مرحوم رئیس صدیقی ، خانوادہء سیماب اکبر آبادی کے ایک چشم و چراغ سے ایک یادگار ملاقا


بقلم : ڈاکٹر خلیل تماندار (انٹاریو ،کینیڈا)

غالبا" یہ کوئی چار دہائیوں  قبل کی بات ہے ،

ٹی این میڈیکل کالج نائر اسپتال ممبئی میں میڈیکل کالج کے سالانہ جریدے 

" ٹونامک " کے ایک جزو کی ادارت راقم السطور کے ذمے تھی ، دریں اثناءفن طب کی ٹریننگ یا انٹرن شپ کی تکمیل بھی زیر فکر تھی جس میں شہر ممبئی کے مضافاتی رہائشی علاقوں میں خصوصا" چیتا کیمپ مانخورد ٹرامبے اور شیواجی نگر گونڈی  میں کئی ہفتوں  پر مشتمل طبی خدمات انجام  دینا انٹرن شپ کا گویا ایک  جزو لازم تھا ، جس کے بغیر میڈیکل کالج سے  ایم بی بی ایس کی انٹرن شپ کی تکمیل نہیں  ہوسکتی تھی اور  انٹرن شپ  مکمل نہ ہونے کی صورت میں  ممبئی  یونیورسٹی  سے ایم بی بی ایس کی ڈگری  بھی  تفویض نہیں کی جا سکتی تھی ، بہرحال حاجی علی سے   شیواجی نگر تک کئی گھنٹوں  کا سفر اوران طبی سینٹرز پر  وقت پر پہنچنا یقینا" ایک دشوار گزار مرحلہ تھا اور اسے  کئی ہفتوں تک  مستقل انجام دینا اس دور میں جوئے شیر لانے کے مصداق تھا  ، لیکن اس طبی سینٹر میں سب سے کٹھن و مشکل ترین معاملہ ( ایک فرضی نام ) عبدل بھائی کا سامنا کرنا تھا ،عبدل بھائی دراصل پی ایس ایم  (  پروینٹیو ایند سوشل  میڈیسن)  ڈپارٹمنٹ کے ایک کلرک تھے اور ان طبی مراکز پر انٹرن شپ کرنے والے تمام ڈاکٹروں کی حاضری لینے پر مسئول و نگراں تھے ، آدمی تو وہ بہت اچھے تھے لیکن مزاجا" انتہائی سخت قسم کے   انسان تھے کہ اغیار کے سامنے اپنوں پر  غیر ضروری غصے کا  اظہار  کرنے کو گویا  وہ ایک فن سمجھتے تھے اور چند منٹ کی تاخیر پر  بھی حاضری کے  رجسٹر پر لال نشان لگانے کو اپنی  فتح و کامرانی گردانتے تھے ، پہلے ہی  دن سے راقم کو  موصوف سے یگانگت  ذہنی ہم آہنگی  و انسیت پیدا  نہیں ہو سکی تھی لیکن صبر کے گھونٹ پیتے ہوئے ہر کوئی انھیں برداشت کرتا تھا کیوں کہ موصوف  سے  شیواجی نگر میڈیکل  سینٹر میں  انٹرن شپ و  ٹریننگ کرنے والوں   کے معاملات براہ راست  وابستہ تھے ، بہرکیف دن گزرتے رہے اور سب ان کی ناقابل  برداشت باتوں کو ہنستے  و کھیلتے  سہتے رہیں ،حسن اتفاق کہ ممبئی میں مقیم ناچیز کے برادر معظم مرحوم  بشیرالدین  شیخ  سے وہ متعارف تھے لہذا برادر خورد کے توسط سے ناچیز تک عبدل بھائی کا ایک پیغام پہنچا کہ خلیل مجھے نصیحت کرتا ہے کہ مزاج میں نرمی پیدا کریں ،لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں اور  لوگوں سے حسن سلوک کا مظاہرہ کریں وغیرہ  وغیرہ  ،

خلیل سے کہہ دیجئے کہ میں دیکھوں گا کہ وہ کس طرح اپنی انٹرن شپ مکمل کرتا ہے ، اس طبی سینٹر میں میرے ذریعے لی گئی  حاضری کے بغیر انھیں انٹرن شپ کی تکمیل کا 

سر ٹفکیٹ نہیں  ملے گا اور نہ ہی یونیورسٹی سے ڈگری حاصل ہو سکے گی ، برادر  معظم بھی فکر مند  تھے  کہ کسی سے الجھے بغیر  خاموشی سے اپنا کام کرتے ہوئے گزر جائیں ، بہرحال وہ گھڑی شاید قبولیت کی رہی ہوگی کہ  دل کی گہرائیوں سے  بارگاہ رب العزت میں یہ کلمات و صدا بلند ہوئی کہ اے اللہ سبحانہ قدوس  ایسی کوئی سبیل پیدا فرمادے کہ اس شخص ( عبدل بھائی )  کی دستخط  اور حاضری لئے بغیر ناچیز کی انٹرن شپ  کی  اس میڈیکل سینٹر سے تکمیل ہوجائے ،بہرکیف جب اللہ کی مدد آتی ہے تو ساری مشکلات آسانیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں دوسرے دن ناچیز شیواجی نگر گوونڈی  میڈیکل سینٹر نہ جاتے ہوئے براہ راست پی ایس ایم شعبے / ڈپارٹمنٹ  میڈیکل کالج  کی سربراہ و سینئر پروفیسر کے چیمبر میں موجود تھا چوں کہ راقم تحریر  میڈیکل کالج کے جریدہ کا ایڈیٹر رہ چکا تھا لہذا اکثر و بیشتر سینئر پروفیسرز  حضرات سے براہ راست   مراسم و روابط تھے اور  اس دن پی ایس ایم شعبے کی  صدر  سے ناچیز مخاطب تھا ، دوران گفتگو یہ موضوع زیر بحث آیا کہ شیواجی نگر  گونڈی میں اکثریت طبقہ اردو زبان سے واقف ہے اور اس طبی سینٹر پر عموما" مختلف بیماریوں جیسے پولیو ،ڈیپتھیریا ،ٹائیفائڈ ،

ملیریا ،ہوپنگ کف،ڈائریا وغیرہ کے متعلق ہندی ،مراٹھی ،تیلگو و انگریزی جیسی مختلف زبانوں میں بہت سا مواد و پوسٹرس ہیں لیکن  اردو زبان میں ایک بھی پوسٹر   موجود  نہیں ہے ' کیوں نہ ہم اس طبی سینٹر میں اردو زبان میں چند پوسٹرس تیار کر لیں ، سینئر پروفیسر و ڈپارٹمنٹ چیف  نے کہا کہ اگر تم اس کام کی ذمےداری لے سکتے ہیں تو تمہاری شیواجی نگر گونڈی  کی چھ ہفتوں کی  مکمل پوسٹنگ کو منسوخ  کرتے ہوئے ان اردو زبان کے پوسٹرس کو اس کا بدیل سمجھا جائے گا اور کل سے آپ  اس مشن پر کام کرنا شروع کردیں، 

اللہ کی مدد آپہنچی  تھی اور محض اردو زبان میں شیواجی نگر گونڈی  کے اس طبی سینٹر میں عوام الناس کے لئے اردو پوسٹرس تیار ہو جائیں اور عبدل بھائی سے کسی طرح نجات بھی حاصل ہوجائے اس نیت سے اس  مہم پر ناچیز مستعد ہوگیا ،

انتہائی خوبصورت انداز میں اب کون ان پوسٹرس کو تیار کرسکتا ہے ؟ اس سوال پر اس دور کے چند مخلص و ہمدرد احباب و متعلقین کے توسط سے  جو تجویز سامنے آئی اور اس ضمن میں جن صاحب سے  ناچیز کا رابطہ ہوا وہ ماہر و معروف آرٹسٹ سائن بورڈ پینٹرو فنکار عالیجناب رئیس صدیقی صاحب تھےجنھوں نے اردو زبان کی محبت  میں ناچیز کے ساتھ  نہ صرف مکمل تعاون و مساعدہ فرمایا بلکہ  بہت ہی کم وقت میں ایک درجن سے زائد بہترین پوسٹرس تیار کرکے ناچیز کے حوالے کر دیا  ،اس طرح اردو زبان کی خدمت کو اللہ جل جلالہ نے  اردو سے محبت کرنے والے سے  ملاقات کا ایک سبب  بھی بنا دیا ،  سبحان اللہ ،  اس نعمت غیر مترقبہ پر ناچیز جس قدر بھی اللہ کا شکر ادا کرے کم ہوگا ،بے شک ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء

بعد ازیں علم ہوا کہ وہ عبدل بھائی ناچیز کو شیواجی نگر گونڈی کے اس میڈیکل سینٹر  پر مستقل  تلاش کرتے رہے اور راقم کے نام کے ساتھ سرخ نشان بھی  لگاتے رہے لیکن ناچیز   چند ماہ  ہی میں اپنی انٹرن شپ مکمل کرچکا تھا اور ممبئی یونیورسٹی  سے ڈگری لے کر عملی زندگی میں قدم بھی رکھ چکا تھا ،واللہ اعلم وہ عبدل بھائی اب بقید حیات ہیں  یا نہیں لیکن راقم الحروف موصوف کے حق میں دعاگو ہے اور انھیں اپنا محسن سمجھتا ہے کہ ان کے توسط سے برادر محترم رئیس صدیقی جیسے ایک عظیم انسان سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی ! سچ ہے 

خدا کی دین کا موسی سے پوچھئے احوال 

کہ آگ لینے کو جائیں، پیمبری مل جائے 

یہ واقعہ ہے کہ راقم تحریر برادر رئیس صدیقی کی خدمت میں اردو زبان میں مختلف پوسٹرس بنانے کی نیت سے حاضر ہواتھا لیکن اردو ادب کے ایک عظیم شاعر  فصیح الملک حضرت داغ  دہلوی کے معروف شاگرد رشید اور جانشین سیماب اکبر آبادی( متوفی 1951ء )  کے پوتے '

اردو زبان میں عالمی سظح کے ایک معروف  جریدے 

 " شاعر " کے ایڈیٹر  ادیب  و شاعر اعجاز صدیقی ( متوفی 1978 ء)  کے صاحب زادے سائن بورڈ کے معروف آرٹسٹ مرحوم رئیس صدیقی سے ملاقات کا سبب بن جاتی ہے 

سیماب اکبر آبادی ہی کے الفاظ میں 

عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے  دو انتظار میں 

سچ ہے چار دن گزار کر ہمارے مرحوم رئیس صدیقی بھی 2013 ء میں اپنی خوشگوار یادوں کو چھوڑ کر رخصت ہوگئے اور اپنے دادا مرحوم  سیماب اکبر آبادی کے الفاظ میں  زندگی کی حقیقت بیان کرتے چلے گئے 

کہانی ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی 

کہ آنکھیں  بند ہوں اور آدمی افسانہ ہوجائے 

اللہ پاک مرحوم کی قبر کو نور سے بھر دےاور ان پر اپنا خصوصی فضل و کرم فرمائے 

( آمین یا رب العالمین ) 

بقلم : ڈاکٹر خلیل الدین شجاع الدین تماندار 

ایم بی بی ایس (ممبئی ) 

ایم سی پی ایس 

سابق فزیشن  ،حرم مکی شریف  ،مکہ مکرمہ

مقیم : انتاریو ' کینیڈا 

ای میل : khaliltumandar123@gmail.com

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے