افکار ابن خلدون: ایک مطالعہ پہلی قسط

 افکار ابن خلدون: ایک مطالعہ پہلی قسط
افکار ابن خلدون: ایک مطالعہ پہلی قسط


القاسمی وقار احمد خان

waqarqasmi@yahoo.com

نام ونسب: ابن خلدون کا پورا نام یوں ہے: ابو زید ولی الدین عبد الرحمن، بن ابی بکر محمد، بن ابی عبد اللہ محمد، بن محمد، بن الحسن، بن محمد، بن جعفر، بن محمد، بن ابراہیم، بن عبد الرحمن، بن خلدون۔ رمضان المبارک 732ھ تیونس میں پیدا ہوا۔

ابتدائی حالات: ابن خلدون کے اپنے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے عہد کے مجوزہ نصاب پر مکمل عبور حاصل کرلیا تھا۔ پہلے قرآن مجید حفظ کیا اور اس کو ساتوں قرأت کے ساتھ پڑھا؛ پھر مختلف علوم وفنون کی طرف متوجہ ہوا۔

احادیث میں مؤطا اور صحیح مسلم کی تو تکمیل کی؛ مگر صحیح بخاری کے بعض اجزاء تک ہی اس کی رسائی ہوسکی، فقہ مالکی کے کئی مختصرات کی تعلیم پائی۔ لغت ونحو کی کتابوں میں بھی دسترس حاصل کرنے کا پتہ چلتا ہے اور ادبیات کے سلسلہ میں تو اس کا اپنا اعتراف ہے کہ الأغاني کا کافی حصہ اس کو ازبر تھا۔

ابن خلدون مختلف وجوہات کی بنیاد پر اکثر وبیشتر سفر میں رہتا، جہاں بھی جاتا، خواص اس کو شک کی نظر سے دیکھتے اور ڈرتے رہتے کہ اس کی شخصیت اور حد سے بڑھی ہوئی مقبولیت کہیں ان کے اقتدار کو خطرے میں نہ ڈال دے؛ اس لیے پہلے دن سے ہی حسد ورشک کے جذبات ابھرنا شروع ہوجاتے، جو بالآخر رقابت ودشمنی پر منتج ہوتے اور اچھی خاصی لڑائی کی ٹھن جاتی۔ تیونس میں بھی یہی ہوا: ابن خلدون نے جب علمی مشغلوں کا آغاز کیا اور دینی حلقوں میں اس کے نبوغ وقابلیت اور وسیع تجربہ کا چرچا ہوا، تو: تیونس کے سب سے بڑے فقیہ محمد بن عرفہ کے دل میں تکدر پیدا ہوا، انہوں نے اس کے خلاف ابوالعباس سلطان تیونس کا بڑھکا دیا؛ چناں چہ ابن خلدون کو یہاں سے بھی کھسکنا پڑا۔

ابن خلدون نے سلطان سے سفر حج کی اجازت لی اور مشرق کا رخ کیا؛ پہلے یہ مصر پہنچا، یہاں اس کی شہرت اس سے پہلے پہنچ چکی تھی۔ جامعہ ازہر کے بعض طلبہ اس کے پاس آئے اور اصرار کیا کہ انہیں اپنے علمی معارف سے بہرہ مند کرے؛ اس خدمت کو اس نے قبول کرلیا اور ایک عرصہ تک یہاں فقہ مالکی کا درس دیتا رہا۔

ملک الظاہر برقوق کو جب اس کی فقہی صلاحیتوں کا علم ہوا، تو: اس نے فقہ مالکی کی قضا کا منصب اس کے سپرد کردیا، جس کو اس نے بڑی ہی قابلیت سے انجام دیا۔ یہاں اس نے رشوت وبدعنوانی کے خلاف سخت احکام صادر کیے اور حق وانصاف کی خاطر ہر نوع کی سفارش کو ٹھکرا دینے کا اعلان کردیا؛ لیکن یہ اخلاقی بلندی اس کو راس نہیں آئی، اسے سزا اس کی یہ ملی کہ اصحاب غرض اس کے خلاف پھر گئے اور ایسا طوفان بپا کیا کہ اسے ایک مرتبہ پھر گوشہ نشینی کی سوجھی۔

اسی اثناء میں اس کو ایک بڑے صدمہ سے دوچار ہونا پڑا، اس کو خبر ملی کہ اس کے بال بچے تیونس سے اس کے پاس آرہے تھے؛ مگر سمندر کی موجوں کی نذر ہوگئے۔ اس پر اس کے منہ سے یہ جملہ نکلا: "فقدت بذلک المال والسعادة والبنين" کہ اس حادثہ میں مال، خوش بختی اور اولاد سب سے محروم ہوگیا ہوں۔

اس جملہ سے اس کے صبر اور بے نظیر تحمل کا اندازہ ہوتا ہے، یا یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بال بچوں سے اس کا کچھ خاص لگاؤ نہیں تھا؛ لیکن یہ بڑی عجیب سی بات لگ رہی ہے۔ اس کے بعد اس نے مناسک حج ادا کیے اور پھر واپس مصر اسی عہدہ جلیلہ پر فرج بن برقوق کے زمانہ تک فائز رہا اور یہیں داعی اجل کو لبیک کَہ گیا۔

جاری۔۔۔۔۔

اشارہ: اگلی قسط میں: ابن خلدون کی شہرت اور اس کے اخلاق وعادات کا ذکر ہوگا ان شاء اللہ۔

اگر آپ كو یہ پوسٹ اچھی لگی تو اگلی قسط پڑھنے كے لیے نیچے دیے گئے لنك كر كے آسانی سے پڑھ سكتےہیں

 افکارابن خلدون: ایک مطالعہ دوسری قسط




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے