انگریزی نئےسال اور ہپی نیو ایئر کےتناظر میں! غور و فکر کےچندپہلو


انگریزی نئےسال اور ہپی نیو ایئر کےتناظر میں!! غور و فکر کےچندپہلو

✍️ تحریر: عبدالاحد بستوی

امام وخطیب مسجد عمر بن خطاب ڈون، ضلع کرنول، آندھراپردیش

الحمدللہ وحدہٗ، والصلاۃ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہٗ: اما بعد

 انگریزی نئے سال کی ابتداءمیں مسلمانوں نے جہاں بہت سی چیزوں میں غیروں کی نقّالی کی ہے؛ وہیں "ہپی نیو ایئر" کے معاملہ میں بھی پیچھے نہیں رہے، اغیار کی دیکھا دیکھی وہ بھی نئے سال کی مبارک بادی پیش کرنے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ لہذا آپ دیکھیں گے گے کہ کچھ گھنٹوں کے بعد "ہپی نیو ایئر" کے میسجز کی باہر آنے والی ہے۔

 اس سے قطع نظر کہ نئے سال کی مبارکبادی پیش کرنا درست ہے یا نہیں، ہم مسلمانوں کو اس موقع پر اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سال میں دینی اعتبار سے کیا کھویا کیا پایا؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ آنے والے سال میں گزشتہ سال کی تلافی ممکن ہو سکے، نہ کہ صرف جشن منا کر بے توجہی برتی جائے۔

  سورہ حشر میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: " اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے، اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔(۱۸) اور تم اُن جیسے نہ ہو جانا جو اللہ کو بھول بیٹھے تھے، تو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کر دیا۔(یعنی وہ اس بات سے غافل اور بے پرواہ ہو گئے کہ خود انکی جانوں کے لیے کونسی بات فائدے کی اور کونسی نقصان کی ہے، اور غفلت کے عالم میں وہی کام کرتے رہے جو انہیں تباہی کی طرف لے جانے والے تھے) (۱۹) جنت والے اور دوزخ والے برابر نہیں ہو سکتے۔ جنت والے ہی وہ ہیں جو کامیاب ہیں"۔(۲۰) (آسان ترجمۂ قرآن. از مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ)

 اسی آیت کے تحت علامہ ادریس کاندھلویؒ فرماتے ہیں: "ان آیات میں اہلِ ایمان کو تقویٰ اور فکرِ آخرت کی دعوت دی جا رہی ہے، اس لیے کہ ایمان وتقویٰ اور فکر آخرت ہی مسلمان قوم کے لئے ہر عزت و غلبہ اور ترقی کاباعث ہے۔

 اگر کسی متنفس کے قلب میں یہ اعتقاد راسخ ہے کہ خداوندعالم کے سامنے بندہ کا ہر کام اور اُس کا ہر حال عیاں ہے، تو بلاشبہ خوف و تقویٰ پیدا ہو جائے گا، یہ اعتقاد ہی تقویٰ کی بنیاد ہے، جس کا لازمی اثر انسانی زندگی میں احتیاط اور فکر کی صورت میں رونما ہوگا"۔(ملخصاً از معارف القرآن کاندھلویؒ)

اسی طرح مایہ ناز مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت رقم طراز ہیں: 

"یہاں چند باتیں قابل غور ہیں۔ اول: آیت میں قیامت کو لفظ "غد" سے تعبیر کیا، جس کے معنی ہیں آنے والی کل۔

 بعض روایاتِ حدیث میں ہے " ساری دنیا ایک دن ہے، اور اُس دن میں ہمارا روزہ ہے"۔

   دوم: آیت میں قیامت کے یقینی ہونے کی طرف اشارہ ہے، جیسے آج کے بعد کل کا آنا یقینی امر ہے، کسی کو اس میں شبہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح دنیا کے بعد قیامت بھی قریب ہے۔

  سوم: آیت میں اشارہ ہے کہ قیامت بہت قریب ہے، جیسے آج کے بعد کل کچھ دور نہیں، بہت قریب سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح دنیا کے بعد قیامت بھی قریب ہے۔

 اور قیامت ایک تو پورے عالم کی ہے؛ جب زمین و آسمان سب فنا ہو جائیں گے۔ دوسری قیامت ہر انسان کی اپنی ہے؛ جو اس کی موت کے وقت آ جاتی ہے۔ جیسا کی کہا گیا ہے: " من مات فقد قامت قیامتہ" "یعنی جو شخص مر گیا اس کی قیامت تو ابھی قائم ہوگئی"۔ اور انسان کا مرنا اللہ تعالی نے ایک ایسا معمہ بنایا ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا فلسفی اور سائنس داں اس کا یقینی وقت مقرر نہیں کر سکتا۔ بلکہ ہر وقت ہر  انسان اس خطرہ سے باہر نہیں ہوتا کہ شاید اگلا گھنٹہ زندگی کی حالت میں نہ آئے۔ خصوصاً اس برق رفتار زمانہ میں تو ہارٹ فیل ہونے کے واقعات نے اس کو روزمرّہ کی بات بنا دیا ہے۔

 خلاصہ آیت کی آیت میں فکری انسان کو متنبہ کیا ہے اور اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دیکھو! جو سامان وہاں (آخرت میں) بھیجتے ہو اس کو دیکھ لو، کہ وہ کوئی کھوٹا، خراب سامان نہ ہو، جو وہاں کام نہ آئے۔ 

 کھوٹا سامان وہاں کے لئے وہ ہے کہ جس کی صورت تو عملِ صالح کی ہو مگر اس میں اخلاص اللہ کی رضا کے لئے نہ ہو، بلکہ نام و نمود یا اور کوئی غرض نفسانی شامل ہو، یا وہ عمل جو صورت میں تو عبادت ہے مگر دین میں اس کا کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے بدعت و گمراہی ہے۔

 خلاصہ یہ ہوا کہ کی آخرت کے لیے محض سامان کی صورت بنا دینا کافی نہیں، (بلکہ) دیکھ کر بھیجو کہ کھوٹا سامان نہ ہو جو وہاں نہ لیا جائے"۔(معارف القرآن ملخصاً شفیعیؒ)

 اسی آیت کے تحت تفسیر ابن کثیر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک مختصر خطبہ نقل کیا گیا ہے، اسے یہاں نقل کرنا فائدہ سے خالی نہ ہو گا انشاءاللہ۔

 "آپؓ نے فرمایا: کیا تم نہیں جانتے؟ کہ صبح و شام تم اپنے مقررہ وقت کی طرف بڑھ رہے ہو (یعنی دن بدن اور لمحہ بہ لمحہ موت سے قریب ہو رہے ہو)، بس تمہیں چاہیے کہ اپنی زندگی کے اوقات اللہ عزوجل کی فرماں برداری میں گزارو؛ اور اس مقصد کو بجز اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے صرف اپنی طاقت و قوت سے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ جن لوگوں نے اپنی عمر اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے سوا اور کاموں میں کھپائی؛ تم ان جیسے نہ ہونا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان جیسا ہونے سے منع فرمایا ہے" ولا تکونوا کالذین نسوا اللہ الخ"۔ خیال کرو کہ تمہاری جان پہچان کے تمہارے بھائی آج کہاں ہیں؟ انہوں نے اپنے گزشتہ ایام میں جو اعمال کیے تھے ان کا بدلہ لینے یا ان کی سزا بھگتنے کے لیے وہ دربارِ خدا میں جا پہنچے، یا تو نے سعادت اور خوش نصیبی پائی یا نامُرادی اور شقاوت حاصل کرلی۔ کہاں ہیں وہ سرکش لوگ! جنہوں نے بارونق شہر بسائے اور ان کے مضبوط قلعے کھڑے کئے؟ آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں۔ یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم! تم اس نور سے روشنی حاصل کرو، جو تمہیں قیامت کے دن کی اندھیریوں میں کام آ سکے، اس کی خوبئ بیان سے عبرت حاصل کرو اور بن سنور جاؤ۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام اور ان کے اہل بیت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا: "وہ نیک کاموں میں سبقت کرتے تھے، اور بڑے لالچ اور سخت خوف کے ساتھ ہم سے دعائیں کیا کرتے تھے، اور ہمارے سامنے جھکے جاتے تھے"۔(انبیاء ۹۰) 

 سنو! وہ بات بھلائی سے خالی ہے جس سے خدا کی رضا مندی مقصود نہ ہو، وہ مال خیر و برکت والا نہیں جو خدا کی راہ میں خرچ نہ کیا جاتا ہو، وہ شخص نیک بختی سے دور ہے جس کی جہالت؛ بربادی پر غالب ہو۔ اسی طرح وہ شخص بھی نیکی سے خالی ہاتھ ہے جو اللہ کے احکام کی تعمیل میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کرنے سے خوف کھائے"۔(تفسیر ابن کثیر مترجم)

 نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول چیزوں کو چھوڑ دے"۔

 ہر وہ کام اور چیز لایعنی ہے جس کا نہ تو دنیا میں کوئی فائدہ ہو اور نہ آخرت میں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ "ہپی نیو ایئر" منانے یا مبارکبادی پیش کرنے کا بھی نہ دنیا میں کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی آخرت میں۔ لہذا اس کا ترک کرنا ہی مناسب ہے۔ 

 بہت سی ایسی پوسٹس اور میسجز میری نظر سے گزرے ہیں کہ "میری کرسمس" یا "ہپی نیو ایئر"  کہنے سے کوئی اسلام سے خارج تو نہیں ہو جاتا، اس لیے ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔

 میں ایسے لوگوں سے بس اتنا ہی کہوں گا کہ نماز چھوڑنے سے بھی کوئی کافر نہیں ہو جاتا، روزہ چھوڑنے سے بھی کوئی کافر نہیں ہو جاتا، زکوٰۃ و حج چھوڑنے سے بھی کوئی کافر نہیں ہو جاتا، والدین کو گالی دینے سے بھی کوئی کافر نہیں ہو جاتا، زنا کرنے اور چوری کرنے سے بھی کوئی کافر نہیں ہو جاتا وغیرہ؛  جب تک کہ انکار نہ پایا جائے۔

 تو کیا نماز، روزہ وغیرہ عبادات کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں ہے؟ کیا اسلام نے ہمیں صرف ایمان و اعتقاد ہی کی تعلیم دی ہے؟ عبادات و معاملات، معاشرت و اخلاق کوئی حیثیت نہیں رکھتے؟ فافہم و تدبر!! 

بہرحال! دینی بھائیو! یہ زندگی چند روزہ ہے، اسے مفید کاموں میں استعمال کریں، تعمیر و ترقی کی چیزوں میں لگائیں۔ آج ہماری نظر میں اگر کوئی سب سے ہلکی چیز ہے تو وہ ہے وقت کو ضائع کرنا، اپنی زندگی کے قیمتی اوقات کو فضول چیزوں میں برباد کرنا۔

 سوچئے! آپ کی قیمتی زندگی سے ایک سال اور کم ہو گیا؛ تو خوشی کس بات کی؟ اگر آپ کے والدین باحیات ہیں تو وہ اور ضعیف (کمزور) ہو چکے ہوں گے، لہٰذا ان کی ضروریات کی طرف اور زیادہ متوجہ ہوجائیں۔ اگر آپ کی اولاد ہوگی تو لازماً ان کی بھی عمر میں اضافہ ہوچکا ہوگا، لہٰذا ان کی تعلیم و تربیت پر مزید توجہ دیں۔ اور ابھی آپ کچھ کر سکنے کے قابل ہیں لہٰذا صحت و تندرستی سے خاطر خواہ فائدہ اٹھالیں۔ 

آخری بات یہ کہ دوسری خرابیوں کی طرح موجودہ دور میں امت مسلمہ اغیار کی طرح " ہپی نیو ایئر"  اور "نئے سال" کی مبارکبادی پیش کرنے میں انتہائی دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں، اس لئے اس عنوان پر لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اللہ تعالی ہم سب کو مکمل اسلامی تعلیمات کی پیروی نصیب فرمائے۔ آمین۔

 وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے