مدنی دارالمطالعہ کا عظیم الشان افتتاحی اجلاس اختتام پذیر

 مدنی دارالمطالعہ کا عظیم الشان افتتاحی اجلاس اختتام پذیر          

احمد دربھنگوی ( ناظم مدنی دارالمطالعہ، متعلم تکمیل ادب دارالعلوم دیوبند )   



                                      

       دارالعلوم دیوبند کی مرکزی انجمن مدنی دارالمطالعہ کا عظیم الشان افتتاحی اجلاس 6/صفر المظفر 1445ھ مطابق25اگست2023ء بہ روز جمعرات دارالعلوم دیوبند کی قدیم دارالحدیث کے وسیع وعریض ہال میں منعقد ہوا ،اجلاس کی سرپرستی انجمن ہذا کے سرپرست محترم ونائب مھتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا و مفتی راشد صاحب اعظمی دامت برکاتہم العالیہ نے فرمائی جب کہ اجلاس کی صدارت جامعہ کے مایہ ناز استاد حدیث حضرت مولانا مفتی عبداللہ صاحب معروفی دامت برکاتہم العالیہ نے فرمائی۔

 

       اجلاس کا آغاز قاری محمد اظہر سدھارتھ نگری کی مسحور کن تلاوت سے ہوا اور مولوی محمد عابد رام پوری نے دل کش لب ولہجے میں شانِ رسالت میں نذرانۂ عقیدت پیش کیا  ،

  

     تلاوت کلام اللہ اور نعت نبی کے بعد مولوی احمد دربھنگوی نے *"محاضرات قرآنی"* کے عنوان سے ایک کوئز پیش کیا ،جس میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کی معروف کتاب "محاضرات قرآنی"سے چند سوالات کیے ،شرکاء نے کافی دل چسپی کا مظاہرہ کیا اور جوابات دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،اجلاس میں ایک کوئز *پروگرام کے مشمولات اور مضامین* کے تعلق سے بھی تھا ،اس ذمہ داری کو مولوی ابوطالب جے پوری نے بہ حسن وخوبی انجام دیا ،صحیح جواب دینے والے احباب کو چھ سو روپے مالیت کی کتاب تین جلدوں پر مشتمل "آسان ترجمۂ قرآن"بروقت انعام میں دی گئی ۔

    

         اس کےبعد مولوی محمد اسید لکھیم پوری نے *مدنی دارالمطالعہ کا جامع تعارف* پیش کیا اور اس کے شعبوں و سرگرمیوں سے سامعین کو آگاہ کیا ،مولوی محمد عبیداللہ امبیڈکرنگری نے شرکاء محفل کی خدمت میں عقیدت ومحبت اور تشکر وامتنان کے پھول نچھاور کیے اور اجلاس میں تشریف آوری پران کا *پرتپاک خیرمقدم* کیا ،مولوی محمد انضمام الحق بجنوری نے *تحریکِ صدارت* پیش کی ،جس کی مولوی محمد عارف کٹیہاری نے سب کی طرف سے پرزور *تائیدو توثیق* کی ۔

     

     بعدازاں دو اہم عنوانات پر تقریری مسابقہ بھی ہوا،جس میں مدنی دارالمطالعہ کے نظماء نے عمدہ اور دلکش انداز میں تقریر پیش کی ،پہلی اور دوسری تقریر *"یکساں سول کوڈ حقیقت کےآئینے میں"* کے عنوان پر مولوی محمد اسلام مظفر نگری اور مولوی محمد شفیع اللہ کبیر نگری نے یکے بعد دیگرے پیش کی،ان دونوں حضرات نے یو سی سی کیا ہے ؟اس قانون کے نفاذ سے  معاشرے اور ملک میں کیا تبدیلیاں آئیں گی ؟مسلم پرسنل لا کی حیثیت کیسے ختم ہوجائے گی ؟یہ قانون دیگر اقوام اور دستورِ ہند سے متصادم کیوں کر ہے؟اس قانون کے تعلق سے ہمیں کیا اقدامات اور کیا تدابیر اختیار کرنی چاہیے ؟ غرض یہ کہ موضوع سے متعلق ہر ایک جزء پر سیر حاصل بحث کی ۔


        دوسری تقریر *"اسلام میں اقلیتوں کے حقوق"* کے موضوع پر مولوی محمد عمار سدھارتھ نگری نے پیش کی ،جس میں موصوف نے قرآن وحدیث اور آثار صحابہ کی روشنی میں اسلامی سلطنت میں اقلیتوں کو جو حقوق اور مراعات دیے گئے ہیں ان پر تفصیلی گفتگو کی اور کہا کہ اسلام نے اقلیتوں کو اجنبی اور پردیسی کبھی خیال نہیں کیا ،ان کو وہ تمام حقوق دیے جو ایک مسلمان کو حاصل ہوتے ہیں ؛بل کہ ان کے جان و مال اور عزت وآبرو کا تحفظ اسلامی سلطنت اور مسلمانوں کا فریضہ قرار دیا ،تاریخِ اسلام میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جہاں  غیر مسلم کے قتل کے بعد مسلمان کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا ۔


     اس مسابقے میں *حکمیت کے فرائض* جامعہ کے تین کبار اساتذہ صدرِ اجلاس حضرت مفتی عبداللہ صاحب معروفی دامت برکاتہم العالیہ استاد حدیث دارالعلوم دیوبند،حضرت مولانا محبوب فروغ احمد صاحب سمستی پوری دامت برکاتہم العالیہ استاد حدیث و تفسیر دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا ومفتی عبدالرزاق صاحب دامت برکاتہم العالیہ استاد حدیث دارالعلوم انجام دے رہے تھے ،یاد رہے کہ یہ تینوں مساہمین دومسابقتی مراحل سے گزر کر مسابقہ دارالحدیث کے لیے منتخب ہوئے تھے ۔

      اس مسابقے میں مولوی محمد عمار سدھارتھ نگری اور مولوی محمد شفیع اللہ کبیر نگری نے بالترتیب اول دوم پوزیشن حاصل کی ۔

           بعدہ مدنی دارالمطالعہ کے سرپرست محترم *حضرت اقدس مفتی محمد راشد صاحب اعظمی* دامت برکاتہم العالیہ نے طلبہ کی حوصلہ افزائی فرمائی اور دارالعلوم دیوبند کے فاضل کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم دیوبند کا فاضل ہمہ جہت ہوتا ہے ،اس کو کسی بھی میدان میں کھڑا کردو حسنِ کارکردگی سے وہ میدان کو سر کرلے گا اور کسی کو کوئی اعتراض کا موقع بھی نہیں دے گا ،دارالعلوم کا فاضل بیک وقت مصلح ،قائد ،ہادی اور رہنما سب کچھ ہوتا ہے ،پھر حضرت الاستاذ نے فرمایا تم اپنے اندر شجاعت وہمت اور دور اندیشی پیدا کرو اور حماقت سے بچو ،دیکھو تمہارے اکابر نے کس طرح فراست، نورِ ایمانی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا پھر حضرت نے حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کا وہ واقعہ سنایا جب وہ رنگون (برما)کے سفر پر تشریف لے گئے تو ان کو انگریزوں کے خلاف بولنے سے منع کیا گیا ،حضرت نے اس وقت تو کوئی جواب نہ دیا ؛لیکن جب وہ اسٹیج پر تشریف لے گئے تو فرمایا کہ اگر ہمارے یہ برادران مجھے نہ روکتے تو میں انگریزوں کے یہ مظالم سناتا اور اس طرح کہہ کر انھوں نے انگریز کے تمام مظالم بیان کردیے ،خود تو جیل گئے ؛لیکن اپنے پیچھے مسلم بھائیوں کو بچاگئے ،

پھر حکیم الاسلام حضرت قاری طیب صاحب علیہ الرحمہ کا واقعہ سنایا اور فرمایا کہ دیکھو ان کو تقریر پر اتنی دسترس تھی کہ انھوں نے "علی گڑھ مسلم یونیورسٹی" پہنچ کرانھیں لوگوں کے موضوع یعنی "اسلام اور سائنس" پر ایسی تقریر پیش کی کہ لوگ عش عش کر اٹھے ،ان کی یہ تقریر چھپی ہوئی ہے آپ لوگ اس کا مطالعہ کریں ۔

 


    

         اجلاس میں *"اسلام پر بے جا اعتراضات :  ایک تنقیدی جائزہ"* کے عنوان سے ایک دلچسپ علمی مکالمہ بھی ہوا ،جس میں عصرِ حاضر کے چند سلگتے مسائل اور اسلام پر ہونے  والے بے جا اعتراضات یعنی نکاح وطلاق ،تعددِ ازدواج ،حلالہ ،آزادیٔ نسواں ،حجاب ،گوشت خوری ،جہاداور اشاعتِ اسلام بہ زورِ شمشیر یا بہ ذریعۂ اخلاق جیسےموضوعات پر علمی ،تحقیقی ،باحوالہ اور مدلل گفتگو کی گئی ۔

      مکالمہ پیش کنندگان میں : مولوی محمد دلشاد دربھنگوی،مولوی محمد عمار ہردوئی،مولوی عبدالحکیم سدھارتھ نگری ،مولوی حسان عمر کبیر نگری ،مولوی محمد اسجد بہرائچی ،مولوی محمد صدیق گونڈوی مولوی محمد حذیفہ ممبئی ،مولوی محمد حماد جھارکھنڈی اور مولوی محمد زید بجنوری شامل رہے ۔

   

         بعدِ ازاں  مدنی دارالمطالعہ کا مقبول اور اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام آواز کا سفر بہ عنوان: *"نورِ توحید کا سفر اتمام کی شاہراہ پر"* بھی پیش کیا گیا ،جس میں حالاتِ حاضرہ کی  عکاسی کےساتھ ،مسلمانوں پر ہورہے مظالم کو کا نقشہ کھینچا  گیا ،اور اس امید ویقین کے ساتھ کہ جلد تاریکی چھٹے گی اور سپیدہ سحری کا عروج ہوگا آواز کا سفراختتام کو پہنچا، موقع بہ موقع اشعار کی پیوندکاری سے سامعین خوب محظوظ ہوئے ۔

    یہ پروگرام مولوی محمد اسامہ ہردوئی ،مولوی محمد دلشاد دربھنگوی،مولوی محمد معین گونڈوی ،مولوی عبدالحکیم سدھارتھ نگری اور مولوی محمد اسجد بہرائچی نے پیش کیا ۔

     

             آواز کے سفر کے بعد جامعہ کے استاذ ادب *حضرت مولانا اشرف عباس صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے "اسلام میں اقلیتوں کے حقوق"* کے موضوع پر مختصر مگر جامع خطاب فرمایا: حضرت نے کہا ہے کہ اقلیت کا لفظ بہت بعد کی ایجاد ہے ،لوگوں نے اقلیتوں کے حقوق کے سلسلے میں ایک دن متعین کررکھا ہے چناں چہ آج کل ١٨/دسمبر کو "یومِ اقلیت" کے طور پر مناتے ہیں، اسلام میں غیرمسلموں کے لیے اقلیت جیسے الفاظ نہیں ملتے ؛بل کہ اسلام نے اپنی سلطنت کے حدود میں بسنے والے غیرمسلموں کے لیے "معاہد"اور" ذمی" جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں ،یہ الفاظ ہی بتلاتے ہیں کہ اسلام کے نزدیک غیر مسلم رعایا کا کیا مقام ومرتبہ ہے اور مسلمانوں کو ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے ،چناں چہ اسلام نے غیر مسلموں کو ہرقسم کی آزادی دی ہے ،ان کے جان و مال سے کبھی تعرض نہیں کیا گیا ،ان کو اپنے مذہبی رسومات ادا کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی  ، پھر حضرت نے یہ واقعہ بیان کیا کہ نجران کے چند عیسائی راہبین مدینہ منورہ تشریف لائے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ ان کا پرتپاک خیرمقدم کیا ؛بل کہ ان کو اپنی مسجد میں بیت المقدس کی طرف رخ کرکے عبادت کرنے کی بھی اجازت دے دی ۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ کے دورِ خلافت میں چند عیسائی آئے اور شکایت کی کہ آپ کے پیش رو خلیفہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں "کنیسۂ یوحنا" کو مسجد کی زمین کے ساتھ شامل کرلیا گیا تھا ،جب تحقیق کی گئی تو بات صحیح تھی ،آپ نے اسی وقت وہاں کے عامل کولکھ بھیجا کہ زمین صاحبِ زمین کے حوالے کردی جائے ۔

اسلام نے تو ان کی جان کی حفاظت کا ذمہ بھی اپنے سرلے لیا ،اگر باڈر پر لڑائی ہورہی ہے یا اسلامی سلطنت میں غیر مسلموں پر کوئی حملہ کردے تو یہ مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دشمنوں کا مقابلہ کریں اور ان کا دفاع کریں ،اس حفاظت کے بدلے میں وہ مسلمانوں کو چھوٹی سی رقم جزیے کی شکل میں دیتے ہیں،اگر مسلمان ان کی جان و مال کی حفاظت نہیں کرتے تو انہیں جزیہ لینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ،

پھر حضرت الاستاذ نے وہ تاریخی واقعہ سنایا کہ جب جیشِ‌ اسلامی کے سپہ سالار امین الامت حضرت ابوعبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ نے "جنگ یرموک"سے فراغت کے بعد  دوسرے محاذ کا قصد کیا تو آپ نے وہاں کے باشندوں سے لیا ہوا جزیہ انھیں واپس کردیا اور یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ میں نے یہ جزیہ تمہاری حفاظت کے لیے لیا تھا ؛لیکن مجھے دوسرا محاذ درپیش ہے ،میں تم لوگوں کے جان و مال کی حفاظت نہیں کرسکتا ،لہذا جزیہ واپس کررہا ہوں ،

اسلام نے کبھی بھی غیر مسلموں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کی ،حتی کہ ان کے غیر فطری اعمال پر بھی کبھی پابندی نہیں لگائی ،بعض مذاہب میں حقیقی بھائی اور بہن کے مابین شادی کا رواج تھا، اور وہ لوگ کھلے عام اس طرح کی شادی رچاتے تھے ،خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جب یہ دیکھا تو ان سے رہا نہ گیا اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے ،آخر خلفاء اربعہ اس پر کیسے خاموش رہ گئے تو حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے جو جواب دیا وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے ،انھوں نے فرمایا: *"انما انت بمتبع لست بمبتدع"* کہ آپ صرف اتباع کرنے والے ہیں ایجاد کرنے والے نہیں۔

یہ ہیں اسلامی تعلیمات ، انھیں تعلیمات سے متاثر ہوکر بہت سے غیر مسلمین اسلام کے دامن سے وابستہ ہوئے ،دنیا کو اقلیتوں کے حقوق کے سلسلے میں اسلامی قوانین پر کوئی اعتراض نہیں ہے ؛لیکن جب وہ موجودہ مسلم ممالک کے حالات دیکھتے ہیں جو کہ بہت اچھے نہیں ہیں تو ان کے دلوں میں اسلام کے تئیں شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں ،ہمارے یہاں مسلمان چوں کہ اقلیت میں ہیں ؛اس لیے ہمیں اس موضوع کی ضرورت پڑتی رہتی ہے ؛لیکن ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ،مسلمانوں کی تعداد یہاں اس قدر ہے جتنی بڑے بڑے مسلم ممالک میں بھی نہیں ہے ، ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر عزم و حوصلہ پیدا کریں ،اپنے قلوب کو نورِ ایماں ویقین سے مستنیر کرلیں ،ان شاءاللہ سپیدہ سحری کا دور دورہ ہوگا ،نورِ توحید کا اتمام ہوگا اور گھر گھر اسلام کی کرنیں جلوہ گر ہوں گی ۔

             حضرت مفتی اشرف عباس صاحب کے بعد جامعہ کے استاذ تخصص فی الحدیث *حضرت مفتی عبدالرزاق صاحب امروہوی کا قرآن مجید کے سلسلے میں* مختصر مگر پرمغز خطاب ہوا ،

دورانِ خطاب حضرت نے فرمایا کہ دنیا میں قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے  جو انسانیت کی مکمل رہنمائی کرسکتی ہے ،انسان جس نظریے سے قرآن پڑھے گا اس کے سامنے وہی چیز نکھر کر سامنے آتی چلی جائے گی ،اگر کوئی منطق کا ماہر ہے اور اس کا دماغ صغری کبری میں زیادہ چلتا ہے تو اسے قرآن کریم منطق کی کتاب ہی نظر آۓ گی ،اگر کوئی فلسفی ہے تو وہ قرآن کو فلسفہ ہی سمجھے گا ،لیکن قرآن کریم دراصل صلاح کی کتاب ہے ،اسے اصلاح کی غرض سے ہی پڑھنا چاہئے ،حضرت نے مزید کہا کہ  حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی غرض دنیا میں صلاح اور آخرت میں فلاح ہے ۔

       اخیر میں صدر اجلاس *حضرت مفتی عبداللہ صاحب معروفی* دامت برکاتہم العالیہ استاد تخصص فی الحدیث کا ناصحانہ خطاب ہوا ،حضرت نے مکالمہ کی تعریف کرتے ہوئے پروگرام پیش کنندگان کی حوصلہ افزائی فرمائی ،اور فرمایا کہ اسلام پر ہونے والے تمام اعتراضات کا ہمارے علماء نے زبردست علمی محاسبہ کیا ہے اور ان کے تاروپود بکھیر دیے ہیں؛لیکن ہم لوگ مطالعہ نہیں کرتے ،حضرت نے مثال کے طور پر فرمایا کہ ہمارے دوست مولانا عبد الحمید نعمانی نے ہندوازم پر بہت سی کتابیں لکھیں ہیں اور بھرپور مواد پیش کردیا ہے ،اہم یہ ہے کہ ہم لوگ مطالعہ کریں ،مدنی دارالمطالعہ کی لائیبریری مطالعے کے لیے ہے ،جس میں بہت سی نادر کتابیں موجود ہیں ،آپ لوگ مدنی دارالمطالعہ سے منسلک ہوکر کتابوں کا مطالعہ کریں اور بزم ہذا کی تقریری وتحریری سرگرمیوں میں حصہ لیں ،

پھر حضرت ہی کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوگیا۔

          اجلاس میں نظامت کے فرائض مولوی محمد اسامہ ہردوئی مولوی محمد معین گونڈوی اور مولوی احمد دربھنگوی نے مشترکہ طور پر انجام دیے۔

      دوران اجلاس دار العلوم دیوبند کے نائب مھتمم مفتی راشد صاحب اعظمی دامت برکاتہم العالیہ ، حضرت مفتی عبداللہ صاحب معروفی دامت برکاتہم العالیہ استاد تخصص فی الحدیث دارالعلوم دیوبند،  حضرت مفتی اشرف عباس صاحب دربھنگوی استاذ ادب دارالعلوم دیوبند ،استاد حدیث و تفسیر دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محبوب فروغ احمد صاحب سمستی پوری، حضرت مفتی عبدالرزاق صاحب امروہوی استاد تخصص فی الحدیث نیز قاری عظمت صاحب استاد حفظ دارالعلوم دیوبند اور مولانا خبیب صاحب میرٹھی وغیرہم شریکِ محفل رہے ۔ 

   اجلاس کے اخیر میں مولوی محمد معین گونڈوی نےتمام اساتذہ کرام ،مہمانان عظام اور سامعین کا بزم میں تشریف آوری پر *تہہ دل سے شکریہ* ادا کیا ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے