نئے سال كى آمد اور مسلمان

نئے سال كى آمد اور مسلمان

 عبيد الله شميم قاسمى 

یہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ کسی بھی زندہ قوم کے لیے سال و تاریخ کا اہتمام نہایت ضروری ہے ،اسی لیے زمانۂ قدیم سے اکثر اقوام کے پاس اپنی اپنی تاریخ تھی جس سے وہ کام لیا کرتے تھے ، اور یہ لوگ بعض مشہور واقعات سے تاریخ مقرر کیا کرتے تھے اور بعض لوگ بادشاہوں کی بادشاہت کے عروج وزوال سے تاریخ مقرر کرتے تھے ۔ یہود نے بیت المقدس کی ویرانی کے واقعے سے تاریخ مقرر کی اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰؑ کے دنیا سے جانے کے بعد سے تاریخ بنائی، اسی طرح عرب کے لوگوں نے واقعۂ فیل سے تاریخ مقرر کی، اور اسلام میں سنہ ہجری کا استعمال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جاری ہوا، لیکن اسلام اور علمائے اسلام نے بہ طور سدِ باب اسلامی سالِ نو کے آغاز پر بھی ایک دوسرے کو مبارک باد دینے یا کوئی جشن منانے کی ترغیب نہیں دی، چہ جائے کہ عیسوی سال کے خرافات سے بھرے موجودہ جشن کی اجازت دی جاتی۔حدیث شریف میں اس بات سے بھی ڈرایا گیا ہے :   عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوه"، قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ: اليَهُودَ، وَالنَّصَارَى قَالَ: "فَمَنْ". (صحيح البخارى، حديث نمبر: 3456).

تم بالشت بہ بالشت اور قدم بہ قدم پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلوگے ، یہاں تک کہ ان میں سے کوئی گوہ کے بل میں داخل ہوا تھا تو تم اس میں بھی ضرور داخل ہوں گے۔ بخاری شریف کے الفاظ میں پہلے لوگوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور گوہ کے بِل کی تخصیص اس لیے کی گئی کہ وہ نہایت تنگ ہوتا ہے کہ اس میں گھسنے کی کوشش کرنا اغیار کی انتہائی تقلید کی غمازی کرتا ہے ۔ حافظ ابن حجر فرماتے هيں:   ’’وَدُخُولُ الْجُحْرِ تَمْثِيلٌ لِلِاقْتِدَاءِ بِهِمْ فِي كُلِّ شَيْءٍ مِمَّا نَهَى الشَّرْعُ عَنْهُ وَذَمَّهُ‘‘   سوراخ میں داخل هونا يه ان كى ہر اس چيز ميں اقتدا كى تمثيل ہے جس سے شريعت نے منع كيا ہے اور اس كى مذمت كى ہے۔(فتح الباری 13/301).

نئے عيسوى سال كى آمد ہوچكى ہے، ديكھا يہ جاتا ہے كہ آج كا مسلمان جس كو دين وشريعت كى بہت سى باتوں كا علم نہيں ہوتا وه بھى غيروں كى ديكھا ديكھى انھيں كے راستے پر چلنے لگتا ہے۔

اگر ہم تاريخ انسانى پر غور كريں تو يہ بات معلوم ہوتى ہے كہ دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تیوہار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہر ایک تیوہار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تیوہار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے، جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے؛ لیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل کردی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تیوہار وضع کیے انھیں میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے ۔

اگرہم زمانہ نبوت كو ديكھيں تو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نئے سال کا جشن منایا؟ کیا صحابہ کرام نے آپس میں ایک دوسرے کونئے سال کی مبارک باد دی؟

کیا تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں اس رسم کو منایاگیا؟ کیا دیگر مسلمان حکمرانوں نے اس کے جشن کی محفلوں میں شرکت کی؟ حالانکہ اس وقت تک اسلام ایران، عراق، مصر، شام اور مشرقِ وسطیٰ کے اہم ممالک تک پھیل چکا تھا۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ہر عقل مند شخص نفی میں دے گا۔ پھر آج کیوں مسلمان اس کام کو انجام دے رہے ہیں؟

آخر یہ کس نے ایجاد کیا؟ کو ن سی قوم نئے سال کا جشن مناتی ہے؟ کیوں مناتی ہے؟ اور اس وقت مسلمانوں کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ ان چند سطور کے اندر اسی کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

دراصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کاایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق ۲۵/دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ، اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔

آج ان عیسائیوں کی طر ح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور ۳۱/ دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے، ان مسلمانوں نے اپنی اقدارو روایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے؛ جب کہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے۔ مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے مربوط ہے جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے یہی اسلامی کیلینڈر ہے؛ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہوپاتا۔

آج مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے ، زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یاکم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا؛ بل کہ افسوس کیا جاتاہے۔

یہ عمر اور زندگی جو ہم کو عطا ہوئی ہے وہ صرف آخرت کی ابدی زندگی کی تیاری کی خاطر عطا ہوئی ہے کہ ہم اس کے ذریعے آنے والی زندگی کو بہتر بناسکیں اور اپنے اعمال کو اچھا بناسکیں۔ارشاد بارى تعالى ہے: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ [الذاريات: 56] انسان كى تخليق كا مقصد (معرفت الهى) عبادت ہے۔

زندگى الله رب العزت كى جانب سے عطا كى ہوئى ايك بيش بہا عطيہ ہے، اس كا ہر ہر لمحہ بهت قيمتى ہے اور اس زندگى كے بارے ميں انسان سے سوال كيا جائے گا جيسا كہ ترمذى شريف كى بہت مشهور روايت ہے : عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لاَ تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ، عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلاَهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ. (سنن الترمذي حديث نمبر: 2416).

اس ليے هميں هر گزرتے لمحے كے ساتھ دو کام خصوصا کر نے چاہئیں یا دوسرے الفاظ میں کہہ لیجیے کہ نیا سال ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے : (۱) ماضی کا احتساب (۲) آگے کا لائحہ عمل۔

ماضی کا احتساب

نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے۔ کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائيگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؛ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے؛ لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا؛ اسی لیے حضرت عمر  رضى الله عنه  کا ارشاد ہے کہ: ”حَاسِبُوْا أنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا“(سنن الترمذی نمبر: 2459  ابواب الزہد) ترجمہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔

اس لیے ہم سب کو ایمان داری سے اپنا اپنا موٴاخذہ اور محاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے؛ اس سے پہلے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے ۔ اسی کو اللہ جل شانہ نے اپنے پاک کلام میں ایک خاص انداز سے ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ (10) وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾  (سورۂ منا فقون، آیت: 10_11) ترجمہ: اور جو کچھ ہم نے تمھیں دے رکھا ہے، اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو وہ کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہوجاوٴں۔ اور جب کسی کا وقت مقرر آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالی ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالی اچھی طرح باخبر ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے؛ اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے ۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بل کہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے اس کے پاس وقت کم اور کام زیادہ ہوتاہے۔

ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں؛بل کہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحا تِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔

ساتھ ساتھ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ایک اہم امر کی طرف بھی متوجہ کردیا جائے کہ مسلمانوں کا نیا سال جنوری سے نہیں؛ بل کہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے جو ہو چکا ہے اور ہم میں سے اکثروں کو اس کا علم بھی نہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قمری اور ہجری سال کی حفاظت کریں اور اپنے امور اسی تاریخ سے انجام دیں؛ اس لیے کہ ہماری تاریخ یہی ہے؛ چونکہ ہر قوم اپنی تاریخ کو کسی خاص واقعے سے مقرر کرتی ہے؛ اس لیے مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو خلیفہٴ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے واقعہ ہجرت سے مقرر کیا ۔

ہجرى اور عيسوى دونوں تاريخوں كو استعمال كرنا چاہئے، صرف عيسوى تاريخ پر اكتفا كرنا يہ ہمارى اسلامى تاريخ سے ايک طرح بے اعتنائى ہوگى۔

قرآن كريم ميں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا﴾ [الأنعام: 96] حضرت مفتى محمد شفيع صاحب رحمة الله عليه لكھتے هيں: حُسبانا بالضم مصدر ہے جو حساب کرنے اور شمار کرنے کے معنی میں آتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی نے آفتاب و ماہتاب کے طلوع وغروب اور ان کی رفتار کو ایک خاص حساب سے رکھا ہے جس کے ذریعے انسان سالوں، مہینوں، دنوں اور گھنٹوں کا؛ بل کہ منٹوں اور سکنڈوں کا حساب بآسانی لگا سکتا ہے یہ اللہ جلَّ شانُہ ہی کی قدرتِ قاہرہ کا عمل ہے کہ ان عظیم الشان نورا نی کروں او ران کی حرکات کو ایسے مستحکم اور مضبوط انداز سے رکھا کہ ہزاروں سال گذرجانے پر بھی ان میں کبھی ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا، یہ دونوں نور کے کرے اپنے اپنے دائرے میں ایک معین رفتار کے ساتھ چل رہے ہیں: ﴿لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ﴾ [يس: 40]  ہزاروں سال میں بھی ان کی رفتار میں ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا، قرآن کریم کے اس ارشاد نے اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ سالوں اور مہینوں کا حساب شمسی بھی ہو سکتا ہے اور قمری بھی دونوں ہی اللہ تعالی کے انعامات ہیں یہ دوسری بات ہے کہ عام ان پڑھ دنیا کی سہولت اور ان کو حساب کتاب کی الجھن سے بچانے کے لیے اسلامی احکام میں قمری سن وسال استعمال کیے گیے اورچوں کہ اسلامی تاریخ اور اسلامی احکام سب کا مدار قمری حساب پر ہے؛ اس لیے امت پر فرض ہے کہ وہ اس حساب کو باقی رکھے۔ دوسرے حسابات شمسی وغیرہ اگر کسی ضرورت سے اختیار کیے جائیں تو کوئی گناہ نہیں؛ لیکن قمری حساب کو بالکل نظر انداز اور محو کردینا گناہ عظیم ہے جس سے انسان کو یہ بھی خبر نہ رہے کہ رمضان کب آئے گا اور ذی الحجہ اور محرم کب ۔ (معارف القرآن 2/402-403)

نیز حكيم الامت حضرت تھانوی رحمة الله لکھتے ہیں: چونکہ احکام شریعت کا مدار حساب قمری پر ہے؛ اس لیے اگر ساری امت دوسری اصطلاح کو اپنا معمول بنالے جس سے حسابِ قمری ضائع ہوجائے تو سب گنہگار ہوں گے اور اگر وہ محفوظ رہے تو دوسرے حساب کا استعمال بھی مباح ہے؛ لیکن سنتِ سلف کے خلاف ضرور ہے اور حساب قمری کا برتنا بہ وجہ اس کے فرضِ کفایہ ہونے کے لا بُد افضل و احسن ہے۔ (ماخوذ از بیان القرآن ص: ۵۸ ) اس لیے ہمیں اپنی اس تاریخ قمری کو یکسر فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو غیروں کی مشابہت سے بچائے اور آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے