سیکولرکے نام پر دھوکہ کب تک؟


 سیکولرکے نام پر دھوکہ کب تک ؟

سیکولرکے نام پر دھوکہ کب تک؟

از : محمد عظیم فیض آبادی خادم دارالعلوم النصرہ دیوبند 9358163428

جب جب لوک سبھا یا ودھان سبھاکا (مرکزی یا صوبائی) الیکشن آتاہے تو ایک لفظ کثرت سے لکھا پڑھا بولااور سناجاتا ہےکہ  

" سیکولر کو ووٹ دیں، سیکولر کو جتائیں،  سیکولر کی حمایت کریں،  سیکولر طاقتوں کو مضبوط کریں اور فرقہ پرست کو ووٹ نہ دیں یا فرقہ پرستوں کو اقتدار سے بے دخل کریں، اور فرقہ پرست طاقتوں کا جم کر مقابلہ کریں ، فرقہ پرستوں کے مقابلہ میں سیکولر طاقتوں کو ووٹ دیں "

   یہ لفظ کثرت سے سیاسی اور سماجی گلیاروں میں گردش کرتا ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ فرقہ پرست کون ہے اور سیکولر کون؟ فرقہ پرست کسے کہتے ہیں اور سیکولر کسےکہتے ہیں؟ سیکولر کی تعیین یا فرقہ پرستوں کی شناخت کوئی بھی صاف صاف نہیں کرتا کہ عوام کھل کر اس کو ووٹ دیں، اس کی حمایت کریں ، اس لئے بھولی بھالی  عوام اپنی اپنی فہم کے اعتبار سے ووٹ کرتی ہے جو جس کو سیکولر سمجھ پاتا ہے اسکو ووٹ کرتا ہےجس کا نتیجہ مسلم ووٹوں کی تقسیم میں سامنے آتا ہے ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے

    اسی کے ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ فرقہ پرستی کا تعلق افراد سے ہے یا جماعت سے یا دونوں سے، نہ ہی اس پر کوئ نہ گفتگو کرتا ہے نہ ہی اسکی کوئی وضاحت کرتا ہے ہرالیکشن میں اس تعلق سے مجھے کچھ نہ کچھ لوگوں سے اس موضوع پر گفتگو کی نوبت آتی ہے بہتوں سے میں نے اس کی وضاحت چاہی اس موضوع پر کھل کر اظہار خیال کرنے کے لئے کہا لیکن آج تک میرے لئے یہ تشنہ ہی رہا ، میں اور میری طرح بہت سے لوگ سیکولر چہرہ سیاست کے بازار میں تلاش کرتے ہے لیکن ندارد ـ 

   پھر یہ بھی ایک سوال ہے کہ فرقہ پرستی سیاسی پارٹیوں کی وجہ سے ہوتی ہے یا پھر علاقائی افسران کی کوتاہیوں ، غفلتوں اور فرقہ پرست ذہنیت کے حاملین پر شکنجہ نہ کسنے کا نتیجہ ہوتی ہے 

   اس سلسلےمیں ایک بڑا طبقہ تو صرف بی جے پی کو فرقہ پرست سمجھتا ہےاور بس ـ

  اب سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی کے علاوہ سب سیکولر ہیں؟  

سیکولر کا مکھوٹاکیا ہے؟  اترپردیش میں گذشتہ سماجوادی کی حکومت رہی اس کی حکومت میں مظفرنگر کا بھیانک فساد ہوا جو آج بھی دکھنے والوں کی روح کو ٹرپادیتاہے مسجدوں کی ویرانی سے لے کر خاندانوں کی بربادی تک ایک بڑی داستان ہے 1947 میں بھی اس علاقے میں اس قدر بھیانک فساد نہیں ہوئے تھے، اس کے علاوہ متھرا ،فیض آباد ،علی گڈھ ،اور دیگر مقامات پر سیکڑوں چھوٹے برے فسادات رونما ہوئے اخلاق کا قتل اسی حکومت کی داستان کاحصہ ہے گائے کانام پر قتل کا آغاز یہیں سے ہواتھا اس پارٹی کی حکومت چار بار اترپردیش میں آئی لیکن مسلمان جیساکا تیسا ہی رہا نہ اسے سیاسی سماجی اقتصادی ومعاشی ترقی ملی اور نہ ہی فسادات سے اسے چھٹکاراملا نہ فسادی کیفر کردار تک پہنچے نہ بے قصوروں کو جیل کی سلاخوں سے چھٹکاراملا ، بے قصور آج بھی جیل کی تاریک کوٹھری میں اپنی بے بسی کی داستان دہرارےہیں 

سیاست پر باریکی سے نظر رکھنے والاکوئی بھی شخص ابھی مودی کے دوبارہ وزارت عظمہ کے عہدے پر براجمان دیکھنے کی ملائم کی آرزو سے اندازہ لگا سکتا ہے. سماج وادی میں سیوپال یادو بڑاقد آوراور بھاری بھرکم نام ہواکرتاتھا لیکن  جب سماج وادی سے الگ ہوئے تو بی جے پی سے اتحاد کے اشارے دے دیئے تھے اگرچہ بعض سیاسی مجبوریوں  یا کمزوریوں کی وجہ سے بات وہیں تک رہ گئی ، اسی بی جے پی کی حکومت میں صدر جمہوریہ انتخاب میں بی جے پی نے جب رام ناتھ کوند کانام پیش کی تھا تو ملائم و سیوپال نے کھل کر بی جے پی کی حمایت کی تھی کیا یہ سب فرقہ پرست ذہنیت کی غمازی نہیں کرتا؟

کیااسے اچانک ہوئی تبدیلی کا نام دے سکتے ہیں 

  لیکن یوپی میں چونکہ مسلمانوں کے بغیر اقتدار کی کرسی کا حصول دشوارگزار ہے اس لئے ہمیشہ  سیکولر کا چولا پہن کر ایک طرف فرقہ پرستی کو چھپایا اور دوسری طرف مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا ڈھون کرکے ان کا ووٹ لیاجاتا رہا

     اسی طرح بی ایس پی مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی بھی چار بار یوپی میں وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئی لیکن فسادات نے مسلمانوں کا پیچھا اب بھی نہ چھوڑا اس کی چار بار کی حکومت کے باوجود مسلمانوں کی زبوں حالی برقرار رہی اقتصادی ومعاشی اعتبار سے یہاں بھی مایوسی ہاتھ لگی حکومت میں حصہ داری سے مسلمانوں کو دور ہی رکھااقتدارکا نشہ پوری طرح حاوی رہا   

  حیرت ہوگی کی اس نے تو کرسی کے حصول کےلئے اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کرکے بی جے پی کے ساتھ مل کرحکومت بنائی جسے عام طبقہ بھی فرقہ پرست تصور کرتاہے اور اسطرح مسلمانوں کی پیٹھ میں  خنجر پیوست کیا جبکہ مایاوتی کو بھی معلوم ہے کہ صرف دلتوں کے ووٹ کے سہارے مسلم ووٹ کے بغیر اس کے لئے کسی بھی اعتبار سے کامیابی کاحصول دشوارتر بلکہ ناممکن ہے متعدد بار تو اس نے جیت کے بعد اسٹیج سے برملا اعلان کیا کہ مسلمانوں کے ووٹ کی مجھے ضرورت نہیں ،گجرات میں  مودی حکومت کے ذریعہ مسلم کش فساد کے بعد مودی کی حمایت میں نہ صرف یہ کہ متعدد بیان دیئے بلکہ مسلم دشمنی کے جنون میں گجرات جاکر اسکے لئےباقاعدہ پرچار کیا 

   اگر آپ کانگریس کی بات کریں تو اسکی فرقہ پرستی کی ایک طویل داستان ہے میرٹھ، ملیانہ ، مرادآباد،  کان پور، بھاگل پور کے فسادات آج بھی رونگٹے کھڑے کردیتے ہیں

 بابری مسجد میں تالا مورتی رکھنے پھر سیلانیاس، اور شہادت سب اسی کے دورے اقتدارکا دیا ہو زخم ہے  مسلمانوں کو سیاسی، معاشی اوراقتصادی اعتبار سے مفلوج کرنے میں سب سے اہم کردار کانگریس ہی کا ہے نرسمہاراؤ جیسا چوٹی کا فرقہ پرست شخص جس پارٹی میں وزیر اعظم بنادیاجائے اس کے لئے آپ کیا کہہ سکتے ہیں 

  کانگریس ہی کے زمانے میں مسلمانوں کی معاشی واقتصادی بدحالی کو اجاگر کرنے والی سچر کمیٹی کی رپورٹ پیش ہوئی لیکن اس کے باوجود کانگریس نے کمیٹی کی سفارش کو نافذنہیں کیا اسی طرح دیگر صوبوں میں کانگریس کی حکومت رہی لیکن آج تک کسی صوبے میں کانگریس نے مسلمانوں کو معاشی بدحالی کے پیش نظر رزرویشن نہیں دیا ورنہ آج مسلمانون کی حالت کچھ اور ہوتی نسبندی کی جرات صرف کانگریس ہی نے اپنے عروج کے زمانے میں کیا اور وہیں سے اسکا سیاسی زوال بھی شروع ہوا 

   کانگریس کے ذریعہ سقوط حیدرآباد کی بھیانک تاریخ بھی کانگریس کے سیکولرتاریخ کے تمام پنوں کو سیاہ کرنے کےلئے کافی ہے 

   بی جے پی کی فرقہ پرستی تو جگ ظاہر ہے فرقہ پرستی ہی اسکی جڑ اور بنیاد ہے وہی اسکا تانا باناہے اسی کے سہارے وہ ہمیشہ اقتدار تک پہنچتی ہے اور جب جب اسکے اندر اضمحلال آیا ہےاسی فرقہ پرستی نے اسکے اندر روح پھونکا اسکی گرتی اورکمزور ہوتی ساکھ کو بچایا اورمضبوط کیا آج اسی فرقہ پرستی وتشدد کے سہارے وہ سیاسی اعتبارسے  ملک کے چپے چپے پرقابض ہے ہر جگہ اور ہر گلی میں فرقہ پرستی کا بھوت اس پر سوار رہتا ہے سماج میں نفرت کا زہر گھول کر فرقہ پرستی و تشدد نے ملک کو اندر سے کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے ہے. گجرات کے مسلم کش فسادہندوستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے گجرات فساد کے بعد مجھے یاد ہے اسوقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی نے کہا تھا میراسر اس فساد کی وجہ سے دنیا کے سامنے شرم سے جھک گیا ہے اسی فساد کی وجہ سے پوری دنیا میں مودی کے دخول پر پابندی تھی کوئی ملک ویزہ تک دینے کے لئے تیار نہ تھا امریکہ جیسے ملک نے بھی اس فرقہ پرست شخص کے لئے اپنی سرحدیں مسدود کردی تھیں 

   اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہر الیکشن میں کچھ دل بدلو پارٹیاں اور چولا بدلنے والے افراد ادھر سے ادھرہوتے ہیں ، آپ غور کیجئے کہ رام بلاس پاسوان جو کبھی کانگریس کا حصہ رہے اور کسی زمانے میں مسلمانوں کا ووٹ بٹورنے کے لئے بہار میں مسلم وزیر اعلیٰ کی بات کررہے تھے آج وہ بھی بی جے پی کا حصہ ہوگئےتھے کیا اُس وقت جب وہ کانگریس کا حصہ تھے تو سیکولر اور بی جے پی میں جاتے فرقہ پرست ہوگئے ،

  اسی طرح نتیش کمارگجرات فساد کے وقت بی جے پی میں شامل تھے اور ریل منتری تھے پھر الگ ہو کر لالو پرساد کے ساتھ کر بی جے پی کے سخت مخالف ہوگئےتھے ، اب پھر وہ چولا بدل کر بی جے پی کا جز لاینفک بنے ہوئے ہیں تو کیا سمجھا جائے کہ جب وہ بی جے پی میں ہوں تو فرقہ پرست اور الگ ہو جائیں یا دیگر کر دامن تھام لیں تو سیکولر ہوجاتے ہیں 

ابھی اسی موجودہ چل رہے پانچ صوبوں کے الیکشن میں بہت سے لوگ بی جے پی چھوڑ کر دیگر پارٹیوں کا دامن تھام چکے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد سماج وادی  پارٹی اور کانگریس میں شامل ہونے والوں کی ہے تو کیا ان کے بی جے پی چھوڑتے ہی انکی فرقہ پرستی کا بھوت دور ہوگیاکیا ان کی فرقہ پرستی کا پاپ دھل گیا ، کیا اب ان کی ذہنیت تبدیل ہوگئی کیا ان کے دماغ میں بھرا ہوا نفرت کا زہر صاف ہوگیا، کیا مسلمانوں کے تعلق سے وہ انصاف پسند ہوگئے ، کیا کانگریس و سماج وادی پارٹی نے ان کی گندہ ذہنیت تبدیل کرادی یا ان کی فرقہ پرستی سے توبہ کراکر ان سے سیکولرہونےکا عھد لے لیا؟ کیا یہ چیزیں کانگریس وسماج وادی کو اندر سے کھوکھلا نہیں کر رہی ہے ؟ کیا اس طرح کانگریس وسماج وادی کے اندر بھی فرقہ پرستی کی جڑیں مضبوط نہیں ہورہی ہیں؟  کیا اسی کا یہ نتیجہ نہیں کہ آج تک  پارٹیاں فرقہ پرستی سے پاک نہ ہوسکی؟ سوامی پرساد موریااور درجنوں بی جے پی کو الوداع کہنے والے جن میں کئی نے پچھلے سالوں میں مسلمانوں اور مسلم عورتوں کے تعلق سے  گھناؤنی بیان بازیوں کے باوجوداکھلیش یادو نے جس طرح پرتپاک استقبال کیا ہے اس کو کیا نام دیں

    اسی طرح کانگریس ودیگر پارٹیوں سے نکل کر جن لوگوں نے بی جے پی میں دخول کیا ہے کیا یہ سمجھاجائے کی وہ پہلے تو سیکولر، انصاف پسند، فرقہ پرستی کے مخالف تھے اور بی جے پی میں پہنچتے ہی آناًفاناً فرقہ پرست ہوگئے؟  کیا بی جے پی نے فرقہ پرستی کا کلمہ پڑھاکر داخلہ دیا ہے ؟ 

دل بدلنا جیسے کوئی مشین ہو کہ اِدھر سے نکلے اُدھر جاتے ہی فرقہ پرست اور اُدھر سے اِ دھر اتے ہی سیکولر، 

سب سے زیادہ سیکولر کہے اور سمجھے جانے والی سماج وادی کے ملائم سنگھ کی بھو ، ان کے سمدھی، ان کے ساڈھو اور ان کی بھتیجی بی جے پی میں ہیں

آگر مسلمان انھیں سیکولر سمجھ کر کلی اعتماد کرتے ہیں اور اس کے متبادل پر غور نہیں کرتے تو پھر مسلمانوں کی سیاسی سماجی حالت کبھی درست ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان کے ووٹ کی کوئی حیثیت رہے گی کیونکہ وہ تو بی جے پی کا خوف دلا کر حاصل کر لئے جاتے رہے اور اگے بھی یہی ہوتا رہے گا 

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ پرستی کے عناصر ہر پارٹی میں موجود ہیں اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنا چولا بدلتے رہتے ہیں سیکولر ووٹ حاصل کرنے کے لئے وقتی طور پر پارٹیاں سیکولر کا لبادہ ضرور زیب تن کرتی ہیں حتی کہ بی جے پی اورمودی جیسے لوگ بھی سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ  دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب سیکولرزم فرقہ پرستی کی آگ میں جھلس کر خاکستر ہوچکا ہے اور ہم اس خاکسترمیں سیکولر کی چنگاری تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں 

    اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے،  مسلمان کس پارٹی ، کن افرادپر اعتمادکریں اور کس کو ووٹ دیں 

   میرا خیال ہے اویسی نے متبادل کے طور پر سیاست میں حصہ داری کے لئے سیاسی قوت کے حصول کا جو فارمولا پیش کرتے ہوئے کیا ہے اس کو اپنے اور اسی قوت بخشنے کی ضرورت ہے اور یہ ان شاء اللہ آگے چل کے نفرت کے خاتمے بھاءی چارے کے فروغ دینے مین بھی معاون ہونے کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم اتحاد کا علمبردار بھی ہوگا یا پھر دوسری صورت یہ ہے 

کہ مسلمانوں کو اجتماعی اعتبار سے ہر الیکشن میں سودا کرنا چاہئے صوبائی اعتبار سے بھی اور مرکزی لحاظ سے بھی ،مسلکی اختلاف کو پس پشت ڈالکر مسلمانوں کی تمام دینی ملی سماجی اور فلاحی تنظیموں کو اجتماعی اعتبارسےسودا کرنا چاہئے ریزرویشن نوکری حکومت ودیگر  شعبہ جات میں حصہ داری وغیرہ اور جو پارٹی حصہ داری کو قبول کرے مسلمانوں کی مانگ پوری کرے اسی کو ووٹ دے اور اسی کی حمایت کرے چاہے صوبائی الیکشن ہو یا مرکزی (لوک سبھا یا ودھان سبھا )اس طرح مسلمانوں کے ووٹ کی حیثیت بھی بڑھے گی اور ہر الیکشن میں پارٹیاں خود مسلمانوں کے پاس کاسہء گدائی لئے پھریں گیں، اس

 سودےبازی میں اگر ظاہری اعتبار سے کچھ خطرات ہون تو خفیہ ورازدارانہ طور پر بھی اسے انجام دیا جا سکتا ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے