خود کشی کے محرکات اور اسباب

خودکشی، حل اور علاج


 عبید اللہ شمیم قاسمی 


زندگى الله رب العز ت كى جانب سے عطا كرده ايک بيش قيمتى عطيہ ہے، پيدائش سے لے كر موت تک جتنے بھى احوال انسان كو پيش آتے ہيں ان حالات ميں كس طرح زندگى گزارى جائے اس كا طريقہ بھى الله رب العزت نے ہميں بتلا ديا ہے۔ جب سے انسان اس دنيا ميں آيا اسى وقت سے زندگى كو برتنے اور اس دوران پيش آمده خوشى وغم ، آسانى وتنگى اور وه تمام امور جس سے ايک انسان كا سابقہ پڑتا ہے اس موقع پر كس طرح زندگى گزارى جائے يہ تمام چيزيں الله تعالى نے نبيوں كے ذريعہ سكھلاديا۔ آخر ميں ہمارے نبى حضرت محمد ﷺ اس دنيا ميں تشريف لائے اور آپ نے زندگى برتنے كا طريقہ سكھلايا، الله رب العز ت كا فرمان ہے: ﴿لقد كان لكم في رسول الله أسوةٌ حسنةٌ﴾ الله كے رسول كى زندگى تمہمارے ليے بہترين اسوه اور نمونہ ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں خوشی و غمی، عسر ویسر میں کس طرح زندگی گزاری جائے عملی نمونہ کرکے دکھلا دیا۔

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی زندگی خوشگوار گزرے،

خوشگوار زندگى كے رہنما اصول كيا ہيں جنہيں اپنا كر ايک شخص اس دنيا ميں بھى اچھى زندگى گزارے اور مرنے كے بعد بھى اسے كاميابى سے ہم كنار ہونا پڑے، بہت سے مصنفين نے اس موضوع پر قرآن وحديث كى روشنى ميں خامہ فرسائى كى ہے۔ ان کتابوں کے مطالعے سے ہمیں بہترین رہنمائی ملے گی۔


اگر ہم دنيا ميں الله اور اس كے رسول كے بتلائے ہوئے فرمان كے مطابق زندگى گزاريں گے تو دنيا ميں بھى سرخرو ہوں گے اور آخرت ميں بھى كاميابى ہمارا مقدر ہوگى۔

انسانى زندگى كا خاصہ ہے كبھى اس كو خوشى محسوس ہوتى ہے تو كبھى غموں سے اس كا سامنا ہوتا ہے، اسى طرح انسان كو كبھى مالدارى كا سامنا ہوتا ہے تو كبھى فقر وفاقہ اور تنگ دستى سے سابقہ پڑتا ہے، ايک كامياب انسان وہى ہے جو ان تمام حالات ميں قصد وميانہ روى اختيار كرے، ايک حديث ميں رسول الله ﷺ نے اس جانب اشاره فرمايا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "ثَلَاثٌ مُنجِيَاتٌ، وَثَلَاثٌ مُهْلِكَاتٌ، فَأَمَّا الْمُنْجيَاتُ: فَتَقْوَى اللَّهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ، وَالْقَوْلُ بِالْحَقِّ فِي الرِّضَا وَالسُّخْطِ، وَالْقَصْدُ فِي الْغِنَى وَالْفَقْرِ، وَأَمَّا الْمُهْلِكَاتُ: فَهَوًى مُتَّبَع، وَشُحٌّ مُطَاعٌ، وَإِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ، وَهِيَ أَشَدُّهُنَّ". شعب الإيمان للبيهقي (6965). تین چیزیں نجات دینے والی ہیں ان میں سے ایک مالداری اور فقر کے زمانے میں میانہ روی ہے۔ 


اسى طرح انسان كبھى مصيبت كے وقت صبر كا دامن ہاتھ سے چھوڑ ديتا هے اور احكامات خداوندى كو بھلا كر واويلا كرنے لگتا ہے حالانکہ صبر كرنے پر بہت سى بشارتوں سے نوازا گيا ہے، قرآن كريم ميں ارشاد ہے: ﴿وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴾ [البقرة: 155، 156]اور خوش خبرى دے ان صبر كرنے والوں كو كہ جب پہنچےان كو كچھ مصيبت تو كہيں ہم الله ہی كا مال ہيں اور ہم اسى كى طرف لوٹ كرجانے والے ہيں (ترجمه شيخ الہند)۔

اور حديث شريف ميں فرمايا گيا: "إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأُولَى" صحيح البخاري (1283)، وصحيح مسلم (926).


ليكن انسان جب حالات سے مايوس ہوجاتا ہے اور بظاہر ان حالات سے خلاصى كى كوئى راه نہيں پاتا تو ايسے وقت ميں انتہائى قدم اٹھاتے ہوئے موت كو گلے لگا ليتا ہے اور خود كشى كرليتا ہے، حالانكہ ايسا كرنا بہت بڑا گناه ہے، ارشاد بارى تعالى ہے: ﴿ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة﴾ [البقرة: 195] اور نہ ڈالو اپنى جان كو ہلاكت ميں۔

حديث شريف ميں خود كشى كرنے والے كے بارے ميں سخت وعيد آئى ہے، صحيحين كى روايت ہے: «مَنْ حَلَفَ عَلَى مِلَّةٍ غَيْرِ الإِسْلاَمِ فَهُوَ كَمَا قَالَ، وَلَيْسَ عَلَى ابْنِ آدَمَ نَذْرٌ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ، *وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ فِي الدُّنْيَا عُذِّبَ بِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ* ، وَمَنْ لَعَنَ مُؤْمِنًا فَهُوَ كَقَتْلِهِ، وَمَنْ قَذَفَ مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ فَهُوَ كَقَتْلِهِ» صحيح البخاري (6047) صحيح مسلم (110)۔ اس روایت کا ایک ٹکڑا یہ بھی ہے، جو شخص بھى دنيا ميں اپنے آپ كو كسى چيز سے قتل كرلے تو قيامت كے دن اس كے ذريعہ عذاب ديا جائے گا۔

خود سے قتل کرنے کے ضمن میں اپنے کو آگ کے ھوالہ کردینا، گولی مارلینا اور ندی یا کنویں میں چھلانگ لگا کر جان دیدینا یہ سب شامل ہے۔


 خود كشى كے كيا اسباب اور محركات ہوتے ہيں اس مضمون ميں اس پر كچھ روشنى ڈالنے كى كوشش كى گئى ہے۔

خود كشى کے پیچھے کئی محرکات کار فرما ہوتے ہیں لیکن ہم میں سے اکثر لوگ اسے بزدلی، نفسیاتی بیماری، پاگل پن کا نام دے کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور اپنا دامن بچالیتے ہیں۔ یہ بات قابل لحاظ ہے کہ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا، ہر خود کشی کے پیچھے کوئی قاتل ضرور ہوتا ہے۔ وہ قاتل ہم میں سے ہی کوئی ہوتا ہے کبھی انسان کے دوست کی شکل میں، تو کبھی دشمن کی شکل میں تو کبھی سماج کے روپ میں۔ کبھی رشتے دار بن کر تو کبھی ماں باپ یا دوست بن کر۔ ہم اپنے رویے اپنے عمل سے کسی نہ کسی کو اس حد تک لے جاتے ہیں اور خود کشی پر اکساتے ہیں۔ بعد ازاں اسی شخص کو بزدلی کے طعنے دے کر خود کو مطمئن کرلیتے ہیں۔ 

ہر سال دنیا بھر میں لگ بھگ 8 سے 10 لاکھ افراد خودکشی کرکے اپنی زندگی داؤ پر لگا دیتے ہیں، ہر چالیس سیکنڈ میں ایک زندگی خودکشی کی نذر ہوجاتی ہے۔ اس وقت تو اس عالمی بیماری کی وجہ سے غربت میں جتنی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے یہ تعداد اور بھی بڑھ گئی ہے۔

ہمارے اپنے ملک میں ہر چار منٹ میں ایک اور ہر روز 381 خودکشیاں ہوتی ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق 2019 میں تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار افراد نے مختلف اسباب کی بنا پر خودکشی کی، گویا ہر روز اوسطاً 381 افراد نے اور ہر چار منٹ پر ایک شخص نے اپنی زندگی ختم کرلی۔ یہ تو دو سال قبل کی رپورٹ ہے، گذشتہ سال کورونا وائرس کی وجہ سے اور پھر اچانک لاک ڈاون کی وجہ سے جو مالی دشواریاں پیش آئی ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنے لوگوں نے اپنی قیمتی جانوں کو خود اپنے ہاتھوں ضائع کردیا۔ 

ہر سال 10 ستمبر کو خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس میں خودکشی کے اسباب اور محرکات پر غور و فکر کی ترغیب دینے کے لیے سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ 

خود کشی سے بچاؤ کے لیے اس کے محرکات کا علم ہونا بے حد ضروری ہے کہ آخر وہ کونسی شے ہے جو انسان کو اس قدر مایوسی کی جانب دھکیل دیتی ہے کہ انسان خود ہی اپنی زندگی ختم کرنے کے درپے ہوجاتا ہے۔ 


طبی ماہرین کے مطابق خودکشی کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں غربت، بیروزگاری، مایوسی، افسردگی، غصہ، افراتفری، پولیس تشدد، اعتماد کی کمی اور امتحان میں کم نمبر آنا اور ایک انسان جس محبت کا مستحق ہے اسے نہ مل پانا یہ سب اسباب شامل ہیں، اسی طرح بیجا سختی اور سکون کا حاصل نہ ہونا۔ تاہم خودکشی کے بنیادی اسباب دو ہیں، مالی مسائل اور خاندانی مسائل۔ آئے روز اخبار میں اس قسم کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں شخص نے بے روز گاری سے تنگ آکر خود کشی کرلی یا فلاں لڑکی نے اپنی نس کاٹ کر خود کشی کرلی۔

لیکن اس وقت مالی مسائل کے ساتھ ساتھ معاشرے میں جہیز جیسی رسم بد نے بہت سی لڑکیوں کو خودکشی پر مجبور کردیا ہے، سسرال والوں کی جانب سے جب برابر جہیز کا مطالبہ ہوتا ہے اور غریب والدین اس مطالبے کو پورا نہیں کرپاتے تو لڑکی کو مسلسل طعنے سننے پڑتے ہیں بالآخر وہ تنگ ہوکر خود کشی کرلیتی ہے، حالیہ واقعہ جس میں عائشہ نامی احمد آباد کی لڑکی نے خود کشی کی ہے وہ بھی اسی قبیل سے ہے۔

یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ کوئی بھی شخص ایک دم ہی اتنا بڑا قدم نہیں اٹھاتا کہ وہ ایک ہی جست میں خود کو ختم کرلے بلکہ وہ آہستہ آہستہ اس جانب بڑھتا ہے باقاعدہ سوچ کر پلان کرکے اس فعل کو انجام دیتا ہے۔


 *ماہرین نفسیات* اس بات کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ ہر نفسیاتی بیماری کی طرح خود کشی کی جانب مائل ہونے والے شخص میں چند علامتیں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں جن میں ابتدائی علامات زندگی کے بارے میں اس کے رویے میں تبدیلی کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ ایسا شخص یا تو ضرورت سے زیادہ پْرجوش نظر آنے لگتا ہے یا پھر خطرناک حد تک مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق اگر کسی شخص میں خودکشی کی انتہائی علامات موجود ہیں اور وہ کہہ رہا ہے کہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہے یا اسے اپنی زندگی کا فائدہ نظر نہیں آتا تو اِن باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسے شخص سے گفتگو کرکے اس کے اندر موجود بھڑاس، غم و غصے کو نکلنے کا موقع دینا چاہیے۔ ایسے وقت میں اس شخص کو کسی سامع کی ضرورت ہے جو فقط اسے سنے اور تب تک سنتا رہے جب تک وہ اپنے اندر کی ساری بھڑاس نکال نہ لے۔

اگر ہمارے پاس وقت ہے اور اللہ نے فراغت میسر کی ہے تو وہ وقت دوسروں پر نکتہ چینی کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ اگر ہمیں خود کوئی اپنے مسائل سے آگاہ کرے اور مشورہ طلب کرتا ہے تو ہماری نصیحتوں اور فتووں کی پٹاری کھل جاتی ہے۔ ہم ہر مشورے کے ساتھ اس شخص کو اس بات کا احساس دلانا نہیں بھولتے کہ تم ایک ناکارہ شخص ہو، تم نے اپنی زندگی میں کچھ نہیں کیا اور کوشش کروگے بھی تو کام یاب نہیں ہوگے کیوں کہ تمہارے پاس نہ مجھ جیسی دانشوری ہے نہ ہی تجربہ۔ ان حالات میں وہ شخص مشورے کے بجائے مرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ آج المیہ یہ ہے کہ ہم ناصح تو بن گئے لیکن ہمدرد نہ بن سکے۔ غور کیجیے کہیں آپ، میں یا ہم میں سے کوئی تو نہیں جو ان خود کشی کرنے والوں کو اس نہج تک لانے کا سبب بنا ہو۔

ہمیں چاہیے کہ اگر ہم اپنے ارد گرد کسی ایسے شخص کو دیکھیں جو کسی بھی سبب زندگی سے مایوس اور ناامید نظر آتا ہو تو اس سے گفتگو کریں، اسے سنیں اس کے مسائل کو ممکنہ حل پیش کریں۔ اگر مالی تعاون ممکن ہو تو وہ بھی کریں، نہیں تو کم از کم ایک سامع کا کردار ادا کرکے اسے اس راہ کا مسافر نہ بننے دیں جس میں فقط اس کے لیے خسارہ ہے۔ اگر آپ میں سے بھی کوئی ایسے مسائل سے گزر رہا ہے جس کا حل آپ کو سمجھ نہیں آتا۔ پریشانی ہے، ڈپریشن ہے تو کسی سے بات کریں۔ کوئی نہیں ہے تو بھی گھبرائیں نہیں وہ خالق کائنات ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے اس سے گفتگو کریں، اسے اپنے تمام مسائل کہہ دیں اور پھر تمام معاملات اس پر چھوڑ دیں وہ مسبب الاسباب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صبر کو ذہنی تناؤ کے حل کے طور پر پیش کیا ہے۔ 


 *پریشانيوں كا حل:* 

اگر آپ پریشان ہیں یا ذہنی تناؤ کا شکار ہیں تو ان چند چیزوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں:1۔ تلاوت قرآن

2۔ صوم وصلاۃ کی پابندی

3۔ چہل قدمی یا ورزش

4۔ کچھ وقت گھر والوں کے ساتھ لازمی گزاریں اور 5۔ مثبت سوچ۔

ان چیزوں پر عمل کرکے کسی بھی قسم کے ڈپریشن سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔

 یاد رکھیے خود کشی کرنا شاید آسان حل لگتا ہو لیکن یہ کسی بھی مسئلے کا حل ہرگز نہیں ہے۔ یہ کئی دیگر مسائل کی ابتدا ہے لہذا اپنی زندگی کی قدر کیجیے، اپنے سے جڑے رشتوں کی قدر کیجیے۔ اپنے ذہن کو منفی سوچوں کی آماجگاہ نہیں بننے دیجیے کسی بھی پریشانی کا آغاز منفی سوچ سے ہی ہوتا ہے اور اگر آپ والدین ہیں تو اپنی اولاد کی ضروریات کو سمجھیے، ان سے گفتگو کیجیے ، ان کے مسائل سنیے، انہیں وقت دیجیے ۔ انہیں اپنے فیصلوں میں ایک حد تک آزادی دیجیے تاکہ وہ گھٹن محسوس نہ کریں۔

اسی طرح مثبت رویہ اپناکر ہم بہت سارے مسائل سے نجات پاسکتے ہیں۔

آج کے اس مادی دور میں ہر انسان کو سکون کی تلاش ہے اور اللہ تعالی نے سکون اپنے ذکر میں رکھا ہے اللہ کے ذکر دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے، اسی طرح احادیث میں مختلف اوقات کی جو دعائیں منقول ہیں اور غم اور پریشانی کے اوقات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دعاوں کی تلقین کی ہے۔ ہمیں ان پر پابندی سے عمل کرنا چاہیے۔

اللہ تعالی ہمیں اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے