ايک عالم باعمل كى رحلت

 

 وفات حضرت مولانا نثار احمد قاسمی بستوی رحمہ اللہ


 بقلم: عبید اللہ شمیم قاسمی


كل 16/مارچ 2021ء بروز منگل اچانک يہ خبر صاعقہ بن كر گرى كہ عالم باعمل استاذ الاساتذه  دارالعلوم اسلاميہ بستى كے روح رواں حضرت مولانا نثار احمد صاحب قاسمى طويل علالت كے بعد اس عالم فانى سے عالم جاودانى كو كوچ كرگئے، انا لله وانا اليه راجعون


يہ دنيا چند روزه ہے، اس كى كوئى بھى چيز باقى رہنے والى نہيں ہے جو بھى يہاں آيا ہے اسے ايک دن كوچ كرنا ہے، ارشاد بارى تعالى هے: {كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ} [العنكبوت: 57] ۔

انسان كا جب وقت پورا ہوجاتا ہے تو لاكھ كوششوں كے باوجود آنے والے وقت كو ٹالا نہيں جاسكتا، فرمان خداوندى ہے: {إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [نوح: 4]، اسى طرح دوسرى جگہ ارشاد ہے: {وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ} [الأعراف: 34].

كسى شاعر نے كہا ہے:

آج وه كل ہمارى بارى ہے

موت سے كس كو رست گارى ہے


موت زندوں اور مردوں كے درميان ديوار حائل كرديتى ہے، جانے ولا اپنا وقت مقرره پورا كركے چلا جاتا ہے مگر جو لوگ ره جاتے ہيں انہيں يہ پيغام ديتا ہے كہ دنيا كى زندگى عارضى زندگى ہے اس پر بھروسہ كرنا بہت بڑے خسارے كا سبب ہوگا، الله رب العز ت كا فرمان هے:{قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى} [النساء: 77] كه دنيا كى زندگى تھوڑى ہے اور آخرت اس شخص كے ليے بہتر ہے جس نے تقوى اختيار كيا۔

حضرت مولانا نثار احمد صاحب قاسمى نے ايک قابل رشک زندگى  گزارى، وه پورى زندگى درس وتدريس سے وابستہ رہے،  تقريبا نصف صدى تک اپنے علم وادب كے فيضان سے فرزندان توحيد كو سيراب كرتے رہے۔ 


حضرت مولانا کی ولادت ضلع بستی كے ايک گاؤں گلہریا میں ٦ دسمبر ١٩٤٩ء كو ہوئی۔ آپ كے دادا حکم دار صاحب علاقہ کے زمیندار اور ایک ذی حیثیت شخص تھے۔ آپ كے والد صاحب كا نام محمد صالح تھا اور وه اسم با مسمى تھے جس  كا پورا اثر ان كى اولاد ميں آيا، مولانا كى پرائمری کی تعلیم مدرسہ اسلامیہ گلہریا میں ہوئی، جہاں آپ كے  استاذ منشی محمد شائق صاحب تھے۔١٩٦٠ء کے قریب پرائمری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مدرسہ مصباح العلوم برگدوا میں حافظ سعادت حسین صاحب کے یہاں حفظ کا آغاز کیا، بارہ تیرہ پارہ پڑھنے کے بعد چیچک کی وجہ سے بینائی متاثر ہوگئی، جس کی وجہ سے گھر کے لوگوں کی رائے ہوئی حفظ کی تعلیم ترک کردی جائے۔ چنانچہ حفظ چھوڑ کر وہیں مولانا اور ان کے بڑے بھائی نے مولانا شفیع اﷲ صاحب سے فارسی شروع کی۔


 اس کے بعد انہیں سے عربی اول پڑھ کر ١٩٦٣ء میں مدرسہ نور العلوم بہرائچ چلے گئے، جہاں عربی دوم میں داخلہ لیا۔ وہاں عربی دوم سے لے کر عر بی ششم تعلیم حاصل کی، اس وقت نور العلوم بہرائچ اپنى شہرت كى بلنديوں پر تھا اور آسمان علم كے آفتاب وماهتاب وهاں اپنے علم كے موتى بكھير رہے تھے، مولانا كو بھى ان اساطين سے فیض ياب ہونے كا بھر پور موقع ملا، چنانچہ وہاں  کے اساتذہ میں مولانا سلامت اﷲ صاحب (صدر المدرسین ) اور مولانا حبیب احمد صاحب اعمیٰ وغیرہ سے بھر پور استفاده كيا ۔ نور العلوم كے رفقاء درس میں مولانا حیات اﷲ صاحب مرحوم( سابق صدر جمعیة علماء یوپی) اور مولانامجیب اﷲ صاحب گونڈوی مدظلہ ( استاذ اردارالعلوم دیوبند ) وغیرہ تھے۔ 


عربى ششم تک تعليم مكمل كرنے كے بعد آپ نے ازہر ہند دارالعلوم ديوبند كے ليے رخت سفر باندھا، اور   شوال ١٣٩٠ھ( دسمبر ١٩٧٠ء) میں دارالعلوم دیوبند میں موقوف علیہ میں داخلہ لیا ، دو سال رہ کر اپنی علمی تشنگی کی سیرابی کا خوب سامان کیا ، دارالعلوم کے ذہین اور ممتاز طلباء میں سے تھے ، وہاں پر حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی سے خاص استفادہ کیا ۔ آپ كے دوره  حديث كےاساتذه ميں شیخ الحدیث حضرت مولانا فخرالدین صاحب مرادآبادى رحمہ اللہ تھے جو بخاری شریف پڑھا تے تھے،  جن كے درس بخارى كى ايک زمانے  تک شہرت رہى ہے، مگر حضرت زندگى كے آخرى مرحلے ميں تھے اور باب کیف کان بدء الوحی پڑھا کر وطن گئے اور پھر واپس نہیں آسكے، اور انتقال ہوگيا۔ حضرت مولانا فخرالحسن صاحب ترمذی اور مولانا شریف حسن صاحب ديوبندى مسلم شریف پڑھاتے تھے، ان دونوں بزرگوں میں سے ایک کو بخاری شریف پڑھانی تھی مگر شوری کے فیصلے تک قرعۂ فال حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کے نام نکلا۔ بتانے والے بتلاتے ہيں كہ حضرت  حكيم الاسلام رحمه الله نے بخاری شریف اس انداز سے پڑھا یا کہ تمام طلبہ عش عش کرنے لگے۔ انکے درس میں بیٹھنے والا ہر طالب علم بتا سکتا ہے کہ حکیم الاسلام لقب  کا حق دار واقعی انہیں کی ذات گرامی تھی۔ حضرت مولانا فخرالحسن صاحب استاذ الاساتذہ تھے ان کا درس کسی زمانے میں بہت مشہور تھا، اسوقت ترمذی شریف میں معرکۃ الآرا مسائل پڑھا نے کے بعد ایک خاص انداز میں آستین چڑھاتے ہوئے فرمایا کرتے تھے، من ادعى غیر ذالک فعلیه البیان، طلبہ جھوم اٹھتے تھے۔ لیکن عمر کی زیادتی اور نقاہت و نسیان کی وجہ سے بجائے ان کے حضرت مولانا شریف حسن صاحب ديوبندى رح  کو بخاری شریف ملی اور آپ نے واقعی  اس كا حق ادا کر دیا۔ آپ نے بخاری جلد ثانی  فقيہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب  گنگوہى رحمہ اللہ سے پڑھى۔ اور ديگر اساتذه فن سے حديث كى كتابيں پڑھ كر شعبان ١٣٩٢ھ (ستمبر ١٩٧٢ء) میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی۔


آپ كے رفقائے درس میں مذکورہ بالا دو حضرات کے علاوہ مولانا بدر الحسن صاحب دربھنگوی ، مولانا عبد الرب صاحب اعظمی ( موجودہ صدر جمعیة علماء یوپی)، مولانا عتیق احمد بستوی  استاذ دارالعلوم ندوة العلماء لكھنؤ، مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی ( نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند )، مولانا فضل حق خيرآبادى،  مولانا ابو العاص بستوی، مولانا فضل احمد دربھنگوی، مولانا ڈاکٹر نسیم احمد نیپالی، مولانا عبد المعبود دربھنگوی، مولانا عرشی بستوی اور مولانا محمد عثمان اعظمی پوره معروف (جو اس وقت آسام كے كسى مدرسے ميں شيخ الحديث ہيں) وغیرہ تھے ۔


دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد شوال ١٣٩٢ھ سےزندگى كى آخرى سانس  تک مسلسل  بيمارى سے پہلے تک بغیر کسی انقطاع کے تدریسی خدمات انجام دى۔ فراغت کے بعد آٹھ سال تک دارالعلوم میل کھیڑلا راجستھان میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد حضرت مولانا باقر حسین صاحب قاسمی رحمہ اللہ کی دعوت پر دارالعلوم اسلامیہ بستی تشریف لائے جہاں زندگی کی آخری سانس تک بحیثیت رئیس الاساتذہ دارالعلوم الاسلامیہ بستی میں پورے زور وشور کے ساتھ آپ کے علوم ومعارف کا فیضان جاری وساری رہا، آپ نےجلالین شریف كا تیس سال سے زائد عرصہ تک درس ديا، اس طرح  بچپن کاحفظ قرآن جو بینائی کی وجہ سے ترک کرنا پڑا تھا  اس کی برکت سے تقریباً یاد ہوگیا تھا۔ 


حضرت مولانا كو درس نظامى كى كتابوں پر مكمل عبور تھا جس كتاب كا بھى درس آپ سے متعلق ہوتا آپ اس كا حق ادا كرديتے، يہى وجہ تھى آپ كے درس كو طلبہ كے درميان مقبوليت حاصل تھى۔

اس عرصہ میں نہ جانے کتنے مس خام آپ کی نگاہِ کیمیا اثر کے فیض سے کندن بن چکے ہوں گے۔  مولانا مصلح الدین صاحب سدھارتھ نگرى، مولانا مفتی محمد افضل صاحب (اساتذۂ دارالعلوم دیوبند) اور مولانا محمد اسجد صاحب قاسمی ندوی، مولانا افتخار صاحب استاذ جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا وغیرہ آپ کے تلامذہ میں سے ہیں۔ 


آپ کا اصلاحی تعلق حضرت مولانا مسیح اﷲ خاں صاحب جلال آبادى رحمہ اللہ، حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی رحمہ اللہ اور مولانا سید اسعد صاحب مدنی رحمہ اللہ کے خلیفہ مولانا عبدالرحیم صاحب سے رہا ہے، آخر الذکر سے آپ کو اجازت وخلافت بھی حاصل ہوئى ۔

  آپ بہت عمده لكھتے تھے، آپ كى تحريريں صاف شستہ اور ادب كا شاہكار ہوتى تھيں، جس كا اندازه مختلف كتابوں پر لكھے گئے مقدمات سے ہوتا ہے، اس كے ساتھ ساتھ آپ ايک باكمال شاعر بھى تھے اور بہت زود گو تھے۔

آپ بہت سى خوبيوں كے حامل تھے، پورى زندگى درس وتدريس سے وابستگى كے ساتھ علاقے ميں رشد وہدايت  كا عمل بھى جارى تھا اور اس ميدان ميں قابل قدر اصلاحى كوششيں كيں۔  آپ كو ايک عرصہ سے مختلف بيمارياں اور عوارض لاحق تھے ، دوا علاج جارى تھا كبھى افاقہ ہوجاتا ، كبھى مرض ميں شدت آجاتى، كچھ دنوں قبل  تھوڑا بہت افاقہ بھى ہوگيا تھا اور طبيعت هشاش بشاش ہوگئى تھى مگر وقت موعود آپہنچا تھا بالآخر 16/ مارچ كو دن ميں ايک بجكر پچاس منٹ پر جان جاں آفريں كے سپرد كردى، رحمه الله رحمة واسعة

اور اپنے پيچھے  ہزاروں شاگردوں كو روتا بلكتا چھوڑ كر چلے گئے جو آپ كے ليے صدقہ جاريہ ہیں، قيامت تک اس كا ثواب آپ كو پہنچتا رہے گا۔ 

الله تعالى آپ كے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس ميں اعلى مقام عطا فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے