افکار ابن خلدون: ایک مطالعہ چوتھی قسط

 افکار ابن خلدون: ایک مطالعہ  چوتھی قسط


افکار ابن خلدون: ایک مطالعہ  چوتھی قسط

القاسمی وقار احمد خان

waqarqasmi@yahoo.com

ابن خلدون بحثیت بانی فلسفہ تاریخ:

فلسفہ تاریخ میں ابن خلدون کا مقام ایک چراغ سا ہے؛ افلاطون، ارسطو اور اگسٹن بھی اس کے ہم پایہ نہیں تھے۔

اس سے قبل تاریخ کا مفہوم صرف یہ تھا کہ اس میں گذشتہ قوموں کے حالات مذکور ہوتے تھے؛ لیکن کیا ان حالات کی تہوں میں کوئی فلسفہ حیات پنہاں ہے، کچھ قواعد اور کسوٹیاں بھی مضمر ہیں، جن سے حالات کی صحت وعدم صحت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوسکے؟

اس عنوان پر سب سے پہلے ابن خلدون نے غور کیا اور اپنی طبع وقاد سے تاریخ کے دھندلکوں کو روشنی میں بدلنے کی تدبیر معلوم کر ہی لی۔ 

ابن خلدون نے دیکھا کہ فقہ کے لیے کچھ اصول ہیں، جن کی بنیاد پر نہ صرف زمانہ حال کے مطابق مسائل کا استخراج واستنباط ہوتا ہے؛ بلکہ مستقبل کے بارے میں طے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ان کی شکل وصورت کیا ہو۔ تو: کیوں نہ تاریخ کی کڑیاں بھی علت ومعلول کے سلسلہ کے ساتھ باہم اس طرح وابستہ ہوں کہ ان کے بل بوتے پر ماضی سے حال کو جانچا جاسکے اور حال سے مستقبل کے متعلق پیشین گوئیاں کی جاسکے؛ جیسا کہ مشہور قول ہے: ماضی مستقبل سے اس طرح مشابہ ہے، جیسے پانی کا ایک قطرہ دوسرے قطرہ سے۔

فلسفہ تاریخ میں ابن خلدون کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ محض نقل پر بھروسہ نہیں کرتا؛ بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ ہر دور کی ایک اکائی ہے، جس کا مخصوص سیاسی واقتصادی مزاج اور متعین تقاضے ہیں؛ اس لیے جب کوئی واقعہ حکایت وروایت کے انداز میں ہم تک پہنچے، تو: فرض یہ ہے کہ ہم اس دور کے ان تمام تقاضوں کو فکر ونظر کے سامنے لائیں اور دیکھیں کہ آیا یہ ان تقاضوں کے منافی تو نہیں ہے۔

ابن خلدون نے اس قسم کی کئی مثالیں پیش کی ہیں، جس میں بڑے بڑے مؤرخین کو ٹھوکر لگی، مثلا: مسعودی اور بعض دیگر مؤرخین نے بنی اسرائیل کے جیش کے متعلق بیان کیا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے میدان تیہ میں جب بیس برس کی عمر والوں کا شمار کیا، تو: معلوم ہوا کہ ان کی تعداد چھ لاکھ ہے۔ 

مذکورہ بالا اصول کی روشنی میں ابن خلدون نے حسب ذیل اعتراضات کیے اور ایک نئی راہ دکھائی:

پہلی شے اس ضمن میں یہ دیکھنے کی ہے کہ اتنی بڑی تعداد فوج میں رکھنا موسی علیہ السلام کے لیے ممکن بھی تھا یا نہیں۔ اصول ہے کہ ہر ملک کے لیے فوج کا وجود ضروری ہے؛ مگر اسی قدر، جس سے حرب ودفاع کی ضرورتیں پوری ہوتی ہوں اور ملک کی اقتصادی ومعاشی حالت اس کو برداشت کرسکے؛ لہذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا مصر وشام کے مالی ذرائع اس زمانے میں ایسے تھے کہ اتنی بڑی فوج کے مصارف کے متکفل ہوسکیں؟

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ایرانی قوت وطاقت کے باوجود بھی قادسیہ کے تاریخی معرکہ میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ فوجی میدان میں نہیں لاسکے، تو: موسی علیہ السلام کے لیے کیسے ممکن تھا کہ وہ ایک بڑی فوج کی ضروریات کو پورا کرسکیں؟

ایک اشکال یہ بھی ممکن ہے کہ اگر فوج زیادہ ہوتی ہے، تو: اقتدار کے دائرے بھی وسیع ہوتے ہیں؛ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ اسرائیلی شام وحجاز سے آگے نہیں بڑھ سکے۔

اسرائیلیات میں سلیمان علیہ السلام کی کے عساکر کی تعداد بارہ ہزار مذکور ہے، جب کہ اسے بنی اسرائیل کا زریں دور کہا جاتا ہے؛ کیوں کہ جتنا عروج انہیں اس دور میں ہوا، پھر کبھی نہیں ہوسکا۔ جب اقبال وعنفوان شباب میں فوج کی تعداد بارہ ہزار سے آگے نہیں بڑھ سکی، تو: حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں چھ لاکھ کیسے ہوسکتی ہے؟

ملخصا: ابن خلدون کا فلسفہ تاریخ دو محوروں کے گرد گھومتا ہے: ایک یہ کہ تاریخ میں بھی اسی طرح تعلیل واستنباط کا قاعدہ ملتا ہے، جس طرح فقہ میں۔ دوسرے یہ کہ واقعات کی تصحیح کے لیے مجرد روایات پر اعتماد کرلینا درست نہیں؛ بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس عہد کے تمدنی، اقتصادی اور سیاسی پہلوؤں پر بھی غور کیا جائے۔

ان دو اصولوں کے علاوہ کون سے وہ عوامل ہیں، جن سے تاریخ میں تحریف واقع ہوتی ہے؟ ابن خلدون نے ان کی بھی نشان دہی کی ہے کہ مؤرخ کے لیے کہاں کہاں مزلہ قدم کا احتمال ہے:

اس کے نزدیک پہلا عمل تحزب کا ہے۔ اس سلسلہ میں محدثین نے جرح وتعدیل کے جو شرائط بیان کیے ہیں، وہ بہت ہی اہم اور قابل قدر ہیں؛ ان کے بغیر تحریف ممکن ہے۔ دوسرا یہ کہ صرف نقل پر توہم صدق کی بنا پر اعتماد کرلینا۔ اسی طرح امراء وسلاطین کے ساتھ تعلق وخوشامد سے پیش آنا بھی انتحال ووضع پر آمادہ کرسکتا ہے۔

سب سے زیادہ گمراہی میں ڈالنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ مؤرخ ناقابل تطبیق احوال سے ناواقف ہو اور یہ بھی نہ جانتا ہو کہ جس واقعہ کو وہ بیان کر رہا ہے، اس کا تعلق اس وقت کے حالات، طبیعت اور تقاضوں کے مطابق ہے بھی یا نہیں۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔

اشارہ:  اگلی قسط میں : عمرانیات میں ابن خلدون کا مقام؛ ان شاء اللہ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے