فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نوراللہ مرقدہ


فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نوراللہ مرقدہ

آج6 فروری یوم وفات

آپ فدائے ملت ، امیر الہند ثانی ، ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم قائد ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ کے بڑے صاحبزادے و جانشین ، جمعیتہ علماء ھند کے صدر اور دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن رکین تھے ۔

ولادت :

آپ کی ولادت 6 ذی قعدہ 1346ھ مطابق 27 اپریل 1928ء بروز جمعہ دیوبند میں ہوئی ۔

تعلیم و تربیت :

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ "محترمہ سائرہ صاحبہ " سے حاصل کی ، جو  قابل رشک صفات کی حامل خاتون تھیں ، 1355ھ مطابق 1936ء میں فوت ہوگئی تھیں ، اس وقت آپ 9 / سال کے تھے ، آپ نے اپنے والد صاحب سے بھی ابتدائی تعلیم حاصل کی ، پھر آپ کے والد صاحب حضرت مدنی رح کے خادم خاص حضرت مولانا قاری اصغر علی سہسپوری رح نے آپ کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سنبھالی اور انہیں کے زیر نگرانی تعلیم حاصل کی ، پھر آپ نے دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوکر سارے تعلیمی مراحل طے کئے اور 1365ھ مطابق 1946ء میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے ۔ آپ کے اساتذہ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رح ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی رح ، استاذ الاساتذہ حضرت علامہ ابراھیم بلیاوی رح ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی رح ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رح ، حضرت مولانا فخرالحسن مرادآبادی رح ، حضرت مولانا عبدالحق رح بانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ، جیسے اساطین علم و فضل شامل ہیں ۔

درس و تدریس :

دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد عرصہ تک مدینہ منورہ میں قیام فرمایا ، پھر 28 شوال 1370ھ مطابق اگست 1951ء میں دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے لئے آپ کا تقرر ہوا اور 1382ھ مطابق 1962ء تک مسلسل بارہ سال تک باقاعدہ متوسط کتابوں کا درس دیا ۔ اس کے بعد ملی ضرورتوں اور قومی خدمات کے پیش نظر درس و تدریس کا سلسلہ موقوف ہوگیا ۔

بیعت و خلافت :

رمضان المبارک 1368ھ میں اپنے والد ماجد حضرت مدنی نوراللہ مرقدہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے ، سفر و حضر میں ساتھ رہ کر سلوک و تصوف کے تمام مراحل طے کئے ۔ حضرت شیخ الاسلام رح کے چشمہ علم و عرفان سے بھر پور فیضیاب ہوئے ، آپ کے وصال کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی رح نے حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری رح کے حکم سے خلافت دی اور حضرت شیخ الاسلام رح کے خلفاء نے اجازت بیعت سے نوازا اور جانشین شیخ الاسلام رح مقرر کیا ، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری رح نے بھی خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا ۔

جمعیتہ علماء ھند کے اسٹیج پر :

اپریل 1956ء میں جمعیتہ علماء دیوبند کے نائب صدر منتخب ہوئے ، 24 جون 1960ء میں آپ کو جمعیتہ علماء اترپردیش کا صدر منتخب کیا گیا ۔ 9 اگست 1963ء کو حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادی رح کی زیر صدارت میں آپ کو جمعیتہ علماء ھند کا ناظم عمومی بنایا گیا ۔ 11 اگست 1973ء کو آپ کو جمعیتہ علماء ھند کا بالاتفاق صدر منتخب کیا گیا جس پر تادم حیات فائز رہ کر ملک و ملت کے لئے عظیم خدمات انجام دیں جن کا احاطہ دشوار ھے ، 1968ء میں راجیہ سبھا سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور 1994ء تک ممبر رہ کر پارلیمنٹ میں ملک و ملت کے تمام مسائل کی پوری جرات و بے باکی کے ساتھ ترجمانی کی ۔ اس عرصہ میں آپ کی 56 تقریریں پارلیمنٹ کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں جو جرات و بیباکی اور حق گوئی کی زریں شاہکار اور اعلائے کلمتہ الحق کی روشن مثال ہیں ، 1405ھ مطابق 1985ء میں دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن منتخب ہوئے اور تاعمر دارالعلوم دیوبند کی تعمیر و ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا ۔ دارالعلوم دیوبند میں شورائی نظام کی بحالی و بالادستی میں آپ نے نمایاں خدمات انجام دیں ، دارالعلوم دیوبند کی نشاہ ثانیہ کے بعد اس کی تعلیمی و تبلیغی خدمات کی توسیع و ترقی میں آپ کا بڑا ہاتھ تھا ۔

آپ کا اہم کارنامہ :

آپ کی زندگی کا ایک اہم کارنامہ 2 نومبر 1986ء کو کل ھند امارت شرعیہ ہند کا قیام ھے ، جس کے اولین اجلاس منعقدہ 1986ء میں محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی رح کو امیرالہند اور آپ کو نائب امیرالہند منتخب کیا گیا ۔ 1992ء میں امیرالہند حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رح کے انتقال کے بعد 9 / مئی 1992ء کے عظیم الشان نمائندہ اجلاس نے آپ کو امیرالہند منتخب کیا جس پر تادم واپسیں فائز رھے اور دینی ، قومی ، ملی ، سماجی ، سیاسی اور معاشرتی خدمات انجام دیتے رھے ۔  جمعیتہ علماء ھند کے پلیٹ فارم سے آپ نے ہندوستانی مسلمانوں کی شاندار مثالی قیادت کی اور بے لوث خدمات کی ایک روشن تاریخ رقم کی ، ملک میں مسلمانوں کو پیش آنے والے تمام چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہر موڑ پر ملت اسلامیہ کی شاندار قیادت کی ، آزاد ہند میں مسلم اقلیت کی خدمات کے حوالے سے آپ کا نام تاریخ میں جلی حروف میں لکھا جائے گا ۔

حج و زیارت :

آپ کو حرمین شریفین کی حاضری اور حج و زیارت کا والہانہ ذوق نصیب ہوا تھا اور اللہ تعالی کی طرف سے اس کی قابل رشک توفیق بھی ملی ۔ اس سعادت و خصوصیت میں بھی آپ اپنی مثال آپ ہیں ۔ دستیاب معلومات کے مطابق آپ نے 37 حج اور 32 عمرہ کے سفر فرمائے ۔ ایں سعادت بزور نیست ۔

وفات :

5 نومبر 2005ء مطابق 2 شوال المکرم 1426ھ بروز شنبہ کو آپ وہیل چیئر پر دارالعلوم دیوبند کی مسجد رشید سے دیوبند میں اپنے گھر واپس آرہے تھے کہ اس سے پھسل گئے ، جس کے نتیجے میں دماغ میں گہرا زخم آیا ، دماغ کی رگیں ناکارہ ہوگئیں اور آپ مفلوج ہوگئے ، نئی دھلی کے مشھور اپولو ہسپتال میں داخل کئے گئے ، جہاں اعلی سے اعلی علاج ہوتا رہا ، لیکن آپ مسلسل تین ماہ تک بیہوش رھے ، وقت آخر آچکا تھا ، اس لئے ساری تدبیریں ناکام ثابت ہوئیں اور 7 محرم الحرام 1427ء مطابق 6 فروری 2006ء بروز دوشنبہ کی شام پونے چھ بجے بمقام اپولو ہسپتال دھلی یہ آفتاب عزیمت غروپ ہوگیا ۔

8 محرم الحرام 1427ھ مطابق 7 فروری 2006ء کو صبح 7 بجکر 25 منٹ پر دارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب کاندھلوی دامت برکاتہم نے نماز جنازہ پڑھائی ، جس میں ایک لاکھ سے زائد علماء ، مشائخ ، طالبان علوم نبوت اور عام مسلمانوں نے شرکت کی اور مزار قاسمی دیوبند میں اپنے والد ماجد حضرت شیخ الاسلام رح کے پہلو میں ہمیشہ کے لئے آسودہ خواب ہوگئے ۔

رحمہ اللہ رحمتہ واسعہ

( ماہنامہ دارالعلوم دیوبند ، مارچ 2006 ، ہفت روزہ الجمعیتہ اکتوبر 1995ء ، جمعیتہ علماء نمبر ص 248 ۔ 255 ، تاریخ شاھی ص 288 ، پس مرگ زندہ ص 264 ، تذکرہ اکابر ص 281 ، دارالعلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ ص 676 ، ہفت روزہ الجمعیتہ فدائے ملت نمبر اپریل 2007ء )

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے