سمیع اللہ خان نے مضامین لکھنے کے علاوہ اب تک کیا کیا ہے

سمیع اللہ خان نے مضامین لکھنے کے علاوہ اب تک کیا کیا ہے


 ان کا سوال ہی غلط ہے کیونکہ بحیثیت صحافی سمیع اللہ خان کا عملی کام صحافت ہی ہے آج کی مردہ صحافت میں انہوں نے ایسی عملی روح پھونک رکھی ہے کہ ظالم ہندوتوا کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی ہے. کسی مسلمان کا انکاﺅنٹر ہو یا پولیس کسٹڈی میں قتل سمیع اللہ خان نے تفتیشی صحافت کر کے ظالموں کو بے نقاب کیا ہے ابھی حال ہی میں گجرات گودھرا میں ایک مسلمان کو جب پولیس اسٹیشن میں قتل کیا گیا تب سمیع اللہ خان نے گودھرا پہنچ کر جو کام کیا اس کو پڑھ لیجیے اس سے سچائی آشکارا ہوئی ہے اور شہید قاسم کو انصاف میں مدد مل رہی ہے 

 ان کے قلم کے اثرات معمولی نہیں ہیں ان کے ٹوئیٹ اور مضامین کے خلاف کبھی غازی آباد پولیس کا تو کبھی تری پورا پولیس کا نوٹس آتا ہے ابھی بھی ایک کیس ان کے خلاف سپریم کورٹ میں چل رہا ہے جس میں خان صاحب کے لکھنے پر تری پورا کی بھاجپا سرکار نے یو اے پی اے لگا رکھا ہے اگر ان کے قلم میں اثر نہیں ہوتا تو ان کے ٹوئیٹ کرنے پر سپریم کورٹ میں سماعت نہیں ہو رہی ہوتی

 ویسے یہ بات تو ہوئی سمیع اللہ خان صاحب کی صحافت کے متعلق جو کہ ان کا میدان ہے اس میں ان کے عملی کارنامے صرف یہی مذکورہ نہیں بلکہ ہزاروں مسلمانوں میں ان کے قلم سے جو بیداری پیدا ہو رہی ہے وہ بھی مستقل کارنامہ ہے

 اس کے علاوہ انہوں نے ماب لنچنگ ہو یا این آر سی اور سی اے اے کی مخالفت والی تحریک سب میں بھرپور حصہ لیا ہے زمین پر 

 اور جب داعئ اسلام حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب کو گرفتار کیا گیا تو سڑک پر اتر کر احتجاج کرنے کی وجہ سے انہیں پولیس نے حراست میں بھی لیا گھنٹوں پولیس اسٹیشن میں ہراساں کیا پھر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی آج بھئ کیس چل رہا ہے

مولانا سمیع اللہ خان صاحب کے متعلق یہ تو وہ موٹی موٹی باتیں ہیں جو منظرعام پر ہیں ایسا عالمِ حق ایمانی صحافی اور کون ہے اس وقت لیکن قدر کرنے کی جگہ بس ان پر کیچڑ اچھال رہے ہو کتنے افسوس کی بات ہے 

 کم از کم یہ جھوٹ تو مت بولیے کہ وہ صرف ایک کمرے میں بیٹھ کر بس لکھ دیتے ہیں بالکل نہیں وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر لکھتے ہیں عملی نظریاتی صحافت کرتے ہیں جس کا نوٹس پولیس اور کورٹ بھی لیتی ہیں 

 محترم خان صاحب کے خلاف ایسا سفید جھوٹ کا پروپیگنڈہ کرنے والے حسد اور تعصب کا انتہائی مظاہرہ کر رہے ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ وہ جھوٹ بولنے کے گناہ کا بھی ارتکاب کر رہے ہیں. کسی کے خلاف عناد میں اتنا حد سے نیچے نہیں اترنا چاہیے کہ بعد میں خود کو شرمندگی ہو ۔

محمد طاہر گجراتی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے