احکام ذی الحجہ

 

احکام ذی الحجہ


(چوتھی قسط)

ترتیب

زین العابدین قاسمی

خادم جامعہ قاسمیہ اشرف العلوم نواب گنج علی آباد ضلع بہرائچ

قربانی تاریخی حیثیت سے

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلیٰ مَارَزَقَھُمْ مِنْۢ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ  ۭ فَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا     ۭ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ۝  (سورۃ الحج)

ترجمہ: اور ہم نے (پچھلی) ہر امّت کے لیے (بھی) قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوص چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے اُن کو عطا فرما یا تھا،سو تمہارا معبود ایک ہی اللہ ہے، لہٰذا تم ہمہ تن اسی کے ہو کر رہو،اور(اے نبی ﷺ)آپ(ایسے احکامِ الہیہ کے سامنے) گردن جھکا دینے والوں کو (جنت وغیرہ کی ) خوشخبری سنا دیجئے۔

(پارہ ۱۷، سورۂ حج آیت ۳۴)

حضرت مفتی محمدشفیع عثمانی صاحبؒ فرماتے ہیں:

” قربانی کا حکم جو اس امت کے لوگوں کو دیا گیا ہے کوئی نیا حکم نہیں ہے،پچھلی سب امتوں کے بھی ذمہ قربانی کی عبادت لگائی گئی تھی“ (معارف القرآن ج ۶ ص۲۶۶)

حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں:

”قربانی۔۔۔کے مسئلہ کو لے کر بعض کوتاہ اندیش اعتراض کرتے ہیں کہ یہ جانوروں پر ظلم ہے ، مسلمان ناحق جانوروں کو مارتے ہیں، کسی کی جان لینے میں اللہ کا کیا فائدہ ہے؟ سب سے پہلے اِس خیال کی تردید کی جاتی ہے ۔ ارشاد ہے:ــــــــــــ    اورہم نے ہر امت کے لیے قربانی تجویز کی ہےتاکہ وہ اُن پالتو چوپایوں پر جو اللہ نے ان کو عطا فرمائے ہیں اللہ کا نام لیںـــــــــ     یعنی قربانی میں اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ نہیں ۔ لوگوں کا اپنا فائدہ ہے۔ لوگ قربانی کرکے اللہ کی نزدیکی حاصل کرتے ہیں۔ اور قربانی جانوروں پر ظلم اس لیے نہیں کہ جانور اللہ کی مِلک ہیں۔ لوگوں کی مِلک نہیں۔ ان کو بطور روزی دئے گئے ہیں۔ اور مالک اپنی مِلک میں جو چاہے تصرف کرسکتا ہے۔ اور اُس کے حکم کی تعمیل ضروری ہےــــــــ اور قربانی کے ذریعہ اللہ کی نزدیکی نفس قربانی سے حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ اللہ کے ذکر کا ذریعہ ہے۔۔۔۔۔۔اور اللہ کے ذکر سے اللہ کی نزدیکی حاصل ہونا بدیہی بات ہےــــــــ اور قربانی کے ذریعہ اللہ کی نزدیکی حاصل کرنے کا حکم کسی نہ کسی صورت میں ہر شریعت میں رہا ہے۔ آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کی قربانی کا تذکرہ سورۃ المائدہ (آیت ۲۷) میں آیا ہے۔اور اہلِ کتاب کے مذہب میں قربانی: مذہب کا ایک اہم رکن ہے۔ موجودہ تورات میں بھی جگہ جگہ سوختی قربانی کا تذکرہ ہے۔ اور ہندؤں کے یہاں بھی دیوتاؤں کی بَلی کا رواج ہے۔ پس یہ اسلام کا کوئی انوکھا حکم نہیں ــــــــ رہی یہ بات کہ قربانی کس چیز کی دی جائے، کب دی جائے، کہاں دی جائےاور کس طرح دی جائے؟ یہ باتیں زمانوں، قوموں اور ملکوں کے اختلاف سے مختلف ہوسکتی ہیں، مگر سب کی روح تقرُّب حاصل کرنا ہے۔ اسلام نے قربانی کا ایک خاص نہج مقرر کیا ہے، اور اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اُسوہ پیشِ نظر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ قربانی میں کوئی نئی بات نہیں۔پس تمھارا معبود ایک معبود ہے، سو اس کی تابعداری کروــــــــ یعنی اعتراض کرنے والوں کی ایک نہ سنو ، اللہ کا حکم مانو۔اللہ تعالیٰ نے حج میں اور اس کے علاوہ بھی قربانی کا جو حکم دیا ہے اس کی تعمیل کرو ــــــــاور آپؐ نیاز مندوں کو بشارت سنادیجیےــــــــ یعنی جو لوگ اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں ان کو جنت کی اور جنت کی نعمتوں کی خوش خبری دیجیے۔

(تفسیر ہدایت القرآن ج۵ ص۴۷۷، ۴۷۸)

(جاری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے