معقولات؛ امام محمد قاسم نانوتوی اورعلامہ اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں

 معقولات؛ امام محمد قاسم نانوتوی اور علامہ اشرف علی تھانوی کے کلام کی روشنی میں

القاسمی وقار احمد خان

waqarqasmi@yahoo.com

دور حاضر میں دفاع اسلام اور تحفظ شریعت کا کام کرنے والوں کے لیے فلسفہ سے بے نیازی برت کر کام نکال لینا آسان نہیں رہ گیا ہے؛ کیوں کہ جس وقت فلسفہ کے اختیار کرنے اور نہ کرنے کے دونوں پہلو زیرِ غور تھے، اس وقت کے تناظر دینی ضرورت اور مقاصد تعلیم کے پیش نظر اس سے استغناء نہیں برتا جاسکا؛ تو: اب تو وہی (فکری زیغ وضلال اور الحادی تشکیکات وتلبیسات کے) گزشتہ حالات مزید بدتر حالت میں پہنچ چکے ہیں؛ اس لیے اب اس علم معقولات (منطق وفلسفہ) کی ضرورت شدید ہوگئی ہے۔ 

اس لیے اگر اس زمانہ میں اس تعلیم سے اعراض اور صرف نظر کیا گیا، تو: نیچریت زدہ افکار سے حفاظت ممکن نہیں رہ جائے گی۔ اگر مذہبی اور فکری حملوں سے حفاظت کے لیے علمِ کلام ناگزیر ہے، تو: حضرت نانوتویؒ کی صراحت کے بموجب فلسفہ سے بے نیازی بھی تین وجہوں سے نادرست ہے:

(۱): تشحیذِ ذہن کے لیے۔

(۲): علوم جدیدہ: سائنس اور ان تمام وسائل کے رد وابطال کے لیے، جو اسلامی عقائد واحکام کے مخالف ہیں۔

(٣): تائیدِ علومِ دین کے واسطے: مراداتِ خداوندی ونبوی کے سمجھنے میں اور ان پر پڑنے والے شبہات کے ازالہ میں نافع ہونے کی وجہ سے۔ 

حاصل یہ کہ دور حاضر میں اس علم کلام کے لیے فلسفہ ہی کی ضرورت ہے، جس کے متعلق حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے یہ صراحت فرمائی ہے:

"متکلمین نے جو علمِ کلام مدون کیا ہے، اس میں بھی سب کچھ موجود ہے؛ کیوں کہ انہی کے مقرر کردہ اصولوں پر سارے شبہاتِ شدیدہ کا بھی جواب دیا جاسکتا ہے اور اسی ذخیرہ سے علم کلام جدید کی بھی بآسانی تدوین ہوسکتی ہے"۔ (١)

اور "الإنتباهات المفيدة في الإشتباهات الجديدة" کی تصنیف کے وقت اس کا محرک ظاہر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایک رسالہ علم کلام جدید میں تصنیف کرنے کی اِس حیثیت سے ضرورت تھی کہ "سائنس کے شبہات کے جوابات علم کلام قدیم کے اصول سے (ہوں)، تاکہ یہ اعتراض مندفع ہوجائے کہ شریعت علوم جدیدہ کی محتاج ہے"؛ (٢) کیوں کہ "علم کلام کو علماء نے ایسا مدون کیا کہ ساری دنیا کو بند کردیا ، کوئی آج تک اس کو نہیں توڑ سکا"۔ (۳)

اس سے معلوم ہوا کہ علم کلام قدیم ہو یا علم کلام جدید، اس کا موقوف علیہ یہی فلسفہ ہے۔ غالبا فلسفہ کی اسی اہمیت کے پیش نظر یہ بات بھی فرمائی کہ: "معقول وفلسفہ خدا کی نعمت ہیں، ان سے دینیات میں بہت معاونت ملتی ہے"۔ (٤)

شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت نانوتویؒ نے اس راز کو اعلانیہ طور پر بیان کردیا کہ عقائد اسلام کے مخالف مسائل کے باطل کرنے کی قدرت چوں کہ اسی معقولات وفلسفہ سے حاصل ہوتی ہے؛ اس لیے ایک طرف تو اس کا مشغلہ اختیار کرنا حسنات میں داخل ہوکر ثواب کا باعث ہے اور دوسری طرف چوں کہ:

"علوم دین ہی ایسی چیز ہے کہ اس سے قوم وقیامِ دین وابستہ ہے؛ اس لیے اگر تمام عالم مسلمان ہوجائے، تو: اعلائے کلمة الله کی حاجت نہیں؛ پر علوم دین کی حاجت جوں کی توں رہے"۔

اور چوں کہ: "تائیدِ علومِ دین وردِّ مخالفہ عقائدِ دین؛ بغیر فلسفہ اور معقولات کے متصور نہیں؛ اس لیے علوم دین کے ساتھ ان کی حاجت بھی قیامت تک ختم ہونے والی دکھائی نہیں دیتی۔(۵)

حاشیہ:

(١): حکیم الامت اشرف علی تھانوی، ملفوظات حکیم الامت، ج۱، ص۱۱٤-١١٥۔

 (٢): ڈاکٹر فخر الاسلام الہ آبادی مظاہری، الامام محمد قاسم نانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی ترجیحات، ص: ۲۷۱۔

(۳): حکیم الامت اشرف علی تھانوی، الافاضات الیومیہ، ج ۵، ص: ۵۲۔

(٤): ڈاکٹر فخر الاسلام الہ آبادی مظاہری، الامام محمد قاسم نانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی ترجیحات، ص: ۲۷۱۔ 

(۵): نورالحسن راشد، قاسم نانوتوی: احوال وکمالات، ص: ٦٦٦-٦٧٣۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے