افکار ابن خلدون: ایک مطالعہ ۳

 افکار ابن خلدون: ایک مطالعہ ۳

افکار ابن خلدون: ایک مطالعہ ۳
القاسمی وقاراحمد خان

waqarqasmi@yahoo.com

علم وفکر میں ابن خلدون کا مقام:

ابن خلدون کی علمی خدمات کا صحیح تجزیہ یہ ہے کہ اس کی تین مختلف حیثیتیں ہیں: 

مؤرخ کی حیثیت سے۔

فلسفہ تاریخ کے بانی کے لحاظ سے۔

عمرانیات میں امام وپیشرو کے اعتبار سے۔

ابن خلدون بحیثیت مؤرخ:

ابن خلدون کی تاریخ نگاری میں اس کا رتبہ کیا ہے؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے اور اس سے زیادہ مزے دار عنوان یہ ہے کہ ایک ایسا شخص، جس نے تاریخ کی چھان بین کے لیے زبردست تنقیدی انداز اختیار کیا ہے، کچھ اصول وقواعد بھی مقرر کیے ہیں، تو: بعض مرتبہ ان واقعات کا بے دردی سے مذاق بھی اڑایا ہے، جن کو اس کے پیش روؤں نے بڑے وثوق سے بیان کیا۔ 

نظر وعمل کے اس تعارض کو بعض مستشرقین نے اچنبھے سے محسوس کیا؛ لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تضاد محض اس بنا پر ہے: ابن خلدون کو ایسا رستاخیز اور ادل بدل کا زمانہ ملا تھا کہ سکون ودلجمعی کے ساتھ وہ اتنے بڑے کام کو انجام دے ہی نہیں سکتا تھا۔

تاریخ کی چال کو متین کرنا ایسے مواد کی مقتضی ہے، جو اس وقت مہیا ہو ہی نہیں سکتا تھا؛ یہ کام تو بعد کے مؤرخین کا تھا کہ وہ اس تنقید کو مشعل راہ ٹھہرا کر پوری تاریخ کا جائزہ لیتے اور نوع انسانی کی ایسی سلجھی ہوئی تاریخ مرتب کرتے کہ اس کے آئینہ میں ہر انسان اپنی ملی وقومی ترقی کی تصویروں کو صاف دیکھ سکتا اور آئندہ کے لیے ایک راہ متعین کرتا۔

تاریخ کا صحیح تصور اور ابن خلدون کی تاریخ نگاری:

 مؤرخ واقعات کو صرف بیان ہی نہ کرے؛ بلکہ ان میں جو ربط وتعلیل کا ایک قدرتی سلسلہ ہے، اس کو دریافت بھی کرے اور ان مقامات واحوال کی نشاندہی بھی کرے۔ ابن خلدون نے بھی اسی تصور کو اپنایا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ نفس تاریخ نگاری میں ابن خلدون؛ بخاری، مسعودی، طبری اور ابن اثیر وغیرہ سے کچھ بلند نظر نہیں آتا؛ تاہم ناانصافی ہوگی اگر یہ تسلیم نہ کیا جائے کہ اس میں اس کی اپنی خصوصیات ہیں، جو اسے دوسرے مؤرخین سے جدا کرتی ہیں۔

ابن خلدون کی تاریخ نگاری کی خصوصیات:

پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے قدماء کی طرح واقعات کو سنین کی ترتیب سے نہیں بیان کیا؛ بلکہ ہر حکومت ومعاشرے کا الگ الگ ذکر کرتا ہے اور اس میں جو تبدیلیاں ہوئیں، صرف انہیں کو معرض وجود میں لاتا ہے، دوسری حکومتوں سے تعرض نہیں کرتا؛ لیکن یہ خصوصیات باعتبار اکثریت ہے۔

دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اقوام بربر وبنو احمر کا حال جس تفصیل سے لکھا ہے اور بلاد مغرب کی حکومتوں کا نقشہ جس ژرف نگاہی سے کھینچا ہے؛ وہ آج بھی ایسا ہے کہ اس کی افادیت ضائع نہیں ہوئی اور تاریخ کا کوئی طالب علم اس سے قطع نظر کرکے سچا مؤرخ نہیں ہوسکتا۔ ان اقوام وقبائل کے حالات بیان کرنے میں ابن خلدون اس لیے زیادہ بھروسہ کے لائق ہے کہ ان میں یہ خود بھی شریک رہا ہے۔

تیسری خصوصیت اس کی کشادہ دلی اور بے تعصبی ہے؛ اس کا تعلق اس کے مخصوص اسلوب فکر سے ہے، جو صرف اسلامی تعلیمات سے پیدا ہوتا ہے۔ ڈروزی نے ایک جگہ اس کے تاریخی کردار کی اس بلندی کی طرف صریح اشارہ کیا ہے اور کہا کہ قرون وسطی کے عیسائی مؤرخین اس قابل نہیں کہ انہیں ابن خلدون کے مقابلہ میں پیش کیا جاسکے۔

ایک امتیاز اس کی معلومات کی ہمہ گیری ہے، جس کا انعکاس جگہ جگہ اس کی تاریخ میں نمایاں ہے۔ معلومات کی ہمہ گیری ہی اس کی وہ خصوصیت ہے، جس نے اسے عام تاریخ نگاروں کی صف سے نکال کر عالمی سطح کے مؤرخین کے زمرے میں لا کھڑا کردیا۔

جاری۔۔۔

اشارہ:  اگلی قسط میں : ابن خلدون بحیثیت بانی فلسفہ تاریخ؛ ان شاء اللہ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے