غربت و افلاس کا خاتمہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں!

غربت و افلاس کا خاتمہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں!

از قلم : مجاہد عالم ندوی

استاد : ٹائمس انٹرنیشنل اسکول محمد پور شاہ گنج ، پٹنہ 

رابطہ نمبر : 9508349041

اٹھارہویں صدی میں یورپ کے اقتصادی انقلاب کے بعد جب سے دنیا کا معاشی نظام کفر والحاد کے ہاتھوں میں آیا تب لوگوں کی سوچ کا دھارا بدل گیا ، پہلے جب تجارت ومعاملات میں مذہب کا عمل دخل تھا ، لوگوں کی ذہنیت امانت اور فکر آخرت سے معمور تھی ، لوگ اگر ایک طرف رزق کی حصول کی تدبیریں کرتے تھے ، تو دوسری طرف رازق کائنات پر توکل کرتے تھے ، اور اس کی رضا جوئی کے لیے کوشاں رہتے تھے ، 

مگر آج دنیا کا نقشہ بدل چکا ہے ، چاروں طرف کفر و مادیت کا دور دورہ ہے ، پورا کا پورا اقتصادی اور معاشی نظام غیر اسلامی بنیادوں پر کھڑا ہوا ہے ، اسی لیے مذہبی قدریں اور دینی روایات پامال ہو رہی ہے ، ہر شخص جائز و ناجائز کسی بھی طرح دولت اکٹھا کرنے کی کوشش میں ہے ، اور تو خود مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ حصول رزق کے لیے اسلامی تعلیمات کو بالائے طاق رکھنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا ہے ۔

اسلام نے دنیا کو ایک مکمل نظام حیات پیش کیا ہے ، جو ہر طرح کے حالات میں اس کی ہمہ جہت رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا ہے ، عوام تو عوام اچھے خاصے لوگ بھی حصول رزق کے لیے حیران و پریشان نظر آتے ہیں ، لیکن ان کی نظر کبھی بھی ان اعمال کی طرف نہیں جاتی جنہیں اللّٰہ تعالٰی نے کشادگی رزق اور کثرتِ مال کا سبب قرار دیا ہے ۔

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بہت سے ایسے اعمال کی طرف واضح اشارہ موجود ہے ، جو رزق میں برکت اور فراوانی کا باعث ہیں ۔

ہم درج ذیل سطور میں مختصراً سات اصول پیش کرتے ہیں ، جن کی بجا آوری پر اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے رزق میں برکت و فراوانی کا وعدہ ہے ۔

توبہ و استغفار : 

قرآن کریم میں کئی مقامات پر توبہ واستغفار کے ذریعہ برکت اور دولت کی فراوانی کا ذکر ہے ، حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو استغفار کی دعوت دی : اور اے میری قوم کے لوگوں اپنے رب سے معافی مانگو پھر اپنے رب سے رجوع کرو ، وہ تم پر خوب برسنے والا بادل بھیجے گا ، اور تمہاری قوت میں مزید اضافہ کرے گا ، اور ( دیکھو)مجرم بن کر منہ نہ پھیرو " ۔         ( سورہ ہود )

حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہیں کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص بکثرت استغفار کرتا ہے ، اللّٰہ تعالٰی اسے ہر غم سے چھٹکارا اور ہر تنگی سے کشادگی عطا فرماتے ہیں ، اور اسے ایسی راہوں سے رزق عطا فرماتے ہیں ، جن کا اس کے وہم وگمان میں نہیں " ۔ 

امام حسن بصری ہر اس شخص کو استغفار کا حکم دیتے جو آپ سے خشک سالی ، فقر ، اولاد کی کمی اور باغات سوکھنے کی شکایت کرتا ، توبہ واستغفار کی حقیقت یہ ہے کہ انسان گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے ، اپنے کئے پر شرمندہ ہو ، ترک معصیت کا پختہ عزم کرے ، اور جہاں تک ممکن ہو اعمال خیر سے اس کا تدارک کرے ، اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہوتا ہے تو اس کے لیے توبہ شرط ہے ، صاحب حق سے معاملہ صاف کرے ، ورنہ شرائط کے بغیر توبہ بے حقیقت ہے ۔

تقویٰ و پرہیز گاری : 

تقویٰ اللّٰہ تعالٰی کے احکام پر عمل اور ممنوعات سے اجتناب کا نام ہے ، تقویٰ ان امور میں سے ایک ہے ، جن سے رزق میں برکت ہوتی ہے ، اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں " جو اللّٰہ تعالٰی سے ڈرے گا اللّٰہ تعالٰی اس کے لیے راہ نکال دے گا ، اور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا " ۔       ( سورہ طلاق )۔         سورہ مائدہ میں اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ " اگر وہ تورات اور انجیل اور اس ( کتاب یعنی قرآن ) کو جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی ہے قائم کرتے تو انھیں اوپر سے بھی رزق ملتا اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی ۔ ان میں ایک گروہ ضرور راہ راست پر ہے ، لیکن زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جن کے اعمال بہت برے ہیں ، اس آیت میں لفظ برکات استعمال کیا گیا ہے جو برکت کی جمع ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ برکتیں مختلف انواع و اقسام کی ہوا کرتی ہیں ، نیز یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ برکت کا مطلب کثرت مال نہیں بلکہ کفایت مال ہے ورنہ بہت سے لوگ کثرت مال کے باوجود معاشی تنگی کا رونا روتے ہیں ، اور زمین کی برکت سے مراد نباتات میوہ جات ، مویشی ، چوپایوں کی کثرت اور امن و سلامتی ہے ، کیونکہ آسمان باپ اور زمین ماں کے قائم مقام ہے ، اور مخلوق خدا تمام کی تمام بھلائیاں اور منافع انھیں دونوں سے وابستہ ہیں ، امام خازن کے بقول برکت کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز میں من جانب اللّٰہ خیر پائی جائے ۔

عبادات خداوندی میں انہماک:

اس سے مراد یہ ہے کہ دوران عبادت بندہ کا دل و جسم دونوں حاضر رہے ، اللّٰہ تعالٰی کے حضور میں خشوع وخضوع کا پاس رکھے ، اللّٰہ تعالٰی کی عظمت ہمیشہ اس کے دل ودماغ میں حاضر رہے ، حضرت ابو ہریرہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ اے ابنِ آدم میری عبادت میں منہمک رہو ، میں تیرا دل غنا سے بھر دوں گا ، اور تمہاری محتاجگی کا دروازہ بند کر دوں گا ، ایسا نہیں کیا تو تمہارے ہاتھوں کو کثرتِ مشاغل سے بھر دوں گا ، اور تمہاری محتاجگی کا دروازہ بند نہیں کروں گا ۔        ( ابن ماجہ )

توکل علی اللّٰہ : 

ارشاد باری ہے کہ " جو اللّٰہ تعالٰی پر بھروسہ کرے گا تو وہ اس کے لیے کافی ہوگا ، اللّٰہ تعالٰی اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے ، اللّٰہ تعالٰی نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ ( وقت ) مقرر کر رکھا ہے ۔       ( سورہ طلاق ) 

حضرت عمر ابن الخطاب نے فرمایا ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے اگر تم حسن خوبی کے ساتھ اللّٰہ تعالٰی پر توکل کرو تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے وہ صبح کے وقت خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کو آسودہ ہو کر لوٹتے ہیں ۔       ( مسند احمد ) 

امام غزالی احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ اللّٰہ پر دل سے اعتماد کو توکل کہتے ہیں ، ملا علی قاری کے بقول اس بات کا یقین کہ موجودات میں صرف اللّٰہ کے ذات مؤثر ہے ، کسی چیز کا نفع و نقصان ، امیری غریبی ، صحت و مرض ، حیات اور موت وغیرہ تمام چیزیں اللّٰہ تعالٰی کے قبضہ قدرت میں ہے ۔

توکل کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہیں کہ کسب معاش کی تمام کوششوں کو ترک کر دیا جائے ، اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا جائے ، خود حدیث مذکورہ میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پرندوں کی مثال دی ہیں کہ تلاش رزق میں صبح سویرے نکل جاتے ہیں ، پرندوں کا صبح سویرے آشیانوں سے نکلنا ہی ان کی کوشش ہے ، ان کی انہیں کوششوں کی وجہ سے اللّٰہ تعالٰی ان کو شام کے وقت آسودہ و سیراب واپس کرتے ہیں ۔

لہٰذا! اسباب اختیار کرنا عین تقاضائے شریعت ہے ، ایک مرتبہ ایک صحابہ نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں اپنی اونٹنی کو چھوڑ دوں اور توکل کر لوں ؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسے باندھو پھر توکل کرو ۔        ( مسند الشہاب )

اللّٰہ کے راستے میں خرچ کرنا : 

اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں " اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا اجر اس کے پیچھے آئے گا اور وہ بہترین رازق ہے ۔    ( سورہ سبا)

حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے : اے ابنِ آدم خرچ کر میں تیرے اوپر خرچ کروں گا ۔     ( ابن ماجہ )

صلہ رحمی و اقرباء پروری : 

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا : جسے وسعت رزق اور درازی عمر کی خواہش ہو اسے رشتے داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے ۔         ( بخاری )

صلہ رحمی کا جامع مفہوم یہ ہے کہ حسب وسعت رشتے داروں کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کا معاملہ کیا جائے اور شرور و فتن سے انھیں محفوظ رکھا جائے ۔

کمزورں کے ساتھ حسن سلوک :

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندوں کو ان کے کمزورں کی وجہ سے رزق ملتا ہے ، اور ان کی مدد کی جاتی ہے ، حضرت مصعب بن سعد روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ سعد نے دیکھا کہ انھیں دیگر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کمزورں کے طفیل میں ہی تم کو رزق ملتا ہے ، اور تمہاری مدد کی جاتی ہے ۔        ( بخاری ) 

یہ وہ سات اصول ہیں ، جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں وضاحت ہے کہ ان سے بندہ کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی تنگی دور ہوتی ہے ، لیکن انسان کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اصل بے نیاز تو اللّٰہ کی ذات ہے ، انسان کی بے نیازی یہ ہے کہ وہ اس غنی ذات کے سوا پوری دنیا سے بے نیاز ہو جائے اور یہ سمجھ لے کہ جو کچھ اسے ملے گا ، غیر کے آگے ہاتھ پھیلانا بےکار ہے ۔

اللّٰہ تعالٰی کی رزاقیت و کارسازی کا یقین دلوں کو قناعت و طمانیت کی دولت سے مالامال کرتا ہے ۔

اللّٰہ رب العزت ہم سب کو امن و سکون والی زندگی نصیب عطا فرمائے ۔

آمین ثم آمین یارب العالمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے