میں ۲۸؍ اپریل ۲۰۰۳ء کو جمع کرادی۔

دارالعلوم دیوبند سے ۱۳۹۳ھ سے ۱۴۲۳ھ تک تنخواہ کی شکل میں، اُنھیں کل نو لاکھ انچاس ہزار آٹھ سو چار روپے پچھتر پیسے (۷۵/۹۴۹۸۰۴) ملے تھے، جو اُنھوں نے متعدد مرتبہ میں اُس کو واپس کردیے۔ محرم ۱۴۲۴ھ سے وفات تک دارالعلوم سے کوئی تنخواہ لی نہ کوئی مادی فائدہ اُٹھایا۔ تَقَبَّل اللّٰہُ حَسَنَاتِہ، وکَثَّرَ اَمْثَالَہ۔

ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اجتماعی دعوتوں میں شرکت سے بالکلیہ پرہیز کرتے تھے کہ اس سے وقت بہت ضائع ہوتا ہے اور طے کردہ التزامات ومعمولات میں ضرور خلل واقع ہوتا ہے۔

اُن کی ایک قابلِ ذکر خوبی یہ تھی کہ وہ بڑے سے بڑے دل گداز واستخواں سوز حادثے کے وقت بھی، اپنے اعصاب پر جس طرح قابویافتہ رہتے تھے، اُس کی نظیر راقم نے بہت کم دیکھی ہے۔ وہ مشکل حالات کا ایک سچے مومن کی طرح جواںمردی سے مقابلہ کرتے اور کبھی جزع فزع کی کیفیتوں کا شکار نہ ہوتے۔ راقم نے پہلے بھی کہا ہے کہ وہ اعصاب شکن نازک حالات میں بھی صحیح اور بروقت عملی راے قائم کرتے اور چاک داماں ہونے اور سینہ کوبی کرنے کی بہ جاے مطلوبہ سمت میں پیش قدمی کرکے وہ کام کرتے جو وقت کا تقاضا اور مستقبل سازی کا ذریعہ ہوتا۔

۱۴۱۵ھ /۱۹۹۵ء میں اُن کے سب سے بڑے صاحب زادے مولوی حافظ مفتی رشید احمد (جو ذی استعداد، ہونہار اور فرماںبردار ہونے کے ساتھ پہلی اولاد تھے) مظفرنگر کسی کام سے گئے واپسی میں ایک حادثے میں اچانک جاںبہ حق ہوگئے۔ مفتی صاحب اُس وقت لندن میں تھے، اُنھیں اس جاںکاہ حادثے کی خبر دی گئی، اُنھوں نے ٹھوس لہجے میں فرمایا: رشید احمد اللہ تعالیٰ کی امانت تھے، اللہ نے واپس لے لی۔ اہل خانہ کو ہدایت دی کہ اُن کی تجہیز وتکفین کا انتظام کرو اور علی الصباح نمازِ جنازہ وتدفین سے فارغ ہوجاؤ، میرے آنے کا انتظار نہ کرو، میری آمد میں تاخیر بھی ہوسکتی ہے۔

دارالعلوم میں اور اُن کے اہلِ خانہ میں طبعی طور پر اس واقعے کا بڑا غم تھا، لوگوں کو اندازہ تھا کہ مفتی صاحب کو بے حد صدمہ ہوگا اور وہ اس کا اظہار بھی کریں گے اور لندن سے اپنی بہ عجلت واپسی تک تدفین کو مُعَلَّق رکھنے کی بات کہیں گے؛ لیکن اُنھوں نے صبرِ جمیل کا ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کیا جو اُن کے ہی ایسے صبر شعار علماے کاملین کا شیوہ ہوتا ہے۔

۱۴۳۲ھ / ۲۰۱۱ء میں اُن کی اہلیہ محترمہ کی رحلت کا حادثہ پیش آیا۔ یہ حادثہ اِس لیے بھی بڑا دل گداز تھا کہ اِس سے نہ صرف اُن کا گھر اجڑسا گیا؛ بل کہ امور خانہ داری کی جو ترتیب قائم تھی، وہ بالکل تِتَّر بِتَّر ہوجانے کے خطرے سے دوچار ہوگئی۔ اُن کے بڑھتے ہوے علمی مشاغل کے پیشِ نظر، اُن کی سن رسیدگی میں، ہونہار ووفاشعار وپیکر انکسار وسمجھ دار اور امور خانہ داری میں ماہر حافظِ قرآن اور حفظ میں اپنے بچوں کی استاذ پڑھی لکھی بیوی؛ اُن کی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت تھی؛ لیکن اُنھوں نے اِس صبر شکن موقع سے جس صبر وقرار کا مظاہرہ کیا اور اپنی مُتَاَہِّل وغیر مُتَاَہِّل اولاد کو جس خوش اندازی وہنرمندی سے سنبھالا اور خانہ بربادی کے منڈلاتے خطرے کو جس طرح خانہ آبادی؛ بل کہ خانہ سازی میں تبدیل کیا، وہ ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے کہ ایک ذی علم اور علمی وتعلیمی وتالیفی مشاغل میں بے حد منہمک عالم بھی اپنی کثیرالاولاد فیملی کو سلیقہ مندانہ انداز میں چلاسکتا ہے؛ ورنہ بالعموم ماہرینِ علم علما، نہ صرف گھریلو معاملات میں؛ بل کہ سارے انتظامی امور میں کورے اور نابلد ہوتے ہیں؛ کیوںکہ علمی مصروفیات کی جکڑبندی وارتکاز خواہی وانہماک طلبی، دیگر سمتوں کی طرف جھانکنے کا موقع نہیں دیتی۔

مفتی صاحبؒ کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ درسِ نظامی کے تحت چلنے والے مدارس (جن کا سرخیل اُمّ المدارس دارالعلوم دیوبند ہے) میں دینی عالم سازی کا جو مختلف العلوم نصاب رائج ہے، اُن کو اس نصاب کی تقریباً ساری کتابوں اور علوم میں دست گاہ حاصل تھی؛ کیوںکہ اپنے بھائیوں اور اپنی اولاد کو از ابتدا تا متوسطات خود ہی یہ کتابیں اُنھوں نے پڑھائیں اور مدرسہ اشرفیہ راندیر اور دارالعلوم دیوبند میں اُنھوں نے حدیث وفقہ کے علاوہ بھی متوسطات سے اوپر کی کتابوں کا درس دیا، نیز اس نصاب کی اکثر کتابوں کی تحریری تحقیق وتدقیق وشرح نگاری؛ اُن کی تالیفی زندگی کا اہم مشغلہ رہی؛ اِسی لیے منقولات ومعقولات اور عالیات وآلیات سے متعلق ہرطرح کے علوم وفنون، اُنھیں بالعموم مستحضر رہے، جس کی وجہ سے تدریسی وتالیفی عمل اُن کے لیے بہت آسان رہا۔

پھر یہ کہ توفیقِ الٰہی سے اُنھوں نے جہاں بھی جو کچھ بھی پڑھا، محنت اور لگن سے پڑھا اور رسمی فراغت کے بعد یا حصولِ تعلیم کے دوران، جس کو جو کچھ پڑھایا ہمہ تن مصروف رہ کر پڑھایا۔ اِس کے علاوہ اُن کی استعداد سازی میں ایک اور عامل نے بنیادی کردار ادا کیا، جس کاتذکرہ مفتی صاحبؒ کے برادرِ خُرد مولانا مفتی محمد امین صاحب پالن پوری استاذ دارالعلوم دیوبند نے، اپنی کتاب ’’الخیر الکثیر‘‘ کے شروع میں، اُن کے تعارف میں کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اُن کے والد ماجد محمد یوسف صاحبؒ (متوفی ذی قعدہ۱۴۱۱ھ = جون ۱۹۹۱ء) گو تعلیم مکمل نہ کرسکے؛ لیکن اُنھوں نے کچھ دنوں جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں اُس زمانے میں تعلیم حاصل کی جب وہاں علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ (۱۳۰۵ھ /۱۸۸۷ء — ۱۳۶۹ھ / ۱۹۴۹ء) مولانا محمد یوسف بنّوریؒ (۱۳۲۶ھ /۱۹۰۸ء — ۱۳۹۷ھ / ۱۹۷۷ء) اور مولانا بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی ؒ (۱۳۱۶ھ / ۱۸۸۹ء — ۱۳۸۵ھ /۱۹۶۵ء) پڑھاتے تھے۔ اُن بزرگوں کے علم وعمل اور فضل وکمال سے وہ حد درجہ متاثر تھے، گھریلو حالات کی وجہ سے خود تو عالم نہیں بن سکے؛ لیکن یہ آرزو اُن کے دل میں موج زن رہی کہ اُن کی اولاد، اُن علماے نام دار کے جیسے عالم بن جائے، اُنھوں نے اس کا اِظہار مولانا بدرعالم میرٹھی سے کیا، جن کے وہ خادمِ خاص تھے۔ مولاناؒ نے اُنھیں اُن کی آرزو کے برآنے کی راہ سمجھائی اور یہ نصیحت فرمائی:

’’یوسف! اگر تم اپنے لڑکوں کو اچھا عالم بنانا چاہتے ہو، تو حرام اور ناجائز مال سے پرہیز کرنا اور بچوں کو بھی ناجائز اور حرام مال سے بچانا؛ کیوں کہ علم ایک نور ہے، ناجائز اور حرام مال سے جو بدن پروان چڑھتا ہے، اُس میں یہ نور داخل نہیں ہوتا۔‘‘

مولانا مفتی محمد امین صاحب لکھتے ہیں:

’’یہ نصیحت حضرت مولانا نے والد ماجد کو اس لیے کی تھی کہ اُس زمانے میں ہماری ساری قوم بنیوں کے سود میں پھنسی ہوئی تھی، اُسی زمانے میں ہمارے دادا نے بنیے سے سودی قرض لے کر ایک زمین کرایے پر لی تھی، والد صاحب اُس زمانے میں ڈابھیل کے طالبِ علم تھے، والد صاحب نے اِس معاملے میں دادا سے اختلاف کیا، تو دادا نے والد صاحب کو الگ کردیا، چناںچہ والد صاحب کو حرام سے بچنے کے لیے مجبوراً تعلیم چھوڑکر اپنا گھر سنبھالنا پڑا اور تہیّا کیا کہ چاہے بھوکا رہوںگا مگر حرام کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا؛ تاکہ میں نہیں پڑھ سکا تو اللہ تعالیٰ میری اولاد کو علم دین عطا فرمائیں۔‘‘ (الخیر الکثیر، ص۶۲)

الغرض اُن کے والد نے حرام غذا سے بچنے کا التزام کیا اور اپنی اولاد کو بھی اس سے بچائے رکھا، یقینا نماز روزے کی پابندی، جو اُن کے والد کی خصوصیت تھی، کے ساتھ حرام خوری سے مکمل اجتناب کی وجہ سے اُن کی اولاد عموماً اور بڑی اولاد خصوصاً عالم باعمل بنی جو علم وعمل کی بھرپور حصول یابیوں کا گہرا نقشِ دوام ثبت کرکے دنیا سے رخصت ہوئی۔اُن کے والد مرحوم کا یہ کارنامہ ان شاء اللہ اُن کی بخشش کا پروانہ ثابت ہوگا۔

مفتی صاحب اب اِس دنیا میں نہیں رہے؛ لیکن وہ اپنے علمی کارناموں کی وجہ سے مرنے کے بعد بھی زندہ، تابندہ اور پایندہ رہیں گے؛ کیوں کہ اُن کے علمی وتعلیمی کارنامے سوختگیِ خون جگر کا نتیجہ تھے: ایسے کارنامے انسان کی موت کے بعد زیادہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ نشورؔ واحدی نے کیا خوب کہا ہے:

خاک اور خون سے اِک شمع جلائی ہے نشورؔ موت سے ہم نے بھی سیکھی ہے حیات آرائی

خاک میں خاکی جسم تو چھپ جاتا ہے؛ لیکن انسان کے علمی وفکری کارنامے تہِ خاک ہوجانے کے بعد اور درخشاں ہوجاتے ہیں:

لَعَمْرُکَ ما وَارَی التُّرَابُ فِعَالَہٗ وَ لٰکِنَّہٗ وَارَیٰ ثِــیَابًا وَ أَعْظُـمَا

ہاں افسوس رہے گا تو اِس کا مفتی صاحب جیسے شمعِ علم پر قربان ہونے والے مثالی پروانے ایک ایک کرکے رخصت ہوتے جاتے ہیں:

فروغِ شمع تو باقی رہے گا صبحِ محشر تک مگر محفل تو پروانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے

مفتی صاحب باصلاحیت فضلا وعلما کے لیے مادی ومعنوی سطح پر بڑے ہم درد اور مددگار ہوتے تھے؛ اِسی لیے مفتی صاحب کی رحلت سے اُن سارے لوگوں کو بہ طورِ خاص بہت صدمہ ہوا ہے، جو جانتے ہیں کہ انسان ضعیف البنیان ہے اور نقائص ومعایب سے پر ہے؛ اس لیے معاشرتی زندگی میں جو ہرقسم کے انسانوں کا مجموعہ ہوتی ہے، معاشرتی خرابیاں ضرور ہوتی ہیں، اُن میں زیادہ عیاں حقوق رسانی کے حوالے سے ناہم واریاں ہیں، جس کے اندیشے سے بچنے کے لیے وہ مفتی صاحب کا سہارا لیتے تھے اور اُن کی عادلانہ ثالثی کے ذریعے، حق کی حق دار تک رسیدگی کا یقین رکھتے تھے؛ کیوں کہ محترم المقام ہونے کے وجہ سے، مفتی صاحب کی راے وزن دار اور ہمیشہ مسموع ہوتی تھی اور ایسا شاید وباید ہی ہوتاتھا کہ وہ کوئی تجویز یا مشورہ پیش کریں اور متعلقہ لوگ اُس کو روبہ عمل لانے میں آنا کانی کریں۔ کسی بھی معاشرے میں ایسی واجب الاحترام ہستی، اس کی غیرمعمولی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے