اخوت کا بیاں، محبت کی زباں

 

وفات مولانا عبد الخالق سنبھلی، نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند

ملتِ اسلامیہ ہندیہ کا دینی و اسلامی شجرِ سایہ دار دارالعلوم دیوبند خزاں کا شکار ہے، ایک جانب عالمی وبا نے اسے اپنے فرزندان سے جدا کر دیا ہے، تو دوسری جانب اس کی شاخوں کو قضا کی نظر لگ گئی ہے۔

گذشتہ چند مہینوں کی پت جھڑ نے اس ثمر دار شجر کو جن شاخوں سے محروم کیا ہے، وہ صرف ایک شاخ نہیں، اپنے آپ میں مکمل درخت تھیں۔ 

گذشتہ دنوں میں مولانا نور عالم خلیل امینی، مولانا حبیب الرحمن اعظمی اور قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری ہم سے جدا ہو گئے، جو اس قلعۂ اسلامی کے دست و بازو اور بنیادی پتھر تھے، لیکن شامِ جمعہ (30 جولائی) ادارے کی جس شخصیت نے ہم سے منھ موڑا، وہ میرِ کارواں اور نائب مہتمم تھے، وہ اس سہ رکنی ٹیم کا حصہ تھے، جو گذشتہ ایک دہائی سے سفینۂ دارالعلوم کی ناخدا ہے۔ 

مولانا عبد الخالق سنبھلی ان حضرات میں تھے، جنھوں نے خود کو ادارے کے لیے وقف کر رکھا تھا، 1983 میں آپ دارالعلوم آۓ اور یہیں کے ہو رہے، آپ کی مسلسل خدمات نے آپ کو ترقیات سے نوازا اور جس ادارے میں ایک دن علوم کی تحصیل کے لیے داخل ہوئے تھے بالآخر اسی کے منصبِ اہتمام کی نیابت سے سرفراز ہوئے۔ 

مادر علمی میں داخلے سے قبل ہم نے صرف آپ کا نام سنا تھا، اب تک دیدار کی نوبت نہیں آئی تھی۔ 

جب مادر علمی میں داخلے کے لئے جانا ہوا، تو ظاہر ہے کہ غیر داخل طلبہ کے لیے رہائش و طعام ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ 

ہمارے حق میں بھی ہر دو ضروریات پریشان کن تھیں، رہائش کے متعلق ہمارے ایک کرم فرما کی رشتے داری یا شفقت معاون ثابت ہوئی، لیکن کھانے کا مسئلہ بدستور حل طلب تھا، اور میں اتنے بڑے ادارے میں بالکل نیا اور تنہا تھا، مادر علمی اور اس کے ماحول وغیرہ سے بالکل شناسائی نہ تھی۔ 

اسی دوران ایک ہم وطن سے ملاقات ہوئی، انہوں نے خود ہی ان ضروریات کے متعلق استفسار کیا، ظاہر ہے میرا جواب نفی میں تھا۔ 

انہوں نے کہا کہ آؤ مولانا سنبھلی کے پاس چلتے ہیں، وہ یہ مسئلہ حل کر دیں گے، (حضرت مہتمم صاحب اس وقت اپنے وطن تھے، اور مولانا سنبھلی ان کے قائم مقام مہتمم تھے)

 بہرحال! ہم دونوں دفتر اہتمام گئے، میں تھوڑا خوف زدہ بھی تھا، کیوں کہ حضرت کا صرف نام سنا تھا، دیکھا نہیں تھا، پھر حضرت کا عہدہ ہی مرعوب کرنے کے لیے کافی تھا۔ 

حضرت کے پاس پہنچے، تو احساس ہی نہ ہوا کہ اتنے بڑے ادارے کے مہتمم کے پاس بیٹھے ہیں، اس قدر شفقت و محبت کا مظاہرہ کیا، کہ سارا خوف کافور ہو گیا۔ 

آپ نے انتہائی محبت سے ساری بات سنی اور شفقت و محبت کی انتہا کرتے ہوئے فرمایا: کہ اس وقت ادارے سے طعام کی تو کوئی شکل نہیں ہے، لیکن قیمت کے عوض اساتذہ کا کھانا ادارے کے مطبخ (باورچی خانہ) سے مل جاتا ہے، آپ میرے نام سے قیمت دے کر کھانا لے سکتے ہیں۔ 

میں نے فوراً ہامی بھرلی، حضرت نے اسی وقت ناظمِ مطبخ کو فون کر کے اپنا نام پیش کیا، اور کہا کہ ایک صاحب آپ کے پاس پہنچ رہے ہیں، ان سے قیمت لے کر کھانے کا ٹوکن دے دیں۔ 

اس طرح حضرت کی شفقت کے نتیجے میں ایک بڑا مسئلہ حل ہو گیا، میں ہوٹلوں کے مہنگے اور تباہ کن کھانوں سے بچ گیا، اور نتیجتاً حضرت کی عقیدت و محبت پہلے روز ہی دل میں بیٹھ گئی۔ 

اس کے علاوہ ایک دفعہ اور آپ کی شفقت و محبت سے مستفید ہونے کا موقع ملا، کسی واسطے سے مجھے "لمحة عن الجامعة" کی ضرورت پڑی، یہ مولانا عارف جمیل مبارک پوری، مدیر "الداعی" کا ایک مختصر عربی رسالہ ہے، جس میں ادارے کا تعارف ہے، یہ رسالہ ان عرب مہمانوں کے لیے ہے، جو ادارے کی زیارت کے لئے آتے ہیں، اور چونکہ محدود ضرورت کے لئے ہے، اس لیے بڑی تعداد میں نہیں چھپتا اور مذکورہ مہمانوں کے علاوہ کسی اور کو نہیں دیا جاتا، طلبہ کو تو کسی صورت نہیں۔ 

میں ایک روز موقع دیکھ کر دفتر گیا، اس وقت حضرت کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا، جا کر اپنی ضرورت بتائی، مجھے خوف تھا کہ کہیں انکار نہ کر دیں، لیکن آپ نے بغیر کچھ کہے، الماری سے نکال کر دے دیا، البتہ یہ کہہ کر روانہ کیا کہ آپ کو دے رہا ہوں، کسی اور کو نہیں دیا جاتا، اس لیے حفاظت سے رکھیں۔ 

داخلے کے بعد خاص مواقع کے علاوہ، عام طور پر آپ کو صرف دور سے دیکھنے کا موقع ملتا، عموماً راستوں میں تیز رفتاری کے ساتھ درسگاہ یا دفتر جاتے ہوئے نظر آتے، سر پر ایک انتہائی شفاف سفید رومال ہوتا، جو ہر موسم میں ساتھ رہتا، اپنی ذمے داریوں کے اتنے پابند تھے کہ اکثر آپ کی تیزگامی ہلکی دوڑ سے مماثل ہوتی۔ 

چند سالوں بعد آپ کے درس میں شرکت اور آپ کے تلامذہ میں شمار ہونے کا وقت آیا، یہ عربی ہفتم کا سال تھا، اس سال کی اہم کتاب مشکاۃ المصابیح ہے، جو تین حصوں میں تقسیم کر کے مختلف اوقات میں پڑھائی جاتی ہے، اس کا پہلا حصہ ہماری درسگاہ میں حضرت قاری سید محمد عثمان صاحب، دوسرا حضرت مولانا محمد افضل صاحب اور تیسرا حضرت مولانا سنبھلی پڑھاتے تھے۔

آپ کا حصہ کتاب اللباس سے ختم کتاب تک تھا، صبح کے تیسرے گھنٹے میں تیزرفتاری سے آتے، اور پہلے ہی جملے میں کوئی لطیف جملہ یا لطیفہ سنا کر پہلے کے دو گھنٹوں کی تھکن ہوا کر دیتے۔ 

آپ کی نیابتِ اہتمام کے علاوہ اگر کوئی چیز ادارے میں سب سے زیادہ مشہور تھی، تو وہ آپ کے سدا بہار چٹکلے و لطیفے تھے، اور چٹکلے بھی ایسے جو کبھی کسی اور سے سنے نہ گئے، یعنی خانہ ساز اور طبع زاد... ل

الفاظ کی کاٹ چھانٹ کر کے اس سے عجیب اور مناسبِ حال معانی اخذ کرنے کا ہنر بھی آپ میں قابلِ دید تھا، جیسے کبھی کسی غیر مستند مفتی کا ذکر آتا، تو کہتے کہ مفتی کی دو قسمیں ہیں: 

ایک مفتی من المفت، یعنی مفت کا مفتی۔ 

دوسرے مفتی من الافتاء۔ 

اسی طرح کوئی طالب علم گھنٹوں میں غیر حاضری کرتا تو اس کی فہمائش کرتے ہوئے کہتے... کہ کمرہ میں کم رہا کریں، درسگاہ میں زیادہ رہیں، کیوں کمرہ در اصل "کم"  اور "رہ" سے بنا ہے، جو کہ خود کہہ رہا ہے کہ مجھ میں کم رہو۔ 

آپ انتہا کے خوش اخلاق اور نرم مزاج تھے، آپ کو شدید غصے میں بھی کسی کو ڈانٹتے نہیں دیکھا گیا، اسی لیے آپ کی نرمی کا سبھی فائدہ اٹھاتے تھے، کوئی جائز تو کوئی نا جائز... 

جیسے اکثر لوگ دو چار صفحات لکھ دیتے، یا کسی گھسے پٹے موضوع پہ نقل در نقل کر کے کوئی رسالہ یا مختصر سی کتاب تیار کر دیتے، اور آپ سے تقریظ لکھوا لیتے، اولاً تو آپ سے کسے کو انکار کرتے نہ بنتا، اور انکار کرتے بھی تو سامنے والے کا مزید اصرار سن کر تیار ہو جاتے، اسی لیے قاسمی حلقے میں سب سے زیادہ بے قدری کسی کی تقاریظ کی ہوئی ہے، تو وہ آپ ہیں۔ 

اسی طرح آپ کے انتظام کے تحت جس طرح ادارے کے مختلف شعبے تھے، انہیں میں ایک اہم شعبہ مطبخ و طعام کا تھا، مطبخ کا مکمل حلقہ مقامی حضرات پر مشتمل ہے، وہ بھی ان حضرات پر، جن میں جہالت اور مفاد پرستی کا عنصر نمایاں ہے۔

اس حلقے نے آپ کی نرمی کا خوب استحصال کیا، اور ہر ناحیے اور زاویے سے فائدہ اٹھایا، البتہ آپ نے اس کے خلاف مختلف مفید اور قابلِ عمل تبدیلیاں اور کوششیں بھی کیں، لیکن مکمل شفافیت اور بہتری کے لیے مکمل نظام یا افرادِ کار کی تبدیلی ضروری تھی۔ 

آپ کی نرمی کا فائدہ اٹھانے والوں میں طلبہ بھی پیش پیش رہے، چونکہ آپ نائب مہتمم تھے، اور تعطیل سے لے کر اجراء طعام وغیرہ کے مختلف اختیارات آپ کے پاس تھے، اس لیے طلبہ ان اختیارات سے موقع بے موقع بہ خوبی استفادہ کرنے کی کوشش کرتے، لیکن بعد میں اس کا سد باب ہو گیا تھا۔ 

اسی طرح درسگاہ میں بھی آپ یوں ہی نرم تھے، اور ہم جیسے لاپرواہ طلبہ نے اس نرمی کو خوب وصول کیا، جب جس کا جی چاہا، درسگاہ سے رخصت ہوگیا اور جب جی چاہا، آ کر شریک ہوگیا، بعض طلبہ آپس میں گفتگو بھی کرنے لگتے، لیکن آپ اس درجے نرم تھے، کہ ان کو دیکھ کر ڈانٹنا یا کچھ کہنا تو کجا، الٹے ان کی غلط حرکتوں کی تاویل کرتے، جیسے کسی کو بات کرتے دیکھتے تو کہتے کہ درس کے متعلق کچھ پوچھنا ہے تو مجھ سے پوچھ لیجیے، اپنے ساتھی سے مت پوچھیے۔

آپ مشکات شریف کے علاوہ دورۂ حدیث کے سال ابن ماجہ شریف اور ششم کے سال متنبی شریف پڑھاتے تھے، اسی لیے آپ کے اندر علم حدیث کے ساتھ ادبیت بھی سرایت کرگئی تھی، آپ کا ہر جملہ اور لفظ پاکیزہ ادبی ذوق کا ترجمان ہوتا تھا، اکثر عربی اور اردو اشعار بھی سناتے تھے، جو موقع محل کے مناسب ہوتے۔ 

اردو کے ساتھ عربی زبان میں بھی قدرت و روانی تھی، شائستگی و سلاست کے ساتھ بولتے جاتے، ویسے تو عربی تقریر و گفتگو کی نوبت تبھی آتی، جب مخاطب عربی ہو، لیکن "النادی الادبی" کی انجمنوں میں آپ کی عربی تقاریر سننے کا موقع ملتا اور کبھی طلبہ درسگاہ میں فرمائش کر دیتے کہ آج سبق عربی میں پڑھائیں، تو اس دن کے ساتھ اگلے دو تین روز کا سبق عربی میں ہوتا، یہ ایک طرح سے آپ کی شفقت بھی تھی اور عربی کے ساتھ محبت بھی... 

آپ کے لطیفوں کا ایک بڑا حصہ مودودیت اور مودودی نوازوں پر مشتمل تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ مودودیت کے متخصص اور ماہر تھے، ادارے میں محاضرات کے نظام کے تحت مودودیت پر محاضرات آپ ہی کے پیش ہوتے تھے، وہ محاضرات کتابی شکل میں بھی طبع ہوۓ، جو آپ کے قلم کا نتیجہ ہیں۔ 

محاضرات کے علاوہ عبد المجید الزندانی الیمنی کی "کتاب التوحید" کا اردو ترجمہ اور فتاویٰ عالمگیری کے جزء 15, کتاب الایمان کا اردو ترجمہ آپ کا قلمی کارنامہ ہے۔ 

بہرحال..! آپ تقریباً 40 سال دارالعلوم کا حصہ رہے، اس کے در و دیوار، بلکہ ایک ایک اینٹ آپ کے جلوؤں اور عظمتوں کی گواہ ہیں، نائب مہتمم ہونے کے ناتے آپ ادارے کے ناخدا تھے اور انتہائی خوش اخلاق اور نرم خو ہونے کی بنا پر ہر دلعزیز اور محبوب... 

آپ جیسا بے ضرر انسان کبھی دیکھنے کو نہ ملا، ہر چھوٹے بڑے کے حق میں ایک دوست اور بھائی تھے، کسی بھی درجے آپ کو اپنے عہدے کا زعم نہ تھا، کوئی بھی کسی بھی کام کے لیے آ جاتا، آپ اس کی مدد کو تیار ملتے، اسی لیے آپ کا دروازہ طلبہ و ضرورت مندوں کی پناہ گاہ بن گیا تھا۔ 

آپ کی فرقت و جدائی سے دارالعلوم اور فرزندانِ دارالعلوم نے صرف ایک استاد یا مہتمم نہیں کھویا، بلکہ ایک مخلص دوست اور شفیق بھائی بھی کھویا ہے۔ 

آپ کی وفات گذشتہ وفیات کا تسلسل ہے، اور ہجومِ غم نے ہمیں بے حس بنا دیا ہے، عام حالات میں جس طرح ایک شخص کی جدائی پر غموں کا سلسلہ بندھ جاتا تھا، اب جدائیوں کے تسلسل نے غم کو بے وقعت کر دیا ہے، اظہارِ درد ایک بے معنی شے ہو گئی ہے...

ایک ایک کرکے لوگ بچھڑتے چلے گئے

یہ کیا ہوا کہ وقفۂ ماتم نہیں ملا


ابن مالک ایوبی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے