بہترین زاد راہ


بہترین زاد راہ
Add caption
ولی اللہ مجید قاسمی۔
زندگی کے سفر کا بہترین توشہ تقوا ہے( سورہ البقرۃ 197)اور سب سے اچھا لباس تقوا کا لباس ہے (سورہ الأعراف 26)اور جس کے پاس تقوا کا توشہ اور لباس موجود ہوتو اسے اللہ کی معیت اور نصرت حاصل ہوتی ہے (سورہ النحل 128)اور اسے اللہ کی قربت اور دوستی کا شرف حاصل ہوتا ہے( الانفال 34)اور آخرت میں تاریکی کے موقع پر اسے روشنی عطاء کی جاتی ہے( الحدید 28)اور ایسی بصیرت دی جاتی ہے جس کے ذریعے وہ حق و باطل میں فرق کرسکتا ہے (الانفال 29)اور ایسا شخص اللہ کی نگاہ میں افضل ترین اور سب سے معزز ہوتا ہے( الحجرات 13)اسے روزی کی فکر سے بے نیاز کردیا جاتاہے اور ایسی جگہ سے رزق کا انتظام کیا جاتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا (الطلاق 3) اور دنیاوی زندگی کے خاتمے پر اچھا نتیجہ اور بہتر انجام اس کے انتظار میں ہے( طہ 136)اور قیامت کےہولناک دن میں اسے نہ کوئی غم ہوگا اور نہ کوئی پریشانی ( الأعراف35) اور وہ ان خوش نصیبوں میں شامل ہوگا جو پل صراط سے بخیر و عافیت گزر جائیں گے ( مریم 72)اور جنت تو صرف متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔
اور جو اس صفت سے خالی ہوگا تو وہ ناکام و نامراد ہوگا اور اسے حسرت و پشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا ( الزمر 57)
اللہ کی محبت وخشیت کی وجہ سے شریعت کے احکام کی پابندی کا نام تقوا ہے، اس طرح سے زندگی گزارنا تقوا ہے جیسے کوئی شخص کانٹے دار راستوں میں دامن سمیٹ کر اور بچ بچا کر چلتاہے ، اور ہر قدم اور ہر لمحے یہ احساس ہو کہ اس کی نگرانی کی جا رہی ہے اور اس کے ہر عمل کا ریکارڈ تیار کیا جارہا ہے ۔  اور ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی زندگی بہت محتاط اور نہایت صاف ستھری ہوگی ،وہ عبادات و معاملات اور زندگی کے ہر گوشے میں شریعت کا پابند ہوگا ۔
اسی یقین اور کیفیت کو پیدا کرنے کے لئے نماز وروزہ اور دیگر عبادتیں فرض کی گئی ہیں ، البتہ دیگر عبادتوں کی بہ نسبت روزہ میں یہ کیفیت زیادہ نمایاں ہے کہ بندہ سخت گرمی میں پیاس کی شدت کی وجہ سے مچھلی کی طرح تڑپ رہاہے ، بھوک کی وجہ سے مرا جارہاہے ، بند کمرے میں جہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے قسم قسم کی نعمتیں اور مشروبات موجود ہیں لیکن ایک قطرہ پانی سے حلق تر کرنا گوارہ نہیں ، اس لئے کہ جس کی خاطر وہ بھوکا پیاسا ہے وہ اسے دیکھ رہا ہے ۔
کھانا‌پانی زندگی کی ناگزیر ضروریات میں سے ہے کہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہا جاسکتا لیکن مہینہ بھر محدود وقت کے لئے اس سے اس مقصد سے روک دیا جاتا ہےکہ پوری زندگی حرام اور ناجائز کو چھوڑنا آسان ہوجائے کہ جو شخص اللہ کے حکم پر جائز اور ضروری چیزوں دست بردار ہوسکتا ہے اس سے امید کی جانی چاہیے کہ وہ حرام اور ناجائز چیزوں سے یقینی طور پر دور رہیگا ۔ اور اگر کوئی شخص محض اللہ کے حکم کی وجہ سے ایک جائز چیز سے کنارہ کش ہے مگر حرام کردہ چیزوں کا ارتکاب کئے جارہاہے تو اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ وہ جائز سے کنارہ کشی کی حقیقت سے بے خبر ہے ، چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 
روزہ ڈھال ہے ، لہذا روزہ کی حالت میں گندی بات زبان سے مت نکالو اور نہ شور کرو ، اگر کوئی اسے گالی دے یا جھگڑا کرے تو کہدے کہ میں روزہ سے ہوں (بخاری و مسلم)
کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام روزہ نہیں ہے بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ وہ بے ہودہ اور گندی بات کو چھوڑ دے ، اس لئے اگر تمہیں کوئی گالی دے یا تمہارے ساتھ جاہلوں جیسا برتاو کرے تو کہہ دو کہ میں روزہ سے ہوں (الترغیب للمنذری)
بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنھیں بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور رات میں نماز پڑھنے والے بہت سے ایسے ہیں جنہیں اپنی نیند خراب کرنے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا (الترغیب للمنذری)
جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو تو اللہ کی نگاہ میں اس کے کھانا پانی چھوڑنے کی کوئی وقعت نہیں ہے ( بخاری و مسلم)
یہ روزہ دار کی حقیقی اور سچی تصویر ہے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا روزہ کی حالت میں ہماری یہی حالت ہوتی ہے یا اس کے برعکس روزہ کو بے صبری اور غصہ کا ذریعہ بنالیا گیا ہے کہ روزہ کی حالت میں طیش میں آجانا اور لڑنا جھگڑنا بالکل عام بات ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ روزہ کا طبعی نتیجہ ہے اس لئے بیچ بچاؤ کرنے والے کہتے ہیں کہ اسے معاف کردو کہ یہ روزہ سے ہے ۔
تقوا دل کی صفت ہے اور جس دل میں یہ صفت پیدا ہوجاتی ہے اس کی پوری زندگی بندگی کے رنگ میں رنگ جاتی ہے اور یہ محض  گھڑی دوگھڑی کے لئے نہیں ہے بلکہ ایک مستقل صفت ہے اس لئے مرتے دم تک اس پر قائم رہنا ہے ، لہذا روزہ محض ایک مہینے کا نہیں ہے بلکہ پورے سال کاہے اور نہایت خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے لئے ایک مہینے کا روزہ پورے سال کے روزہ کا ذریعہ بن جائے اور وہ پوری زندگی حرام کردہ چیزوں سے دور اور اللہ کے حکموں کے فرمانبردار رہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
 یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ﴿۱۰۲﴾
اے ایمان والو ! اﷲ سے ڈرو ، جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ، اورمرتے دم تک اسلام پر قائم رہو

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے