عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت

 

عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت

 عبيد الله شميم قاسمى 

 رب العزت نے زمين وآسمان كو پيدا فرمايا، اسی طرح ليل ونہار كى گردش يہ سب الله رب العزت كى قدرت كاملہ كى نشانيوں ميں سے ہے،  اور سال كے باره مہينے ہوتے ہيں، ان ميں چار مہينے اشهر حرم ہيں، زمانہ جاہليت ميں بھى جب كہ ہر طرف ظلم وزيادتى كا بازار گرم تھا، انسانيت سے عارى قوم تہذيب وتمدن سے بالكل نا آشنا تھى، اچھے خراب اور بھلے برے كى تميز بھى ان كے يہاں نہيں تھى اس وقت بھى وه اشهر حرم كا احترام كرتے تھے اور اس مہينے ميں لوٹ مار اور غارت گرى سے دور رہتے تھے۔

ان مہينوں ميں ذی الحجہ كا مہينہ بھى شامل تھا، اور جب اسلام آيا تو اس مہينے كى حرمت كو باقى ركھا، اس ميں دو عبادتيں ادا كى جاتى ہيں، ايک اسلام كا اہم فرض حج بيت الله كى ادائيگى اور دوسرے قربانى كى ادائيگى،  اس وجہ سے بھى اس مہينے كى فضيلت قرآن كريم ميں اور احاديث شريفہ ميں وارد ہے، خصوصا اس مہينہ كا  پہلا عشره اس كى فضيلت كے سلسلے ميں احاديث وارد ہوئى ہیں۔ 

ماہ ذوالحجہ کا پہلا عشرہ خصوصی فضیلت کا حامل ہے، اللہ رب العزت نے سورہ الفجر میں کئی چیزوں کی قسم اٹھائی جن میں سے ایک ’’فجر‘‘ ہے، حضرت ابن عباس، مجاہد اور عکرمہ فرماتے ہیں: اس فجر سے مراد دس ذوالحجہ کی فجر ہے، دوسری چیز جس کی قسم اٹھائی گئی وہ ’’ولیالٍ عشر‘‘ ہے جس کے بارے میں خود رسول اللہ ﷺ نے ارشاد  فرمایا: ان دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، یہ دس راتیں وہی ہیں جن کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں ذکر ہے’’أتممناها بعشر‘‘ (اعراف:١٤٢)،کیوں کہ یہی دس راتیں سال کے ایام میں افضل ہیں۔

امام قرطبی نے فرمایا کہ مذکورہ حدیث سے ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کا تمام دنوں میں افضل ہونا معلوم ہوا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے بھی یہی دس راتیں ذی الحجہ کی مقرر کی گئی تھیں۔ عشره ذي الحجہ كے سلسلے ميں حضرت ابن عباس رضى الله عنہما كى روايت جو بخارى شريف ميں ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشَرَةِ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: «وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ». رَوَاهُ البُخَارِيّ (٩٦٩).

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’کوئی ایسا دن نہیں جن میں نیک اعمال اللہ جل شانہ کو عشرۂ ذی الحجہ(میں نیک اعمال) سے زیادہ محبوب ہوں، پوچھا گیا کہ یارسول اللہ (ﷺ) کیا اللہ کے راستے میں جہاد سے بھی (ان دنوں کی عبادت افضل ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا کہ (جی ہاں) اللہ کے راستے میں جہاد بھی برابر نہیں ہوسکتا؛ مگر وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جان و مال سمیت نکلے اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹے۔


 عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت کی وجہ:

ان ایام کی خاص فضیلت اس بنیاد پر ہے کہ ان ایام میں انسان وہ عبادتیں انجام دیتا ہے، جنہیں سال بھر کے دوسرے ایام میں انجام نہیں دیا جاسکتا ، ان کی انجام دہی کے لیے اللہ تعالی نے صرف انہیں ایام کو منتخب فرمایا ہے، اور وہ ہیں: حج و قربانی، ان ایام کے علاوہ میں انسان ہر آن عبادتوں و احکام کو بلاتعیین و تقیید وقت کے ادا کرے، جو شریعت سے ثابت ہیں، خواہ فرض ہو یا نفل، تو اس کا اجر وثواب اسے ملے گا، وہ عبادتیں عند اللہ مقبول ہوں گی، جس سے قربت خداوندی اور دارین کی فوز وسعادت حاصل ہوگی، لیکن اگر کوئی انسان چاہے کہ حج کو ماہ ذی قعدہ یا رمضان المبارک میں ادا کرلے تو یہ ادا نہیں ہوگا، کیوں کہ حج کے ارکان مثلا ً عرفات میں جاکر ٹھہرنا، مزدلفہ میں رات گزارنا، جمرات کی رمی کرنا، وغیرہ ماہ ذی الحجہ ہی میں ضروی ہے، دوسری عبادت قربانی ہے، جس کے لیے اللہ نے ذی الحجہ کے تین دن مقرر فرمائے ہیں، الغرض ذی الحجہ کے عشرۂ اولی کی فضیلت و اہمیت بکثرت وارد ہوئی ہے۔

لہٰذا ان مبارک دنوں میں غیر ضروری تعلُقات سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت بہت لگن اور توجہ کے ساتھ کرنی چاہئے اور ہمہ تن اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہنا اور ذکر و فکر، تسبیح وتلاوت، صدقہ، خیرات اور نیک عمل میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرنا اور گناہوں سے بچنا چاہئے اور روزوں کا بھی جہاں تک ہو سکے اہتمام کرنا چاہئے۔


 عشرۂ ذی الحجہ میں ذکر اللہ کی کثرت:

امام طبرانى نے معجم كبير ميں حضرت ابن عباس رضى الله عنکما كى روايت کو نقل فرمايا  ہے:  عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ، وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعَمَلُ فِيهِنَّ مِنْ أَيَّامِ الْعَشْرِ فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ التَّسْبِيحَ، وَالتَّكْبِيرَ، وَالتَّهْلِيلَ» المعجم الكبير للطبراني (٨٢/١١، ١١١١٦).

حضرت عبداللہ ابن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ جل شانہ کے نزدیک عشرۂ ذی  الحجہ کے برابر زیادہ عظمت والے دن کوئی نہیں اور نہ کسی دنوں میں نیک عمل اتنا پسند ہے (جتنا ان دنوں میں) پس تم ان دنوں میں کثرت سے تسبیح (سبحان اللہ)، تکبیر (اللہ اکبر) اور تہلیل (لاالہ الااللہ) کیا کرو۔


 عشرۂ ذی الحجہ میں دن کو روزہ اور رات میں عبادت کی فضیلت:

ان ايام ميں اگر ممكن ہو تو روزے بھى ركھنا چاهيے، روزے كى بہت فضيلت وارد ہوئى ہے جيسا كہ ترمذى وابن ماجہ كى روايت ميں ہے، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الحِجَّةِ، يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ، وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ القَدْرِ. سنن الترمذي (٧٥٨)، وابن ماجه (١٧٢٨).

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جناب رسول اللہ ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کو عشرۂ ذی الحجہ میں عبادت کرنے سے زیادہ محبوب ہو، اس کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے۔ اور اس میں ہر رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے‘‘۔


 یومِ عرفہ ( نو ذی الحجہ) کے روزے کی خاص فضیلت: 

 خاص طور پر نويں ذی الحجہ جس كو يوم عرفہ كہا جاتا ہے، اس دن کے روزے كى بہت بڑى فضيلت ہے، ترمذى شريف كى روايت ہے، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ. سنن الترمذي (٧٤٩).

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ یومِ عرفہ کا روزہ گزشتہ ایک سال اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کے لیے کفارہ بن جائے گا۔‘‘


 حاجی کے لیے وضاحت

اگر حاجی کو اس روزے کی وجہ سے یومِ عرفہ کے قیمتی دن کی عبادات اور دعا مانگنے میں خلل پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، تو ایسی صورت میں حاجی کے لیے یہ روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ (شامی: ٣٧٥/٢).


 عید رات کی فضیلت 

عيدين كى راتوں ميں عبادت كى فضيلت كا ذكر احاديث شريفہ ميں آيا ہے، عيد الفطر كى رات جس كو ليلة الجائزه سے تعبير كيا جاتا ہے، اُس رات  رمضان المبارک كے پورے مہينے كا انعام ديا جاتا کے اور عيد الاضحى كى رات ميں بھى  عبادت كا ثواب ہے، ابن ماجہ كى روايت ہے:  عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ» سنن ابن ماجه (١٧٨٢).

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دونوں عیدوں  کی رات (یعنی چاند رات) کو اللہ تعالیٰ سے ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے عبادت کرے، اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوں گے۔


 قربانی  کرنے والے کے لیے مستحب عمل

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَأَرَادَ بَعْضُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعْرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا"، وَفِي رِوَايَةٍ: "فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا، وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفْرًا"، وَفِي رِوَايَةٍ: "مَنْ رَأَى هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأْخُذْ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ". رَوَاهُ مُسْلِمٌ. [١٩٧٧].

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے اور تم میں سے جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ کرے وہ قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن بالکل نہ کتروائے۔ (مسلم شريف، رقم الحدیث: ١٩٧٧).

 مسئلہ: واضح رہے کہ اگر کسی شخص کو بال صاف کیے اور ناخن کتروائے چالیس دن گزر گئے ہوں تو اس کے لیے بال صاف کرنا اور ناخن کاٹنا واجب ہے، ایسی صورت میں دس ذی الحجہ تک اسی حالت میں رہنا گناہ ہے۔ (شامی)

بخارى  شريف ميں وارد ہے،  حضرت ابن عباس رضى الله عنهما راوى ہيں : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالفَرَاغُ " صحيح البخاري (٦٤١٢).

رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمايا كہ دو نعمتيں ايسى ہيں جس سے بہت سے لوگ دھوكے ميں پڑے ہوئے ہيں،  ايک صحت اور فراغ يعنى فرصت،  اگر الله رب العزت نے صحت دى ہے اور آپ كے پاس فرصت ہے تو الله كا شكر ادا كرنا چاهيے اور بکترين شكر گزارى يہ ہے كہ ان ايام كو جتنا ہوسكے الله كى عبادت كے ساتھ گزارا جائے، الله تعالى ہميں نعمتوں كى قدر كرنے كى توفيق دے اور اپنى مرضيات پر چلائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے