افکارابن خلدون: ایک مطالعہ ۲

 افکارابن خلدون: ایک مطالعہ ( ۲ )

افکارابن خلدون: ایک مطالعہ ۲


القاسمی وقاراحمدخان

waqarqasmi@yahoo.com

ابن خلدون کی شہرت:

ابن خلدون کی شہرت "مقدمہ" سے ہی ہوئی ہے، جس میں اس صدیوں تک کوئی حریف نظر نہیں آتا۔ ابن خلدون کو یورپ نے اس کی شایان شان قدر کی اور ہاتھوں ہاتھ اٹھا لیا۔ حقیقت ہے کہ آج ابن خلدون ان ہی قدر افزائیوں کی بل بوتے پر زندہ بھی ہے؛ ورنہ اپنوں نے تو طرح طرح کی تہمتیں پھیلا کر اسے ختم ہی کردیا تھا۔

اخلاق وعادات:

اس کے اخلاق کا کیا انداز تھا؟ عادات کیا تھیں؟ عہد طفولیت کیسا گزرا؟ شباب کس طرح بیتا؟ اور پیری وشیخوخت نے کیا رنگ اختیار کیا؟

سیرت وکردار کے یہ وہ ضروری خدوخال ہیں، جن سے قطع نظر کرکے زندگی کا کوئی مرقع تیار ہی نہیں ہوسکتا؛ لیکن یہاں اس طرح کی معلومات سرے سے غائب ہیں؛ البتہ جو کچھ معلوم ہوسکا ہے، وہ صرف اس قدر ہے کہ ابن خلدون کشاکش حیات سے گھبرانے والا نہیں تھا، اس کے سامنے سلطنتیں بدلیں، تخت واورنگ پر انقلاب آیا، جس سے خود اس کی حیثیت وجاہ پر نمایاں اثر بھی پڑا؛ لیکن تاہم اس نے حالات کا مقابلہ کیا اور اپنے لیے کامیابی وکامرانی کی کوئی نہ کوئی راہ تلاش کر ہی لی۔

بارہا ایسا ہوا کہ وزارت اس سے چھین لی گئی اور یہ معتوب ہوکر جیل کی چہار دیواریوں میں محصور ہونے پر مجبور ہوگیا، یا گوشہ گم نام میں جا پڑا؛ مگر جلد ہی تدبیر وسعی سے پہلی حیثیت پالی، یا ایسا مقام حاصل کرلیا کہ عام حالات میں کسی دوسرے شخص کو وہ حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کی یہ خصوصیت، جو اسے ایک حکیم اور فلسفی کے حلقہ سے نکال کر ہوشیار اور چوکس سیاست باز کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے؛ مگر افسوس یہ ہے کہ وہ ان صلاحیتوں کو کسی اونچے سیاسی نصب العین کے حصول کے لیے استعمال نہیں کرسکا؛ ورنہ ہوسکتا تھا کہ عمرانیات کا یہ امام کسی عظیم سلطنت کا بانی اور مؤسس بھی ہوتا۔ 

اسی بنیاد پر نشان دہی کی جاتی ہے کہ اس میں وفا شعاری اور ذمہ داری کی سخت کمی ہے؛ حتی کہ اس کے سامنے دمشق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ہے اور مخدرات اسلام کی عزت وآبرو سے تیمور کی فوجیں بے رحمانہ کھیلتی ہیں؛ لیکن یہ ٹس سے مس نہیں ہوتا اور ایک بھی حرف احتجاج زبان پر نہیں لاتا، حالاں کہ دمشق کی مہم میں اس کو ساتھ لیا ہی اس غرض سے گیا تھا کہ یہ اس کی حفاظت کا فریضہ انجام دے گا اور ہر قیمت پر دمشق کو بچائے گا۔

سوال یہ ہے کہ ابن خلدون ایسا دقیقہ رس فلسفی (جو بڑی بڑی حکمتوں اور ریاستوں کے اسباب عروج و زوال پر بحث کرتا ہے) اپنی اس کمزوری سے کیوں واقف نہیں ہوسکا؟

بات یہ ہے کہ ابن خلدون جس دور میں پیدا ہوا، وہ اسلامی تاریخ کا ایسا عہد ہے، جب پورے عالم اسلام میں کوئی مضبوط اور باقاعدہ حکومت موجود نہیں تھی؛ بلکہ افراتفری اور طوائف الملوکی کا عالم تھا۔ ان حالات میں ظاہر ہے کہ ابن خلدون جیسا فاضل انسان بھی دوسروں کی طرح مجبور ہے کہ کوئی بڑا کام کرنا چاہتا ہے، تو: نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں وزراء وامراء سے خود کو وابستہ کیے رہے۔ گھٹیا ملوکیت اور طوائف الملوکی کے اس زمانہ میں اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔

اس معذوری کے پیش نظر ابن خلدون اگر احساس ذمہ داری سے عاری ہے اور کلی واجتماعی تقاضوں کے مقابلہ میں اس کی حب ذات کا جذبہ نسبتہ زیادہ ہے، تو: یہ قدرتی امر ہے۔ ابن خلدون نے ایک جگہ کہا بھی ہے کہ انسان سراسر اپنے ماحول کی پیداوار ہے؛ اس لیے ضروری تھا کہ حالات کے مطابق اور اس کی مجبوریوں کی حد تک ہی یہ اخلاقی ودینی اقدار کی پابندی کرسکتا تھا۔

اشارہ: اگلی قسط سے ابن خلدون کے علم وفکر کے بارے میں بحث کی جائے گی ان شاء اللہ۔

اگر آپ نے اس سے پہلے والی قسط نہیں پڑھی تو نیچے دیے ہوئے لنك پر كلك كر كے پہلی قسط ضرور پڑھیں ۔

 افکار ابن خلدون: ایک مطالعہ پہلی قسط

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے