الجمع بین الروایتین (موطأ بہ روایت یحیی لیثی اور بہ روایت محمد)؛ ایک اجمالی تعارف

الجمع بین الروایتین (موطأ بہ روایت یحیی لیثی اور بہ روایت محمد)؛ ایک اجمالی تعارف

الجمع بین الروایتین (موطأ بہ روایت یحیی لیثی اور بہ روایت محمد)؛ ایک اجمالی تعارف


ہر علم و فن میں بے شمار علماء نے مختلف موضوعات پر لاتعداد کتابیں تصنیف کی ہیں، کتابوں کے اس ہجوم میں ہر طرح کی کتاب پائی جاتی ہے، جو اپنے امتیازات کی بنا پر دیگر کتب سے الگ اور منفرد ہوتی ہیں، لیکن بعض کتابیں اپنی خصوصیات یا مصنفین کے اخلاص اور عند اللہ مقبولیت کی بنا پر اس فن کی اساس کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں، اور کتابوں کی درسگاہ میں لا زوال فوقیت اسی کتاب کو حاصل ہوتی ہے، جو کسی علم و فن کے لیے بنیادی و اساسی حیثیت رکھے۔

علم حدیث کے باب میں موطا امام مالک اسی حیثیت کی حامل ہے، دوسری صدی ہجری میں لکھی گئی یہ کتاب افقِ حدیث و سنت کا وہ روشن ستاره ہے، جس سے تدوینِ حدیث اور تشریع اسلامی کو اصل آغاز ملا، اسی لیے امام شافعی جیسا عبقری اس مجموعۂ حدیث کے متعلق یہ کہنے پر مجبور ہے: ما على ظهر الأرض كتاب بعد كتاب اللـه أصح من کتاب مالك. (تزیین الممالك بمناقب الامام مالک، للسیوطی ص ٢٣)

(کہ کتاب خداوندی کے بعد روئے زمین پر موطا سے زیادہ صحیح ترین کتاب موجود نہیں) ۔ موطا کی فقہی حیثیت اجاگر کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں، کہ: لا يوجد الآن كتاب ما، في الفقه أقوى من "موطأ الامام مالك. (المسوی شرح المؤطا للمحدث الدھلوی، 17)

 ( فقہ میں موطا سے زیادہ کوئی مضبوط کتاب فی الحال نہیں ہے۔)

 امام مالک کا یہ مجموعۂ حدیث بے شمار محدثین و رواۃ نے ان سے سماعت کیا ہے، یہاں اس بات کا تذکرہ اہم ہے کہ موطا کی روایت میں امام صاحب کا طریقۂ کار یہ تھا کہ آپ کے یہاں سال بہ سال موطا کا درس چلتا رہتا، اور اس درمیان آپ کتاب میں جمع شدہ احادیث و آثار کی تنقیح بھی کرتے رہتے، چنانچہ ابتدا میں امام صاحب نے موطا میں دس ہزار احادیث جمع کی تھیں، لیکن وہ کم ہوتے ہوتے (شیخ خلیل شیحا کی ترقیم کے لحاظ سے، مشہور نسخے کے مطابق) دو ہزار سے بھی کم رہ گئیں۔ (المسوی شرح الموطا للمحدث الدھلوی، 27)

  اسی مسلسل تنقیح و تہذیب کا اثر تھا کہ مختلف سالوں میں سماعت کرنے والے شاگردوں کی مرویات میں تعداد کے لحاظ سے فرق پیدا ہونے لگا اور نتیجتاً موطا کے مرتب یا رائج نسخوں میں بھی تعدادِ روایات کے لحاظ سے کمی بیشی ظاہر ہوئی۔

   بہر کیف..! ان سماعت کرنے والے بے شمار محدثین و رواۃ میں سے چند باتوفیق شاگردوں نے، اپنی اپنی سماعت کی بنیاد پر امام صاحب کی موطا کو مکمل قلمبند بھی کیا، تاکہ احادیث کا یہ عظیم مجموعہ آئندہ نسلوں تک بہ آسانی منتقل ہو، چنانچہ علامہ عبدالحی لکھنوی کے مطابق تقریباً سولہ شاگردوں نے امام مالک کی مرویات کو جمع کیا تھا(التعلیق الممجد علی المؤطا للامام محمد، للعلامہ اللکنوی، ج1، ص 87) لیکن خدا کی مرضی دیکھئے کہ ان میں سے صرف دو خوش نصیب شاگردوں کے نسخے رائج ہوئے: 

 1- امام محمد بن حسن الشیبانی الحنفی (131 هـ-189 هـ) کا نسخہ

2- امام یحیی بن یحیی المصمودی اللیثی (152 هـ-234 هـ) کا نسخہ

 موطا امام مالک کے ان دو نسخوں کے رواج اور نسل در نسل منتقلی میں شاید یہ حکمت تھی کہ یہ دو نسخے مختلف خصوصیات کے حامل تھے۔ 

الجمع بین الروایتین (موطأ بہ روایت یحیی لیثی اور بہ روایت محمد)؛ ایک اجمالی تعارف


 اگر یحیی لیثی کے نسخے کی بات کی جائے، تو امام لیثی(جو کہ محدث ہونے کے ساتھ، فقہ میں امام مالک کے پیروکار تھے) واحد ایسے شاگرد ہیں، جنہوں نے امام مالک سے مذکورہ کتاب دو مرتبہ سماعت کی ہے، ان دو میں سے آخری سماعت 179 ہجری کی ہے اور اسی سال امام صاحب کی وفات ہوئی(اگرچہ یہ دوسری سماعت مکمل نہیں تھی۔سیر اعلام النبلاء، 10/ 520)، اس اعتبار سے امام صاحب جس موطا کی روایت و تدریس اور تہذیب و تنقیح برسہا برس کرتے رہے، اس کی اخری و صحیح ترین شکل امام يحيى کا نسخۂ مؤطا ہے۔ اسی لیے خداوند قدوس نے اس نسخے کو اس قدر مقبولیت دی کہ جب بھی موطا امام مالک کا نام لیا جاتا ہے، تو طبعی طور پر ذہن اسی نسخے کی طرف جاتا ہے۔ 

 دوسری جانب امام محمد بن حسن کی روایت کردہ موطا ایک فقیہ و محقق، بلکہ مجتہد کی روایت و ترتیب ہونے کی بنا پر اپنی الگ شان رکھتی ہے، امام محمد نے امام ابوحنیفہ کی وفات کے بعد، 160ھ میں حجاز کا سفر کیا اور تین برس امام مالک کے پاس رہ کر مکمل موطا سماعت کی، بعد میں آپ نے امام مالک کی تمام مرویات کو ایک نئے نہج پر جمع فرمایا، آپ کی روایت کردہ موطا برصغیر میں موطا امام محمد کے نام سے معروف ہے۔(المھیا فی کشف استار الموطأ بروایۃ محمد بن حسن الشیبانی لعثمان بن سعید الکماخی، ج 1، ص 17)

امام محمد نے اپنے جدید نہج اور البیلے اسلوبِ تصنیف کے ذریعے فقہ حجازی (فقہ مالکی) اور فقہ عراقی ( فقہ حنفی) کے مابین قربت و ہم آہنگی کی عمده و کامیاب کوشش کی ہے، محمدی نسخۂ موطا دیکھنے والے جانتے ہیں کہ امام محمد پہلے امام مالک سے روایت کرده حدیث یا اثر نقل کرتے ہیں، پھر ابراہیم نخعی، امام ابوحنیفہ یا کسی اور عراقی تابعی محدث کی روایت ذکر کرکے دونوں کے مابین مقارنہ و موازنہ کرتے ہیں، احادیث و روایات کو اس انداز سے جمع کرنے کا عمل سب سے پہلے امام محمد نے کیا ہے، بعد میں امام ترمذی کے تالیفی اسلوب میں کچھ کچھ یہ رنگ نظر آیا، لیکن وہ ایک فقیہ کے بجائے ایک محدث کا عمل تھا، جس کا فرق اہل نظر سے پوشیدہ نہیں۔

 یہاں قابلِ ذکر امر یہ بھی ہے کہ امام محمد نے یحیٰی لیثی سے پہلے موطا کی سماعت کی ہے اور لیثی سے زیادہ مدت امام مالک کی صحبت میں رہے ہیں، دوسری جانب یحیی لیثی دو مرتبہ سماعت کی بنا پر اگرچہ ممتاز ہیں، لیکن دوسری سماعت نامکمل ہونے کی بنیاد پر، امام محمد کی موطا، لیثی کی موطا سے کسی درجے کمتر نہیں کہی جاسکتی۔ واللہ اعلم

 (یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ راقم کو تلاش کے بعد بھی یہ بات نہیں مل سکی کہ یحیٰی لیثی نے دوسری ادھوری سماعت کے علاوہ پہلی سماعت امام مالک سے ہی کی تھی، کیوں کہ سیر اعلام النبلاء میں یہ درج ہے کہ یحیٰی لیثی نے پہلی مرتبہ اندلس میں ہی فقیہ "زیاد بن عبد الرحمن شبطون" سے موطأ کی سماعت کی تھی، پھر حجاز کا سفر کیا اور دوبارا امام مالک سے موطأ کا درس لیا۔ سیر اعلام النبلاء 10 / 520

لیکن چونکہ مولانا زین العابدین صاحب اعظمی علیہ الرحمہ نے یہ بات نقل کی ہے، اس لیے بندے نے بھی اسی کو درج کر دیا) 

بہرحال..! موطأ کی انہیں خوبیوں کی بنا پر علماء و محدثین نے اس کتاب کی خوب خدمت کی، اس کی شروحات لکھی، حاشیے چڑھاۓ، احادیث و آثار کی تخریج کی، فقہی اقوال کے مستدلات کی تلاش و جستجو کی...

  اور ان خدمات کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔

 لیکن نسخوں کے اختلاف کی وجہ سے امام مالک کی مرویاتِ مؤطا اب بھی یکجا نہیں تھیں، جو یحیی لیثی کی مؤطا پڑھتا وہ امام محمد کے نسخے کی ان مرویات سے محروم رہ جاتا، جو صرف امام محمد نے امام مالک سے روایت کی تھیں، اور جو مؤطا بہ روایت محمد پڑھتا وہ یحیی لیثی کی روایاتِ منفردہ سے مستفید نہ ہو پاتا۔

چنانچہ یہ ایک ضرورت تھی، کہ دونوں روایتوں کو یکجا کر دیا جائے، تاکہ دونوں کا مقارنہ و موازنہ اور بیک نظر استفادہ آسان ہو، اس ضرورت کی تکمیل کی خواہش علامہ عبد الحی لکھنوی نے بھی کی تھی، لیکن کاتبِ تقدیر کے یہاں قرعۂ فال کسی اور کے نام نکلنا تھا، اور وہ خوش نصیب شخصیت حضرت مولانا عارف جمیل صاحب مبارکپوری (استاذ حدیث و ادب دارالعلوم دیوبند و رئیس التحریر ماہنامہ "الداعی") کی ہے، جنہوں نے "الجمع بین الروایتین" کے نام سے اس عظیم کام کو انجام دیا۔

 مولانا مبارکپوری نے جن خطوط پر کتاب کی بِنا رکھی ہے، ان کو اپنی کتاب کے آغاز میں تفصیل سے بیان کیا ہے، یہاں وہ تفصیل مقصود نہیں، البتہ کتاب کا مجموعی اسلوب ذکر کر دینا مناسب ہوگا۔

بنیادی طور پر کتاب تین اقسام پر مشتمل ہے: 

   1- جن میں پہلی قسم میں وہ روایات جمع کی ہیں، جو امام محمد اور یحییٰ لیثی، دونوں اصحاب کی روایت کردہ ہیں، یہ روایات 831 ہیں۔

2- دوسری قسم امام محمد بن حسن کے ساتھ خاص ہے، جس میں صرف وہ روایات ہیں، جو امام شیبانی نے تنہا امام مالک سے روایت کی ہیں، یحیی لیثی ان کی روایت میں شریک نہیں رہے اور ایسی روایات 213 ہیں۔

3- تیسری قسم میں یحییٰ لیثی کی وہ روایات ہیں، جو انہوں نے امام محمد کی شراکت کے بغیر تنہا امام مالک سے روایت کی ہیں، ان کی کل تعداد 1015 ہے۔

 اس طرح اس کتاب میں آپ کو دونوں نسخوں کی تمام روایات ایک نئے اسلوب میں دیکھنے کو ملیں گی، اور چونکہ اس میں دونوں راویانِ موطأ کی مشترکہ و منفرده دونوں طرح کی روایات جمع ہیں، اس لیے مؤلف محترم نے کتاب کو "الجمع بین الروایتین" سے موسوم کیا ہے۔

 ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس میں موطا امام مالک کی صرف احادیث و آثار درج ہیں، امام مالک کے فتاوی و آراء سے تعرض نہیں کیا گیا، جس سے معروضی طور پر دیگر اہلِ مسالک کے لیے مرویاتِ امام مالک سے استخراج و استدلال آسان ہوگا، نیز روایات میں ترقیم کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے، چنانچہ ہر روایت پر تین نمبرات درج ہیں: 

 1- سب سے پہلے اصل کتاب کا نمبر ہے۔ 

 2- اس کے بعد موطأ بہ روایت یحیی لیثی کی عالمی ترقیم ہے۔

 3- اور آخر میں موطأ بہ روایت محمد کی عالمی ترقیم درج ہے۔

کتاب کے استناد اور علمی اہمیت کے لیے ویسے تو خود مؤلف کا نام ہی کافی ہے، جو کہ ایک باکمال ادیب، اردو عربی کے کامیاب رواں دواں ترجمہ نگار اور دارالعلوم دیوبند کے عربی ترجمان "الداعی" کے رئیس التحریر ہونے کے ساتھ، حدیث و فقہ میں بھی یدِ طولی رکھتے ہیں، اور ان دونوں میدانوں میں بھی ان کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے، چناچہ اس سے قبل حدیث وفقہ کے عظیم موسوعہ "اعلاء السنن" کی، "المعتصر من اعلاء السنن" کے نام سے کامیاب تلخیص فرما چکے ہیں، جو ہندوستان کے ساتھ بیروت سے بھی مطبوعہ ہے، اس کے علاوہ نصف درجن سے زائد مفید ترین اردو و عربی کتب کے مصنف و مرتب ہیں۔ 

لیکن جب اس کتاب پہ بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی (استاذ حدیث وصدر شعبۂ تخصص فی الحدیث دارالعلوم دیوبند) اور مولانا زین العابدین صاحب اعظمی رحمہ اللّٰہ (سابق صدر شعبہ تخصص فی الحدیث مظاہر علوم سہارنپور) نے اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے، تقاریظ رقم فرما دیں، تو اس کتاب کی اہمیت کس قدر بڑھ جاتی ہے، یہ ان دو صاحبانِ علم کی جلالتِ شان سے واقفیت رکھنے والوں پر مخفی نہیں ہے۔

یہ کتاب عمده کاغذ، صاف کتابت اور بہترین و دیدہ زیب سرورق کے ساتھ "دار الرياحين، اردن" سے چند ماہ قبل شائع ہوئی ہے اور دنیا بھر کے اہل علم کو دعوتِ استفادہ دے رہی ہے۔ 

 اللہ سے دعا ہے کہ حضرت مولانا عارف جمیل صاحب مبارکپوری کی اس عظیم علمی و حدیثی کاوش کو حسنِ قبول عطا فرماۓ اور مؤلف محترم کو اجر جزیل سے نوازے۔ امین 

ابن مالک ایوبی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے