بیٹیوں کے باپ: محمد ﷺ

سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم


ذکی الرحمٰن غازی مدنی

جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ


اللہ کے رسولﷺ کی چوتھی بیٹی حضرت فاطمہؓ الزہراء ہیں جن کے بارے میں ام المومنین حضرت عائشہؓ کا تبصرہ ہے کہ ’’میں نے فاطمہ ؓسے افضل کسی کو نہ پایا، البتہ فاطمہؓ کے والدﷺ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ‘‘ (معجم اوسط، طبرانیؒ: ۱۳۷۔ مسندابویعلیؒ: ۱۵۳) 


پھر انہی کے بارے میں زبانِ رسالتﷺ سے صادر ہوا ہے کہ: ’’فاطمہؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ ‘‘ [فاطمۃ سیدۃ نساء أھل الجنۃ] (صحیح بخاریؒ، باب مناقب فاطمہؓ: ۵۹۲۸۔ صحیح مسلمؒ: ۶۴۶۷) 


اور یہ کہ: ’’فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، لہٰذا جس نے انھیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ ‘‘ [فاطمۃ بضعۃ منی فمن أغضبھا فقد أغضبنی] (صحیح بخاریؒ: ۳۵۱۰۔ صحیح مسلمؒ: ۶۴۶۱) 


 حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: جب فاطمہؓ اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں تو آپﷺ اٹھ کر استقبال کرتے تھے، بوسہ لیتے تھے اور اپنے پاس بٹھاتے تھے، اور اگر اللہ کے رسولﷺ اُن کے پاس تشریف لے جاتے تو فاطمہؓ کھڑی ہوکر خیر مقدم کرتیں، پیشانی چومتیں اور اپنے قریب بیٹھنے کو کہتی تھیں۔ (سنن ترمذیؒ: ۲۳۷۶۔ سنن ابو داؤدؒ: ۱۴۲۳) 


حضرت عائشہؓ ہی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہؓ گھر تشریف لائیں تو ان کے چلنے کا انداز بالکل ان کے والدﷺ جیسا تھا۔ اللہ کے رسولﷺنے انھیں دیکھ کرخیر مقدم کیا اور اپنی داہنی طرف بٹھایا اور پھر کان میں کچھ سرگوشی کی جسے سن کر فاطمہؓ روپڑیں۔ آپﷺ نے دوبارہ ان کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر وہ ہنسنے لگیں۔ میں (حضرت عائشہؓ) نے دل میں کہا کہ آج تک اتنی جلدی غمگین ہونے اور پھر خوش ہوجانے کا معاملہ نہیں دیکھا۔ بعد ازاں میں نے حضرت فاطمہؓ سے ان سرگوشیوں کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ میں اللہ کے رسولﷺ کا راز افشاں نہیں کرسکتی۔


 جب اللہ کے رسولﷺ کی وفات ہوگئی تو میں نے دوبارہ اس بارے میں حضرت فاطمہ ؓسے پوچھا تب انھوں نے کہا: آپﷺ نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’حضرت جبریلؑ ہر سال میرے ساتھ ایک بار قرآن کا دور کرتے تھے لیکن انھوں نے اس سال دوبار ایساکیا ہے، جس سے مجھے لگتا ہے کہ میری وفات کا وقت قریب ہے۔ تم میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے مجھ سے آملوگی اور میں تمہارے لیے بہترین سلف بن کر تمہارا منتظر رہوں گا۔ ‘‘ میں یہ سن کر روپڑی تھی۔ پھر آپﷺ نے مجھ سے کہا کہ کیاتم راضی نہیں ہو کہ تم تمام جہانوں میں عورتوں کی سردار بن جائو؟ میں یہ سن کر ہنس پڑی تھی۔ (صحیح بخاریؒ: ۵۹۲۸۔ صحیح مسلمؒ: ۶۴۶۷) 


 حضرت فاطمہؓ کی ولادت خاص اس دن ہوئی، جس دن آپﷺ نے تعمیرِ کعبہ کے مسئلہ میں تحکیم وثالثی فرمائی تھی۔ دراصل قریش آپﷺ کی نبوت سے پہلے خانۂ کعبہ کی ازسرِ نو تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب تعمیر اس مرحلہ میں پہونچی کہ دیوارِ کعبہ میں حجرِ اسود نصب کردیا جائے، تو قریشی خاندانوں میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ قریب تھا کہ یہ اختلاف ایک ہمہ گیر خانگی جنگ کا پیش خیمہ بن جائے، لیکن ایک بزرگ کے مشورہ سے سب نے اتفاق کر لیا کہ جو سب سے پہلے مسجد میں داخل ہوگا اس کا فیصلہ مان لیا جائے گا۔


 بارے نصیب کہ سب سے پہلے آپﷺ تشریف لائے۔ آپﷺ کو دیکھتے ہی سارا مجمع بول اٹھا کہ یہ ’’الامین‘‘ ہیں ہم ان کے فیصل بننے سے راضی ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے اس قضیے کا نپٹارا اس طور سے کیا کہ ایک دراز چادر بچھا ئی اور اس میں حجرِ اسود رکھ دیا اور ہر خاندان کے ایک نمائندے کو اس چادر کاکنارہ پکڑ لینے کو کہا۔ جب سب نے چادر کے کناروں کو پکڑ کر حجرِ اسود کو مطلوبہ جگہ تک بلند کر دیا تو آپﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے حجرِ اسود کو اٹھا کر اس کی جگہ نصب فرما دیا۔ اس طرح آپﷺ کی فراست اور دانش مندی سے ایک بڑافتنہ پیدا ہونے سے رک گیا۔ 


 ماہ وسال اسی طرح گزرتے رہے اور محمدؐ زندگی کی چالیسویں دہلیز پار کر گئے۔ اب غیب کا اشارہ ہوا کہ اللہ کا نور اور اس کی وحی محمدؐ کے قلب پر نازل کی جائے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ابتدائے دعوت میں قریبی رشتہ داروں اور عزیز دوستوں کو اسلام کی طرف مخفی دعوت دینا شروع کر دی اوراسی حالت میں تین سال گزر گئے۔


 اس کے بعد اسلام کی دعوت کو ظاہر کرنے کا حکم نازل ہو گیا۔ آپﷺ نے جہری دعوت کا آغاز کرتے ہوئے ایک مختصر سی کھانے کی نشست کا پروگرام رکھا۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد آپﷺ نے جملہ اقارب واعزہ کے سامنے اپنے رب کا پیغام کھول کھول کر بیان کیا۔ آپﷺ اپنے خاندان میں سے ایک ایک کا نام لے کر پکارتے اور فرماتے تھے: اے بنو عبدِ مناف میں اللہ کے مقابلے میں تمہاری کوئی مدد نہ کر سکوں گا۔ اے چچا عباسؓ بن عبدالمطلب، اے پھوپھی صفیہؓ بنت عبد المطلب، اے فاطمہؓ بنتِ محمدؐ میں تم میں سے کسی کو بھی اللہ کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہ پہونچا سکوں گا۔ ‘‘ (السیرۃ النبویۃ، ابن ہشامؒ: ۲/۲۴۷) 


 حضرت فاطمہؓ نے اپنے بچپن میں قریش کی ظالمانہ حرکتوں اور تکلیف دہ اذیتوں کو بیحد انگیز کیا ہے۔ مسلمانوں کے اجتماعی مقاطعہ اور سوشل بائیکاٹ کے بعد جب سارے مسلمان ’’شعبِ ابو طالب‘‘ میں محصور ہوگئے تھے تب بھی حضرت فاطمہؓ آپﷺ کے ساتھ ہی تھیں۔


 انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ کعبہ کے سائے میں مشرکین وکفار چیخ چیخ کر آپﷺ سے مجادلہ کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ: "کیا تو ہی ہے جو ہمارے معبودوں کے بارے میں ایسا ایسا کہتا ہے؟ اور اللہ کے رسولﷺ پیکرِ صبر وعزیمت بنے کہتے ہیں کہ ہاں میں ہی ہوں جو ایسا ایسا کہتا ہے۔ ‘‘ (سنن ترمذیؒ: ۳۳۴۹)


 حضرت فاطمہؓ نے وہ وقت بھی دیکھا تھا جب کسی شقی القلب بد بخت نے آپﷺ کی چادر کوگردن میں بل دے کر گلا گھونٹنا چاہا تھا اور خوں آشام درندوں کے غول کی طرح قریشی سردار اس کی ہمت بڑھا رہے تھے۔ اسی اثناء میں حضرت ابوبکرؓ آتے ہیں اور انھیں اللہ کے رسولﷺ سے دور ہٹاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ کیا تم کسی کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب بتاتا ہے۔ ‘‘ (صحیح السیرۃ النبویۃ، ابراہیم علی: ص۹۶) 


 حضرت فاطمہؓ ان سب واقعات کی عینی شاہد تھیں۔ یہ واقعات ان کے معصوم دل پر کیا ستم ڈھاتے رہے ہوں گے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ ان واقعات کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر روتی تھیں اور اللہ کے رسولﷺ ان کو دلاسا دیتے تھے۔ 


آپ نے وہ دن بھی دیکھا تھا جب عقبہ بن ابی معیط نامی ایک شیطان نے مردار اونٹ کی اوجھڑی لاکر عین سجدے کی حالت میں آپﷺ کے اوپر ڈال دی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر کم عمر بیٹی سے رہا نہ گیا اور وہ کچھ پرواہ نہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور اپنے ہاتھوں سے اونٹ کی یہ اوجھڑی کمرِ مبارک سے ہٹا دی۔ اُن کی زبان سے ان شیطانوں کے لیے بددعائیں نکل رہی تھیں، تبھی اللہ کے رسولﷺ نے چہرۂ انور اٹھا کربددعا دی اور فرمایا: اے اللہ تیرے حوالے کیا قریش کے سرداروں کو، ابوجہل، عتبہ، شیبہ، عقبہ بن ابی معیط، ولید بن عتبہ اور امیہ بن خلف کو۔ ‘‘ (صحیح بخاریؒ: ۵۲۰۔ صحیح مسلمؒ: ۱۷۹۴) 


 حضرت فاطمہؓ کی عمر اٹھارہ سال ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ نے خدمتِ رسالت میں حاضر ہوکر پیغام نکاح دیا جس پر فرمایا گیا کہ ابھی فاطمہؓ کی تقدیر کا انتظار باقی ہے۔ ‘‘ اس کے بعد حضرت عمرؓ آئے اور یہی مدعا رکھا جس پر یہی جواب دیا گیا۔


 اس کے بعد حضرت علیؓ شرماتے ہوئے پیغامِ نکاح دینے تشریف لائے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب میں اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو بولنے کی ہمت نہیں ہوسکی۔ مجھے چپ دیکھ کر اللہ کے رسولﷺ نے خود ہی پوچھا کہ کیوں آئے ہو؟ کیا کوئی ضرورت ہے؟ میں پھر بھی خاموش رہا تو آپﷺ نے فرمایا: شاید تم فاطمہؓ کا رشتہ لائے ہو؟ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ بس پھر اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے حضرت فاطمہؓ کی شادی حضرت علیؓ سے کردی۔ 


 جس رات حضرت فاطمہؓ کی شادی حضرت علیؓ سے ہوئی اللہ کے رسولﷺ نے پانی مانگ کر وضو فرمایا اور استعمال شدہ پانی کو حضرت فاطمہؓ کے اوپر انڈیل دیا اور فرمایا: ’’اے اللہ !ان دونوں میں برکت دے اور ان دونوں پر برکت رکھ اور ان دونوں کی ذریت میں بھی برکت فرما۔ ‘‘ [اللھم بارک فیھما وبارک علیھما وبارک لھما فی نسلھما] (طبقات ابن سعدؒ: ۵/۱۴۲-۱۴۵)


 حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ ایک بار میں نے اللہ کے رسولﷺ سے پوچھاکہ آپﷺ کو زیادہ محبوب کون ہے، میں یا فاطمہؓ؟ آپﷺ نے فرمایا: فاطمہؓ مجھے تم سے زیادہ محبوب ہے اور تم مجھے فاطمہؓ سے زیادہ عزیز ہو۔ ‘‘ (معجم اوسط، طبرانیؒ: ۷۶۷۵) 


 حضرت فاطمہؓ سے آپﷺ کا تعلقِ خاطر اور پدرانہ شفقت اس واقعہ سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جب آپﷺ کو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دشمن ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے تو آپ ﷺمسجدِ نبوی تشریف لائے اور غضب کی حالت میں منبر پر کھڑے ہو گئے۔ آپﷺ نے صحابہؓ کرام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہشام بن مغیرہ کے خانوادے نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علیؓ بن ابی طالب سے کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سن لیں کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا ہوں، نہیں دیتا ہوں، نہیں دیتا ہوں، مگر اس صورت میں کہ ابو طالب کا بیٹا پہلے میری بیٹی کو طلاق دے، پھراُن کی بیٹی کو بیاہے۔ میری بیٹی میرے دل کا ٹکڑا ہے جو چیز اسے اندیشوں میں ڈال دے وہ مجھے بھی ڈالتی ہے اور جو چیز اس کو اذیت دے وہ مجھ کو بھی دیتی ہے، مجھے ڈر ہے کہ یہ شادی اس کے لیے دین کا فتنہ بن جائے گی۔ ‘‘ 


 اس موقع پر آپﷺ نے اپنے بڑے داماد حضرت ابو العاصؓ بن الربیع کا ذکرِ خیر کیا اور تعریف فرمائی نیز کہاکہ ’’وہ میراایساداماد تھا کہ جب جب مجھ سے کچھ کہا توسچ کہا، جب وعدہ کیا تو پورا کیا۔ یقینا میں یہاں کسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام نہیں کررہا ہوں، لیکن ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولﷺ کی بیٹی اور دشمنِ خدا کی بیٹی کو ایک گھر میں جمع کر دے۔ ‘‘ (صحیح بخاریؒ: ۵۳۸/۲۹۔ صحیح مسلمؒ: ۴۴/۱۴۔ سنن ابوداؤدؒ: کتاب۱۲۔ سنن ترمذیؒ: کتاب ۴۶۔ سنن ابنِ ماجہؒ: ۹/۵۶۔ مسند احمدؒ: ۴/۳۲۶-۳۲۸) 


 سنن ترمذیؒ کی روایت میں منقول ہے کہ حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ اللہ کے رسولﷺ کو سب سے زیادہ محبت کس سے تھی؟ انھوں نے کہا: حضرت فاطمہؓ سے۔ سائل نے پھر کہا کہ مردوں میں کس سے تھی؟ انھوں نے جواب دیا کہ فاطمہؓ کے شوہر حضرت علیؓ سے کہ وہ میرے علم کی حد تک روزے دار اور عبادت گذار آدمی تھے۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہؒ: ۱۲۷۴۸) 


 حضرت فاطمہؓ کے بطن سے دوبیٹے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ اور دو بیٹیاں زینبؓ اور امِ کلثومؓ تولد پذیر ہوئے تھے۔ اللہ کے رسولؓ کو چاروں بچوں سے بڑی محبت تھی جو ان کے ساتھ آپﷺ کے تعامل سے ہویدا ہے۔ تاہم آپﷺ کو خصوصی محبت حسنؓ اور حسینؓ سے تھی۔ آپﷺ اکثر ان کو گود میں لے کر فرماتے تھے: ’’اے اللہ !میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان کو اپنا محبوب بنا لے۔ ‘‘ (سنن ترمذیؒ فی المناقب: ۳۷۶۹)


 ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں: ’’اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی انہیں اپنا محبوب بنالے اورجو ان سے نفرت وبغض رکھے انھیں مبغوض بنالے۔ ‘‘ (معجم کبیر، طبرانیؒ: ۲۶۴۶) 


سنن ابن ماجہؒ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جو انسان بھی حسنؓ اور حسینؓ سے محبت رکھتا ہے وہ مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو ان دونوں سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے۔ ‘‘ [من احب الحسن الحسین فقد احبنی ومن ابغضھما فقد ابغضنی] (سنن ابن ماجہؒ: ۱۴۳مع تحسینِ البانیؒ) 


 روایات میں آتا ہے کہ ایک روز اللہ کے رسولﷺ تشریف لائے اور آپﷺ کے ساتھ حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ بھی تھے۔ ہر ایک نے دوسرے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ آپﷺ نے حضرت علیؓ وفاطمہؓ کو قریب کر لیا اور حسنؓ وحسینؓ کو اپنی گود میں بٹھالیا۔ پھر ان دونوں کو اپنی چادر میں ڈھانپ لیا اور آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: {إِنَّمَا یُرِیْدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرا} (احزاب، ۳۳) ’’اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیتِ نبیؐ سے گندگی کو دور کر ے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے۔ ‘‘ پھر فرمایا: اے اللہ یہ میرے اہلِ بیت واہلِ نسبت ہیں، تو ان سے گندگی کو دور کردے۔ ‘‘ (صحیح مسلمؒ: ۶۴۱۴۔ سنن ترمذیؒ: ۳۲۰۵) 


 ایک اورموقع پر آپﷺ کی پدرانہ محبت وشفقت کی عکاسی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ آپﷺ اپنے ایک نواسے کوشانوں پر بٹھائے مسجد تشریف لائے اور اسی طرح نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ نماز کے دوران سجدے میں آپﷺ انھیں آہستہ سے اپنے برابر میں رکھ دیتے تھے۔ اس طرح سے آپﷺ نے لوگوں کی امامت کی تو صحابہؓ کرام کو اس پر تعجب ہوا کہ دورانِ نماز آپﷺ نے سجدے بڑے طویل فرمائے۔ نماز پوری کرنے کے بعد لوگوں نے اس بارے میں پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! ہمیں لگتا ہے کہ یا تو آپﷺ کو کچھ ہوگیا ہے یا سجدے لمبے کرنے کے بارے میں کوئی وحی آپﷺ پر نازل ہوئی ہے۔ اللہ کے رسولﷺنے سن کر فرمایا: ایسا کچھ نہیں ہے، بس سجدے کے دوران میرا یہ بیٹا میرے اوپر سوار ہوگیا تھااور میرا دل نہ مانا کہ میں اس کا جی بھرنے سے پہلے اپنے اوپر سے اتار دوں۔ ‘‘ (سنن نسائیؒ: ۲۴۷۶۔ مسند احمدؒ: ۱۴۰۵۰) 


 لوگوں کے مشاہدے میں یہ بھی آیاہے کہ آپﷺ حضرت حسینؓ کے شانوں کو پکڑے ہوتے اور ان کے پیروں کو اپنے پیروں پر رکھائے ہوتے اور فرماتے: اوپر چڑھو، اور اوپر چڑھو۔ ‘‘ نواسہ اسی طرح کوشش کرکے ناناکے بدن پر چڑھتا جاتا تاآنکہ اس کے پیر اللہ کے رسولﷺ کے سینے پر پہونچ جاتے۔ اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ ان کا منھ کھلواکر بوسہ لیتے اور کہتے جاتے: ’’اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو تُو بھی اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے محبت فرما۔ ‘‘ (صحیح مسلمؒ، کتاب الفضائل: ۴/۱۸۸۲) 


 ایک بدوی شخص نے دیکھا کہ آپﷺ اپنے نواسہ کو بوسے لے رہے ہیں تو اس نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’میرے دس بیٹے ہیں لیکن میں نے کبھی کسی کو بوسہ نہیں لیا۔ ‘‘ یہ سن کر سرکارِ رسالتﷺ نے فرمایا: ’’جو رحمت سے محروم ہوتا ہے اس کے ساتھ رحمت کا معاملہ نہیں کیا جاتا۔ ‘‘ (صحیح بخاریؒ: ۵۶۵۱۔ صحیح مسلمؒ: ۶۱۷۰) 


 مرض الوفات میں جب آپﷺ کی تکلیف بیحد بڑھ گئی تھی، توتکلیف کی شدت کو دیکھتے ہوئے حضرت فاطمہؓ کے منھ سے بے اختیار نکل گیا کہ ہائے میرے اباجان کی تکلیف!۔ یہ سن کر اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ: ’’بیٹا! تمہارے والد کو آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ ‘‘ 


وفات کے بعد حضرت فاطمہؓ روتے ہوئے کہتی تھیں کہ: ’’میرے اباجان نے اپنے رب کی دعوت پر لبیک کہا، جنت الفردوس ہی اب آپﷺ کا ٹھکانہ ہے، آج ان کی خبرِ وفات ہم جبریلؑ کو سناتے ہیں۔ ‘‘ آپﷺ کی تجہیز وتکفین کے وقت حضرت فاطمہؓ ؓکہہ رہی تھیں کہ: کیاتم لوگوں کو گواراہے کہ اپنے رسولﷺ کے رخِ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟ (صحیح بخاریؒ: ۴۱۹۳)

 

 اللہ کے رسولﷺکے اس دارِ فانی سے رحلت کرنے کے ٹھیک چھ ماہ بعد حضرت فاطمہؓ کا بلاوا بھی آگیا۔ اس طرح آپ خانوادۂ رسولﷺ میں سب سے پہلے اپنے والد سے ملنے والی بن گئیں۔ (صحیح بخاریؒ: ۲۹۲۶) 


 حضرت خدیجہ کے بطن سے اللہ کے رسولﷺ کو دو بیٹے بھی تولد ہوئے جن کا نام قاسم اور عبد اللہ تھا۔ پہلے بیٹے کی طرف نسبت کرتے ہوئے آپﷺ کی کنیت ابو القاسم تھی جب کہ دوسرے بیٹے کی ولادت نبوت کے بعد ہونے کی وجہ سے اس کا لقب الطاہر اور الطیب پڑ گیا تھا۔ (الروض الانف، سھیلیؒ: ۱/۱۲۳۔ الاصابۃ: ۸/۶۱۔ السیرۃالنبویۃ: ۱/۲۰۲) 


دونوں بیٹے چھوٹی عمر ہی میں وفات پاگئے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت قاسم چلنے لگے تھے لیکن ان کی مدتِ رضاعت پوری نہیں ہو پائی تھی کہ وفات ہوگئی۔ امام سہیلیؒ ذکر کرتے ہیں کہ: اللہ کے رسولﷺ نبوت کے بعد کسی موقع پر حضرت خدیجہؓ کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ آبدیدہ ہیں۔ پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ یہ آنسوں حضرت قاسم کے لیے ہیں کہ ان کو اتنی مہلتِ حیات بھی نہ مل سکی کہ اپنی شیرخواری مکمل کر پاتے۔ آپﷺ نے سن کر فرمایا: ’’ان کے لیے جنت میں ایک دودھ پلانے والی دائی مقرر کردی گئی ہے جو ان کی مدتِ رضاعت کی تکمیل کرے گی۔ ‘‘ 


 ان کے علاوہ ام المومنین حضرت ماریہؓ قبطیہ کے بطن سے آپﷺ کے یہاں حضرت ابراہیم پیدا ہوئے۔ ابراہیم کو اپنے والدِ محترمﷺ سے بڑی مشابہت تھی اور مرورِ ایام کے ساتھ یہ مشابہت ومماثلت بڑھتی جارہی تھی۔ اللہ کے رسولﷺ کو بھی ان سے نہایت تعلقِ خاطرتھا، جس کا ایک بہ ظاہر سبب یہ ہوسکتا ہے کہ ابراہیم کی ولادت، باستثنائے فاطمہؓ آپﷺ کے تمام بچوں کی موت کے بعد ہوئی تھی۔ 


لیکن اللہ کے رسولﷺ کی ابراہیم کے ساتھ محبت ومودت کا یہ سلسلہ زیادہ ایام تک نہ چل سکا اور وہ سخت مرض میں مبتلا ہوگئے۔ جاں کنی کے عالم میں اللہ کے رسول ﷺ کوآخری دیدارکے لیے بلایا گیا تو شدتِ تاسف والم کی وجہ سے آپﷺ اپنے آپ کھڑے نہ ہو سکے۔ حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف نے آپﷺ کو سہارا دیا اور نخلستان تک لائے جس میں حضرت ابراہیم کو رکھا گیا تھا۔ آپﷺ نے ابراہیم کو دیکھا کہ اپنی ماں کی گود میں آخری سانسیں لے رہے ہیں تو آپﷺ نے انھیں اٹھا کر اپنی گود میں لٹا لیا۔ 


 مارے غم کے آپﷺ کا کلیجہ چھلنی تھا اور چہرے کے خد وخال ضبطِ غم کی وجہ سے متاثر ہوگئے تھے۔ اس وقت آپﷺ کی زبان سے نکلا کہ: ’’اے ابراہیم! ہم تمہارے بدلے میں اللہ سے کچھ اور نہیں چاہتے۔ ‘‘ اس کے بعد آپﷺ پر خاموشی طاری ہوگئی اور آنکھیں بہنے لگیں۔ ابراہیم نے آخری ہچکی لی اورطائرِ روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گیا۔ والدہ ماجدہ حضرت ماریہؓ اور خالائیں چیخیں مار کر رونے لگیں، لیکن اللہ کے رسولﷺ نے انھیں منع نہیں فرمایا۔ (حیاۃ محمدﷺ، محمد حسین ہیکلؒ: ص۴۶۴) 


 جب زندگی سے خالی ابراہیم کے جسدِ خاکی کو تدفین کے لیے لایا گیا تو آپﷺ کی آنکھیں بے تحاشا برسنے لگیں۔ آپﷺ روتے جاتے اور فرماتے: ’’اے ابراہیم! اگر موت کا معاملہ حق اور حتمی وعدہ نہ ہوتا اورہمیں نہ معلوم ہوتا کہ ہمارے اول وآخر ایک روز مل جائیں گے، تو یقینا ہمارا غم اس سے کہیں زیادہ ہوتا۔ ‘‘ اتنا کہہ کرآپﷺ چند لمحات کے لیے خاموش ہوئے پھر فرمایا: ’’بیشک آنکھیں اشک بار ہیں، دل سوگوار ہے، مگر ہم تو وہی کہیں گے جو ہمارے رب کو راضی رکھے، لیکن ابراہیم!سچی بات یہ ہے کہ ہم تمہاری جدائی پربیحد غمگین ہیں۔ ‘‘ (صحیح بخاریؒ: ۱۰۷۶۔ صحیح مسلمؒ: ۶۱۶۷) 


 ایک مرتبہ آپﷺ حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو دیکھا کہ اُن کے اہلِ خانہ واقارب انھیں گھیرے ہوئے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر آپﷺ کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہوگئے اور آپ کو روتا دیکھ، تمام حاضرین بھی رونے لگے۔ اللہ کے رسولﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا: کیا تم سنتے نہیں ہو؟ بیشک اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسوں پر عذاب نہیں دیتا اور نہ دل کی افسردگی پر، البتہ وہ زبان سے نکلنے والے اقوال پر عذاب دیتا ہے یا رحمت فرماتا ہے۔ ‘‘ (صحیح بخاریؒ: ۱۲۴۲) 


 فرزندِ رسولﷺ حضرت ابراہیم کی وفات کے دن سورج گہن ہوگیاتھا۔ عام مسلمانوں نے اس کو ایک معجزہ خیال کیا اور کہنے لگے کہ یہ آفتاب گہن فرزندِ رسولﷺ ابراہیم کے مرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ایک سچے نبی کی طرح آپﷺ کو یہ بات ناگوار گزری اور آپﷺ نے مجمعِ عام میں خطاب فرماتے ہوئے کہاکہ: ’’یہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی بہت سی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ کسی متنفس کی موت وحیات کی وجہ سے گہن نہیں ہوتے۔ چنانچہ جب تم ایساہوتے دیکھو تو تیزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز کی طرف بھاگو۔ ‘‘ (صحیح بخاری: ۹۹۴۔ صحیح مسلمؒ: ۲۱۲۹) 


 غور کیجئے کیا اس عملی موقف سے بڑھ کر بھی کوئی موقف ہوسکتا ہے؟ یہ عظمت وصداقت کی کونسی چوٹی تھی کہ اللہ کے رسولﷺ زندگی کے مشکل ترین لمحات میں بھی اپنے منصبِ رسالت کو فراموش نہیں کرتے اور حق وصداقت کو بیان کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ بلکہ اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر آپﷺاپنے ذاتی صدمے کوبرطرف رکھ کر، امت کے غلط تصورات وتوہمات کی تصحیح واصلاح کا کام انجام دیتے ہیں۔


 یقینا اللہ کے رسولﷺ کو اپنے تمام بچوں سے بے حد وحساب محبت وانسیت تھی، لیکن آپﷺاپنے پیغام اور رسالت کی خاطر کسی بھی محبت ومنفعت کو بارِ خاطر نہیں لاتے تھے۔  فخر کرو اور سجدۂ شکر بجا لائو کہ تم ایسے نبی ﷺ کی امت میں سے ہو۔ 


 وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین، 


وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے