ضرب الخاتَم علی حدوث العالَم

 

علامہ کشمیری کی کتاب "ضرب الخاتَم علی حدوث العالَم" پر جامع و مختصر تبصرہ

علوم اسلامیہ میں علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری کا نام ایک خورشیدِ جہاں تاب کی مانند ہے، آفاقِ علم میں جن چند نفوس کو علم و معرفت کی شہنشاہی حاصل ہے، انہیں میں ایک معروف نام علامہ کشمیری ہے۔ 

یوں تو امام کشمیری کو بیک وقت کئی علوم میں مہارت و تفوق حاصل تھا، علوم قرآنیہ، معرفتِ احادیث، تاریخ و رجال اور فقہ و کلام ہر ایک کے شناور تھے۔

لیکن جس علم نے ان کو امتیاز اور ناموری بخشی وہ علم حدیث ہے، حدیث کے متعلق جملہ علوم، اصول حدیث، سلسلۂ اسناد، معرفتِ رجال و رواۃ، فہمِ متن، تطبیق بین المتناقضین، استنباطِ معانی، استدلالِ مذہب اور یکجاۓ اقوال، یعنی جتنی چیزیں ہو سکتی تھی، سب کے جامع تھے، اور آج تک دنیا اسی علم کے حوالے سے آپ کو سب سے زیادہ جانتی ہے۔

حالانکہ آپ علم حدیث اور اس کے اصول و فروع کے علاوہ دیگر کئی علوم کے ماہر تھے اور ان میں بھی مجتہدانہ شان رکھتے تھے۔ 

انہیں علوم میں علمِ کلام و عقائد میں آپ کو غیر معمولی بصیرت حاصل تھی، عقائد و کلام کے تعلق سے وارد ہونے والی احادیث پر آپ کی بے نظیر تشریحات، علم کلام پر آپ کی بے مثال مہارت کی واضح علامت ہے، اور صرف تشریح و تفہیم نہیں، اس میں اقوال کو جمع کر کے ان کا محاکمہ کرنا، جو ایک اجتہادی وصف اور انتہائی بلند فکری کی بات ہے۔

علم کلام کے ساتھ شعر گوئی اور تنظیمِ الفاظ بھی آپ کی جامع شخصیت کا حصہ ہے، آپ علومِ عربیت میں اس انتہا پر تھے، کہ عربی میں فی البدیہ شعر گوئی آپ کے لیے عام بات ہوگئی تھی، لیکن اپنی اس صلاحیت کا استعمال عام شاعروں کی طرح گل و بلبل کے تذکروں میں نہیں کیا، بلکہ اسے بھی خدمتِ دین کے لئے استعمال کیا۔

اِنہیں دو صلاحیتوں کا اعلیٰ ترین مظہر ہے آپ کا رسالہ "ضرب الخاتم علی حدوث العالم"...

یہ رسالہ عربی میں ہے، جس میں چار سو اشعار ہیں، رسالے کا موضوع وجودِ باری تعالیٰ کا اثبات ہے، خدا کے وجود، اس کے علمِ محیط اور قدرتِ قاہرہ پر اسلامی عقیدہ بیان کر کے، ان امور پر دلائل دیئے گئے ہیں۔

علامہ محمد یوسف بنوری کے بقول: امام کشمیری فرماتے ہیں، کہ اثبات باری تعالیٰ پر میں نے اسلاف سے لے کر متاخرین علماء تک تقریباً تمام کتابیں چھان ماریں، ایک ایک کتاب تلاش کر کے بہت غور و فکر کے ساتھ انہیں پڑھا، لیکن اس موضوع پر مکمل تشفی کسی کتاب سے نہ مل سکی، اخیر میں علامہ جلال الدین محقق دوّانی کی کتاب "زوراء" ہاتھ لگی، بہت شوق کے ساتھ اسے پڑھنا شروع کیا، لیکن افسوس کی بات کہ اس میں بھی سیر حاصل گفتگو نہ تھی۔

آخر کار میں نے ارادہ کیا کہ خود اس موضوع پر لکھوں۔ (نفحة العنبر فی حیاۃ إمام العصر الشيخ أنور، صفحہ 125) 

 لیکن کتاب کے نام سے ایسا لگتا ہے کہ یہ کتاب وجودِ باری پر نہیں، حدوثِ عالم پر ہے، تو اس کی وجہ امام کشمیری خود بیان کرتے ہیں: کہ مجھے اس رسالے کا نام "اثبات الباری" رکھنا چاہیے تھا، لیکن اس لفظ میں ایک طرح کی توہین و بے ادبی تھی، اس لیے اس کے نتیجے (اثبات باری کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ باری تعالیٰ کے اثبات کے ساتھ، باری تعالیٰ کے علاوہ دیگر اشیاء حادث ٹھہریں گی) سے کتاب کو موسوم کر دیا۔ (نفحة العنبر: 125)

چنانچہ علامہ ان اشعار کے ساتھ رسالہ شروع کرتے ہیں: 

تعالى الله كان و لم يك ما سوى --- و أول ما جل العماء بمصطفى 

مسبب أسباب و مالك ملكه  --- فمن آخذ مهوى و من آخذ هدى 

امام کشمیری کا یہ رسالہ عجیب و غریب دلائل اور مستدلات پر مشتمل ہے، جس میں وجودِ باری تعالیٰ اور کائنات کے فانی ہونے پر قدیم دلائل و نظریات کے ساتھ، اس وقت تک کے جدید نظریات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال مرحوم نے انتہائی دلچسپی کے ساتھ یہ رسالہ خود امام صاحب سے حاصل کیا تھا، اور اس رسالے کے ایک ایک شعر کو خود حل کیا تھا، جو اشعار سمجھ میں نہیں آتے تھے، امام صاحب کو خط لکھ کر پوچھتے تھے۔ 

مثال کے طور پر امام کشمیری رسالے کے صفحہ نمبر 5 پر فرماتے ہیں: 

قد قیل إن المعجزات تقدم --- بما یرتقی الخلیقة في مدى 

ترجمہ: انبیاء کے معجزات پیش آ چکے ہیں، تبھی مخلوق خلاؤں میں پہنچ سکی۔ 

"مدی" وسعت اور انتہاء کے معنی میں بھی آتا ہے، یہاں اسی سے خلا مراد ہے۔ 

شعر کا واضح مفہوم یہ ہے کہ نبیوں کے ذریعے جو معجزے صادر ہوتے ہیں، ان کی امت انہیں معجزات کے دائروں میں ترقی حاصل کرتی ہے، یعنی اس محور میں کسبی کوششوں، انسانی انسانی مساعی اور ان سے حاصل ہونے والے نتیجوں کے لیے معجزات ایک طرح سے راہنما ہوتے ہیں۔

اسی شعر کے ظاہری معنی سے علامہ اقبال مرحوم نے استفادہ کر کے یہ شعر کہا تھا: 

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے 

کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں

(بالِ جبرئیل) 

آپ دونوں اشعار کے مفاہیم دیکھ کر اندازہ کر سکتے ہیں کہ کس قدر یکسانیت ہے۔ 

اسی لیے امام کشمیری ایک دفعہ کہتے ہیں: کہ مجھ سے علامہ اقبال نے جس قدر استفادہ کیا، اتنا شاید کسی عالم نے بھی نہیں کیا۔ (ملفوظات کشمیری:301)

بہرحال..! اس ایک شعر سے، علامہ اقبال کے استفادے کے ساتھ، یہ بھی بتانا مقصود تھا، کہ عام کتبِ عقائد سے ہٹ کے، اس میں صرف اسلوب یا انداز تبدیل نہیں ہے، یا فقط یہ خصوصیت نہیں کہ عام کتب نثر میں ہوتی ہیں اور یہ نظم میں ہے۔ 

بلکہ دیگر خصوصیات کے ساتھ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں قدیم دلائل و نظریات کے ساتھ، جدید افکار کو بھی شامل کیا گیا ہے، اور انتہائی دقت نظری اور لطافت سے فقط 400 اشعار میں ایک "دریا بہ کوزہ" دنیا کو پیش کر دیا گیا ہے۔ 

جیسا کہ خود امام صاحب فرماتے ہیں: ذکرت فی ھذہ المنظومة روح ما عندھم في الإلهيات و الطبعيات القديمة و الجديدة. (نفحة العنبر: 125) 

اخیر میں ان الفاظ کے ساتھ امام صاحب رسالہ ختم کرتے ہیں: 

فخذ فی حدوث العالم البحث موعباً --- و ھاک نکات لم تلفھا فھا

لہذا حدوث عالم کے مسئلے میں اس بحث کو مکمل ذہن نشین کرلیں، اور ان نکات کو حاصل کرلیں، جو اب تک پوشیدہ تھیں۔ 

و توھیۃ الأسباب و المادۃ التی --- یغالط فیھا الناس بادئ ما بدا 

اور اسباب و مادے کو کمزور و فانی قرار دینے والے دلائل ازبر کرلیں، جس میں ظاہری نظریں فریب کا شکار ہیں۔ 

فصوّرت فی الأبیات تمثال فکرتی --- و ذکرت معنیاً بأمثالھا الحمی 

ان ابیات میں، میں نے اپنے افکار کی تصویر کشی کی ہے، اور مثالوں کے اہتمام کے ساتھ بحث ذکر کی ہے۔ 

أنا الأحقر المدعو انور شاہ من --- مضافات کشمیر جزی الله من جزى

میں انور شاہ سے موسوم، کشمیر سے تعلق رکھتا ہوں، اللہ جزا سے نوازے۔

ابن مالک ایوبی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے