احکام ذی الحجہ


احکام ذی الحجہ

(دوسری قسط)

ترتیب

زین العابدین قاسمی

خادم جامعہ قاسمیہ اشرف العلوم نواب گنج علی آباد ضلع بہرائچ

یومُ النحّر/یومُ الاَضحٰی :

 ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو ”یومُ النّحر،یومُ الاَضحٰی‘‘ یعنی قربانی کا دن اور ”عیدُ الاضحی،عید قُرباں اوربقرعید“ کہا جاتا ہے۔اسی دن دوسری عید یعنی عید الاضحیٰ منائی جاتی ہے، اور یہ دن مسلمانوں کا دوسرا مذہبی تہوار ہے۔

اسلامی تہوار؛عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ:

رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

اِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْدًا وَھٰذَا عِیْدُنَا۔ (رواہ البخاری)

ترجمہ: ہر قوم کی (کوئی نہ کوئی) عید ہوتی ہے اور ہماری عید یہ ہے۔ (بخاری)

حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

”ہر قوم کے کچھ خاص تہوار اور جشن کے دن ہوتے ہیں، جن میں اُس قوم کے لوگ اپنی اپنی حیثیت اور سطح کے مطابق اچھا لباس پہنتے اور عمدہ کھانے پکاتے اور کھاتے ہیں، اور دوسرے طریقوں سے بھی مسرت و خوشی کا اظہار کرتے ہیں یہ گویا انسانی فطرت کا تقاضا ہے؛ اسی لیے انسانوں کا کوئی طبقہ اور فرقہ ایسا نہیں ہے جس کے یہاں تہوار اور جشن کے کچھ خاص دن نہ ہوں۔اسلام میں بھی ایسے دو دن رکھے گئے ہیں؛ ایک عیدالفطر اور دوسرے عیدالاضحی، بس یہی مسلمانوں کے اصلی مذہبی و ملّی تہوار ہیں۔ ان کے علاوہ مسلمان جو تہوار مناتے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت اور بنیاد نہیں ہے؛ بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے ان میں سے اکثر خرافات ہیں۔

مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اُس وقت سے شروع ہوتی ہے جب کہ رسول اللہ ﷺ ہجرت فرماکر مدینہ طیبہ آئے۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی ان دونوں تہواروں کا سلسلہ بھی اُسی وقت سے شروع ہواہے۔جیسا کہ معلوم ہے عیدالفطر رمضان المبارک کے ختم ہونے پر یکم شوال کومنائی جاتی ہے اور عیدالاضحی ۱۰/ ذوالحجہ کو۔رمضان المبارک دینی وروحانی حیثیت سے سال کے بارہ مہینوں میں سب سے مبارک مہینہ ہے، اسی مہینہ میں قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا، اسی پورے مہینے کے روزے امت مسلمہ پر فرض کیے گئے، اس کی راتوں میں ایک مستقل باجماعت نماز(تراویح) کا اضافہ کیا گیا ہے، اور ہر طرح کی نیکیوں میں اضافہ کی ترغیب دی گئی ۔ الغرض یہ پورا مہینہ خواہشات کی قربانی اور مجاہدہ کا اور ہر طرح کی طاعات و عبادات کی کثرت کا مہینہ قرار دیاگیا، ظاہر ہے کہ اس مہینے کے خاتمہ پر جو دن آئے ایمانی وروحانی برکتوں کے لحاظ سے وہی سب سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ اس کو اس امت کے جشن و مسرت کا دن اور تہوار بنایاجائے، چنانچہ اسی دن کو عیدالفطر قرار دیا گیا۔

 اور ۱۰/ ذوالحجہ وہ مبارک تاریخی دن ہے جس میں امت مسلمہ کے مُؤسِّس و مُورِثِ اعلیٰ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنی دانست میں اللہ تعالیٰ کا حکم و اشارہ پا کر اپنے لخت جگر سیدنااسماعیل علیہ السلام کو ان کی رضامندی سے قربانی کے لیے اللہ کے حضور میں پیش کرکے اور ان کے گلے پر چھری رکھ کر اپنی سچی وفاداری اور کامل تسلیم و رضا کا ثبوت دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے عشق و محبت اور قربانی کے اس امتحان میں ان کو کامیاب قرار دے کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو زندہ و سلامت رکھ کر ان کی جگہ ایک جانور کی قربانی قبول فرمالی تھی، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سر پر ”اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا“ (میں تم کو لوگوں کا پیشوا بناؤں گا) کا تاج رکھ دیا تھا، اور ان کی اس ادا کی نقل کو قیامت تک کے لیے “رسمِ عاشقی“ قرار دے دیا تھا، پس اگر کوئی دن کسی عظیم تاریخی واقعہ کی یادگار کی حیثیت سے تہوار قرار دیا جاسکتا ہے تو اس امت مسلمہ کےلیے جو مِلَّتِ ابراہیمی کی وارث اور اُسوۂ خلیلی کی نمائندہ ہے ۱۰/ ذی الحجہ کے دن کے مقابلے میں کوئی دوسرا دن اس کا مستحق نہیں ہوسکتا؛ اس لیے دوسری عید ۱۰/ ذی الحجہ کو قرار دیا گیا۔جس وادی غیر ذِی زَرع(بے آب و گیاہ) میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا یہ واقعہ پیش آیا تھا اُسی وادی میں پورے عالَمِ اسلامی کا حج کا سالانہ اجتماع اور اُس کے مَناسِک قربانی وغیرہ اس واقعہ کی گویا اصل اور اوّل درجے کی یادگار ہے، اور ہراسلامی شہر اور بستی میں عیدالاضحیٰ کی تقریبات نماز اور قربانی وغیرہ بھی اسی کی گویا نقل اور دوم درجہ کی یادگار ہے۔ بہرحال ان دونوں (یکم شوال اور ۱۰/ ذی الحجہ) کی ان خصوصیات کی وجہ سے ان کو یومُ العید اور امت مسلمہ کا تہوار قرار دیاگیا۔“(معارف الحدیث حصہ سوم صفحہ ۲۳۸،۲۳۹)


حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں:

”دنیامیں ہر قوم کے لیے خوشی کا کوئی دن ہوتا ہے ، اللہ عزّ وجلّ نے اس امت کے لیے خوشی کے دو دن مقرر فرکیے ہیں: عیدا لاضحیٰ اور عید الفطر، مگر مسلمانوں کا طریقہ دیگر اَقوام سے مختلف ہے، اسلام نے خوشی کے دنوں میں بھی سب سے پہلا کام عبادت مقرر کیا ہے، دوسری قومیں خوشی کے دنوں میں شور شرابا کرتی ہیں، وہ کوئی عبادت نہیں کرتیں، ہم سب سے پہلے دوگانہ اداکرتے ہیں۔۔۔۔۔پھر چونکہ یہ دونوں دن سُرور و انبساط (خوشی) کے دن ہیں اس لیے دیگر خوشی کے کام بھی جائز ہیں؛ بلکہ ایسے کام جو گونہ مناسب نہیں اُن سے بھی صرفِ نظر کی جاتی ہے۔“ 

(تحفۃ القاری شرح بخاری جلد ۳ ص۲۸۰)


عیدین کا آغاز:


حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

قَدِمَ النَّبِیُّﷺ الْمَدِیْنَۃَ وَلَھُمْ یَوْمَانِ یَلْعَبُوْنَ فِیْھِمَا فَقَالَ: مَاھٰذَانِ الْیَوْمَانِ؟ قَالُوْا: نَلْعَبُ فِیْھِمَا فِی الْجَاھِلِیَّۃِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: قَدْ اَبْدَلَکُمُ اللہُ بِھِمَا خَیْرًا مِنْھُمَا یَوْمَ الْاَضْحیٰ وَیَوْمَ الْفِطْرِ۔  (رواہ ابوداؤد)

ترجمہ: رسول اللہﷺ (مکہ سے ہجرت فرماکر) مدینہ تشریف لائے تو مدینہ والے (جن کی کافی تعداد پہلے ہی سے اسلام قبول کرچکی تھی) دو تہوار منایا کرتے تھے، اور ان میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے، رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا: یہ دو دن جو تم مناتے ہو ان کی کیا حقیقت اور حیثیت ہے؟ (یعنی تمہارے ان تہواروں کی کیا اصلیت اور تاریخ ہے) انھوں نے عرض کیا: ہم زمانۂ جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے، (بس وہی رواج ہے جو اب تک چل رہا ہے) رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمھارے ان دو تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن تمھارے لیے مقرر کردئے ہیں (اب وہی تمھارے قومی اور مذہبی تہوار ہیں )یوم عید الاضحیٰ اور یوم عید الفطر۔


”قوموں کے تہوار در اصل اُن کے عقائد و تصوُّرات اور ان کی تاریخ وروایات کے ترجمان اور ان کے قومی مزاج کے آئینہ دار ہوتے ہیں؛ اس لیے ظاہر ہے کہ اسلام سے پہلے اپنی جاہلیت کے دور میں اہلِ مدینہ جو دو تہوار مناتے تھے وہ جاہلی مزاج تصورات اور جاہلی روایات ہی کے آئینہ دار ہوں گے، رسول اللہﷺ نے؛ بلکہ حدیث کے صریح الفاظ کے مطابق خود اللہ تعالیٰ نے ان قدیمی (پرانے) تہواروں کو ختم کراکے ان کی جگہ عید الفطر اور عیدالاضحیٰ دو تہوار اس امت کے لیے مقرر فرمادئےجو اس کے توحیدی مزاج اور اُصولِ حیات کے عین مطابق اور اس کی تاریخ و روایات اور عقائد و تصورات کے پوری طرح آئینہ دار ہیں۔ کاش! اگر مسلمان اپنے ان تہواروں ہی کو صحیح طور پر اور رسول اللہﷺ کی ہدایت و تعلیم کے مطابق منائیں تو اسلام کی روح اور اس کے پیغام کو سمجھنے سمجھانے کے لیے صرف یہ دو تہوار ہی کافی ہوسکتے ہیں۔“ (معارف الحدیث ۳/۲۳۹،۲۴۰)


(جاری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے