موت اس کی ہے کرے جس پر زمانہ افسوس

 
عبید اللہ شمیم قاسمی

 عبید اللہ شمیم قاسمی 

گذشتہ دنوں پڑوسی ملک کے ایک نامور عالم دین نے ایک اعلان دیا تھا کہ ملک کے کئی بڑے علماء کرام علیل چل رہے ہیں، ان کی صحت یابی کے لیے دعا کریں، ان شخصیات میں حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، حضرت مولانا مفتی رفیع عثمانی صاحب اور مولانا محمد حنیف جالندھری کا نام شامل تھا، ان حضرات کی صحت کے لیے مختلف ممالک میں دعائیں ہو رہی تھیں کہ اچانک کل ١٨/ذى قعدة ١٤٤٢ مطابق ٣٠/ جون ٢٠٢١ء بروز بدھ یہ خبر صاعقہ بن کر گری کہ علماء کے سرخیل، وفاق المدارس عربیہ کے صدر اور جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے روح رواں حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب اپنے مالک حقیقی سے جاملے، إنا لله وإنا إليه راجعون

موت تو برحق ہے اور ایسی حقیقت ہے جس کا آج تک کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکا، جو شخص بھی اس دنیا میں آیا ہے اسے اس دنیا کی مقررہ زندگی گزار کر رب کریم کی بارگاہ میں جانا ہے، ارشاد باری تعالی ہے: كل نفس ذائقة الموت ثم إلينا ترجعون[العنكبوت: ٥٧].

ہم اپنی آنکھوں سے روزانہ جنازے اٹھتے ہوئے دیکھتے ہیں، ہزاروں افراد کی موت کی خبر اخبارات میں شائع ہوتی ہے، ان میں بہت سے ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جن پر کوئی رونے والا نہیں ہوتا مگر بعض شخصیات ایسی نادر الوجود ہوتی ہیں کہ ان کی موت پر ایک زمانہ افسوس کرتا ہے، حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت بھی ایسے ہی لوگوں میں تھی جن کی وفات پر بر صغیر کا علمی ودینی حلقہ ماتم کناں ہے۔

اللہ تعالی تعالی نے آپ کو بہت خصوصیات سے نوازا تھا، آپ کی شخصیت مرجع الخلائق تھی، آپ نے پوری زندگی قال اللہ اور قال الرسول پڑھا اور پڑھایا اور اس پیغام کو اپنے ہزاروں شاگردوں تک پہنچایا۔

اللہ تعالی نے آپ کو طویل عمر عطا فرمائی اور اس عمر کو صحیح مقصد میں آپ نے صرف کیا، یوں ارشاد نبوی "طوبى لمن طال عمره وحسن عمله" کی بشارت سے سرفراز ہوئے۔

 پیدائش: 

 حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر رحمۃ اللہ علیہ ضلع ایبٹ آباد کے گاؤں کوکل کے رہنے والے تھے، جہاں ایک دینی گھرانے میں ١٩٣٥ء/١٣٥٤ھ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔

آپ کے والد سکندر خان بن زمان خان کا شمار حلقہ کے با اثر افراد میں ہوتا تھا، آپ بڑے باوجاہت تھے۔ خاندان اور گاؤں کے تنازعات میں ان سے رجوع کیا جاتا تھا؛ جنہیں وہ خوش اسلوبی سے نمٹادیا کرتے تھے۔ بچپن ہی سے علماء و صلحاء سے گہرا تعلق تھا؛ جس کا اثر اُن کی زندگی پر ایسا نمایاں تھا کہ دینی معلومات آپ کو خوب مستحضر تھیں! جس کی بنا پر بہت سے علماء بھی آپ سے محتاط انداز میں گفتگو کرتے تھے، کیوں کہ غلط بات پر آپ ٹوک دیا کرتے تھے۔ نماز باجماعت کی پابندی، تلاوتِ قرآن کریم، ذکرِ الٰہی، صلہ رحمی، اصلاح ذات البین، رأفت و شفقت، اور ضعفاء کی خبرگیری؛ ان کے خصوصی اوصاف تھے۔ مسجد کی خدمت و تعمیر سے بہت شغف تھا۔

ایسے دینی ماحول کا اثر آپ کی زندگی پر بچپن سے پڑا، بچپن ہی سے آپ سلیم الفطرت تھے۔ آپ کے معاصرین گواہی دیتے ہیں کہ آپ میں جو نیکی و صلاح اس پیرانہ سالی میں نظر آتی ہے؛ یہ جوانی میں بھی اسی طرح دکھائی دیتی تھی۔ گویا آپ کا بچپن، جوانی، اور بڑھاپا نیکی و تقویٰ کے لحاظ سے ایک جیسا تھا۔

 تعلیم: 

قرآن کریم کی تعلیم اور میٹرک تک دنیاوی فنون گاؤں میں حاصل کیے۔ اس کے بعد ہری پور کے مدرسہ دارالعلوم چوہڑ شریف میں دو سال، اور احمد المدارس سکندر پور میں دو سال پڑھا۔

 ١٩٥٢ء میں مفتئِ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ تعالیٰ کے مدرسہ دارالعلوم نانک واڑہ کراچی میں درجہ رابعہ سے درجہ سادسہ تک تعلیم حاصل کی۔ درجہ سابعہ و دورۂ حدیث کے لیے محدّث العصر علامہ سید محمّد یوسف بَنُوری رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا، اور ١٩٥٦ء میں فاتحۂِ فراغ پڑھا۔ (واضح رہے کہ اس مدرسہ میں درسِ نظامی کے پہلے طالبِ علم آپ ہی تھے۔) اس کے بعد آپ نے ١٩٦٢ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منوّرہ(جس کے قیام کو ابھی دوسرا سال تھا) میں داخلہ لے کر چار سال علومِ نبویہ حاصل کیے۔ بعد ازاں جامعہ ازہر مصر میں ١٩٧٢ء میں داخلہ لیا، اور چار سال میں دکتورہ مکمل کیا؛ جس میں "عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام الفقہ العراقی" کے عنوان سے مقالہ سپردِ قلم فرمایا۔

آپ نے متعدد اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، جن میں چند مشہور اساتذہ درج ذیل ہیں:

١۔۔۔: علامہ سیّد محمّد یوسف بَنُوری(تلمیذ: محدّث علامہ کشمیری رح)۔

٢۔۔۔: مولانا عبدالحق نافع کاکاخیل(تلمیذ:حضرت شیخ الہند رح، واضح رہے کہ حضرت شیخ الہند کی اسارت مالٹا میں آپ کے بڑے بھائی مولانا عزیر گل صاحب بھی ساتھ تھے)۔

٣۔۔۔: مولانا عبدالرّشید نعمانی

٤۔۔۔:مولانا لطفُ اللہ پشاوری۔

٥۔۔۔: مولانا سَحبان محمود۔

٦۔۔۔: مفتی ولی حَسن ٹونکی۔

٧۔۔۔: مولانا بدیع الزّماں۔ (رحمہم اللہ تعالیٰ)

 درس و تدریس: 

جب آپ جامعہ العلوم الاسلامیہ بَنُوری ٹاؤن میں طالب علم تھے تو درسِ نظامی کی تکمیل سے پہلے ہی حضرت بَنُوری رح نے آپ کی صلاحیتوں کو جانچتے ہوئے اپنے مدرسہ کا استاذ مقرر فرمایا۔ آپ کا زمانۂِ تدریس ١٩٥٥ء سے تا وفات جاری رہا۔ جو کہ ٦٥/ سال کے عرصہ پر محیط ہے، درمیان میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور جامعہ ازہر مصر جب آپ تعلیم کے سلسلے میں تشریف لے گئے تو جامعہ کی طرف سے آپ کو خصوصی رخصت دی گئی۔

 بیعت و خلافت: 

ظاہری علوم کی تکمیل کے علاوہ آپ کی باطنی تربیت میں بھی شیخ بَنُوری کا سب سے زیادہ حصہ تھا۔ علاوہ ازیں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمّد زکریا کاندہلوی اور حضرت ڈاکٹر عبدالحئ عارفی نوّر اللہ مرقدَہما کی صحبت سے مستفید ہوئے، اور حضرت مولانا محمّد یوسف لدھیانوی شہید اور حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہما اللہ تعالیٰ سے اجازتِ بیعت و خلافت حاصل ہوئی۔

 شیخ بَنُوری رح کی نسبتوں کے امین 

آپ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب رحمہ اللہ کے سچے جانشین تھے اور ان کی نسبتوں کے امین تھے، حضرت بَنُوری رح سے آپ کا تعلق اس وقت قائم ہوا جب آپ جامع مسجد بَنُوری ٹاؤن میں عربی کلاس پڑھانے کے لیے تشریف لایا کرتے تھے، کلاس پڑھانے کے بعد کچھ دیر حضرت بَنُوری رح کی خدمت میں حاضر رہتے، اگلے سال اسی مدرسہ میں داخلہ لے کر آپ نے یہ رسمی تعلق دائمی کرلیا، سفر وحضر میں خادم کی حیثیت سے ہمیشہ ساتھ رہتے۔ حضرت کو بھی آپ سے ایسی محبت تھی کہ اپنے مدرسہ میں استاذ مقرر فرمایا، مدینہ یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے چار سال کی رخصت دی، جامعہ ازہر میں داخلہ کے لیے خود ساتھ لے گئے، ١٩٦١ء میں حج پر ساتھ لے گئے تو حج کے تمام مناسک اپنی نگرانی میں کروائے، کیوں کہ یہ ڈاکٹر صاحب کا پہلا حج تھا۔ انہی محبتوں و شفقتوں نے آپ کو اپنے شیخ کا ایسا گرویدہ بنادیا کہ زندگی بھر کے لیے انہی کے ہوکر رہ گئے۔ شیخ کے وصال کے بعد کچھ عرصہ تک یہ کیفیت رہی کہ جہاں شیخ کا تذکرہ چھڑتا تو آپ کی آنکھیں ضبط نہ کرپاتیں اور پھر بڑے والہانہ انداز میں شیخ کے واقعات سناتے۔ اس وقت آپ اپنے شیخ کی تمام نسبتوں کے امین اور ان کے مسند نشین و جانشین تھے۔ شیخ بَنُوری رح بیک وقت "صدرِ وفاق، امیرِ مجلس تحفظ ختم نبوت، رئیس و شیخ الحدیث جامعہ بنوری ٹاؤن تھے"؛ حضرت ڈاکٹر صاحب بھی اس وقت ان تمام مناصب پر فائز ہوئے۔ آپ فناء فی الشیخ کی تصویر، اور شیخ کی نسبتِ اتحادی کا مظہر اتمّ تھے۔ اپنے شیخ کی نسبت ہی وجہ سے آپ پورے ملک کے مشائخ و اہل اللہ کے معتَمد، مرجع الخلائق، اور آپ کی ذات ایسی غیر متنازع شخصیت تھی جس کی وجہ سے سب کی عقیدت و احترام آپ کو حاصل تھا۔ اور آپ کی مجلس و صحبت سے استفادہ کرنا ہر شخص اپنی سعادت سمجھتا تھا۔


چند سال پہلے جب آپ کا ہندوستان کا سفر ہوا اور دیوبند حاضری ہوئی تو مسجد رشید میں استقبالیہ جلسہ ہوا، دارالعلوم دیوبند کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمہ اللہ نے بہت اکرام کے ساتھ اپنے پاس بٹھایا اور آپ کا تعارف کرایا۔ 


" جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے تعلق "

جس طرح آپ کو اپنے شیخ سے تعلق تھا، اسی طرح اپنی مادر علمی سے بھی تعلق تھا، جو تعلق ا١٩٥٥ء میں اس مدرسہ کے درسِ نظامی کے پہلے طالبِ علم کی حیثیت سے استوار ہوا تھا، اس کو دیکھتے ہوئے دورانِ طالبِ علمی ہی حضرت بَنُوری رح نے آپ کی عمدہ استعداد کی بناء پر آپ کو استاذ مقرر فرما کر یہ تعلق اور مضبوط کردیا، ١٩٧٧ء میں انتظامی صلاحیتوں کے اعتراف میں ناظمِ تعلیمات مقرر ہوئے، ١٩٩٧ء میں مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید رح  (صاحب کشف النقاب عما یقول الترمذی وفی الباب) کی شہادت کے بعد رئیس الجامعۃ کے لیے آپ کا انتخاب ہوا اور ٢٠٠٤ء میں مفتی نظام الدین شامزئی شہید رح کی شہادت کے بعد شیخ الحدیث کے مسند نشین بنے؛ جس پر آخر عمر تک آپ قائم رہے۔


" عالمی مجلس تحفط ختم نبوت سے تعلق "

 امیرِ شریعت سیّد عطاءاللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کی زیرِ امارت عقیدۂِ ختمِ نُبوّت کے تحفظ اور فتنۂِ قادیانیت کے تعاقب کے لیے یہ جماعت قیامِ پاکستان کے بعد وجود میں آئی۔ ١٩٧٤ء میں شیخ بَنُوری رح کی زیرِ امارت اس جماعت کی چلائی جانے والی تحریک کے نتیجہ میں آئینِ پاکستان میں عقیدۂِ ختمِ نُبوّت کا تحفظ ممکن ہوا، حضرت ڈاکٹر صاحب ١٩٨١ء میں اس جماعت کی مجلسِ شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ حضرت سیّد نفیس الحسینی شاہ رح کے وصال (٢٠٠٨ء) کے بعد آپ نائب امیر مرکزیہ بنائے گئے۔ حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی رح کے انتقال (٢٠١٥ء) کے بعد آپ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ منتخب ہوئے۔ 


 "وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے تعلق" 

قیامِ پاکستان کے بعد مسلمانانِ پاکستان کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے، مملکتِ خداداد پاکستان میں دینی مدارس کے تحفظ و استحکام اور باہمی ربط کو مضبوط بنانے، اور مدارس کو منظّم کرنے کے لیے اکابر علمائے اہلِ سنّت و جماعت دیوبند کی زیرِ قیادت ١٣٧٩ھ/١٩٥٩ء میں اس ادارہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت یہ ملک کا سب سے بڑا دینی مدارس کا بورڈ ہے۔


حضرت ڈاکٹر صاحب کے شیخ محدّث بَنُوری رح کا اس ادارہ کے قیام میں دیگر اکابر کے ساتھ بنیادی کردار رہا ہے۔ ١٩٩٧ء میں حضرت ڈاکٹر صاحب وفاق کی مجلسِ عاملہ کے رُکن بنائے گئے۔ ٢٠٠١ء میں نائب صدر مقرر ہوئے، اس دوران آپ صدرِ وفاق شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان رح کی بیماری و ضعف کے باعث کئی بار اُن کی نیابت کرتے رہے، اور اُن کی وفات کے بعد تقریباً ٩/ ماہ قائم مقام صدر رہے۔ ١٤/ محرّم الحرام ١٤٣٩ھ/ ٥/ اکتوبر ٢٠١٧ء کو آپ متفقہ طور پر مستقل صدر منتخب ہوئے۔ اس کے علاوہ آپ وفاق کی نصاب کمیٹی اور امتحان کمیٹی کے بھی سربراہ تھے۔

 

گذشتہ دنوں وفاق المدارس کا جلسہ ہوا، جس میں آپ نے اپنی بیماری کی وجہ سے خدمت سے معذرت کرتے ہوئے صدر کے عہدے سے دست بردار ہونے کا ارادہ کیا تو شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے اس موقع پر بہت اہم بات ارشاد فرمائی، جس سے قارئین کو آپ کی علمی حیثیت کا اندازہ ہوگا۔


 حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے خطاب  کے آخر میں فرمایا کہ: 

"میں تجویز دیتا ہوں کہ مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر مدظلہ ہی صدر رہیں اور اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ کمزور ہیں، خود نہیں آسکتے، مجالس اور میٹنگز میں شرکت نہیں کرسکتے تو میں اس پر واقعہ سناتا ہوں:


"دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت شاہ رفیع الدین رحمہ اللہ نے دیکھا کہ اساتذہ تاخیر سے آرہے ہیں تو انہوں نے یہ علاج سوچا کہ صبح صبح  مدرسے کے دروازے کے ساتھ چارپائی لگا کر بیٹھ جاتے اور ہر آنے والے استاذ کو سلام کرتے، یوں چند ہی دن میں سب وقت پر آنے لگے البتہ صدر مدرس مولانا یعقوب نانوتوی جب گھر سے نکلتے تو کوئی دم کروتا، کوئی تعویذ لیتا، کوئی دعا کرواتا تو لوگوں کی دلجوئی میں حضرت تاخیر سے پہنچتے تو حضرت شاہ رفیع الدین صاحب نے مدرسہ کے سرپرست اعلی حضرت گنگوہی رحمہ اللہ سے مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے تو انہوں نے فرمایا کہ اگر مولانا یعقوب نانوتوی رح پورے دن میں ایک دفعہ بھی دارالعلوم کا ایک چکر لگا جایا کریں تو بھی سودا مہنگا نہیں کہ ان کا نفس وجود ہی باعث برکت ہے، یہ ایسے ہیں ! تو میں یہ کہتا ہوں کہ حضرت ڈاکٹر صاحب کا نفس وجود ہی باعث برکت ہے"


" تصانیف و تالیفات "

١۔۔۔: الطریقۃ العصریۃ۔

٢۔۔۔: کیف تعلم اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقین بھا۔

٣۔۔۔: القاموس الصغیر۔

٤۔۔۔: مؤقف الامۃ الاسلامیۃ من القادیانیۃ۔

٥۔۔۔: تدوین الحدیث۔

٦۔۔۔: اختلاف الامۃ والصراط المستقیم۔

٧۔۔۔: جماعۃ التبلیغ و منھجہا فی الدعوۃ۔

٨۔۔۔: ھل الذکریۃ مسلمون؟۔

٩۔۔۔: الفرق بین القادیانیین و بین سائر الکفار۔

١٠۔۔۔: الاسلام و اعداد الشباب۔

١١۔۔۔: تبلیغی جماعت اور اس کا طریقۂِ کار۔

١٢۔۔۔: چند اہم اسلامی آداب۔

١٣۔۔۔: محبّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔

١٤۔۔۔: حضرت علی اور حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین۔


آپ کی زیادہ تر تصانیف اردو سے عربی، اور کچھ عربی سے اردو میں مترجَم ہیں۔ جبکہ مشہور کتاب "الطریقۃ العصریۃ" عرصہ دراز سے وفاق المدارس کے نصاب میں شامل ہے۔

اسی طرح آپ نے مجلس تحفظ ختم نبوت کی کئی اردو مطبوعات کا عربی میں ترجمہ کرکے عرب ممالک میں اِنہیں عام فرمایا۔


علاوہ ازیں آپ نے عربی و اردو میں بےشمار مقالات و مضامین سُپردِ قلم فرمائے ہیں، جو عربی و اردو مجلّات، رسائل و جرائد، اور اخبارات کی زینت بنے اور مختلف کانفرنسوں میں پڑھے گئے ہیں۔ اِن میں سے اردو مضامین تین مجموعوں کی شکل میں مرتَّب ہوچکے ہیں:

١۔۔۔: مشاہدات و تأثرات۔

٢۔۔۔: اصلاحی گزارشات۔

٣۔۔۔: تحفظِ مدارس اور علما و طلبہ سے چند باتیں۔


دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے