عشرئہ ذی الحجہ فضائل واعمال


عشرئہ ذی الحجہ  فضائل واعمال

 باسمہ تعالیٰ

از:مفتی عمران قاسمی سدھارتھ نگری خادم دارالإفتاء والإرشادوجامع مسجد وائٹ فیلڈ بنگلور

    یو ں تو اس روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں پر اللہ رب العزت والجلال کی رحمت ہمیشہ برستی رہتی ہے ،شب وروز میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں دنیا رحمت الٰہی سے سیراب نہ ہوتی ہو مگر بعض ایام ایسے ہیں جن میں دریا ء رحمت کے اند ر مزید تلاطم پیدا ہوجاتا ہے من جملہ ان مخصوص ایام کے عشرئہ ذی الحجہ کے بھی ایام ہیں کہ ان دس دنوں میں بحر رحمت میں بے انتہا جوش پیدا ہوجاتاہے اور ان میں اللہ عزوجل کی جانب سے عبادتوںاور نیک کاموں کا ثواب کئی گنا بڑھادیاجاتاہے ۔

اعمال عشرئہ ذی الحجہ کی بارگاہ الٰہی میں محبوبیت

    ذی الحجہ کے شروع کے دس دنو ں میں بندہ کی جانب سے انجام دئیے جانے والے نیک اعمال خداوند قدوس کوبے پناہ محبوب ہیں ،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی االہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مَا مِنْ أَیَّامٍ العَمَلُ الصَّالِحُ فِیہِنَّ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنْ ہَذِہِ الأَیَّامِ العَشْرِ.(ترمذی ،کتاب الصوم ،باب ما جاء فی العمل فی أیام العشر،رقم /٧٥٧)عشرہ ذی الحجہ کے اعمال صالحہ (نماز وروزہ ،تسبیح وتلاوت ،اذکارواستغفار اور صدقہ وخیرات وغیرہ )کو اللہ تبارک وتعالیٰ جتنا پسند فرماتے ہیں اتنا عشرئہ ذی الحجہ کے علاوہ دیگر ایام کے اعمال صالحہ کو پسند نہیں فرماتے۔

عشرہ ذی الحجہ کے روزوں کی فضیلت 

    ذی الحج کے پہلے عشرہ کے روزوں کی اہمیت وفضیلت کو اجاگرکرتے ہوئے حضورؐ نے ارشاد فرمایا:یَعْدِلُ صِیَامُ کُلِّ یَوْمٍ مِنْہَا بِصِیَامِ سَنَۃٍ، وَقِیَامُ کُلِّ لَیْلَۃٍ مِنْہَا بِقِیَامِ لَیْلَۃِ القَدْرِ ۔(سنن ترمذی :کتاب الصوم ،باب ماجاء فی العمل فی أیام العشر ،رقم/٧٥٨)جوشخص ذی الحجہ کے ایام عشرہ میں سے ایک دن روزہ رکھے تو اس کو ایک روزہ کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر ملے گا ،اور جو شخص ان دس راتوں میں سے کسی رات میں عبادت کرے گا اسکو شب قدرمیں عبادت کے برابر ثواب ملے گا ۔

    اس روایت سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عشرہ میں اپنے بندوں پر کس قدرو الطاف عنایات کی بارش کرتے ہیں اور فقط ایک دن کے روزے اور ایک رات کی عبادت پر کس قدر بے انتہا ثواب عطافرماتے ہیں بس ضرورت اس بات کہ ہم اس بابرکت وبافضیلت عشرہ میں ذوق وشوق اورلگن کے ساتھ عبادات کرکے اپنے نامئہ اعمال میں زیادہ سے زیادہ ثواب کی ذخیرہ اندوزی کریں ۔

چار مخصوص اعمال 

    اس مقدس عشرہ میں کرنے کی تو بہت ساری عبادتیں اور بہت سارے اعمال ہیں لیکن چاراعمال ایسے ہیں جنھیں اس عشرہ میں خصوصی طور پر انجام دیاجاتاہے ۔

(١):بال اور ناخن نہ کاٹنا 

    ذی الحجہ کا چاندہوتے ہی امت محمدیہ پر سب سے پہلا حکم یہ عائد ہوتاہے کہ جوشخص قربانی کرنا چاہتاہے اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ قربانی ہونے سے پہلے اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے ۔(شامی :٦٦/٣،کتاب الصلاۃ ،باب العیدین ،مطلب فی إزالۃ الشعر ،طبع زکریادیوبند )جناب نبی کریم ؐ کاارشارعالی ہے :إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَہُ أُضْحِیَّۃٌ یُرِیدُ أَنْ یُضَحِّیَ، فَلَا یَأْخُذَنَّ شَعْرًا، وَلَا یَقْلِمَنَّ ظُفُرًا۔(صحیح مسلم :١٦/٢،کتاب لأضاحی ،باب وہی من دخل علیہ عشر ذی الحجۃالخ ،رقم /٥٢٣٢)

    جو شخص قربانی کاارادہ رکھتاہو اسے چاہیے کہ وہ (قربانی کرنے تک )اپنے ناخن اور بال کاٹنے سے احترازکرے ،قربانی سے پہلے بال اور ناخن نہ کاٹنے کا یہ عمل صرف قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے غریب ونادارشخص جوقربانی کاارادہ نہیں رکھتااس کے لئے مستحب نہیں ہے ۔(فتاوی دارالعلوم دیوبند :٥٢١/١٥،مکتبہ دارالعلوم دیوبند )

حجاج کرام کے ساتھ مشابہت 

    قربانی ہونے تک بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم بظاہر بڑاعجیب وغریب لگتاہے لیکن دراصل بات یہ ہے کہ وہ فرزندان توحید جو ان مقدس ساعتوں میں اللہ کے متبر ک گھرکی زیارت کے لیے تشریف لے گئے ہیں ان کے لیے حالت احرام کے اندر بہت سی چیزیں ممنوع ہیں ان ممنوعات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ حالت احرام میں بال اور ناخن بھی نہیں کاٹ سکتے ۔(تبیین الحقائق :٢٦٢/٢،کتاب الحج ،باب الإحرام ،طبع زکریادیوبند)

    اب جو لوگ حج بیت اللہ کی عظیم عبادت میں شریک نہیں ہیں اور اللہ کے بابرکت گھر کے پاس حاضر نہیں ہیں انکی جانب باری تعالیٰ کے رحم وکرم کے متوجہ ہونے اور ان کورحمت الہی کامورد بنانے کےلئے نبی ؐ نے ان سے فرمایاکہ تم اللہ کے برگزیدہ بندے حجاج کرام کے ساتھ تھوڑی سی مشابہت اختیارکرلوکہ جس طرح عشرئہ ذی الحجہ میں حجاج کرام بال اور ناخن نہیں کاٹتے اسی طرح تم بھی اس عشرہ میں بال اور ناخن کاٹنے سے گریزکروتاکہ رحمت الہی کی جوگھٹائیں دیاحرم میں رب کے ان محبوب بندوں حجاج کرام پر برسیں ان کی کچھ پھواریں تم پر بھی پڑجائیں ۔

(٢):یوم عرفہ کاروزہ رکھنا

    ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس نوںمیں دوسرا عمل عرفہ کے دن (نوذی الحجہ )کوروزہ رکھناہے جو کہ شرعااستحباب کادرجہ رکھتاہے ۔(فتاوی دالعلوم دیوبند :٦/٣٤٦،مکتبہ دارالعلوم دیوبند)یوم عرفہ کاروزہ بہت ہی اجروثواب کاثواب کا باعث ہے ،جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس روزے کے بارے میں ارشادفرماتے ہیں :صِیَامُ یَوْمِ عَرَفَۃَ، أَحْتَسِبُ عَلَی اللہِ أَنْ یُکَفِّرَ السَّنَۃَ الَّتِی قَبْلَہُ، وَالسَّنَۃَ الَّتِی بَعْدَہُ، وَصِیَامُ یَوْمِ عَاشُورَاء َ، أَحْتَسِبُ عَلَی اللہِ أَنْ یُکَفِّرَ السَّنَۃَ الَّتِی قَبْلَہُ۔(صحیح مسلم :کتاب الصیام ،باب استحاب ثلاثہ ایام الخ ،رقم /٢٨٠٢)عرفہ کے روزے کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے مجھے امید ہے کہ جوشخص عرفہ کاروزہ کارکھے گا اللہ رب العزت پچھلے ایک سال اوراگلے ایک سال کے (صغیرہ گناہوں )کوبخش دے گااورمعاف کردے گا۔

صوم ِعرفہ میں سعودیہ کی تاریخ کااعتبارنہیں 

    یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ )میں روزہ رکھنے کے سلسلے میں سعودیہ عربیہ کے نوذی الحجہ اور عرفات میں حاجیوں کے قیام کے دن کااعتبارنہیں کیاجائیگابلکہ روزہ دارکے شہرکااعتبارکیاجائیگاکہ روزہ دارکے شہر میں نوذی الحجہ جس دن پڑے اس دن وہ روزہ رکھے۔(نوازل :٦/٣٢٩،جاوید دیوبند،بدائع الصنائع :٥٧٩/٢،کتاب الصوم ،دارالکتب العلمیہ بیروت )

(٣):تکبیر تشریق کہنا

    ذی الحجہ کے عشرئہ اولیٰ میں تیسرا عمل تکبیرتشریق پڑھنے کاہے ،تکبیر تشریق کے کلمات یہ ہیں :اَللّٰہُ أَکْبَرُ اَللّٰہُ أَکْبَرُ لَاإِلٰہَ إِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُاَللّٰہُ أَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ۔(المصنف لابن شیبہ :١٩٥/٤،کتاب الصلاۃ ،التکبیرمن أی یوم ہو؟طبع بیروت )راجح اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کی نماز فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی نماز عصر تک ہر فرض نمازکے بعد ہرعاقل بالغ مردوعورت پر ایک مرتبہ تکبیر تشریق کہناواجب ہے ؛البتہ مردحضرات متوسط بلند آوازسے کہیں گے اور اور خواتین آہستہ آوازسے۔(امدادالأحکام :٢/٣٩٣،طبع زکریادیوبند ،قاسمیہ :٩/٥٠٣،اشرفی دیوبند،فتاوی دارالعلوم دیوبند:٥/٢٠٣،طبع دیوبند ،سنن دارقطنی :٢/٣٧،رقم /١٧١٩،بیروت ،الدرالمختارمع الشامی :٣/٦٢-٦٤،کتاب الصلاۃ ،باب العیدین ،مطلب :فی تکبیر التشریق ،ومطلب :المختارأن الذبیح إسماعیل ،طبع زکریادیوبند )

ایام تشریق میں فوت شدہ نمازکے بعد تکبیر تشریق

    ایام تشریق میں اگر کسی کی کوئی نماز فوت ہوگئی اور وہ اس فائتہ کی قضاء اسی سال کے ایام تشریق میں کررہاہے تو قضا نمازکے بعد تکبیر تشریق پڑھنے کا حکم ہے؛ لیکن اگر ایام تشریق میں چھوٹی ہوئی نمازکی قضا اُس سال کے ایام تشریق گزرنے کے بعد کررہاہے تو قضاء نمازکے بعد تکبیر تشریق نہیں پڑھی جائے گی؛بلکہ توبہ واستغفارکیاجائے گا جس سے انشاء اللہ، اللہ تبارک و تعالیٰ ترک تکبیر تشریق کے گناہ کومعاف فرمادیں گے ۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند:٥/٢٠٧،طبع دیوبند،فتاوی ھندیہ :١/١٥٢،کتاب الصلاۃ ،باب العیدین ،رشیدیہ کوئٹہ )

(٤):قربانی کرنا

    ذی الحجہ کے عشرہ میں چوتھاکام اللہ کے نام سے قربانی کرناہے ،ایام قربانی میں جومسلمان صاحب نصاب ہو یعنی قربانی کے تین دنوں میں جس کے پاس حاجت اصلیہ سے زائد اور دَین سے فارغ بقدرنصاب مال (روپیہ پیسہ ،سوناچاندی ،یامال تجارت ،یاضرورت سے زائد سازوسامان )ہوشرعا اس کے اوپر قربانی کرناواجب ہے ،اگر گھر میں کئی افراد صاحب نصاب ہیں تو ہر ایک پر الگ الگ قربانی کرناواجب ہے ایک بکرے کی قربانی تما م اہل خانہ کی طرف سے کافی نہیں ۔(فتاوی دارالعلوم دیوبند آنلائن ،عبادات-ذبیحہ وقربانی ،رقم السوال:٥٦١٦٣،الھدایہ :٢/٤٤٣،کتاب الأضحیۃ ،طبع اشرفی دیوبند،البحرالرائق :٩/٣١٨،کتاب الأضحیۃ ،طبع زکریادیوبند،سنن ابن ماجہ،کتاب االأضاحی ،باب الأضاحی واجبۃ أم لا؟رقم /٣١٢٣)

فضیلت قربانی 

    احادیث مبارکہ میں قربانی کی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں ،ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاآقاؐ کاارشادنقل کرتی ہیں کہ آپ ؐ نے فرمایا:مَا عَمِلَ آدَمِیٌّ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَی اللہِ مِنْ إِہْرَاقِ الدَّمِ، إِنَّہُ لَیَأْتِی یَوْمَ القِیَامَۃِ بِقُرُونِہَا وَأَشْعَارِہَا وَأَظْلاَفِہَا، وَأَنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ أَنْ یَقَعَ مِنَ الأَرْضِ، فَطِیبُوا بِہَا نَفْسًا.(سنن ترمذی :کتاب الأضاحی ،باب ماجاء فضل الأضحیۃ ،رقم /١٥٧٢)قربانی کے ایام میں (بالمقابل دیگر عبادتوں کے )خون کے بہانے کاعمل اللہ تبارک وتعالیٰ کوبہت پسندیدہ ہے اور یہ قربانی کاجانورکل قیامت میں اپنے سینگوں،بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیگااور قربانی میں بہایاجانے والا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کے دربامیں قبولیت کامقام حاصل کرلیتاہے لہذاخوشدلی کے ساتھ قربانی کیاکرو۔

    عَنْ زَیْدِ ابْنِ اَرْقَمَ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا ھٰذِہِ الاَضَاحِیُّ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنَ الصُّوْفِ حَسَنَۃٌ۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب الاضاحی ،باب ثواب الاضحیہ،رقم /٣١٢٧)حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا :کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے سوال کیایارسول اللہ !یہ قربانی کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہارے (روحانی ) باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ،صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا کہ ہمیں قربانی کرنے میں کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کے عوض میں ایک نیکی ،صحابہ کرام نے پھر سوال کیا یا رسول اللہ !اون کے بدلے میں کیا ملے گا؟فرمایا:اون کے بھی ہر بال کے بدلے میںایک نیکی ملے گی۔

    اخیرا خداوندقدوس سے دلی دعاہے رب ذوالجلال ہم سب کوعشرئہ ذی الحجہ کے انواروبرکات کے حصول اور بکثرت عبادت کی توفیق بخشے اور بالخصوس ان ایام کے اعمال اربعہ کو بحسن وخوبی انجام دینے کی سعادت سے سرفرازفرماکر ان کواپنی بارگاہ میں شرف قبول عطافرمائے ۔آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے