خواتین کا مسجد جانا؛ قرآن وحدیث کی روشنی میں


خواتین کا مسجد جانا؛ قرآن وحدیث کی روشنی میں


ہم عموماً کسی ٹرینڈ یا ماحول سے متاثر ہو کر تحریر یا مضمون وغیرہ لکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، نیز اس وقت تعلیمی مصروفیات فیصلہ کن ایام میں داخل ہوگئی ہیں، اس لیے سوشل میڈیائی موضوعات ترجیحات کا حصہ نہیں رہے۔ 

لیکن گذشتہ دو تین روز سے عورتوں کے مسجد میں براۓ نماز آنے یا نہ آنے کے متعلق گفتگو جاری ہے، ہندوستانی حنفی مولویوں کے وہ گروہ، جو صرف دیوبند کی مخالفت یا غیروں کے دلکش نعروں سے متاثر ہو کر، حنفی مسلک کے قدیم مواقف کی مخالفت پر کمربستہ ہیں، وہ خواتین کی مسجد آمد کے زور وشور سے داعی یا حامی ہیں۔ 

ان ہی میں سے بعض دوستوں کی جانب سے اس قسم کی باتیں دیکھنے میں آئیں کہ خواتین کی مسجد آمد کے حوالے سے حنفیوں کا مسلک فقہاء کی آراء و اقوال کی بنیاد پر ہے، کوئی نقلی دلیل ان کے پاس نہیں، اس لیے قدیم حنفی موقف (خواتین کا مسجد آنا مکروہ ہے) کے متعلق بعض دلائل ذکر کیے جاتے ہیں: 

قرآنی دلائل:

1- وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ. (الاحزاب 33) (خواتین گھروں میں ہی رہیں اور پرانی جاہلیت اختیار نہ کریں۔)م

مفسر قرطبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: 

"معنى هذه الآية الأمر بلزوم البيت، وإن كان الخطاب لنساء النبي صلى الله عليه وسلم فقد دخل غيرهن فيه بالمعنى. هذا لو لم يرد دليل يخص جميع النساء ، كيف والشريعة طافحة بلزوم النساء بيوتهن، والانكفاف عن الخروج منها إلا لضرورة، على ما تقدم في غير موضع. فأمر الله تعالى نساء النبي صلى الله عليه وسلم بملازمة بيوتهن، وخاطبهن بذلك تشريفا لهن." 

(خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجات کے ذریعے، ساری امت کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ گھروں ہی میں رہیں) 

(القرطبی)

یہاں یہ وضاحت مناسب ہوگی، کہ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے جس طرح علماء نے مسجد جانے سے منع کیا ہے، ویسے ہی بازار، کوچنگ سینٹر اور شاپنگ مال وغیرہ جانے کی بھی مخالفت کی ہے، ایسا نہیں ہے کہ یہ ممانعت صرف مسجد کے لیے ہے۔ 

2- وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ ﴾ [الحجر: 24].

اس آیت میں اللہ نے منافقوں کے متعلق بتایا ہے کہ وہ عورتوں کے مسجد سے نکلنے کا انتظار کرتے تھے، اور اس وقت تک مسجد میں رکے رہتے تھے جب تک عورتیں نہ نکل جائیں، اور جب عورتیں نکلتیں.. تو گلیوں میں ان کا پیچھا کرتے تھے، اس آیت میں ان منافقوں پر وعید ہے۔ اسی لیے شریعت میں عورتوں کو گھروں میں رہنا پسندیدہ امر ہے۔ 

واضح حدیثی دلائل: 

1- عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها ، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها". (المستدرك 405 - (1/209))

(یعنی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ عورت کے لیے دالان کے مقابلے گھر میں، اور گھر میں بھی اندرونی کمرے میں نماز پڑھنا افضل ہے) 

2- عن أمّ سلمة رضي اللہ عنھا عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال: خیر مساجد النساء قعر بیوتھن (رواہ أحمد وبیہقي، 26542، صححہ الالبانی)

عورتوں کی بہترین مسجد ان کا اندرونی کمرہ ہے۔ 

3- عن أم حمید امرأة أبي حمید الساعدي عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال لھا: قد علمتُ أنّکِ تحبّین الصلاة معي، وصلاتُکِ في بیتکِ خیر من صلاتِکِ في حجرتِکِ، وصلاتُکِ في حجرتکِ خیر من صلاتِکِ في دارکِ، وصلاتکِ في دارکِ خیر من صلاتکِ في مسجد قومکِ، وصلاتکِ في مسجد قومِکِ خیر من صلاتکِ في مسجدي (رواہ الإمام أحمد (371/6) و ابن حبان 2217)(قال الهیثمي: رجاله رجال الصحیح غیر عبد اللہ بن سوید الأنصاري، ووثّقہ ابن حبان)

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی نماز کی یہ ترتیب رکھی ہے: 

1- باہری کمرے کے مقابلے اندرونی کمرے میں عورت کی نماز بہتر ہے، 

2- دالان کے مقابلے باہری کمرے میں نماز بہتر ہے،

3- محلے کی مسجد کے مقابلے گھر کے دالان میں بہتر ہے

4- اور مسجد نبوی کے مقابلے محلے کی مسجد میں عورت کا نماز پڑھنا بہتر ہے۔ 

اس لحاظ سے عورت کی سب سے بہتر نماز گھر میں بھی اندرونی کمرے والی ہے، حتی کہ آپ علیہ السلام نے اپنی مسجد سے بھی گھر کی نماز کو بہتر فرمایا ہے۔ 

4- وعن عبد الله : ما صلت امرأة من صلاۃ أحب إلی الله من أشد مکان في بیتھا ظلمة.  (مجمع الزوائد ج2 ص 3)

(عورت کی کوئی نماز، خدا کو اس نماز سے زیادہ محبوب نہیں، جو اس کی تاریک تر کوٹھری میں ہو۔)

ضمنی دلائل: 

1-عن عائشة ، رضي الله عنها ، قالت: لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء لمنعهن كما منعت نساء بني إسرائيل، قلت لعمرة: أو منعن؟ قالت: نعم". (البخاري (1 / 219)) 

(یعنی آج کے حالات کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی عورتوں کو مسجد جانے سے منع کرتے) 

2- عن أبي ہریرة -رضي اللہ عنہ- عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: لولا ما في البیوت من النساء والذریة، أقمت صلاة العشاء وأمرتُ فتیاني یحرقون ما في البیوت بالنار (أحمد (2/367)) 

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے، تو میں نماز عشاء قائم کرتا، اور اپنے جوانوں کو حکم دیتا کہ گھروں میں آگ لگادیں) 

استدلال: عورتوں کا اس حدیث میں بچوں کی طرح گھر میں ٹھہرنے والوں کے ساتھ ذکر کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جماعت میں حاضر ہونے کی مکلف نہ تھیں اور جماعت ان کے ذمے موٴکد نہ تھی، ورنہ وہ بھی اسی جرم کی مجرم اور اسی سزا کی مستوجب شمار ہوتیں۔ 

3- عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان، وأقرب ما تكون بروحة ربها وهي في قعر بيتها. (رواہ الترمذی، واللفظ لابن حبان 5599، اسنادہ صحیح)

اس حدیث میں عورتوں کو مطلق گھروں سے نکلنے سے ممانعت معلوم ہوتی ہے، جیسا کہ پہلی آیت میں ہے، اور نماز کے لیے بھی گھر سے نکلنا پڑتا ہے، اس لیے وہ نکلنا بھی اس حدیث کے تحت ناپسندیدہ ہے۔ 

ان دلائل کو دیکھتے ہوئے فقہاء احناف نے عورتوں کے مسجد جانے کو مکروہ کہا ہے، یاد رہے کہ یہ دیوبند کا اپنا فتویٰ نہیں ہے، بلکہ امام ابوحنیفہ سے لے کر علامہ شامی تک کے فقہاءِ احناف یہی کہتے ہیں: 

 چنانچہ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں: 

  "قال أبو حنيفة -رحمہ اللّٰہ- في خروج النساء في العيدين: قد كان يرخص فيه، فأما اليوم فلا ينبغي أن تخرج إلا العجوزة الكبيرة". (الحجة على أهل المدينة 1/ 306)

قال محمد -رحمه الله- في الأصل:... وليس على النساء خروج العيدين، وكان يرخص لهن في ذلك. (المحيط البرھانی 2/ 208، 209)

اسی طرح فقہ حنفی کی سب سے معتبر کتاب میں ہے: 

(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقاً) ولو عجوزاً ليلاً (على المذهب) المفتى به؛ لفساد الزمان، واستثنى الكمال بحثاً العجائز والمتفانية". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1 / 566) 

یہ آخری تین اقوال اس لیے ذکر کیے گئے ہیں، تاکہ وہ نوخیز حنفی، جو صرف دیوبند کی مخالفت میں اس قسم کے مسائل میں احناف کے مذہب پر نقد کرنے لگتے ہیں، وہ دیوبند سے اختلاف کے لیے دوسرے مسائل تلاش کرلیں، کیوں کہ یہ مسئلہ احناف کا متفقہ موقف ہے۔ 

اور جو حضرات عرف اور حالات کو بنیاد بنا کر عورتوں کے مساجد آنے کی وکالت کر رہے ہیں، ان کے لیے عرض ہے کہ ہندوستانی عرف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عورتیں مسجد کے بجائے گھروں میں نماز پڑھ لیا کریں۔ 

چنانچہ دار الافتاء المصریہ، جو جامعہ ازہر کے تحت چلتا ہے اور دنیا بھر کے لوگوں کا مرجع ہے، اس سے کسی نے برطانیہ میں عورتوں کے لئے مسجد جانے اور موقفِ احناف کے حوالے سے سوال کیا تھا، تو دار الافتاء کا جواب تھا، کہ "احناف کے یہاں عرف کا لحاظ ہوتا ہے، جیسا کہ علامہ ابن عابدین شامی نے "نشر العرف في بناء بعض الأحكام على العرف،( 2/126)" میں اس کو ثابت کیا ہے، اس لیے جن ممالک میں حکومت کے دباؤ یا کسی اور مجبوری میں عورتوں کو مسجد لے جانا ضروری ہو جائے، وہاں عورتوں کا مسجد جانا غلط نہیں ہے، اور جہاں ایسی کوئی مجبوری نہیں، وہاں اپنے علماء کے فتوے پر عمل کرنا چاہیے۔ (دار الإفتاء المصرية، رقم الفتوى: 1078، المفتی: علی جمعہ محمد) 

نیز حضرت مفتی سعید صاحب رحمہ اللہ کے ویڈیو بیان میں سنا، کہ جن ممالک میں نام نہاد حقوق نسواں اور ایکوالٹی کی بنیاد پر عورتوں کے لئے مسجد میں جگہ بنانا اور مسجد جانے کی اجازت دینا حکومت کی جانب سے ضروری ہے، وہاں کراہت کا حکم نہیں لگے گا اور عورتوں کو مسجد جانے کی اجازت دینا درست ہوگا، اور جہاں ایسا کوئی تقاضا یا مجبوری نہیں، وہاں نہ جانا بہتر ہے۔ 

یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ مصری دار الافتاء اور مفتی سعید صاحب کی بات میں کس قدر یکسانیت ہے، دونوں صاحبانِ علم "مفتی علی جمعہ اور مفتی سعید صاحب ایک ہی بات فرما رہے ہیں۔ 

بہرحال..! اس موقف کے دلائل صرف اس لیے ذکر کر دئیے، تاکہ کسی کو یہ خلجان نہ رہے کہ عورتوں کے مسجد نہ جانے کا موقف بلا دلیل و بے بنیاد ہے، اس لحاظ سے یہ صرف ایک قدیم موقف کا دفاع ہے، کسی حتمی یا ذاتی رائے کا اظہار نہیں۔ 


ابن مالک ایوبی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے