جن پہ نازاں تھے یہ زمین و فلک


وفات قاری سید محمد عثمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ


21 مئی جمعہ کا دن ہمارے لیے ایک فرحت بخش اور مسرت آمیز دن تھا، اس روز پہلی پہر کو ملنے والی خبر بے انتہا خوشی کا باعث تھی، فلسطین میں تقریباً دو ہفتوں تک چلنے والے انتفاضے کا آبرو مندانہ اختتام، دشمنوں کی ظاہری پسپائی کے ساتھ عمل میں آیا تھا، جس نے ایک جانب فلسطینیوں کے لیے جشن کا ماحول تخلیق کیا تو دوسری جانب صیہونیوں کی وقتی دست کشی اور نا مرادی کا سبب بنا۔

لیکن ساتھ ہی ایک ایسا غمناک واقعہ اس دن کا مقدر تھا، جس نے ہندستان کی دینی، ملی اور علمی سطح پر مسلمانوں کو غمگین کر دیا، ایک ایسا حادثہ اس دن کو المناک یادگار بنانے والا تھا، جس کا دبا دبا سا خوف تو شاید اکثر کو تھا، لیکن کسی کا ذہن اس کے لیے تیار نہ تھا، اور وہ تھا حضرت قاری سید محمد عثمان منصور پوری کا ہم سے رخصت ہو جانا۔ 

قاری صاحب ہمارے عہد کے وہ جفاکش اور مصروف ترین شخص تھے، جن کو اس عہد کا کوہ کَن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، جن کی کوہ کَنی و جہدِ مسلسل کی شہادت ان سے ہر ملنے جلنے والا شخص دیتا ہے، حضرت کے شب و روز اس بات کے گواہ تھے، کہ ان کا ایک لمحہ بھی بیکار یا خالی نہیں گزرتا تھا، انہوں نے مصروفیات کو اس طرح اوڑھ لیا تھا کہ فرصت و فراغت نام کی کوئی شے ان کی زیست کا حصہ نہیں رہ گئی تھی۔

قاری صاحب ایک طرف جمعیۃ علماء ہند جیسی ملک گیر تنظیم کے صدر تھے (جو اپنے آپ میں ایک بہت بڑا اعزاز ہونے کے ساتھ بہت بڑی ذمہ داری بھی تھی) تو دوسری طرف دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم مذہبی یونیورسٹی کے استاد حدیث و ادب تھے، غور کیا جائے تو یہ اس قدر مشکل ترین کام ہے جس کو فرہاد صفت انسان ہی انجام دے سکتا ہے، کیونکہ انتظام و انصرام اور درس و تدریس دونوں بالکل الگ شعبے ہیں، اول الذکر مکمل طور پر میل جول، دیکھ ریکھ اور حرکت و عمل چاہتا ہے اور ثانی الذکر کلیۃً یکسوئی و خلوت کا متقاضی ہے، وہ بھی اس طرح کہ دونوں کا تعلق دو مختلف اداروں سے تھا، اور تدریس بھی حدیث جیسے اعلی فن کی کہ جس میں اعلی درجے کا مطالعہ، وسعتِ علمی اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، بہرحال دونوں کام کئی اعتبار سے جدا اور ایک دوسرے کے لیے رکاوٹیں پیدا کرنے والے تھے، یہ قاری صاحب کا ہی جِگرا تھا، جو دونوں ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔

ان دو مہتم بالشان ذمہ داریوں کے علاوہ قاری صاحب نے چھوٹی بڑی بے شمار ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا رکھا تھا، ایک طرف حضرت دارالعلوم دیوبند کے معاون مہتمم تھے، دوسری طرف امارت شرعیہ ہند کے سربراہ اعلی تھے، جہاں ان کے سر مجلس تحفظ ختم نبوت کے نگراں کی ذمہ داری تھی، وہیں النادی الادبی اور بزم شیخ الاسلام مدنی دارالمطالعہ کی سرپرستی بھی فرماتے تھے، ان کے علاوہ دسیوں چھوٹی بڑی ذمہ داریاں اکیلے انجام دیتے تھے؛ اور مجال ہے، جو ان کی نگرانی میں داخل کسی شعبے یا ادارے میں کوئی کام رواروی میں یا سرسری طور پر ہو جائے، ہر کام کا جائزہ بذات خود لیتے اس کی تمام میٹنگوں اور جلسوں میں شریک ہوتے اور ان کی دستاویزات کا خود معائنہ کرتے تھے۔

ہم نے حضرت قاری صاحب کا نام بچپن سے ہی سن رکھا تھا اور بعد میں بھی ان کی مختلف الجہات شخصیت کے متعلق سنتے رہتے تھے، لیکن جب با شعور ہوئے تو جمعیت علمائے ہند کے صدر کی حیثیت سے کئی بار ان کو مختلف اسٹیجوں سے سننے کا موقع ملا، ان کی ذات میں ایک قسم کا ٹھہراؤ اور وقار تھا، ان کی زندگی متانت و طمانینت کی واضح مثال تھی، ہر کام کو انتہائی سنجیدگی اور بنا کسی جلد بازی اور ہڑبڑاہٹ کے انجام دیتے تھے، خواہ کام کی کیفیت و کمیت کتنی زیادہ ہو؛ ان کی ذات کی طرح ان کی تقریر بھی متانت و سنجیدگی کا مرقع ہوتی تھی، ٹھہر ٹھہر کر بولتے آواز و الفاظ کا زیرو بم سپاٹ و سادہ ہوتا اس لیے ذاتی طور پر کبھی قاری صاحب کے بیانات پر کوئی خاص توجہ نہ گئی۔

البتہ تقریبا ڈھائی تین سال قبل کی بات ہے، جمیعت علمائے ہند کی جانب سے صد سالہ جشن کے حوالے سے ملک کے مختلف حصوں میں جمیعت کے گزشتہ اکابر کی حیات و خدمات پر مختلف سمیناروں کے انعقاد کا لائحۂ عمل طے کیا گیا، اس کا سب سے پہلا سیمینار ماؤلنکر ہال، دہلی میں منعقد ہوا، جس میں ملک و بیرون ملک کے موقر و معتبر علماء ودانشوران تشریف لائے تھے، پاکستان سے مولانا فضل الرحمن صاحب کے صاحبزادے مولانا اسعد محمود رکن قومی اسمبلی پاکستان، کے علاوہ جمیعت علماء اسلام کے مختلف نمائندہ علماء، نیز دارالعلوم دیوبند، مدرسہ شاہی مرادآباد، ندوۃ العلماء لکھنؤ اور مختلف دینی و عصری مراکز سے تشریف لانے والوں میں مولانا ارشد مدنی، مولانا برہان الدین سنبھلی، مولانا سفیان قاسمی، مفتی شبیر صاحب قاسمی، پروفیسر اختر الواسع، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور ڈاکٹر سعود عالم قاسمی وغیرہ خاص طور پر شامل تھے، اس سیمینار کی آخری مجلس میں قاری صاحب کا انداز بالکل نیا اور جدا گانہ تھا، قدرے جوشیلے انداز میں قاری صاحب موجودہ حالات کی نزاکتوں پر لب کشائی فرما رہے تھے اور چونکہ کچھ عرصہ قبل مولانا محمود مدنی کا اسد الدین اویسی کے متعلق یہ متنازعہ بیان آیا تھا کہ انہیں اپنی سیاست تلنگانہ تک محدود رکھنی چاہیے، اس لیے قاری صاحب نے ان پر شدت کے ساتھ رد کیا، اور فرمایا کہ ہم کون ہوتے ہیں کسی کو روکنے والے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست کے اسٹیج سے بھی مسلمان خود کو مضبوط کریں اور دیگر راستوں کو بھی بالکل نہ چھوڑیں، اس درمیان مولانا محمود مدنی نے بیان کو روکنے کے لیے کہا کہ حضرت ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا ہے، دعا کرا کے مجلس ختم کر دیں، تو حضرت نے کہا کہ "ہم مسافر ہیں، آپ کو بہت جلدی ہے، تو آپ شریکِ جماعت ہو جائیں، ہم اپنی قصر نماز پڑھ لیں گے"، اور اس طرح بڑی دیر تک قاری صاحب کا بیان چلتا رہا، اور ہندوستان بھر سے تشریف لانے والے علماء و اکابر اس روز کی بے باکانہ باتوں سے خوب محظوظ ہوئے۔

خیر وہ پہلا موقع تھا جب قاری صاحب کو قریب سے سننے اور سمجھنے کا موقع ملا، وہ چونکہ فقط علماء و دانشوران اور جمیعت کے ذمہ داران کی مجلس تھی اس لیے اس مجلس میں قاری صاحب نے بہت سی ایسی باتیں بیان کیں جو عام بیانات کا حصہ نہیں ہوتی تھیں۔

اس کے بعد وہ موقع بھی آیا، جب حضرت قاری صاحب سے علمی استفادے کا موقع ملا، حضرت برسوں سے مادر علمی میں اصول حدیث میں مقدمہ شیخ عبدالحق اور نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر اور حدیث میں مشکاۃ شریف اور طحاوی شریف کا درس دے رہے تھے تھے، ہم نے قاری صاحب سے اول الذکر تین کتابیں پڑھیں، قاری صاحب کا درس مختصر اور واضح ہوتا تھا، تفصیلی موشگافیوں میں پڑنے کی انھیں عادت نہ تھی، روزانہ گھنٹہ شروع ہونے سے نصف گھنٹہ تاخیر سے آتے اور گھنٹہ ختم ہونے کے بعد تقریبا آدھا، پون گھنٹہ مزید درس دے کر رخصت ہوتے، قاری صاحب کا یہ برسوں پرانا اصول و معمول تھا، کیونکہ ادارے کی جانب سے انہیں صبح کا چوتھا گھنٹہ دیا گیا تھا اور تیسرے گھنٹے تک طلبہ مسلسل درس کی وجہ سے تھک جاتے تھے، اس لئے طلبہ کی رعایت میں تھوڑی تاخیر سے آتے، ضعف و نقاہت اور قدیم نزلے کی وجہ سے درسگاہ کی اخیر کی قطاروں میں بیٹھنے والے طلبہ تک حضرت کی آواز مکمل صاف نہیں پہنچ پاتی تھی، جس سے ان طلباء کو کسی قدر زیادہ توجہ کی ضرورت پڑتی تھی، اس لیے بعض پچھلی قطار والے طلباء نے ان کی کماحقہٗ قدر نہ کی، جن میں ہم بھی تھے، اللہ ہماری لغزشوں کو معاف فرمائے، البتہ اصول حدیث کی دونوں کتابیں بحمدللہ تمام طلباء انتہائی بشاشت و محنت سے پڑھتے تھے۔

آپ کے اندر سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ انتہا درجہ کے اصول پسند اور معمول کے پابند آدمی تھے جس شعبے یا ادارے میں جو اصول ہوتا تھا اس سے ادنیٰ درجے کا انحراف آپ کو منظور نہیں تھا، حضرت کے بے شمار اور طویل سے طویل سفر ہوتے تھے، کبھی جمعیت علماء کے تحت اور کبھی تحفظ ختم نبوت کے تحت (مجلس تحفظ ختم نبوت قاری صاحب کی زندگی کا ایک تابناک ورق ہے، حضرت کے سامنے اس مجلس کا قیام عمل میں آیا تھا، اور اس وقت سے مرتے دم تک اس کے نگراں رہے، اور اس کے تحت وہ کارنامے انجام دیئے، جس کے لیے مفصل کتاب کی ضرورت ہوگی) لیکن خواہ کیسا ہی سفر کر کے آۓ ہوں، درس کا ناغہ کبھی نہ ہونے دیتے تھے۔

ایک مرتبہ سردی کے موقع پر بعض طلبہ نے حضرت کے ضعف و سن رسیدگی کے پیش نظر ایک بجلی کا ہیٹر لاکر مسندِ درس کے پاس رکھ دیا، کیونکہ درسگاہ اس طرز کی تھی کہ اس میں بے شمار دروازے تھے اور اساتذہ دروازے کے پاس ہی بیٹھ کر درس دیتے تھے، اور ظاہر ہے کہ وہاں سردی کا احساس بہ نسبت دوسری جگہوں کے، زیادہ ہوتا ہے، اس لیے طلبہ نے استاذ کی راحت رسانی کے خیال سے یہ قدم اٹھایا، ان کا جذبہ بھی غلط نہیں تھا، لیکن حضرت نے درسگاہ میں آتے ہی دریافت کیا کہ یہ کس کا ہے اور کس نے رکھا ہے؟ طلبہ نے بتایا کہ فلاں طالب علم کی جانب سے ہے تو ناراض ہوئے اور فورا اسے ہٹوایا اور کہا کہ ادارے نے اپنے وسائل (بجلی وغیرہ) سے جس قدر سہولیات(بلب اور پنکھے) مہیا کی ہیں اس سے ذرہ بھر زیادہ سہولت حاصل کرنا غلط ہے۔

حضرت قاری صاحب کی جدائی کا خیال آتے ہی نہ جانے کیوں ذہن کے پردوں پر کہیں بزم شیخ الاسلام مدنی دارالمطالعہ بھی اس خیال کا جزء بن جاتی ہے، یہ دارالعلوم دیوبند کی سب سے بڑی اور پورے ادارے کا احاطہ کرنے والی انتہائی متحرک و فعال انجمن، بلکہ ادارہ ہے، مولانا شمشیر صاحب کی بے مثال نگرانی کے ساتھ حضرت قاری صاحب اس کے روحِ رواں تھے، کیوں کہ انجمن کا ہر فیصلہ قاری صاحب پر موقوف ہوتا تھا، گزشتہ برسوں میں قاری صاحب اور مولانا شمشیر صاحب نے مل کر کامل توجہ سے اس چمنستان کی آبیاری کی، عموماً ایسا ہوتا ہے کہ پرانی چیزوں میں وہ بانکپن اور جوش نہیں ہوتا، لیکن قاری صاحب نے اس انجمن کو قدیم ہونے کے باوجود اس کی جوانی کو برقرار رکھا تھا، قاری صاحب کی رخصت سے یہ انجمن بھی یتیم ہو گئی ہے

جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے 

"انجمن" بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے 

قاری صاحب ہمارے درمیان سے چلے گئے، اس خیال سے ہی کلیجہ منھ کو آتا ہے، اب وہ درسگاہیں، انجمنیں، محفلیں اور میٹنگیں کیسی لگیں گی، جہاں گزشتہ تین دہائیوں سے قاری صاحب جلوہ آرا تھے، جن کی صورت ہی مساہمین و سامعین کو ایک طرح کے جوش و جذبے سے بھر دیتی تھی، جن کی موجودگی ہی حاضرین کے قلب و دماغ کو معطر کر دیتی تھی، کیوں کہ قاری صاحب کا سراپا ہی اس قدر پُر نور، جمال و شائستگی سے معمور اور علمی وقار و تمکنت سے بھرپور تھا، کہ جہاں سے گزر جائیں راہگیر خوشگوار حیرانی کے ساتھ دیکھتے رہ جائیں، جس مجلس میں بیٹھ جائیں حاضرین کی نظریں انہیں کے پیکرِ جمال کے گرد طواف کرتی رہیں، اور جب لب کشائی کریں، تو لہجے و الفاظ کی عاجزی و شگفتگی سامعین کی سماعتوں میں رس گھول دے۔

کتنے اچھے لوگ تھے کیا رونقیں تھیں ان کے ساتھ 

جن کی رخصت نے ہمارا شہر سونا کر دیا

حضرت کی دائمی رخصت پہ شاید ہمیں تسلی دینے والا بھی کوئی نہیں، کہ ہر شخص ان کی جدائی پر آبدیدہ اور دلگیر ہے، ہر شخص ان کے پسماندگان کا حصہ ہے، ان کا علمی و عملی وارث و فرزند ہے، اس لیے ہر اس عمل و فکر کو آگے بڑھانا بھی ہر شخص کی ذمہ داری ہے، جس کے لیے قاری صاحب نے اپنی زندگی کھپا دی، اور تادمِ واپسیں اس مشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔ 

اللہ حضرت کی کامل مغفرت فرمائے، آمین

ابن مالک ایوبی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے