مدنی دارالمطالعہ کے عظیم الشان اختتامی اجلاس کی مختصر رپورٹ

 مدنی دارالمطالعہ کے عظیم الشان اختتامی اجلاس کی مختصر رپورٹ

مدنی دارالمطالعہ کے عظیم الشان اختتامی اجلاس کی مختصر رپورٹ

دارالعلوم دیوبند کی معروف ومشہور انجمن مدنی دارالمطالعہ کا عظیم الشان اختتامی اجلاس ٢٧/جمادی الثانی ١٤٤٤ھ مطابق 20/جنوری 2023ء بہ روز جمعہ بعد نمازِ عشاء سابق دارالحدیث (ہفتم ثانیہ) میں منعقد ہوا ،اجلاس کی صدارت جامعہ کے مایۂ ناز استادِ حدیث حضرت مولانا و مفتی عبداللہ معروفی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے فرمائی ،اور سرپرستی انجمنِ ہذا کے سرپرستِ محترم حضرت مولانا و مفتی سلمان صاحب  منصور پوری مد ظلہ نے فرمائی ،جب کہ مہمانِ خصوصی کے طور پر دارالعلوم دیوبند کے مھتمم وشیخ الحدیث حضرت مولانا ومفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت فیوضہم اور دارالعلوم کے نائب مھتمم ونگراں شعبۂ تحفظِ سنت حضرت مولانا ومفتی راشد صاحب اعظمی دامت فیوضہم شریک رہے ۔


  اجلاس کا آغاز حضرت قاری یوسف صاحب استادِ تجوید و قرات دار العلوم دیوبند کی پرسوز آواز میں تلاوتِ کلام اللہ سے ہوا ،مولوی عبد العلیم سدھارتھ نگری اور مولوی معین گونڈوی نے اپنے دلکش اور مترنم آوازوں میں نعتِ نبی گنگنا کر سامعین کو مسحور کیا 

   

           اس کے بعد مولوی ابوطالب جے پوری نے تحریکِ صدارت پیش کی، جس کی بزمِ ہذا کی جانب سے مولوی محمود حسن مئوی نے پرزور تائید کی ۔

منصبِ صدارت کے لیے موزوں شخصیت کے انتخاب کے بعد سالارِ قافلہ نمونۂ اسلاف جامعہ کے مھتمم *مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم العالیہ* نے مختصر خطاب فرمایا ،حضرت نے دوران ِ گفتگو فرمایا کہ جو مساہمین آپ کے سامنے پروگرام پیش کررہے ہیں ،اس کے دو فائدے ہیں: 

(١) مساہمین کی حوصلہ افزائی کرنا

 (٢) سامعین میں تقریر وخطابت اور دیگر پروگرام پیش کرنے کی تحریک پیدا کرنا ،

    *حضرت نے مزید فرمایا کہ ہمیں خطابت کے لیے صرف خطبات کی کتابوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے ؛بل کہ ان کے مآخذ سے رجوع کرنا چاہیے آپ کے پاس آپ کی ذاتی لائبریری ہونی چاہیے ،اکابر کی کتابیں آپ کے مطالعے میں ہونی چاہیے، جب آپ مدرسے سے باہر نکلیں گے تو دوسرے لوگ آپ کے اکابر کی باتیں آپ کے خلاف پیش کریں گے ،اگر وہاں جواب نہ بن سکا تو شرمندگی اٹھانی پڑے گی* ،اسی لیے ہر مضمون اور ہر عنوان پر آپ کا مطالعہ ہونا چاہیے ،میں مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ یہ حضرات آپ کے سامنے دلچسپ پروگرام پیش کررہے ہیں ،اخیر میں حضرت نے پروگرام میں پیش کیے جانے والے کوئز (محاضراتِ حدیث) میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی نصیحت فرمائی ۔


مھتمم صاحب کے بیان کے بعد مولوی شفیق الرحمن دہلوی نے ”رپورٹ شعبہء خطابت“، مولوی حشمت اللہ دربھنگوی نے ”رپورٹ شعبہء صحافت “اور مولوی اسید شاہد اعظمی نے ”رپورٹ لائبریری “اچھوتے انداز میں پیش کیں ،جب کہ مولوی ابوطلحہ بہرائچی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرکے سامعین کی خدمت میں گلہائے  تشکر و امتنان نچھاور کیے ۔

پروگرام میں تین مختلف موضوعات پر ایک تقریری مسابقہ بھی ہوا ،جس میں  *اسلامی تعلیمات کا تمسخر اور دنیا وآخرت میں اس کا وبال*  کے موضوع پر مولوی محمد حماد گریڈیہہ نے تقریر پیش کی، *حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ کا علمی انہماک اور آپ کی تدریسی وتصنیفی خدمات* کے اہم عنوان پر مولوی محمد دلشاد دربھنگوی نے تقریر پیش کی ،اور *جرائم کی روک تھام کا طریقۂ کار شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں* کے عنوان پر مولوی محمد اسجد بہرائچی نے تقریر پیش کی ۔اس مسابقے میں پوزیشن لانے والے احباب کو پروگرام کے اخیر میں انعامات سے نوازا گیا ۔


  اس کے بعد جامعہ کے نائب مھتمم حضرت الاستاذ *مفتی راشد صاحب اعظمی* نے مختصراً بیان فرمایا ،حضرت نے شرکاءِ بزم کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے کہا کہ یہ طلبہ جس طرح باحوالہ اور مواد سے بھرپور تقریر کررہے تھے ،اگر یہ پردے کے پیچھے ہوتے تو میں کہتا یہ سب طالب علم نہیں ؛بل کہ کسی مدرسے کے استاد ہیں ،رپورٹ پیش کنندگان پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا لگ رہا تھا  کہ یہ رپورٹ کسی انجمن کی نہیں ؛بل کہ دارالعلوم دیوبند کی پیش کی جارہی ہو ،حضرت نے مزید فرمایا کہ *دارالعلوم دیوبند نے ہمیشہ فرقۂ باطلہ کا مقابلہ کیا ہے ،دارالعلوم دیوبند کا نام سنتے ہی فتنے کا منھ بگڑ جاتا ہے ،علماءِ دیوبند کا نام سنتے ہی فتنہ پردازوں پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے ،آپ لوگوں کو بس تھوڑی سی محنت کرنے کی ضرورت ہے،ماضی اور حال کی طرح ان شاءاللہ مستقبل بھی آپ کا روشن رہے گا*۔


    حضرت نائب مھتمم صاحب کے بیان کے بعد *محاضراتِ حدیث* ایک مطالعہ کے عنوان سے ایک دلچسپ کوئز پیش کیا گیا ،جس میں ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ  کی کتاب ”محاضراتِ حدیث “سے مولوی محمد خبیب میرٹھی نے چند سوالات کیے  اور ایک سوال پروگرام کے تعلق سے بھی پیش کیا گیا ،ماشاء اللہ شرکاء نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔

         بعدازاں *سوشل میڈیا کا استعمال نفع وضرر کی میزان میں* کے عنوان سے ایک دلچسپ علمی مکالمہ بھی پیش کیا گیا ،جس میں سوشل میڈیا کے مفادات ومضرات پر سیر حاصل بحث کی گئی ،جس کا خلاصہ یہ نکلا کہ سوشل میڈیا کے جہاں ارسال وترسیل ،تبلیغ وتشریح ، کتابوں کی فراہمی اور ڈیجیٹل مطالعہ ،اشیاء کا لین دین وغیرہ جیسے بہت سے فوائد ہیں ،وہیں ارتداد، فکری بے راہ روی، غلط اور فحش ویڈیوز کی لت، نگاہوں کا غلط استعمال ،بے محابا مرد وزن کا اختلاط جیسے بے شمار نقصانات بھی ہیں ،گویا کہ سوشل میڈیا *اثمهما أكبر من نفعهما* کا کامل مصداق ہے ،لہذا اگر سوشل میڈیا کا استعمال ناگزیر ہو تو اس کے نقصانات و مضرات سے بچ بچاکر اس کے محاسن وفوائد کو اپنانا چاہیے، 


      مکالمہ پیش کنندگان میں مولوی محمد ارشد بجنوری، مولوی محمد معین گونڈوی ،مولوی دلشاد دربھنگوی ،مولوی محمد عامر بجنوری ،مولوی محمد عمار ہردوئی ،مولوی عبدالحکیم سدھارتھ نگری ،مولوی حسان عمر کبیر نگری اور مولوی عبیداللہ امبیڈکر نگری شامل رہے۔


    بعدہ مدنی دارالمطالعہ کی منفرد شناخت ،آن بان شان آواز کا سفر بہ عنوان: *تعارفِ باری تعالیٰ کا سفر آواز کی شاہراہ پر* پیش کیا گیا ،جس میں خدا تعالیٰ کی مختلف صفتوں سے وجودِ خداوندی پر استدلال کیا گیا،قرآن وحدیث کی روشنی میں باری تعالیٰ کا جامع تعارف پیش کیا گیا،قرآن وحدیث کی دلکش اور مترنم آوازوں میں تلاوت اور جابجا اشعار کی پیوندکاری نے آواز کے سفر کا لطف مزید دوبالا کردیا ۔

             یہ پروگرام مولوی محمد خبیب میرٹھی ،مولوی محمد اسامہ ہردوئی ،مولوی محمد معین گونڈوی ،مولوی محمد ارشد بجنوری اور مولوی عبدالحکیم سدھارتھ نگری نے پیش کیا ۔

   

      آواز کے سفر کے معاً بعد صدرِ اجلاس *حضرت مولانا ومفتی عبداللہ صاحب معروفی دامت برکاتہم العالیہ* نے ”حجیتِ حدیث “پر زبردست اور پرمغز خطاب کیا ،حضرت نے دورانِ خطابت فرمایا کہ آج صحابہ کرام کے متعلق مختلف شوشے چھوڑے جاتے ہیں ،گمراہ فرقے چاہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر سے لوگوں کا اعتماد واعتقاد متزلزل ہوجائے ،جو منتج ہوتا ہے انکارِ حدیث پر ، *منکرینِ حدیث کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے،دوسری طرف حضرت عمر فاروق رضی عنہ کا قول ہے،تم کس پر عمل کروگے؟حضرت الاستاذ نے پرجوش انداز میں فرمایا کہ تم حدیث کہ سلسلے میں یہ کہہ رہے ہو ،میں کہتاہوں اگر بالفرض ایک جانب قرآن ہو اور دوسری جانب حضرت عمر کا فرمان ہو تو وہاں بھی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان پر ہی عمل کروں گا ؛کیوں کہ حضرت عمر فاروق رضی عنہ قرآن وحدیث کے خلاف کچھ بول ہی نہیں سکتے ،وہ دوسرے خلیفہ اور جلیل القدر صحابی تھے ،انھیں آج کے روشن خیال مفکرین اور طوطے کی طرح ٹرٹر بولنے والوں سے زیادہ ناسخ ومنسوخ کا علم تھا*  ،حضرت نے مزید فرمایا کہ حضرات ِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بعض گناہ کرائے گئے ہیں ،تاکہ اس کے متعلق اسلامی تعلیمات اور اس کے نفاذ کے طریقوں سے امت کو آگاہ کیا جائے ؛اس لیے صحابہ کرام کے خلاف زبانِ طعن دراز کرنا صحیح نہیں ہے ،یہ صحابہ کرام کے ساتھ گستاخی اور ان کے ناموس پر حملہ ہے ۔


   اخیر میں انجمنِ ہذا کے سرپرستِ محترم حضرت الاستاذ *مفتی سلمان صاحب منصور پوری دامت برکاتہم العالیہ* نے مختصر خطاب فرمایا، جس میں شرکاءِ بزم کی حوصلہ افزائی فرمائی ،حضرت نے فرمایا کہ یہ پروگرام تو مشق اور محض حوصلہ افزائی کے لیے تھا ،جب آپ مدرسے کی چہار دیواری سے باہر نکلیں گے تو آپ کو حالات اور ماحول کاخیال رکھنا ہے ،ایک اچھا مقرر وہی ہے جو زمانہ شناس ہو اور پروگرام کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے بیان کرے۔

حضرت نے مزید فرمایا کہ *تقریر وخطابت صرف واہ واہی کے لیے نہیں ہے ؛بل کہ یہ تبلیغِ اسلام کا ذریعہ ہے ،اس کو اسلام اور شعائرِ اسلام کی حفاظت کے لیے سیکھنا چاہیے* ،جب آپ کو کسی پروگرام میں مدعو کیا جائے تو پوری تیاری کے ساتھ جائیں اور اجلاس کی نوعیت کا خیال رکھ کر تقریر کریں ، *بہتر ہوگا کہ پروگرام میں پیش کی جانے والی چیزوں کا پہلے سے ایک نوٹ تیار کرلیں اور پھر اس کی روشنی میں گفتگو کریں ،پھر حضرت الاستاذ نے اپنے والدِ محترم حضرت اقدس قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری رحمہ اللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے والدِ محترم کو دیکھتا تھا کہ پروگرام میں شرکت سے قبل اجمالی طور پر موضوع سے متعلق ایک نوٹ  تیار کرلیا کرتے تھے* ۔

       

        مختصر خطاب کے بعد حضرت سرپرستِ محترم کے دستِ مبارک سے ہی تقسیمِ انعامات کا سلسلہ شروع ہوا ،پہلے ششماہی مسابقۂ خطابت میں شرکت کرنے والے طلباء کو انعام سے نوازا گیا ،یاد رہے کہ ششماہی مسابقۂ خطابت کل چھ مرحلوں میں مکمل ہوا جس میں پچاس افراد شریک رہے،جس میں *مولوی محمد عارف کٹیہاری کی اول پوزیشن ،مولوی محمد اسجد بہرائچی کی دوم پوزیشن اور مولوی محمد زید بجنوری کی سوم پوزیشن آئی ،ان احباب کو بالترتیب ١٥٠٠/١٣٠٠/١٢٠٠/روپے مالیت کی کتابیں انعام میں دی گئیں*،جب کہ باقی شرکاء کو تشجیعی انعامات سے نوازا گیا ۔

       

         پھر سالانہ مسابقۂ خطابت میں شرکت کرنے والے احباب میں انعامات تقسیم کیے گئے ،اس مسابقے میں ٥٤/شرکاء نے حصہ لیا جب کہ ٦/نظماء نے شرکت کی ،نظماء اور شرکاء دونوں کے لیے الگ عنوانات مقرر کیے گئے تھے اور ان کا مسابقہ بھی الگ الگ ہوا ،نظماء کا مسابقہ ایک مرحلے میں پایۂ تکمیل کو پہنچا،جس میں *مولوی دلشاد دربھنگوی نے اول پوزیشن ،مولوی محمد عامر ایاز بجنوری نے دوم پوزیشن اور مولوی عبدالحکیم سدھارتھ نگری اور مولوی حسان عمر کبیر نگری نے سوم پوزیشن حاصل کی*

       مولوی دلشاد دربھنگوی دارالحدیث میں تقریر کرنے کے لیے منتخب ہوئے تھے، باقی دوم سوم پوزیشن لانے والے احباب کو بالترتیب ١٤٩٠/اور ١٠٣٠/روپے کی مالیت کی کتابیں انعام میں دی گئیں اور دیگر مساہمین کو تشجیعی انعام سے نوازا گیا ۔

       

       شرکاء کا سالانہ مسابقۂ خطابت کل پانچ مرحلوں میں مکمل ہوا ،جس میں *مولوی محمد اسجد بہرائچی نے اول پوزیشن ،مولوی حماد گریڈیہہ نے دوم پوزیشن اور مولوی عبدالصبور کبیر نگری نے سوم پوزیشن حاصل کی*،

جن میں سے مولوی محمد حماد گریڈیہہ اور مولوی محمد اسجد بہرائچی دارالحدیث میں تقریر کرنے کے لیے منتخب ہوئے تھے ،سوم پوزیشن لانے والے ساتھی کو ١٠٠٠/روپے مالیت کی کتابوں سے جب کہ دیگر مساہمین کو تشجیعی انعامات سے نوازا گیا۔

*دارالحدیث میں تقریر کرنے کے لیے تین احباب کا انتخاب عمل میں آیا تھا ،جن میں اول پوزیشن مولوی محمد اسجد بہرائچی نے حاصل کی ،ان کو ٤٠٠٠/روپے مالیت کی کتابیں خصوصی طور پر انعام میں دی گئیں ،مولوی محمد دلشاد دربھنگوی اور مولوی محمد حماد گریڈیہہ دونوں نے دوم پوزیشن حاصل کی ،دونوں کو ٢٠٢٠/روپے مالیت کی کتابوں سے نوازا گیا*۔


     خطابت کے بعد صحافت کے مساہمین میں انعامات کی تقسیم کی گئی،ملحوظِ خاطر رہے کہ اس مرتبہ مدنی دارالمطالعہ کے ذمہ داروں نے طلبہ کی تحریری صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لیے طلباء دارالعلوم دیوبند کے مابین دو مسابقۂ صحافت کرایا تھا ،ایک ”مدنی دارالمطالعہ“ کے اسٹیج سے اور دوسرا (اس غرض سے کہ مدنی دارالمطالعہ کے روز مرہ کی مشغولیات میں کوئی فرق نہ آئے)”لجنۃالمولفین“کی اسٹیج سے،

پہلے لجنۃ المؤلفین کے تحت منعقد  ہونے والے مسابقۂ صحافت کے انعامات تقسیم کیے گئے ،یاد رہے کہ اس مسابقے کے لیے دو عنوانات مقرر کیے گئے تھے

(١) *کسب ِ معاش کی فضیلت قرآن وحدیث کی روشنی میں*

(٢)  *اسلام کا تصورِ سیاست اور عصرِ حاضر میں اس کی معنویت*

 ان دونوں موضوعات پر ١٢/ صفحہ لکھنے کا مکلف بنایا گیا تھا ،جن پر کل ٤٥/مقالے جمع ہوئے ،یہ مسابقہ کل تین مرحلوں میں مکمل ہوا ۔ 

      *اس مسابقے میں مولوی ابوخالد کریم گنجی نے اول پوزیشن ، مولوی فرحان میرٹھی نے دوم پوزیشن،مولوی محمد اسعد کبیر نگری نے سوم پوزیشن ،مولوی معاذ حیدر کلکتوی نے چہارم پوزیشن،مولوی محمد اسجد بہرائچی نے پنجم پوزیشن حاصل کی ان حضرات کو حسبِ اعلان بالترتیب ٣٥٠٠/٣٠٠٠/٢٥٠٠/٢٠٠٠/١٥٠٠/روپے مالیت کی کتابیں خصوصی طور پر انعام میں دی گئیں ،جب کہ دیگر مساہمین کو تشجیعی انعامات سے نوازا گیا*۔


      اس کے بعد مدنی دارالمطالعہ کے تحت منعقد ہونے والے سالانہ مسابقۂ صحافت کے مساہمین میں انعامات تقسیم کیے گئے ،اس مسابقے کے لیے بھی دو عنوانات مقرر ہوئے تھے 

(١)  *انکار حدیث کا تحقیقی جائزہ تاریخ کی روشنی میں* ۔

(٢) *مدارس ِدینیہ کی اہمیت وافادیت اور دور حاضر میں اس کے تقاضے*۔ 

ان دونوںموضوعات پر  ١٥/صفحات  لکھنا لازم قرار دیا گیا تھا ،ماشاء اللہ کل ملا کر ٥٠/مقالے جمع ہوئے ، یہ مسابقہ کل چار مرحلوں میں مکمل ہوا ،

*اس مسابقے میں مولوی عمر اتردیناج پوری نے اول پوزیشن ،مولوی محمد عمار ہردوئی نے دوم پوزیشن ،مولوی اجمل معروفی نے سوم ،مولوی احمد دربھنگوی نے چہارم پوزیشن اور مولوی محمد حذیفہ نوری کلکتوی نے پنجم پوزیشن حاصل کی* ،ان حضرات کو بالترتیب ٥٠٠٠/٤٥٠٠/٤٠٠٠/٣٥٠٠/٣٠٠٠/روپے مالیت کی کتابیں خصوصی طور پر انعام میں دی گئیں جب کہ دیکر تمام مساہمین کو تشجیعی انعامات سے نوازا گیا ۔

  اس اجلاس میں شروع تا آخر نظامت کے فرائض *مولوی مدثر نور الہ آبادی ،مولوی احمد دربھنگوی اور مولوی محمد خبیب میرٹھی نے مشترکہ طور پر انجام دیے* ۔

   

    اجلاس کا اختتام حضرت صدرِ محترم کی دعا پر ہوا ،مولوی محمد خبیب میرٹھی نے سامعین کا شکریہ ادا کیا ۔


احقر کی دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام شرکاءِ بزم کو خطابت وصحافت کا شہسوار بنائے اور سب کو دینِ متین کی تبلیغ واشاعت کے لیے قبول فرمائے ۔آمین


✍️ احمد دربھنگوی

٢٩/جمادی الثانی ١٤٤٣ھ

مطابق ٢٢/جنوری ٢٠٢٢ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے