کیا روزہ صحت کے لیے مضر ہے؟

کیا روزہ صحت کے لیے مضر ہے؟

کیا روزہ صحت کے لیے مضر ہے؟ 

وصی اللہ قاسمی سدھارتھ نگری 

رمضان المبارک کا رحمتوں بھرا مہینہ اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں سمیت سایہ فگن ہوچکا ہے،  رب العالمين کی شان ستاری وغفاری ایک بار پھر دامن مراد بھرنے کو تیار ہے، کائنات کے خالق نے ایک مرتبہ اور آپسی اخوت ومحبت کے مظاہرے کا موقع فراہم کیا ہے، کرونا وائرس نامی وبا کے مہیب سایے سے لرزاں وترساں دنیا کو اس رمضان نےاپنے رازق ومالک کو منانے اور صرف اسی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرکے امن و سلامتی کی دعائیں یاد دلادی ہیں :
فرش تا عرش بس خدا کا نام
مطلع الفجر تک " سلام، سلام"
کرونا وائرس کی وجہ سے آج کا انسان، انسانوں ہی کی بتائی ہوئی احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہوچکا ہے، صحت اور حفاظت کے ایک سے ایک نسخوں کی تلقین جاری ہے، ایک اچھی تعداد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ چونکہ  کرونا کی وجہ سے صحت کا خیال از حد ضروری ہے؛ اس لیے سال رواں رمضان کے روزے نہ رکھے جائیں؛ حالانکہ ان کی یہ تلقین اس بات کی تحقیق پر منحصر ہے کہ آیا روزہ طبی نقطہ نظر سے صحت کے لیے مضر ہے یا مفید؟

 آئیے ذیل کی سطور میں اسی بابت چند تحقیقات کا ایک اجمالی مطالعہ کرتے ہیں، اس مطالعہ سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام کی جملہ تعلیمات اپنی تمام تر جزئیات وکلیات سمیت نہ انسان کے لیے مضر ہیں اور نہ ہوسکتی ہیں اسلامی قوانین اس ذات کے وضع کردہ ہیں جو انسانوں کا خالق ہے، اسے چونکہ انسانی  حوائج ومصالح کا بخوبی علم ہے، اس لیے وہ کوئی ایسا قانون بناہی نہیں سکتا جو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں انسان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکے؛ بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر راقم کو یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ سائنسی دنیا روز بروز اسلامی تعلیمات کی انسانی افادیت کو تسلیم کرتی جارہی ہے، وضو ونماز کے بہت سے حِکم ومصالح اور اسرار ورموز کو سائنسی دنیا نے تسلیم کیا، طبی فوائد ومنافع کا اعتراف کیا؛ لیکن اسلام کے تئیں ان کی عصبیت حق کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے سے مانع بنی رہی.
اب اگر روزہ کو طبی نقطہ نظر سے دیکھنا ہے تو آیت قرآنی " يا أيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون" کو پڑھیے ، اس آیت میں اللہ رب العزت نے جہاں روزے کی مشروعیت کی حکمت کو بیان کیا ہے وہیں  یہ بھی واضح کیا ہے کہ روزہ صرف امت محمدیہ ہی پر فرض نہیں کیا گیا؛ بلکہ اس سے پہلے دنیا کی دیگر قوموں پر بھی روزہ فرض تھا؛ بلکہ تاریخی اوراق تو اس بات پر بھی شاہد ہیں کہ بہت سی اقوام نے از خود اپنے اوپر روزے کو لازم کرلیا تھا، اس سلسلے میں معروف عربی ادیب "نجیب کیلانی" اپنی کتاب "الصوم والصحۃ کے ص/٩ " پر رقم طراز ہیں : کہ تاریخی تلاش وجستجو سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قدیم مصریوں بطورِ خاص کاہنوں اورکئی ایک ادیان ومذاہب کے ماننے والوں نے روزے کو اپنی زندگی کا جز بنالیا تھا وہ بھی اس حد تک کہ وہ سال میں چھ سے سات ہفتے روزہ رکھتے تھے، اسی طرح قدیم چینیوں کے یہاں بھی روزے کا تصور ملتا ہے؛ بلکہ یہودیوں کا حال یہ تھا کہ جب بھی وہ کسی سنگین صورت حال کا شکار ہوتے یا کسی مہلک وبا میں گرفتار ہوتے تو پہلے کے مقابلے میں روزہ کے تئیں ان کی دلچسپی بڑھ جایا کرتی تھی. 
روزے کی اسی افادیت کو ایک مغربی پروفیسر نیکو لایف بیلوی نےاپنی کتاب "الجوع من أجل الصحۃ"  میں ان الفاظ میں اجاگر کیا ہے : کہ چار سے چھ ہفتے تک ہر انسان کے لیے کھانے سے اجتناب کرنا اور روزہ رکھنا انتہائی ضروری ہے، یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ اپنی پوری زندگی صحت وتندرستی کے ساتھ گزار سکے. (الریان فی فقہ الصیام ص/ ٩٣). 
  نجیب کیلانی نے اپنی کتاب میں ایک معروف امریکی ڈاکٹر "ماک فادون" (Mc. Phadone)   کے متعلق لکھا ہے کہ اس  نے کئی ایک امراض کا علاج صرف روزے سے ہی کیا ہے، ہاں! اس ڈاکٹر نے اتنا ضرور واضح کیا ہے کہ : روزے کے ذریعے شفایابی امراض کے حساب سے تبدیل ہوتی رہتی ہے، بیشتر امراض جن کا علاج روزے میں موجود ہے معدہ، جلد اور خون کے امراض ہیں. بلکہ اس ڈاکٹر کا یہاں تک کہنا ہے کہ : ہر انسان کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہے اگرچہ وہ مریض نہ ہو کیونکہ کچھ دوائیں اور غذائیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں کچھ نہ کچھ مضر اثرات پائے جاتے ہیں، روزہ نہ رکھنے کی صورت میں وہ مضر اثرات جسم میں اکٹھا ہوکر زہریلے اثرات کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، یہیں سے انسان بھاری پن کا شکار ہوتا ہے، سستی اور اکتاہٹ کی  شکایت کرنے لگتا ہے وزن بھی زیادہ ہوجاتا ہے، لیکن اگر روزہ رکھ لے تو وہ سارے مضر اثرات رفتہ رفتہ ختم ہوجاتے ہیں، وزن بھی ہلکا ہوجاتا ہے. 
"روائع الإعجاز فی الوضوء والصلاۃ والصوم" میں کئی ایک ڈاکٹروں اور محققین کے اقوال نقل کیے گئے ہیں جن سے انسانی جسم کے تئیں روزے کی افادیت ہی کا پتہ چلتا ہے، کہیں یہ گمان بھی نہیں ہوتا کہ روزہ انسان کے لیے مضر بھی ہوسکتا ہے، مذکورہ کتاب میں لکھا ہے کہ : محققین کی ایک جماعت نے روزے کے متعلق ریسرچ کیا 
کہ انسانی بدن پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، سب کی تحقیق مثبت رہی، یہاں اس مختصر مضمون میں سب کے تاثرات تو نقل نہیں کیے جاسکتے، ہاں "ہالبروک"(halbrook) نامی محقق کا تبصرہ  پڑھنے کے لائق ہے: چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ : روزہ نہ کوئی کھلواڑ ہے، نہ جادو، نہ کوئی ایسی چیز کہ جس کا نام سرسری طور پر سن کر قدم آگے بڑھالیا جائے؛ بلکہ روزہ ایک اچھی اور عمدہ صحت کا نہ صرف یقینی ذریعہ ہے؛ بلکہ اس میں عمدہ صحت کی ضمانت بھی موجود ہے. 
آج کے حالات میں کرونا وائرس چونکہ عالمی وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے اس لیے اس حدتک تو احتیاط ضرور برتا جائے کہ جو لوگ اس مرض کا شکار ہوچکے ہیں، یا جن میں اس مرض کے اثرات موجود ہیں وہ روزہ نہ رکھیں، باقی دوسرے افراد کسی کے خوف میں مبتلا کرنے سے ڈریں نہیں، اللہ کے حکم پر یقین رکھیں اور پوری تندہی کے ساتھ روزہ رکھتے ہوئے رمضان کے دیگر اعمال کی برکتوں سے اپنے دامن مراد کو بھرلیں! اپنے ذہن ودماغ کو اس بات پر مطمئن رکھیں کہ یہ اس ذات کا نازل کردہ حکم ہے جس کا کوئی بھی حکم حکمتوں اور مصلحتوں سے خالی نہیں رہتا؛ اسی لیے اس ذات نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی جملہ فوائد ومنافع کو ایک مختصر ٹکڑے میں سمیٹتے ہوئے کہا تھا : "وأن تصوموا خير لكم"  کہ روزہ رکھو! اس میں تمہارا نفع ہی نفع ہے. 

دعا ہے کہ اللہ رب العزت بیماروں کو شفا عطا فرمائیں، ہم سب کو رمضان کی قدرکرنے کی توفیق مرحمت فرمائیں! آمین یارب العالمین.

وصی اللہ قاسمی سدھارتھ نگری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے