ہندوستانی مدارس، عہدِ صحابہ کا پرتَو

مدارس کے نظام کا دور صحابہ کرام سے ثبوت، مدلل و مکمل


 اس وقت مدارس اسلامیہ ملک بھر میں موضوع سخن ہیں، یوپی حکومت کے سروے کے اعلامیے اور میڈیائی ترکتازیوں نے ایک بار پھر مدارس پر گفتگو کو ہوا دی ہے، مختلف حوالوں سے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ 


مدارس کی ضرورت، ان کے نصاب، اس میں عصری علوم کی شمولیت اور موجودہ دور میں مدارس اور فضلاء مدارس کی ذمہ داریوں پر پہلے بھی گفتگو ہوتی رہی ہے، اہل مدارس میں ایک بڑی تعداد ہے، جو اپنی مرعوب ذہنیت یا فکری رخ کی بنا پر ان جیسی بہت سی چیزوں میں خود کو قصوروار سمجھتی اور مدارس کی نسبت سے شرماتی ہے۔ 


حالانکہ اہل مدارس کو خوش گمان ہونا چاہیے کہ پوری دنیا میں صرف ان ہی کے تعلیمی مراکز ایسے ہیں، جو تعلیمی مواد، علمی و اسنادی تسلسل، اہداف و نتائج حتی کہ نظام تعلیم اور تعلیم و رخصت کے اوقات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریقۂ تعلیم اور اسوۂ تربیت سے سب سے زیادہ قریب، بلکہ مماثل ہیں، آج جبکہ ہر طبقہ جدت کے نام پر من چاہے طور طریقوں کا راہ رَو ہے، برصغیر کے بیشتر مدارس آج بھی اپنے یہاں "چودہ سو سال" قبل کی اصل و بنیاد کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 


مدارس کے تعلیمی مواد، اسنادی تسلسل و نسبت اور مقصد اصلی تو ظاہر ہیں، دنیا جانتی ہے کہ یہ ٹوپی ڈاڑھی والے قرآن و حدیث پڑھتے ہیں، ان کا سلسلۂ علمی بلا انقطاع عہد نبوی تک جاتا ہے اور آخرت کی فلاح و کامیابی ان کا مقصودِ حقیقی ہے۔ 

لیکن عجیب بات کہ مدارس میں تعلیم، آرام اور رخصت تک کا مکمل نظام عہد صحابہ سے ماخوذ ہے، چنانچہ شیخ احمد بن غنیم نفراوی مالکی اپنی کتاب "الفواکہ الدوانی" میں بیان کرتے ہیں کہ دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے دور میں بچوں کی تعلیم کا کیا نظام ترتیب دیا تھا، کس وقت طلبہ پڑھتے تھے اور کس وقت آرام کرتے تھے:


"أوَّلُ مَن جَمَعَ الأوْلادَ فِي المَكْتَبِ عُمَرُ بْنُ الخَطّابِ، وأمَرَ عامِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الخُزاعِيَّ أنْ يُلازِمَهُمْ لِلتَّعْلِيمِ وجَعَلَ رِزْقَهُ مِن بَيْتِ المالِ.

 وكانَ مِنهُمْ البَلِيدُ والفَهِيمُ، فَأمَرَهُ أنْ يَكْتُبَ لِلْبَلِيدِ فِي اللَّوْحِ ويُلَقِّنَ الفَهِيمَ مِن غَيْرِ كَتْبٍ.

وكانَ عُمَرُ - رضي الله عنه - يُشْهِدُهُمْ عَلى الأُمُورِ الَّتِي يَخافُ عَلَيْها الِانْقِطاعَ بِطُولِ الزَّمانِ كالنَّسَبِ والجِنْسِ والوَلاءِ، فَسَألَتْهُ الأوْلادُ أنْ يَشْرَعَ لَهُمْ التَّخْفِيفَ، فَأمَرَ المُعَلِّمَ بِالجُلُوسِ بَعْدَ صَلاةِ الصُّبْحِ إلى الضُّحى العالِي، ومِن صَلاةِ الظُّهْرِ إلى صَلاةِ العَصْرِ، ويَسْتَرِيحُونَ بَقِيَّةَ النَّهارِ، إلى أنْ خَرَجَ إلى الشّامِ عامَ فَتْحِها فَمَكَثَ شَهْرًا، ثُمَّ إنّهُ رَجَعَ إلى المَدِينَةِ وقَدْ اسْتَوْحَشَ النّاسُ مِنهُ، فَخَرَجُوا لِلِقائِهِ فَتَلَقّاهُ الصِّغارُ عَلى مَسِيرَةِ يَوْمٍ، وكانَ ذَلِكَ *يَوْمَ الخَمِيسِ* فَباتُوا مَعَهُ، ورَجَعَ بِهِمْ *يَوْمَ الجُمُعَةِ* فَتَعِبُوا فِي خُرُوجِهِمْ ورُجُوعِهِمْ، فَشَرَعَ لَهُمْ الِاسْتِراحَةَ فِي *اليَوْمَيْنِ المَذْكُورَيْنِ، فَصارَ ذَلِكَ سُنَّةً إلى يَوْمِ القِيامَةِ،* ودَعا بِالخَيْرِ لِمَن أحْيا هَذِهِ السُّنَّةَ ودَعا بِضِيقِ الرِّزْقِ لِمَن أماتَها."


(الفواكه الدواني على رسالة ابن أبي زيد القيرواني، للنفراوي: ٣٠/١)


ترجمہ: سب سے پہلے حضرت عمر نے بچوں کو مکتب/مدرسے میں جمع کیا اور حضرت عامر بن عبداللہ خزاعی سے تنخواہ کے عوض ان بچوں کو پڑھانے کی بات کی۔ 

 پڑھنے والوں میں ہوشیار اور کمزور ہر طرح کے طلبہ تھے، اس لیے کمزور کے حق میں تاکید کی کہ انہیں لکھ کر پڑھائیں اور ہوشیار کے متعلق کہا کہ ویسے ہی سمجھا دیا کریں۔ 

آگے بیان کرتے ہیں: کہ طلباء نے روز و شب تسلسل کے ساتھ ہونے والی تعلیم میں نرمی کی درخواست کی، تو حضرت نے یہ نظام بنایا کہ طلباء فجر کے بعد سے چاشت تک پڑھنے بیٹھیں (اس کے بعد ظہر تک کھانا اور آرام وغیرہ کی لیے چھٹی ہو) پھر ظہر بعد سے عصر تک تعلیم ہو، اس کے بعد مکمل چھٹی... 

اس دوران ملک شام فتح ہوا، حضرت عمر وہاں گئے اور ایک مہینہ وہیں قیام کیا، جب وہاں سے واپس مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو لوگ چونکہ حضرت کی فرقت سے ناخوش تھے، اس لیے حضرت سے ملنے کے لیے مدینے سے باہر نکل آئے (ان ہی میں مکتب کے طلباء بھی تھے) وہ طلباء (حضرت سے جلد ملاقات کے لیے) مدینے سے ایک دن کی مسافت کے برابر باہر نکل گئے تھے، وہیں حضرت عمر سے ملاقات ہوئی، وہ جمعرات کا دن تھا، (دن بھر سفر کے بعد رات ہوگئی) طلباء رات میں حضرت عمر کے ساتھ وہیں رہے، پھر اگلے روز جمعے کو مدینے کے لیے واپس ہوئے۔ 

اس آمد و رفت میں ان کو تھکن ہوگئی تھی(جس سے جمعے کے پڑھائی نہیں ہوئی) اور (اس طرح چونکہ دونوں دن -جمعرات اور جمعہ- بغیر پڑھائی کے گزر گئے تھے، اس لیے) اگلے ہفتوں کے لیے بھی ان دونوں دنوں میں چھٹی کا معمول بن گیا اور بالآخر یہ معمول قیامت تک کے لیے رائج ہو گیا۔ 

حضرت عمر نے اس طریقے کو جاری رکھنے والوں کے حق میں خیر و بھلائی کی دعا بھی فرمائی  اور اس طریقے کو ترک کرنے والوں کے لیے تنگئ رزق کی بد دعا کی۔ (اللھم احفظنا منه) 


یہ وہ ہفتہ وار نظام تعلیم ہے، جو حضرت عمر نے اپنے دور میں مرتب فرمایا تھا، خوشی کی بات ہے کہ بالکل یہی نظام آج برصغیر کے اکثر مدارس، خصوصاً دارالعلوم دیوبند اور اس کے ہم نوا اداروں میں رائج ہے۔ 

اسی طرح فجر بعد سے سے چاشت (زوال سے پہلے) تک صبح کی تعلیم ہوتی ہے پھر ظہر سے عصر تک شام کی... نیز ہفتے میں دو دن، جمعرات کی شام سے جمعے کی رات تک رخصت ہوتی ہے۔ 


جس نظام کی اتنی مستحکم نسبت دورِ نبوی اور صحابہ کرام سے ہو، اس کے پروردگان اور فضلاء کو خود پر فخر کرنا چاہیے، ان کو اگر خدا و رسول پر کامل یقین ہے، تو صحابہ کرام کی ایسی مضبوط پیروی ان کے لیے ذریعۂ نجات اور متاعِ سربلندی ہے۔ 


ابن مالک ایوبی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے