ہندوستان اور مسلمان

ہندوستان اور مسلمان

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔ 

ہمیں اس ملک میں اپنی نسلوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اور اس کے لئے ہمیں سیکولر بن کر رہنا ہوگا۔ میرے ایک شناسا نے مجھ سے جب یہ کہا تو میں نے ان سے یہ سوال کیا کہ آخر سیکولر کہتے کسے ہیں؟ ان کا جواب تھا کہ تمام مذاہب والوں سے مل جل کر رہنا۔ میں نے پھر پوچھا کیا اب ہم مل جل کر نہیں ہیں؟ ہم ان سے الگ تھلگ کب رہے؟ ہم تو ہمیشہ سے ایسے سماج میں رہے جہاں ہم اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی انہیں اپنے ساتھ اپنے وجود کا حصہ سمجھتے رہے ہیں۔ ان کی اکثریتی آبادی والے علاقوں میں رہنے کا یقینا اتفاق نہیں ہوا۔ اس کے باوجود ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر محلہ یا بستی میں حالات ایک طرح کے نہیں ہوتے۔ نہیں صاحب! پہلے اور آج کے حالات میں بہت فرق ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں ملک کس طرف جارہا ہے۔ کس طرح ہمیں مختلف بہانوں سے ملک بدر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ سماجی بائیکاٹ کی مہم چلائی جارہی ہے۔ گھر واپسی کے نام پر ہمیں اپنے آبائی مذہب سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان حالات میں ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ ہمارے خیر خواہ نے بہت ہی سنجیدہ لہجہ میں کہا۔ برادرم! جب سے میں نے ہوش سنبھالا تب سے لے کر آج تک مجھے تو کبھی نہیں لگا کہ حالات کبھی ہمارے حق میں سازگار رہے ہوں۔ ہمیشہ سے ہم ایک انجانے خوف اور دہشت کے ماحول میں پروان چڑھتے رہے ہیں۔ چندبرس کے دوران کے جو حالات ہیں وہ نئی نسل کے لئے تو تشویش کا باعث ہوسکتے ہیں مگر ہم تو اس سے کہیں بدتر دور سے گزرتے ہوئے یہاں تک آئے ہیں۔ ہمارا بچپن تو ملک کے بٹوارہ اور اس کے دوران ہونے والے فسادات، نسل کشی، عبادت گاہوں پر قبضے، جبری مذہبی تبدیلی کے سچے واقعات سنتے سنتے گزرا ہے۔ لڑکپن میں داخل ہوئے تو فسادات کا مطلب سمجھ میں آیا۔ حیدرآباد میں رہنے والی ہماری پیشرو نسلوں نے پولیس ایکشن کے واقعات کو دیکھا، سہا اور اس کا کرب سمیٹ کر جینا سیکھا۔ شمالی ہند میں بھی ہم نے کیا کچھ نہیں سہا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ہمارے وہ شہر جہاں ہم معاشی طور پر مستحکم تھے‘ جہاں ہماری صنعتیں تھیں‘ وہاں فسادات کی آگ بھڑکائی جاتی رہی۔ ہماری معیشت کو تباہ کردیا گیا۔ دیہی علاقوں میں ہمارا سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔ ہماری عبادت گاہوں پر قبضے کرکے انہیں یا تو مٹا دیا گیا یا پھر انہیں کسی اور مقصد کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ خود ہم نے حیدرآباد کو کتنی بار اجڑتے دیکھا۔ ایسا کونسا چیف منسٹر، ایسی کونسی پارٹی تھی جس نے ہماری تباہی میں اہم رول ادا نہیں کیا۔ کچھ برس پہلے تک جو خاکی نیکر کھدر کے اندر چھپی ہوئی تھی وہ اب پتلون کی شکل میں کھدر سے باہر ظاہر ہوگئی۔ بہ ظاہر کانگریسی اندر سے بیشتر جن سنگھی۔ وقت کے ساتھ وہی جن سنگھی کوئی آر ایس ایس میں کوئی بجرنگ دل میں کوئی وی ایچ پی کوئی ہندو مہاسبہا، کوئی ہندو واہنی تو کوئی شیوسینا کے بھیس میں ظاہر ہوا۔ کل بھی حالات وہی تھے‘ ہماری تباہی اور بربادی کے ذمہ دار وہی تھے‘ حالات آج بھی ویسے ہی ہیں‘ اور لوگ بھی وہی ہیں‘ یہ اور بات ہے کہ وہ پیشرو نسل تھی، یہ ان کی موجودہ نسل ہے۔ رہی بات مل جل کر رہنے کی‘ اِن تمام بدترین واقعات، سانحات کے باوجود ہمارے رویے میں، ہمارے طرز عمل میں ان کے ساتھ کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ آج بھی ہم ان کو اپنے وجود کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ انہوں نے خود کو پہلے بھی ہم سے الگ کررکھا تھا اب تو اس کا علی الاعلان اظہار کررہے ہیں۔ کیوں کہ اسی کی بنیاد پر ان کے سیاسی مستقبل کی عمارت تعمیر ہونی ہے۔ ویسے بھی ہماری دشمنی اور نفرت کی بناء پر انہوں نے اپنے آپ کو مستحکم بنالیا ہے۔

جناب عالی! میرے مخاطب نے ایک بار پھر مجھے سمجھانا چاہا۔ آپ میری بات نہیں سمجھ پارہے ہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو سیکولر بن کر رہنا ہے۔ ورنہ شاید ہمارا نام و نشان مٹا دیا جائے گا۔ سیکولر سے مراد کیا ہے؟ آج تک مجھے اس لفظ کا مفہوم سمجھ میں نہیں آیا۔ جبکہ میں نے اس کے معنی تلاش کئے ا ور اس کا پس منظر جاننے کی کوشش کی۔ یہی پتہ چلا کہ انیسویں صدی میں جارج جیکب ہیلیوک George Jacob Holyoake نے جو ایک اخبار Reasoner کا ایڈیٹر تھا۔ اس نے 1851ء میں دو الفاظ secular اور Jingoism کا پہلی بار استعمال کیا تھا۔ سیکولر کا ایک مفہوم اس نے لادینی یا دہریت‘ مذہب سے آزاد سیاسی اور معاشی نظام پیش کیا تھا۔ اور جنونی وطن پرستی کیلئے Jingoism کا لفظ پیش کیا تھا۔ مذہب بیزار مغربی معاشرے میں سیکولرزم کا نظریہ ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اور اس کا اثر عالمی نظام پر ہوا۔ آزاد ہندوستان نے بھی 1976ء میں دستورِ ہند کی 42ویں ترمیم کرتے ہوئے ہندوستان کو ایک سیکولر ملک قرار دیا۔ اور ہر شہری کو اس کی مرضی سے کوئی بھی مذہب اختیار کرنے کا حق عطا کیا۔ تاہم سیکولرزم کے نظریہ کو اس طرح سے پیش کیا گیا کہ مذہب سے دوری یا اخلاص اور مروت میں ایک مذہب کا ہوتے ہوئے دوسرے مذہب کی رسومات کی ادائیگی کو جز سمجھا گیا۔ دوسرے مذاہب میں شاید اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر اسلام میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ اسلام دوسرے مذاہب سے نفرت دشمنی کی اجازت نہیں دیتا مگر مروت میں بھی دوسرے مذاہب کے رسوم اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کیوں کہ ایمان کی کسوٹی ہی ایاک نعبد و ایاک نستعین ہے۔

ندوستان ایک عظیم ملک ہے۔ جانے کتنے مذاہب اور عقائد کے ماننے والے یہاں رہتے ہیں۔ مگر ہندو مسلم سکھ عیسائی کی چار ستونوں پر اس ملک کی عمارت ٹکی ہوئی ہے۔ ہندوتوا نظریہ کو پروان چڑھانے والے چاہتے ہیں کہ تین ستون ہٹا دیئے جائیں اور صرف ہندو مذہب کی بنیاد پر ہی ہندوستان کا ڈھانچہ کھڑا کیا جائے۔ اس کوشش میں وہ منظم منصوبہ بند طریقہ سے 100 سے زائد برسوں سے لگے ہوئے ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران وہ اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب ہوتے نظر آئے ہیں کہ اس ملک کے مزاج کو بدلنے میں بڑی حد تک وہ کامیاب ہوئے۔ سواسو برس سے نسل درنسل جو ذہن سازی کی تھی‘ اس کی بدولت بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر ہورہا ہے۔ طلاق ثلاثہ قانون کومنظور کرتے ہوئے مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل دینے کی کوشش میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں کی اس طرح سے حد بندی کی جارہی ہے کہ آئندہ برسوں میں ان علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب گھٹ جائے گا۔ آسام، بہار اور دوسری ریاستوں میں بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر غریب مسلمانوں کو ہراساں پریشاں کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ وہ وقت بھی آسکتا ہے جب ملک کے دستور میں ترمیم کرتے ہوئے ہندوستان کو سیکولر ملک سے ہندو راشٹر قرار دیا جائے گا۔ بنیاد نام نہاد سیکولر جماعتوں نے فراہم کی۔ اس پر عمارت بی جے پی نے تعمیر کی۔ آنے والے برسوں میں بی جے پی اقتدار سے محروم ہو بھی جائے تو اس کی جگہ لینے والی جماعتیں بھی انہی اصولوں پر قائم رہیں گی۔ جو بی جے پی نے روشناس کروائے ہوں گے۔ ان حالات سے پریشان ہونے کی بجائے ان کا سامنا کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر طرح سے خود کو تیار کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہم جن حالات سے دوچار ہیں وہ بظاہر تو نئے ہیں‘ مگر ہم مسلمان چاہے دنیا میں کہیں بھی رہیں‘ ہر دور میں ایسے ہی حالات سے گزرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کا ابتدائی دوربنی شعب میں مسلمانوں کا پہلا سماجی بائیکاٹ ہو یا ہر صدی میں کسی نہ کسی کے دورِ حکمرانی میں مسلمانوں کے قتل عام کے واقعات جو تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں وہ ہمیں ناسازگار حالات کا سامنا کرنے کیلئے حوصلہ بخشتے ہیں۔ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ، مساجد پر تالے، اذاں اور قرآن پر پابندی، علماء اور حفاظ کو قید وبند کی صعوبتیں، روس میں اسلام پر پابندی، 70برس تک نماز اور قرآن سے دور رکھنے کی کوششیں، اسپین سے ہمارا صفایا، ہماری تہذیب و ثقافت کا نام و نشان مٹادیا جانا، بوسنیا، چیچنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی، القاعدہ کے دہشت گردوں کی تلاش کے نام پر عراق اور افغانستان کے شہری آبادیوں پر وحشیانہ بمباری، کئی نسلوں کا صفایا، چین میں یغور مسلمانوں پر جبر و ستم اور ڈیٹنشن سنٹرس میں ان کی بدحالی، مائنامار میں روہنگیائی مسلمانوں کی تباہی و بربادی۔ کیا ہم اس سے بھی زیادہ بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ گجرات، مرادآباد، بھاگلپور، ممبئی، حیدرآباد، جمشید پور، میرٹھ، ہاشم آباد، جلگاؤں، آسام میں جب جب مسلمانوں پر قیامت صغریٰ ڈھائی گئی تب تب انہیں یہ محسوس ہوا ہوگا کہ دنیا میں اس سے کہیں زیادہ مظالم کہیں اور نہیں ڈھائے گئے ہوں گے۔ جس پر گزرتی ہے وہی اس کرب کو محسوس کرتا ہے۔ جو زندہ بچ جاتے ہیں‘ ان کے پاس ان واقعات کی خوفناک یادیں اور اس کے زخم رہ جاتے ہیں جو کبھی مندمل نہیں ہوتے۔چوں کہ چند برس پہلے تک بھی سوشیل میڈیا کا تصور نہیں تھا۔ ورنہ گزرے ہوئے حالات آج کے حالات سے کہیں زیادہ خوفناک محسوس ہوتے ہیں۔ آج ہر پل کی خبر اور منظر پلک جھپکنے سے پہلے ساری دنیا میں عام ہوجاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے واقعات چاہے کیسے بھی ہوں‘ اس سے کہیں زیادہ خوف کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ آج ہندوستان میں بھی خوف کا ماحو ل پیدا کیا جارہا ہے۔اور یہی ہمارے لئے آزمائش کا دور ہے۔ اس ملک کے دستور نے ہمیں مسلمان کی حیثیت سے رہنے کا حق عطا کیا ہے‘ جس محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اگر ہم کمزور ہیں تو ہم سے یہ حق چھینا جائے گا۔ اگر ہم اپنے مقام پر ڈٹے ہوئے ہوں گے تو ان شا ء اللہ وہ اپنی کوششوں میں ناکام رہیں گے۔ سیکولرزم سے مراد اگر مذہبی رواداری ہے تو مسلمانوں سے زیادہ اور کون مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہ دور ِخالفت میں نہ ہی ان کے بعد مسلم بادشاہت کے دور میں کسی کو مذہب تبدیل کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا گیا۔ چاہے حضور کا دور ہو یا دورِ خلافت یا ان کے تابعین اور طبع تابعین کے دور مسلمانوں کے اخلاق اور کردار کو دیکھ کر قبیلے کے قبیلے مسلمان ہوئے۔ مسلم بادشاہوں کے دور میں کسی کو جبری طور پر یا لالچ دے کراسلام قبول کرنے کی ترغیب کی مثال نہیں ملتی ورنہ 800سالہ دورِ حکمرانی میں بہت کچھ ہوسکتا تھا۔اقتدار کے لئے تاریخی مسجد کو مندر کے نام پر شہید کردینے والے بے غیرت، بے ضمیر لوگ ہندوستان بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے مندروں کو بھول گئے جو مسلم حکمرانوں کی عطا کی گئی جاگیرات پر تعمیر کی گئی۔ اورنگ زیب کے خلاف زہر اگلتے ہوئے اپنی سیاسی دکان چمکانے والے اُن تاریخی حقائق پر مشتمل دستاویزات کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں جو اورنگ زیب کی مذہبی رواداری کی گواہی دیتے ہیں۔ مشہور مورخ رام پنیانی نے سینہ ٹھوک کر اُن مندروں کی فہرست شائع کی ہے جنہیں اورنگ زیب نے جاگیرات بھی عطا کی اور ان کے لئے فنڈس بھی جاری کئے اور بعض مندروں میں آج بھی اسی فنڈ سے گھی کے چراغ جلائے جاتے ہیں۔دنیا کا کوئی بھی سچا مسلمان مذہبی تعصب نہیں رکھ سکتا۔ نہ رنگ، نسل، زبان اور علاقہ واریت کی بنیاد پر وہ کسی سے امتیاز برت سکتا ہے۔ نہ ہی کوئی سچا مسلمان حالات سے خوف زدہ ہوکر سیکولرزم کے نام پر خود کو مذہب سے دور کرسکتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمان اُس وقت تک عزت اور وقار سے جی سکتا ہے جب تک وہ مسلمان بن کر رہے۔ ایسا مسلمان جس کے شر سے پڑوسی محفوظ رہے۔جو وعدے کا پابند ہو، جس کی دیانتداری پر سب کو یقین ہو۔ حق بات کے لئے گھبراتا نہ ہو۔ غیر مسلم کو اپنے فیصلے اس سے کروانے میں کوئی پس و پیش نہ ہو۔ جو معاملہ داری میں صحیح ہو‘ جو اسلام کی صحیح تعلیمات پیش کرتے ہوئے امن اور رواداری کی فضاء کو قائم کرے۔ جو وقت آنے پر اپنے علاقہ پر اپنے ملک پر جان نثار کردے۔ ایک ایسا مسلمان جو سماج کی ضرورت بن جائے، جو جسمانی، ذہنی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے مستحکم ہو‘ تاکہ اس پر نظر ڈالنے سے پہلے ایک سے زائد مرتبہ ان کے دشمن سوچنے کے لئے مجبور ہو۔ مسلمان حالات سے گھبراتا نہیں حالات کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اپنے آپ کا جائزہ لیں‘ خود کو اور مسلمان سماج کو ڈر اور خوف کے ماحول سے باہر نکالیں۔ خوف دلانے والے سیاسی مذہبی قائدین کا بائیکاٹ کرے۔ جانے کیوں فلم شعلے کا ڈائیلاگ یاد آرہا ہے:

جو ڈر گیا وہ مرگیا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے