قصہ کرسی کا

اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کی

کسی جمہوری ملک میں جب امتیازی حیثیت سے انتخاب جیتنے والا کوئی لیڈر خود کو ملک کا بادشاہ سمجھنے لگے، وہاں کی بھولی عوام ایسے لیڈروں کی بھکتی میں اس کی ہر بات کو سچ، اور اس کے خلاف بولے گئے ہر لفظ کو جھوٹ باور کرنے لگے، وہاں کی میڈیا صحافت کو صداقت کی پٹری سے اتار کر ابن الوقتی کی ڈگر پر لے آۓ، وہاں کی عدلیہ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھنے کے بجائے، حکومت کی کاسہ لیسی کو نصب العین بنا لے، اور حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ملک کے لیے خطرہ بتا کر ان کو پسِ زندان ڈالنے کی حمایت کرنے لگے...تو بس یقین مانیں کہ وہاں ڈیموکریسی اور سیکولرزم نامی کسی شے کا وجود ناممکن ہے۔

اور اتفاق سے سیکولرزم پر مبنی ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہمارے ملک بھارت میں یہ تمام چیزیں کئی بار ہو چکی ہیں، مطلب.... ڈیموکریسی کو کئی بار بے موت دفن کرنے کی کوشش کی جا چکی ہے۔ا

ایسے ہی حالات و واقعات پر مشتمل، ایک انتہائی شرمناک اور افسوس ناک واقعے کی یاد دلاتا ہے آج کا دن... یعنی 25 جون۔

ملک میں کانگریس کا اقتدار عروج پر تھا، آج کے زعفرانی نشے کی طرح کانگریسی خمار سر چڑھ کر بول رہا تھا، 1971 کے انتخابات میں اندرا گاندھی کو تازہ تازہ جیت ملی تھی، سقوطِ ڈھاکہ میں اہم کردار ادا کرنے اور انتخابات میں زبردست جیت حاصل کرنے کی وجہ سے اندرا گاندھی کا دماغ آسمان چھو رہا تھا، بالکل ویسے ہی، جیسے موجودہ وزیراعظم کا حال ہے۔

اسی دوران اندرا حکومت کے ذریعے لاۓ گئے کچھ آرڈیننس کی بنا پر بہت سے لوگوں کی جائیدادیں ضبط ہونے لگیں، کیرلا کے کیساوانندا (kesavananda) نے اس معاملے کے لیے کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس کے بعد اس معاملے کو لے کر تیرہ سینیئر ججوں نے مل کر ایک میٹنگ کی، اس وقت یعنی 1973 تک آئینِ ہند میں "حقوقِ املاک" ( rights to property) کے نام سے ایک بنیادی حق ہوا کرتا تھا، اسی کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ ہوا، کہ حکومت آئینِ ہند میں ترمیم تو کر سکتی ہے، لیکن ایسی کوئی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے (basic structure) کو زیر نہیں کرسکتی، لیکن اس بنیادی ڈھانچے کی وضاحت نہیں کی گئی تھی، جس کے بعد اس میں اختلاف ہو گیا، اس اختلاف کے نتیجے میں عدالتِ عالیہ کو آئین کا سرپرست بنا دیا گیا، اور بنیادی ڈھانچے کی توضیح کی ذمّہ داری اس کے سپرد کر دی گئی۔

اب اندرا گاندھی کو یہ کیسے برداشت ہو سکتا تھا، کہ اس جیسی سپریم لیڈر کو عدالت روک ٹوک کرے، اس لیے انہوں نے تین اہم اور سینیئر ترین ججوں کو نظر انداز کر کے اپنے قریبی اور خصیہ بردار جج اے این رے (a.n.rey) کو چیف جسٹس بنا دیا، آسان لفظوں میں کہیں، تو آئین کی نگراں عدالتِ عالیہ تھی، اور عدالتِ عالیہ کی نگراں وہ خود بن گئیں، جیسے بی جے پی حکومت نے جسٹس گوگوئی (justice Gogoi) کو استعمال کر کے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔

دوسری جانب رائے بریلی سے اندرا کے خلاف انتخاب ہارنے والے راج نارائن (raj Narayan) نے "نمائندگئ عوام ایکٹ" (representation of the people act) کے تحت یہ الزام لگایا، کہ اندرا نے پی ایم آفس میں کام کرنے والے آفیسر یشپال کپور سے اپنی انتخابی مہم میں مدد چاہی تھی، اور یہ غیر قانونی تھا۔

اس وقت ججوں میں انصاف پسندی کی کچھ رمق باقی تھی، چنانچہ 12 جون 1975 کو جسٹس سنہا ( jagmohan lal sinha ) نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کو مجرم قرار دے کر ان کا الیکشن رد کر دیا، اور ان کو آئندہ چھ برسوں تک کے لیے انتخابات میں شرکت سے محروم (debarred) کر دیا۔

چند روز بعد یہ معاملہ عدالتِ عالیہ پہنچا، جہاں ویکیشن جج کرشنا ایئر (vacation judge krishna iyer) نے یہ فیصلہ کیا کہ اندرا گاندھی وزیراعظم تو رہ سکتی ہیں، لیکن ایوانِ حکومت میں کسی بھی فیصلے پر نہ ووٹ دے سکتی ہیں، اور نہ نمائندگی کی سیلری لے سکتی ہیں۔

بس کیا تھا....

25 جون کی اسی شب کو، اندرا گاندھی نے صدر فخرالدین علی احمد کو ملک گیر ایمر جنسی نافذ کرنے کا تانا شاہی حکم دے دیا، صدر صاحب نے قومی سلامتی (national security) کا حوالہ دیتے ہوئے، دفعہ 352 i کے تحت ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کردی، یہ ایمرجنسی مسلسل اکیس ماہ جاری رہی، جو کانگریس کے ستر سالہ دورِ حکومت کا سب سے شرمناک اور آمرانہ اقدام، اور ہندوستانی جمہوریت کے ماتھے کا کلنک ہے، بالکل ایسے ہی، جیسے بی جے پی دورِ اقتدار کا بابری مسجد فیصلہ اور سی اے اے قانون.....

اسی ایمرجنسی کے دوران کانگریس نے اپنی بے لگام طاقت، عدلیہ کی نیم خوابی اور اپوزیشن جماعتوں کے بے آواز ہو جانے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے حق میں کئی قوانین پاس کیے، جن میں سے نسبندی اور 39-40 ii کی دفعات قابلِ ذکر ہیں۔

دفعہ 39-40 کے تحت یہ قانون تھا، کہ صدر، نائب صدر اور وزیراعظم کے عہدے کے خلاف کوئی فرد یا ادارہ آواز نہیں اٹھا سکتا، اور نہ ہی کوئی ادارہ ان کا الیکشن رد کر سکتا تھا۔

اور اس ترمیم کا نتیجہ یہ ہوا، کہ 7 نومبر 1975 کو عدالتِ عالیہ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو خارج کر دیا، جو جسٹس سنہا(j.l.sinha) نے اندرا کے خلاف صادر کیا تھا، بعد میں جسٹس سنہا کو منظرِ عام سے ہٹنے پر مجبور کیا گیا، جیسے بی جے پی نے جسٹس لویہ (justice loya) کو ختم کرا دیا۔

اس ایمر جنسی کے دوران احتجاجات بھی ہوۓ، سرکار کے خلاف ریلیاں بھی نکالی گئیں، کئی یونیورسٹیوں کے طلباء نے سرکار کے خلاف آواز بھی اٹھائی، لیکن مودی بھکتوں کی طرح اس وقت کانگریس کے بھکت کثیر تعداد میں تھے، اور ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں میں بھی تھے، اس لیے جس طرح جامعہ اور جے این یو کے طلبہ کو اینٹی نیشنل کہہ کر، اور بغیر کسی جرم کے گرفتار کر کے زد و کوب کیا گیا، اور یوپی اور دہلی میں احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہائی گئیں، اسی طرح اُن پروٹسٹروں کو بھی غدار اور دیش دروہی قرار دے کر ان کو گرفتار کر لیا گیا، ان میں سے بعض پر بے انتہا مظالم ڈھاۓ گئے۔

اور سب سے الم ناک بات یہ کہ اُس وقت کے مظاہرین کو شہری ہونے کا کوئی حق نہیں دیا گیا، حتی کہ ان کا حقِ زیست (right to life) تک چھین لیا گیا، چنانچہ اس وقت کے ایک سینئر جج نے ایک میٹنگ میں یہ عندیہ دیا، کہ ایسے مواقع پر غیر قانونی طریقے سے کسی احتجاجی شہری کی جان بھی چلی جائے، تو کوئی حرج نہیں، سرکار کے اقدام کو درست ٹھہرایا جائے گا۔

یعنی.... میڈیا سے لے کر فوج، اور عوام سے لے کر عدلیہ تک، سب سرکار کے قدموں پر جھکے ہوئے تھے۔

بالکل بعینہ وہی منظر آج ہم دیکھتے ہیں، گزشتہ احتجاجوں میں اپنا حق مانگنے والوں کو حق تو کیا دیا جاتا، ان کے اوپر سخت ترین دفعات لگا کر ان کو اور دبایا جا رہا ہے، حکومت اور پولیس علانیہ طور پر ان پر مظالم ڈھا رہی ہیں، اور عدالت سرکار کی کاسہ لیسی میں نادانستہ طور پر بھی ان مظلوموں کے حق میں کوئی فیصلہ صادر نہیں کر رہی ہے، نتیجہ یہ کہ پورے ملک میں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔

اور اس ایمرجنسی والے معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے، تو کانگریس، بی جے پی سے زیادہ اس ملک کی قصور وار ہے، کیوں کہ اسی نے اپنی مقصد براری کے لیے، آئین میں دست برد کا آغاز کیا، اور من چاہے قوانین پاس کیے، آج بی جے پی بالکل اسی کی رَوِش پر چل رہی ہے۔

ان جیسے عاقبت نااندیش اور نَک چڑھے حکمرانوں کا بس وہی علاج ہے، جو اُس وقت کی عوام نے اندرا گاندھی کا کیا تھا۔

ویسے تو اندرا گاندھی کا اس ایمرجنسی کے پسِ پردہ ارادہ یہ تھا، کہ آئندہ تیس چالیس برسوں تک کوئی انتخاب ہی نہ ہو، لیکن اچانک انہیں کیا سوجھی، 1977 میں انتخابات کا اعلان کردیا، اور اس انتخاب میں عوام نے اندرا کا وہ علاج کیا، کہ بس..... دماغ درست ہو گیا۔

موجودہ حکومت بھی لامحدود مدت تک حکمرانی اور ہندو راشٹر جیسے ناپاک عزائم کی تکمیل کا خواب دیکھ رہی ہے، اس کے لیے بھی ہندوستانی عوام کو بیدار ہونا ہوگا، اور اس کا بھی بہترین علاج کرنا ہوگا۔

✍️⁩: ابن مالک ایوبی


#emargency_25_june

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے