دین اسلام میں حیا ءکی اہمیت

دین اسلام میں حیا ءکی اہمیت

سفانہ کمال فلاحی
اسلام دین فطرت ہے اور انسان کو ایسے طریقے بتاتا ہے جو اسے کامیابی کی منزل تک پہنچاتے ہیں بلکہ ایسے اخلاق سے مزین کرتا ہے جو اسے پاکیزہ اور امن و سکون والی زندگی گزارنے کا سلیقہ عطا کرتے ہیں ۔
حیاء اسلامی تعلیمات کا ایک اہم جزء ہے ۔ دین میں اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ نبی ؐ نے اسےایمان کا جزو قرار دیا اور فرمایا : الحیاء من الایمان (حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے )۔ حیاء اور ایمان ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ جس شخص میں ایمان ہوتا ہے اس میں حیاء بھی لازمی ہوتی ہے اور جس میں حیاء نہیں ہوتی اس میں ایمان کی بھی کمی ہوتی ہے، گویا حیاء ایک مومن کی صفت لازمہ ہے ۔
آج ہم نام نہاد ’’روشن خیالی‘‘ کے ایسے تاریک دور سے گزر رہے ہیں جس میں عمومی طور پر انسان اپنے دینی ، روحانی اور لطیف جذبات کو نہاں خانۂ دل کے کسی ویران گوشے میں ڈال کر ہوائے نفس کے گھوڑے پر سوار مادیت پرستی کی طرف رواں دواں ہےاس نے لذت اور خواہشات بھری زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھ لیا ہے اور تکمیل خواہش کو اپنی زندگی کی منزل سمجھ لیا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ خواہش نفس پوری ہونی چاہیے خواہ جیسے بھی ہو ، چنانچہ جنسی خواہش جو انسان کی خواہشات نفسانیہ میں سے ایک بڑی خواہش ہے اس کو پورا کرنے میں آج کا انسان کچھ اس طرح سرگرداںہے کہ شرم و حیاء کی صفت سے تہی دامن ہوچکا ہے ، عریانی اورفحاشی کا ایک طوفان ہے جو اہل کفر کی عشرت گاہوں سے اُٹھا ہے اور مسلم ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیتا چلا جارہا ہے ۔ موبائل ، ٹی وی ، وی سی آر، ویڈیو سی ڈیز، ڈش، کیبل ، انٹرنیٹ وغیرہ ایسے شیطانی ذرائع ہیں جنہوں نے کفر کی اس ثقافتی یلغار کو مسلمانوں کے گھر گھر میں پہنچا دیا ہے ۔ چنانچہ بے حیائی اور بے اخلاقی کے وہ مناظر جو کبھی باطل کا خاصہ تھے آج مسلمانوں میں بھی ترویج پاچکے ہیں ۔
کفار کی تہذیب و تمدن کو اپنا کر اور ان کے میڈیا کو دیکھ دیکھ کر ہماری نوجوان نسل ایسی رومانوی دنیا میں کھو گئی ہے کہ وہ اپنی حقیقت ہی بھول گئی ہے ۔ یہ وہ قوم ہے جس کے نوجوان کبھی ذکر اللہ کی مستی، سجدوں کی لذت، اللہ تعالیٰ کے خوف ، قیام اللیل کے شوق اور علم کےذوق سے آشنا تھے ۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبّر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارادوسرے وقت کی ادبی کتابوں میں لیلیٰ مجنوں جیسے کردار اِکاّ دُکاّ بطور غیرت نظر آتے تھے لیکن آج کے اخبارات میں لڑکیوں کے گھر سے فرار ہونے ، غیر مذاہب لڑکے لڑکیوں سے شادی کرنے کے واقعات کثرت سے ملتے ہیں ۔ مخلوط تعلیم گاہوں میں طلباء و طا لبات کے مابین پروان چڑھتے ناجائز رشتے اور مختلف تقریبات میں ہونے والی محافل موسیقی اور غیر شرعی رسمیں ہماری قوم کی مجموعی اخلاقی حالت کی عکاسی کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں جس میں ایک نعمت جوانی ہے اورجوانی کے ایام زندگی کے بہترین ایام ہیں ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جوانی کے سلسلے میں پوچھ گچھ کرے گا۔
جوان توانا مومن اللہ تعالیٰ کو بے حد محبوب ہے۔ نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے : جوان کی ایک رکعت بوڑھے کی دس رکعت سے افضل ہے اور جوان کی توبہ کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے ۔
لہٰذا جوانی کو غنیمت جان کر اس میں خدا تعالیٰ کو راضی کرنے اور منانے میں گزارنا چاہیے تاکہ یہ جوانی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوجائے۔
مگر افسوس ہے کہ ہماری قوم کے بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی جوانی کو موج مستی اور دیگر خرافات میں صرف کرتے ہیںاور اللہ کی دی ہوئی نعمت کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہے ۔ ہم جنس پرستی، گے کلچر معاشرے میں تیزی سے فروغ پارہے ہیں ۔ اس کا سبب مسلمانوں کی اپنے دین سے ناواقفیت اور احکام شریعت سے بے توجہی اور گریز کرنا ہے ۔ مزید مغربی تہذیب کو اس کے دنیوی و اخروی نقصانات کو سمجھے بغیر قبول کرلینا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کو اصلاح کے لئے ان کی غلط حرکات کا انجام بتایا جائے اور اُن کے اندر قوت احساس کو بیدار کیا جائے تاکہ وہ تباہی و بربادی والے راستے کو چھوڑ کر حیا ء اور پاکدامنی کو اپنا شعار بنائیں اور عفت و عصمت والی زندگی گزارنے والے بن جائیں ۔
حیاء اور پاکدامنی کی اہمیت:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطری خوبیوں سے مالا مال کیا ہے ۔ ان خوبیوں میں سے ایک خوبی شرم و حیاء ہے ۔ شرعی نقطۂ نظر سے شرم و حیاء اس صفت کو کہتےہیں جس کی وجہ سے انسان قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتا ہے ۔ دین اسلام نے حیاء کی اہمیت کو خوب اُجاگر کیا ہے تاکہ مومن با حیاء بن کر معاشرے میں امن و سکون پھیلانے کا ذریعہ بنے ۔ نبی کریمؐ نے ایک مرتبہ ایک انصاریؓ کو دیکھا کہ وہ اپنے بھائی کو سمجھا رہے تھے کہ زیادہ شرم نہ کرو، آپؐ نے سنا تو ارشاد فرمایا : فَاِنَّ الْحَیَاءَ مِنَ الْاِیْمَانِ (متفق علیہ ، مشکوۃ) ’’پس حیاء ایمان کا جزء ہے ۔‘‘ایک دوسری حدیث میں ہے کہ :’’اَلْحَیَاءُ لَا یَاتِیْ اِلَّا بِخَیْرٍ‘‘ ’’حیاء خیر ہی ہوتی ہے ۔ ‘‘ گویا انسان جس قدر باحیاء ہوگا اتنا ہی اس میں خیر بڑھتا جائے گا ۔ حیاء ان صفات میں سے ہے جن کی وجہ سے انسان آخرت میں جنت کا حقدار بنے گا ۔ نبی کریمؐ نے فرمایا : ’’الْحَیَاءُ مِنَ الْاِیْمَانِ وَ الْاِیْمَانُ فِی الْجَنَّۃِ وَ الْبَزَاءُ مِنَ الْجَفَاءِ وَ الْجَفَاءُ فِی النَّارِ‘‘( احمد و ترمذی)’’ حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کا سبب ہے ۔ بے حیائی جفا ہے اور جفا جہنم میں جانے کا سبب ہے ۔‘‘حیاء کی وجہ سے انسان کے قول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوجاتا ہے لہٰذا باحیاء انسان مخلوق کی نظر میں پُرکشش بن جاتا ہے اور پروردگار عالم کے یہاں بھی مقبول ہوجاتا ہے ۔ قرآن مجید میں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ حضرت شعیبؑ کی دُختر جب حضرت موسیٰ کو بلانے کے لئے آئی تو اس کی چال میں میانہ روی اور شائستگی تھی، اللہ رب العزت کو یہ شرمیلا پن اتنا اچھا لگا کہ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ فرمایا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’فَجَآءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِى عَلَى اسْتِحْيَآءٍ ‘‘ (القصص:۲۵)
سوچنے کی بات ہے کہ جب باحیاء انسان کی رفتار و گفتار اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے تو اُس کا کردار مقبول و محبوب ہوگا ۔ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: اِذْ لَمْ تَسْتَحْی فَاصْنَعْ ماَ شِئْتَ (رواہ البخاری) ’’جب شرم نہ رہے تو جومرضی کرے ۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ بے حیاء انسان کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند نہیں ہوتا ، اس کی زندگی شتر بے مہار کی طرح ہوتی ہے، حیاء ہی وہ وصف ہے جس کی وجہ سے انسان پاکدامنی اور پاکیزگی کی زندگی گزارتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ حیاء اور پاکدامنی لازم و ملزوم ہیں ۔
پاکدامنی قرآن مجید کی نظر میں :
(۱)اجر عظیم کا وعدہ : ’’وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِـظَاتِ ‘‘ (الأحزاب:۳۵) ’’ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور عورتیں ، اُن کے لئے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کررکھا ہے ۔‘‘
(۲)فلاح کامل کی خوشخبری: ’’قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ.....وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ‘‘ ’’فلاح پا گئے وہ مومن ....جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔‘‘
پاکدامنی حدیث پاک کی نظر میں :
نبی کریمؐ نے ایک مرتبہ قریش کے نوجوانوں سے فرمایا :’’یَا شَبَابَ قُرَیْشٍ اِحْفَظُوْا فُرُوْجَکُمْ لاَ تَزْنُوْا اَلاَ مَنْ حَفِظَ فَرجَہُ فَلَہُ الْجَنَّۃ‘‘’’اے قریش کے نوجوانو! اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو، زنا نہ کرو ، جو اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے گا اُس کے لیے جنت ہے ۔‘‘
پاکدامنی پر محشر میں اکرام :
حدیث پاک میں آیا ہےکہ قیامت کے دن سات آدمی عرش کے سائے میں ہوں گے جس دن عرش کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہیں ہوگا ۔ ان سات خوش نصیبوں میں ایک پاکدامن انسان ہوگا (بخاری) اندازہ لگائیں کہ پاکدامنی والی صفت کی اللہ تعالیٰ کے یہاں کتنی قدر ہے ۔
احادیث میں پاکدامنی کی دُعائیں :
پاکدامنی وہ اعلیٰ صفت ہے جس کو نبیؐ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے ۔آپ ؐ تو اپنی ذات میں معصوم تھے لیکن عفت و پاکدامنی کی زندگی سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ دوسرا یہ کہ امت کی تعلیم کےلئے آپ نے یہ دعائیں مانگیں ۔ چند ایک دعائیں درج ذیل تھیں : (۱)’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَسْئَلُکَ الْھُدیٰ وَالتُّقیٰ وَ الْعَفَافَ وَ الْغِنیٰ ‘‘(مسلم) ’’اے اللہ میں تجھ سے ہدایت ،پرہیزگاری ، پاکدامنی اور غنی کا سوال کرتا ہوں ۔‘‘ (۲)’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ مُنْکرَاتِ الأَخْلاَقِ وَ الْأَعْمَالِ وَ الْأَھْوَاءِ‘‘ (ترمذی) ’’ اے اللہ میں ناپسندیدہ اخلاق اور اعمال و خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔‘‘
بے حیائی کی مذمت قرآن میں:
قرآن پاک میں بے حیائی کے لئے فحش کا لفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّىَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ‘‘ (الأعراف:۳۳) ’’اے پیغمبر ! کہہ دیجیئے بے شک اللہ تعالیٰ نے برائی کے سارے کام کو جو کھلے ہوں یا چھپے منع فرمایا ہے ۔‘‘
بے حیائی بد نظری کا سبب:
انسانی آنکھیں جب بے لگام ہوجاتی ہیں تو اکثر فواحش کی بنیاد بن جاتی ہیں، اس لیے محققین کے نزدیک بد نظری ’’ام الخبائث‘‘ کے مانند ہے ۔ ان دوں سوراخوں سے ہی فتنے کے چشمے ابلتے ہیں اور ماحول و معاشرے میں عریانی و فحاشی کے پھلنے کا سبب بنتے ہیں ۔ یہ بھی اسلامی تعلیمات کا حسن و جمال ہے کہ ہر مومن کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے ۔
اصولی بات ہے کہ برائی کو ابتداء ہی میں ختم کردو ۔"Nip the evil in the bud'' چنانچہ ارشاد باری ہے :’’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّواْ مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُواْ فُرُوجَهُمْ ذٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ إِنَّ اللّٰهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ‘‘(النور:۳۰) اس آیت میں مومنین کو ادب سکھایا گیا ہے جن چیزوں کو دیکھنا ان کے لئے جائز نہیں اُن سے اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ غض بصر ابتداء ہے اور حفاظت فرج انتہا ء ہے، گویا یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ اگر اسلام نے مردوں کو واشگاف الفاظ میں نگا ہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے تو عورتوں کو بھی فراموش نہیں کیا ۔ ان کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ ‘‘(النور:۳۱)’’ایمان والیوں سے کہہ دیجیئے اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔‘‘
نظر کی حفاظت کے متعلق احادیث:
(۱) ’’اَلْعَیْنَان زِنَا ھُمَا النَّظْرُ‘‘( مسلم)’’آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ۔‘‘(۲) ’’غُضُّواْ أَبْصَارَکُمْ وَاحْفَظُواْ فُرُوجَکُمْ ‘‘ (الجواب الکافی) ’’اپنی نگاہوں کو نیچی رکھو اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو ۔‘‘
بد نظر ی کے معاشی نقصانات :
(۱) بے برکتی :تقویٰ و پرہیزگاری کی وجہ سے برکتوں کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالأَرْضِ‘‘ (الأعراف:۹۶) ’’ اگر یہ بستیوں والے ایمان لائیں اور تقویٰ اختیار کریں تو ہم اُن پر زمین و آسمان کی برکتیں کھول دیں گے ۔‘‘(۲) رزق میں تنگی:ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِى فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً ‘‘(طہٰ :۱۲۴) ’’جس شخص نے میری یاد سے منھ موڑا اُس کے لیے رزق میں تنگی کردی جائے گی ۔‘‘ (۳) کامیابی کے راستے بند : بد نظری کرنے والے کا ہر کام ادھورا رہتا ہے ، سارا دن کام کرنے کے باوجود اسے اپنے کام سمٹتے نظر نہیں آتے ۔
(۴)مصائب و آلام :’’وَمَآ أَصَابَكُمْ مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُواْ عَن كَثِيرٍ‘‘( الشوری:۳۰) ’’تمہیں جو کچھ بھی مصیبت لاحق ہوتی ہے وہ تمہاری اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ بہت ساری چیزوں سے درگزر فرما دیتا ہے ۔‘‘(۵) خشک سالی :اگر کسی آبادی میں فواحشات عام ہوجائیں تو کہیں بارش بند ہوتی ہے اور کہیں پانی کی سطح زمین میں کم ہوجاتی ہے ۔ ہر طرف مہنگائی کا دور دورہ ہوتا ہے ۔
بدنظری کے معاشرتی نقصانات :
(۱)آباد گھر برباد (۲)ذلت و رسوائی : قرآن مجید میں حضرت لوطؑ کی قوم کے بارے میں آیا ہے :’’فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ‘‘(الحجر:۷۴)’’ ہم نے اُس کے اوپر کو اُس کے نیچے کردیا اور اُس پر پتھروں کی بارش کردی ۔‘‘ (۳) رشتے ناطوں میں دُوری
بدنظری سے طبعی نقصانات :
(۱) سکون دل سے محرومی (۲)عقل میں فساد(۳)دل ، بدن کمزور(۴)چہرے کا نور ختم (۵)عمر میں کمی (۶)کثرت اموات (۷) طاعون کا پھیلنا (۸)خطرناک بیماریوں کا پھیلنا (۹)قوت حافظہ کی کمزوری
بدنظری سے دینی و روحانی نقصانات:
(۱)برائی کا احساس ختم ہونا(۲)گناہوں کی کثرت (۳)غیرت ختم ہونا (۴)توفیق توبہ سلب ہوجانا(۵)قلب میں سختی(۶)طاعات سے محرومی (۷)یادِ الٰہی سے غفلت (۸)لعنتِ نبوی کا مستحق (۹ )رحمت خداوندی سے مایوسی (۱۰)غیرت خداوندی کا موجب (۱۱) برے خاتمہ کا ڈرآج کے دور میں انٹرنیٹ بے حیائی کے فروغ کا آسان اور مؤثر ذریعہ ہے ۔ انٹرنیٹ میں برائیوں کا عنصر بہت نمایاں ہے ، چنانچہ کوئی بھی شخص کسی دسرے کے علم میں لائے بغیر ہر طرح کا مواد آسانی سے حاصل کرسکتا ہے ۔ یاد رکھیئے کہ اللہ کی طرف سے دو فرشتے ہم پر معمور ہیں جو ہمارے ایک ایک عمل کو لکھ رہے ہیں ۔ اللہ کو حاضر و ناظر جانیں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جو اللہ کو ناراض کردے ۔
بد نظری کا علاج اور اس کا سد باب:
قرآن مجید کی روشنی میں :بد نظری سے بچنے کے لئے قرآن مجید کی روشنی میںسات نسخے درج ذیل ہیں :
(۱) غص بصر: ’’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّواْ مِنْ أَبْصَارِهِمْ ‘‘(النور:۳۰)
(۲)نکاح میں جلدی :’’فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ‘‘(النساء:۳)
(۳)اللہ کا ذکر:’’إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ ‘‘ (الاعراف:۲۰۱)
(۴)اللہ کو حاضر ناظر جانیں :’’أَلَمْ يَعْلَم بِأَنَّ اللّٰهَ يَرَىٰ‘‘ (العلق:۱۴)
(۵)نفس کے خلاف مجاہدہ :’’وَالَّذِينَ جَاهَدُواْ فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ‘‘ (العنکبوت : ۶۹)
(۶)آنکھ کو اللہ کی امانت تصور کرنا :’’إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا ‘‘ (النساء:۵۸)
(۷)خشیت الٰہی : ’’أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُواْ أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ ‘‘ (الحدید:۱۶)
سب سے بڑی احتیاط یہ ہے کہ جن مواقع پر بد نظری کا امکان ہو اُن سے گریز کرے۔ شادی بیاہ کے موقع پر مخلوط محفلوں میں ہرگز نہ جائے۔ گھر میں اجازت لے کر جائے۔
مخلوط تعلیم آج کل بہت عام ہوتی جارہی ہے جس کے برے اور منفی اثرات بھی کھُل کر سامنے آرہے ہیں۔ تجربات سے بھی یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ :’’اِنَّھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعَھِمَا ‘‘ ’’ ان کے منافع اُن کے نقصانات سے زیادہ ہیں۔‘‘ مخلوط تعلیمی اداروں کے طلباء و طالبات میں سب سے پہلی اور بنیادی تبدیلی یہ آتی ہے کہ غیر محرم سے گفتگو کرنے کی جھجک ختم ہوجاتی ہے ۔
فیشن پرستی:
جب لڑکی لڑکا ایسے ماحول میں رہیں جہاں غیر محرم کی تجسس بھری نگاہیں اس پر پڑیں تو اُس کا جی چاہتا ہے کہ لوگ میرے حسن وجمال سے متاثر ہوں ، تعریفیں کریں ۔ نتیجہ میں لڑکے اور لڑکیاں خدا پرستی سے دُور ہوجاتے ہیں ۔
حجاب کا حکم :
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنا کر عقل کا نور عطا کیا ہے ۔ اسی عقل سلیم کی وجہ سے حیوان اور انسان میں بنیادی فرق ہے ۔ کھانا، پینا، گھر بنانا، اتحاد و اتفاق، ذکر و عبادت اس میں جانور انسان سے پیچھے نہیں ہیں ، البتہ ایک بات ایسی ہے جس میں انسان کو حیوان پر فوقیت حاصل ہےاور وہ شرم و حیاء والی صفت ہے ۔ اسی صفت کی وجہ سے انسان پاکدامنی کی زندگی گزارتا ہے اور اپنے مالک کی قدم قدم پر فرمانبرداری کرتا ہے ۔
شرم و حیاء والی صفت کا تقاضا ہے کہ انسان دوسروں کے سامنے آنے کے لئے اپنی شرمگاہ چھپائے چنانچہ تاریخ انسانیت اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ شجر ممنوعہ کے کھانے سے حضرت آدمؑ اور ان کی زوجہ کی پوشاک اتار لی گئی ، دونوں نے فوراً اپنے جسم کو پتوں سے ڈھانپ لیا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’ وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ‘‘(الأعراف:۲۲) ’’ اور وہ دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے۔‘‘ جسم کے پوشیدہ اعضاء کو چھپانے کے لئے عربی میں عورت اور اردو ، فارسی میں ستر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ اولاد آدم پتھر کے زمانے سے ہی اپنے ستر کو چھپاتی چلی آرہی ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عقل و شعور میں پختگی آئی اور انسان نے معاشرتی آداب و اخلاق کو اپنایا تو اُس کے لباس میں شائستگی آتی گئی چنانچہ تمام ادیان میں مہذب لباس پہننے کی تعلیم دی گئی ہے ۔ معلوم ہوا کہ اعضاء مستورہ کو چھپانا طبعی، عقلی، شرعی ہر لحاظ سے لازمی ہے ۔ تمام انبیاء کرام کی شریعتوں میں یہ فرض رہا ہے لیکن کیا ہم کو احساس ہے کہ اب ہم اس دور میں زندگی جی رہے جہاں لوگ ترقی کے نام پر پیچھے لوٹ رہے ہیں ۔
دین ا سلام مکمل ضابطہ حیات ہے لہٰذا دین اسلام نے حیاء کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے ،حیا ء کا تقاضا ہے کہ معاشرےمیں عریانی و فحاشی کو یکسر ختم کردیا جائے ۔
اسلام نے زنا کو حرام قرار دیا تو فرمایا :’’لاَ تَقْرَبُوْا الزّناَ ‘‘’’ زنا کے قریب مت جاؤ۔‘‘ شریعت محمدی میں جن کاموں کو حرام قرار دیا گیا ہے اُن کے ذرائع کو بھی ممنوع فرما کر شیطان کے داخلے کا ہر سوراخ بند کردیا ہے ۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ بے پردگی ہی زنا کا سبب ہوتی ہے اس لیے دینِ اسلام نے عورت کو حجاب میں رہنے کا حکم دیا ۔
معارف القرآن میں مفتی محمد شفیعؒ فرماتے ہیں کہ حجاب سے متعلق قرآن میں سات آیات اور حدیث میں ستر احادیث ہیں ۔
آج کل کے سائنسی دور میں ایک طرف تو مادی ترقی اپنے عروج پر ہے اور دوسری طرف عریانی و فحاشی کا سیلاب تلاطم خیز ہے۔ فرنگی تہذیب کے اثرات نے فیشن پرستی اور بے حیائی کو عام کردیا ہے ۔ یونیورسٹی وکالج کی تعلیم یافتہ خواتین نے حجاب کو غیر اہم سمجھنا شروع کردیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ حجاب کی اہمیت و فرضیت کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیا جائے۔
قرآن مجید سے دلائل :
(۱)وَقَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأ ُولَىٰ (الأحزاب:۳۳) ’’ اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور نہ دکھلاتی پھرو جیسے کہ جاہلیت کے دور میںدکھلانے کا رواج تھا ۔‘‘ (۲) ’’يٰأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل ِلأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلاَبِيبِهِنَّ ‘‘ (الأحزاب:۵۹) ’’اے نبیؐ اپنی ازواج سے اور بیٹیوں سے اور مسلمان عورتوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنے اوپر پردہ ڈال لیا کریں ۔
حدیث پاک سے دلائل :
حدیث پاک میں آیا ہے :’’المرأۃ عورۃ‘‘ ’’ عورت چھپانے کی چیز ہے۔ ‘‘ دوسری حدیث میں ہے کہ عورت چھپانے کی چیز ہے جب گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اُسے جھانکتا ہے ۔
اسلام نے مرد و عورت دونوں کو حکم دیا ہے کہ غیر محرم کو نہ دیکھیں ، دونوں ایک دوسرے سے گفتگو نہ کریں اگر گفتگو کی ضرورت پیش آجائے تو لوچ دار آواز میں گفتگو نہ کریں ۔
پردے کے متعلق تفصیلی احکامات جاننے کے لئے سورۃ الاحزاب اور سورۃ النور کا مطالعہ ضرور کریں ۔
معزز قارئین! جب ہم تنہائی میں ہوتے ہیں تو بڑے بے فکرے ہوجاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو فرشتے ہم پر معمور ہیں جو ہماری ہر بات ، ہر عمل نو ٹ کر رہے ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کو حاضر و ناظر جانیں اور ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے اللہ ناراض ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے شر سے محفوظ رکھے ۔آ مین
(شائع شدہ، ماہانہ نقوش راہ ماہ فروری)


#Hijabisourright
#hijab
#hijabrow

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے